منگل، 9 جون، 2015

کلام اقبال بال جبریل غزلیات نمبر 22 مکمل

کلام اقبال بال جبریل 
غزلیات نمبر 22
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی!
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی!
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی!
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
پہلا حصّہ
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

تشریح
پیام: پیغام
صبح گاہی. صبح کا وقت فجر
خودی :خودشناسی 
الست بربکم وہ وقت ہے جب انسان کو امانت فقر عطا کی گئی اور اس کی حفاظت کا وعدہ لیا گیا۔ خودی خود شناسی ہی ہے کہ انسان درحقیقت کون ہے اور اُس کا اصل مقام کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وقتِ الست اللّٰہ نے اسی خودی کی امانت انسان کو سونپی اور اس کی حفاظت کا وعدہ لیا تھا۔
پادشاہی:حقیقی بادشاہی بے نیازی
جو شخص  اپنی خودی سے آگاہ ہو جاتا ہے  اسے خواہ تخت و تاج میسر ہو یا نہ ہوں  لیکن وہ بادشاہوں کی طرح انسانوں پر حکومت کرتا ہے.  وہ دنیا والاں کے سامنے دست سوال نہیں کرتا .یہ شان بے نیازی حقیقی بادشاہی ہے  اور دنیاوی بادشاہی سے بر تر ہے 
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
دوسرا حصّہ
تشریح
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!

انسان کو حقیقی زندگی اور عزت و آبرو، معرفت خودی ہی سے  حاصل ہو سکتی ہے. اور جو شخص معرفت ذات خریش سے محروم ہے وہ دنیا میں کسی قسم کی عزت و آبرو سے محروم ہے .
حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے -:’’ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہَ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ،‘‘ ترجمہ-:’’ جس نے اپنی ذات کو پہچانا بے شک اُس نے اپنے رب کو پہچانا-‘‘
حدیث ِپاک کی شرح کرتے ہوئے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں-:’’اے اِنسان ! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اِس لئے اگر تُو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیوں کر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا کہ ’’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے-‘‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے، اتنی شناخت تو اپنے لئے دیگر جانور بھی رکھتے ہیںیا فقط یہ جان لینا کہ بھوک پیاس لگے توکھا پی لیا جائے، غصہ آئے تولڑ جھگڑ لیا جائے،شہوت غلبہ کرے تو جماع کر لیا جائے - یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تُواُن سے اشرف و افضل کیوں کر ہوا؟ تیری ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تُو جانے کہ تُو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تُو آیا ہی ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کردی گئی ہیں جن میں سے بعض حیوانی ہیں، بعض وحوش اور درندوں کی ہیں، بعض شیطانی، بعض جناتی اور بعض ملکوتی ہیں، تو ذرا غور تو کر کہ تُواِن میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تُو اِن میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت اِن میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب و اجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تُو اِن حقائق کو نہیں پہچانے گا، اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گا اور اپنی نیک بختی و سعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ اِن میں سے ہر ایک کی غذا علیٰحدہ علیٰحدہ ہے اور سعادت بھی الگ الگ ہے- چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں، اگر تُو بھی یہی کچھ ہے تو دن رات اِسی کوشش میں لگا رہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے- درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ و غضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکرو حیلہ سازی میں ہے اگر تُو اُن میں سے ہے تو اُن ہی جیسے مشاغل اختیارکرلے تاکہ تُواپنی مطلوبہ راحت و نیک بختی حاصل کرلے- فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر و تسبیح و طواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا و سعادت قربِ الٰہی میں اللہ تعالیٰ کے انوار ِجمال کا مشاہدہ ہے- اگر تُو اِنسان ہے تو کوشش کر کہ تُو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے اور اُس کے انوارِ جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ اور شہوت کے ہاتھ سے رہائی دلا سکے اور تُو طلب کرے تو اُس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ تیرے اندر اِن حیوانی و بہیمی صفات کا پیدا کرنے والاکون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہو جائے کہ پیدا کرنے والے نے اِن صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اِس لئے کہ یہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟ یا اِس لئے کہ تُواِن کو اپنا اسیر و مسخربنالے اور خود اِن پر غالب آ جائے اور اِن اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنا لے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنا لے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اِس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیںاِن میںاپنے اِن غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو اِن کو اپنے پائوں تلے روندتا ہوا اپنی اُس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہو سکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ‘‘ کہا جاتا ہے- یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں- جس نے اِن کو نہ جانا وہ راہِ دین سے دور رہا اور لا محالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا-‘‘ ﴿ترجمہ و تلخیص کیمیائے سعادت)
فلسفہ خودی کے بارے میں سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے
استحکام خودی پر دال ہے
ترجمعہ "۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تو یہ فرض ہے خودی کی محافظت اگر تم ہدایت پر ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا تم سب کو اللہ کے پاس جانا ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال پر مطلع کر دے گا تاکہ تم کو ان کے مطابق سز امل سکے ۔‘‘ (13
 
---------------------------------------------------------------------------------------
                                                      تیسرا حصّہ
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!
راہ نشین=خدا سے ملنے کا آرزو مند
راہی= راہ معرفت کا سالک
تشریح
فلسفی کسی کو شخص کو خدا سے ملنے کا طریقہ نہیں بتا سکتا کیونکہ نہ وہ رہ نشین نہ راہی ہے بلکہ محض ضنیات اور قیاسات میں گرفتار ہے جو خود گمراہ ہو وہ دوسروں کو کیسے راہ دکها سکتا ہے . اس کے لیے کسی مرد قلندر کامل مرشد کی ظرورت ہے ضرورت اس امر کی ہے کے مرشد کامل کیسا ہو
یوں تو اس دنیا میں علم کی کوئی کمی نہیں ہے جابجا تعلیمی مراکز ﴿چاہے کسی بھی شعبہ کی تعلیم﴾ کھل چکے ہیں لیکن جو چیز انسان کی روح کو تقویت پہنچاتی ہے اس دنیا میں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ تعلیم ہم کو کہاں سے مل رہی ہے اور آج امت ِ مسلمہ کے زوال کا سبب کیا چیز بن رہی ہے اور کس چیز کی کمی ہے اس کو پورا کیسے کیا جائے ۔
ج۔ جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھو
جے رب لمبیاں والاں ملدا تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھو 
جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ھو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا تاں ملدا دانداں خسیاں ھو
رب تنہاں نوں ملدا یا حضرت باھو(رح) نیتاں جہناں دیاں ہچھیاں ھو
اگر آج وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھا جائے تو امت ِ مسلمہ کو ایک قیادت کی ضرورت ہے جو ہرلحاظ سے ’’الشیخ فی قومہ کنبی فی امۃ‘‘ ﴿مرشد اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے ﴾کی مصداق ہو اور وہ ہستی ’’ا.ل.م‘‘ کے مقام پر فائز ہستی ہو جس کی ایک ایک ادا ایسے ہو جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ایک ایک ادا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک زندہ تاریخ بنا کر بتایا ۔ اس کی بھی ایک ایک ادا دنیا میں تو ایک زندہ اور مستند تاریخ کی حیثیت رکھتی ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیات کا مرکز بھی اس ہستی اکمل کا چہرہ ہو ۔ جس کے بارے میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا’’ من نظر الیہ فکا نما ینظر الی اللّٰہ‘‘ ﴿جس نے ان کو دیکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ﴾ کیونکہ وہ مرشد اکمل ہستی اللہ تعالیٰ کا شیشہ ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر یعنی اللہ تعالیٰ کے اس شیشے میں تجلی بھی اللہ تعالیٰ کی ظاہر ہو چکی ہوتی ہے جس کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ہے ۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بسوز صدیق(رض) ، چشم ِ عمر (رض) ، علم حیدر ، فقر فاطمہ (رض) ﴿خاتون جنت(رض) ﴾ ، صبر حسین (رض) ، سیف خالد (رض)، عشق بلال (رض) ،المختصر لسان پیر دستگیر ، باہو (رض) جیسے اوصاف و کمالات کی حامل ہو وہ ہستی اگر اس دور میں اس قوم کی کشتی کو چلائے تو کسی کنارے کی امید رکھی جا سکتی ہے ورنہ عام حالات جو کہ پہلے چلتے رہے ہیں یا چل رہے ہیں ان حالات میں کشتی کو بھنور سے نکالنا تو عام کسی پیر کا کام ہے نہ کسی عالم کا نہ کسی دوسرے راہنما کا کشتی کو بھنور سے نکال لانے کے لئے وہی ہستی تلاش کرناپڑے گی کیونکہ ہمیں اپنے آقا کی ’’وما ینطق عن الھویٰ‘‘ کی زبان پر اعتماد کامل ، ایمان مکمل اور یقین ِ اکمل ہے کہ دنیا میں کوئی دیوار بھی ایسی نہیں بچے گے جس پر اللہ تعالیٰ کے دین کا پرچم نہ لہرارہا ہو۔ 
  کیا کہیں ایسا کوئی چہرہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انورو تجلیات ’’ اظھر من الشمس ‘‘ ہوں جس کے اوپر’’فواہ الذی یعقل بہ‘‘ کا دعویٰ کیا جا سکے جس کے ہاتھوں کو ’’یدہ التی یبطش بھا‘‘ کا مصداق ٹھہرایا جا سکے ۔ جس کے کانوں کو ’’سمعہ یسمع بہ‘‘ کا حامل قرار دیا جا سکے ، جس کی زبان کو ’’لسانہ التی یتکلمبھا‘‘ کی زبان کہنا گوارہ کیا جا سکے جس کے پاؤں کو ’’رجلہ التی یمشی بھا ‘‘ کے پاؤں تسلیم کیا جا سکے۔ جس کی آنکھ کو ’’بصرہ الذی یبصر بہ‘‘ کی آنکھ مانا جا سکے ۔ 
آج ہم اگر ایک نگاہ اٹھا کر بھی مشائخ کی طرف دیکھیں تو ہماری نگاہ علامہ اقبال(رح) کی اس بات کے مطابق اتنی نیچی ہو جاتی ہے کہ پھر راستے کو دیکھ کر چلنا بھی محال ہو جاتا ہے ۔ دورِ حاضر کے مشائخ کے بارے میں علامہ اقبال صاحب (رح) فرماتے ہیں 
ہو تم آباد قبروں کی تجارت کر کے 
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے 
’’یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘ 
عصرِ حاضر کے جو مشائخ ہیں انہوں نے ایک پاک اور لطیف شعبہ جو کہ اسلام کی بنیاد ہے جسے ہر دور میں مضبوط رکھنا ضروری تھا ، اور ہے ، اور ہو گا ، وہ تھا تصوف اور روحانیت کا شعبہ ۔ اس کو انہوں نے اتنا ضعیف کر دیا ہے کہ اب اس کا تصور ہی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی پاکی کو اتنی غلاظتوں میں ڈال دیا ہے کہ اب منشیات کے بڑے اڈے بھی درگاہوں اور خانقاہوں کو سمجھا جاتا ہے اور اس لطیف شعبے کو اتنی بے چینی اور بے سکونی میں ڈال دیا ہے ۔ لوگ اس میں آکر بھی افیم، چرس بالخصوص سبز پانی یعنی بھنگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔اب مشائخ اپنے آپ کو معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر کامل ، مکمل اور اکمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر عبور سے کیا مراد ہے ۔ جب کہ مندرجہ بالا سے کوئی بھی چیز پیر یا مرشد میں نہیں ہونی چاہئے اگر ہوتو جان بس وہ مرشد ناقص و نا مکمل اور راہزن ہے ۔ 
معالج:
اب جو مرشدوں نے اپنا کام بنایا ہوا ہے یعنی جومعالج جو بنے ہوئے ہیں اتنے تھرڈ کلاس اور گھٹیا معالج بنے ہیں کہ سن کر بھی شرم کے طوطے مر جائیں یعنی ایک مرید آتا ہے پیر کے پاس کہ پیر صاحب میری گائے دودھ نہیں دیتی ۔ آپ دعا کریں یا تو جہ کریں تاکہ میری گائے دودھ دینے لگ جائے تو پیر صاحب نے اپنی پیری کا ڈھنڈورا پھیلانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تاکہ یہ گائے دودھ دینے لگ جائے ایک اور مرید آتا ہے کہتا کہ پیر صاحب میری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا ہے آپ مہربانی کریں تاکہ میری بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ تو پیر صاحب اپنی پیری کا لوہا منوانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ اس کی بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ ایک اور مرید آتا ہے پیر صاحب میری بکری کے بچے مر جاتے ہیں آپ کوئی چیز دیں تاکہ میری بکری کے بچے نہ مریں تو پیر صاحب اپنی پیری کی دھاک بٹھانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تا کہ اس بکری کے بچے نہ مریں ۔ ایک اور مرید آتا ہے کہ پیر صاحب مرغی انڈے نہیں دیتی کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میری مرغی انڈے دینے لگ جائے تو پیر صاحب اپنی پیری کو مزید اوج ثریا پر لیجانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ یہ مرغی انڈے دینے لگ جائے ایک اور چیلا آجاتا ہے کہ پیر صاحب میرا بٹیر صحیح نہیں لڑتا کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میرا بٹیر صحیح لڑے تو پیر صاحب اپنی پیری کو چار چاند لگانے لئے اسے کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تا کہ اس کا بٹیر صحیح لڑنے لگ جائے تو اب یہ تمام عمل ہوگئے تو مرید بڑے اکڑ کر چلیں گے اور اپنے پیر کی پیری کو چمکانے کے لئے وہ پورے علاقے میں ایسی باتیں بتائیں گے کہ میری گائے دودھ نہیں دیتی تھی یامیری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا تھا یا میری بکری کے بچے مر جاتے تھے میری مرغی انڈے نہیں دیتے تھی یا میرا بٹیر نہیں لڑتا تھا میں نے اپنے پیر صاحب سے دم کروایا تھا تو اب ہر چیزٹھیک ہے سینہ تان کر تڑیاں لگا لگا کر بتاتے ہیں جیسے ان کے پیر صاحب نے چاند توڑ کر ان کو تحفے میں دے دیا ہو ۔ 
کیا پیر کا کام گائے کا دودھ نکلوانا یا بھینس کو حمل ٹھہرانا یا مرغیوں سے انڈے لینا رہ گیا ہے کہ کیا پیروں کا کام اتنا گٹھیا ہے حالانکہ ہماری جان اورا یمان کے مالک محبوب خداوند تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ’’ میری امت میں جو مرشد ہوں گے وہ ایسے ہوں گے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے ‘‘ تو یہی اب کام رہ گیا ہے مرشد کامل کا کہ وہ دو نمبر معالج بن کر پھرتا ہے ، نہیں ! نہیں ! یہ کام مرشد کا نہیں ہے۔ 
شعبدے باز :
یہ دوسرا کام ہے جو لوگ اپنا کر اپنی روزی کما رہے ہیں اور اسلام کی روح پر پاش پاش کر دینے والے حملے کر رہے ہیں ۔ اسلامی طور طریقوں سے بھی امت ِ مسلمہ کو محروم کھلی گمراہی میں ڈال کر ان 72 گروہوں میں شامل کرنے کے خواہاں بن چکے ہیں کہ جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 71 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 70 گمراہ ہو گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے 72 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 71گمراہ ہو گئے فرما یاکہ میری امت کے 73فرقے ہوں گے جن میں ایک نجات والا ہوگا اور باقی 72 فرقے گمراہ ہوں گے ۔ ‘‘ 
یہ لوگ پیری کا روپ دھار کر لوگوں کو صراطِ مستقیم سے روک رہے تھے ۔ حالانکہ حقیقی معنوں میں مرشد کاکام بھی صراطِ مستقیم پر چلنا اور چلانا ہے کیونکہ مرشد خلیفۃ اللہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نیابت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کا ہر قول اور ہر فعل اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ میرا قول اور فعل ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو پہلے جو اللہ کے خلیفے﴿ نائب﴾ تھے وہ انبیائ کرام علیہ السلام تھے اور جب آخری نبی ہمارے نبی ایسے نبی جو اپنی پیدائش سے لاکھوں سال پہلے بھی نبی تھے جو اللہ تعالیٰ کی نیابت کے حامل رہے ہیں اور اب بھی مرشد کی جو تعریف قرآن سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’مرشد تمام تر پلیدیوں سے اور ناپاکیوں سے نکال کر بحر معرفت میں ڈال دے ۔ جہاں پر مرید اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا بلا حجاب مشاہدہ کرتا ہے ۔‘‘ لیکن شعبدے باز پیر اس کام سے روکتے پھر رہے ہوتے ہیں اور پیسوں کے بھاؤ اپنی پیری کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی طرف گامزن کر دیتے ہیں کہ پیسے دو اور خلافت لو ۔ جن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مرشد کیا ہے ؟ اور مرید کیا ہے ؟ اپنے آپ کو مرشد اعظم کہلواتے پھر رہے ہیں اور اپنے کرتب کا مظاہرہ کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر تیزاب پھینک کر مسلسل مسخ کر رہے ہیں مثلاً کئی پیر یہ کہتے ہیں کہ آنکھیں بند کرو تمہیں مدینہ نظرآئے گا ، تمہیں خدا نظر آئے گا ، تم اس مقام پر پہنچ جاؤ گے ، تم فلاںمقام تک پہنچ جاؤ گے حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا وہ صرف یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اتنے بڑے پیر ہیں اگر کوئی مرید یہ کہہ دے کہ پیر صاحب مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا تو فقط یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ تمہارا وضو ٹھیک نہیں تھا یا تمہارا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے اور کئی لوگ اور طریقے بھی اپناتے ہیں یعنی کوئی مرید بے چارہ جو تبخیر کا مریض ہو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر جنات کا سایہ ہے اور اس غریب کی پٹائی شروع ہو جاتی ہے ایک اور طریقہ یہ بھی اپنی پیری بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ مرید کو حکم ہوتا ہے کہ تم فلاں وظیفہ کرو تمہارے پاس اتنے پیسے آئیں گے ۔ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔  بندہ تو پہلے ہی دنیا میں اتنا غرق ہے کہ ان مرشدوں کے پاس آتا ہے کہ اسے اللہ کی ذات سے وصل نصیب ہو جائے ۔ مرشد الٹا اس کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ وہ دور ہی دور ہو جاتا ہے ۔ آخر ایک دن وہ آ جاتا ہے جب وہ پیروں کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔ شعبدے بازی کی پیری کے متعلق حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب فرماتے ہیں ’’ اگر ایک آدمی ہو ا میں اڑ رہا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں ہے ۔ وہ مکھی ہے جو ہوا میں اڑ رہی ہے اور وہ راہزن ہے اگر ایک آدمی سمندر کی سطح پر مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھ رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں وہ تنکا ہے جو پانی کی سطح پر قائم ہے ۔ اگر ایک آدمی آگ کھا رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں وہ مٹی کا بنا ہوا تندور ہے جو اپنے پیٹ میں آگ کو لئے ہوئے ہے وہ راہزن ہے بلکہ پیر وہ ہے جو اپنے مرید کو بغیر کسی چلہ ، وظیفہ اور بغیر کسی عبادت و ریاضت کے پہلے ہی ساعت میں اس کا ہاتھ جب اپنے ہاتھ میں لے تو اسے ’’موتو قبل ان تموتو ‘‘ اور ’’اذا اتم الفقر فھو اللہ‘‘ کے مقام پر پہنچا دے ۔ 
پیر کی صحیح اصطلاح اور تشریح بھی یہی ہے جو حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب نے کر دی ہے آپ اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں ۔ 
نہیں فقیری جھلیاں مارن ستے لوگ جگاون ھو 
نہیں فقیری واندھی ندی سکیاں پار لگاون ھو 
نہیں فقیری وچ دریا دے مصلّہ پا ٹھہراون ھو 
نام فقیر تنہاں دا یا حضرت باہو (رض) جہیڑے دل وچ یار ٹکاون ھو 
حضور حضرت سخی سلطان باہو صاحب (رح) کی تعلیمات سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں وہ درس ایمانی و سبق سلطانی نصیب ہوتا ہے ۔ وہ بھی یہی ہے بلکہ آپ اپنی تصنیف میں ارشاد فرماتے ہیں ’’فقیر باہو‘‘ کہتا ہے کہ راہِ فقر میں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس و کرامات کی ضرورت ہے کیونکہ استقامت مرتبہ خاص ہے اور کرامت مرتبہ حیض و نفاس ہے ۔ سن اے یار طالب اللہ کا کیا کام حیض و نفاس سے ۔ ‘‘ ﴿عین الفقر﴾ 
اب ہم پر یہ حقیقت بنور آفتاب واضح ہو گئی کہ تمام شعبدے بازیوں سے ہٹ کر اور شعبدے باز مرشد کی بجائے ایسا مرشد
تلاش کرنا چاہئے کہ جو اپنی نظر کے ساتھ اپنے مرید کو استقامت عطا فرمائے
----------------------------------------------------------------------------------------------------------- ۔
چوتھا حصّہ
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی
تشریح
کج کلاہی کا لغوی مطلب ٹوپی کو سر پر ٹیڑھا رکھنے والا۔ یہاں مراد بے نیازی ،      
گدا سے مراد اقبال جیسے آزاد منش مرد قلندر ہیں   
وہ مرد مومن جو اصل شہنشاہیت  جانتے ہیں یعنی کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور وہ   خدمت حلق کی رہنمائی کرنے کے لیے منتخب ہیں۔انکی اپنی ضرویات بہت قلیل ہوتی ہیں مگر اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں
حضور  کے بعد اسکی بہترین مثال حضرت عمر فاروق ر.ض  ہیں۔                                                          
میری. قوم دنیا میں بادشاہت کرچکی ہے  اس لیے  رہ رسم بادشاہی سے آگاہ ہے .میں نے اسے دنیاں میں دوبارہ سر بلندی حاصل کرنے کا طریقہ( یعنی خودی اور خود شناسی) کا  بتا دیا ہے اور وہ میرے کلام کا مطالعہ کر رہی ہے  جس دن اس.نے میریے پیغام پر عمل شروع کر دیا  انشاللہ پهر سر بلند ہو جاے گی.کیوں کے جس قوم نے خودی کو سمجھ لیا ور جان لئے وو سربلند ہوئی ،
 ----------------------------------------------------------------------------------------------------------- 
پانچھوا ں حصّہ

یہ  معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تشریح
طریق خانقاہی یا مزاج خانقاہی ایک اصطلاح ہےاس سے مراد ہے بے عملی کی زندگی جو اسلام کی روح کے خلاف ہے .اے مسلمان میں تجهے مجبور تو نہیں کرسکتا. تیری مرضی ہے عمل کرے یا نہ کرے لیکن میں تجه کو صاف لفظوں میں بول دوں کے تیرا یہ طریق خانقاہی مجهے بالکل پسند نہیں . اس کی وجہ یہ ہے کے اسلام تو سراسر عمل اور جہاد کی تعلیم دیتا ہے . بے عملی تو 
اسلام کی ضد ہے اس پر بهی اگر تو اس طریقہ کو اختیار کرنے پر مصر ہے 
تو تیری مرضی 

چهٹا حصہ.....
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری             
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

تشریح 
هما ایک خیالی پرندہ ہے .  
یونانی، ایرانی  دیومالائی کہانہوں میں اسکا زکر ہے۔۔ھما کا زکر صوفی شاعری میں سب سے پہلے فرید الدیں عطار نے کیا تھا اور پھر یہ روایت چل پڑی
اور صوفی لوگ نے اسے انسان کو مشکل سے مشکل جدوجہد کرنے کے لیے استمال کیا ہے
............................................................................
  اگر تو بلند مرتبہ کام کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنے اردگرد کے حالات کو دیکھ۔اپنی صلاحتیں پختہ کر اور پھر اصل شکار کی طرف توجہ دے۔
اس کو دوسری حوالے سے  ہم ایسے بهی کہ سکتے ہیں کہ ھما پرندہ جو غائب رہتا ہے اور اسکا شکار کرنا مشکل ہے۔ ٓاصل شکار حاصل کرنے سی پہلے شکار کرنے کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔اور اگر خودی مقصود ہے تو پہلے اسوہ حسنہ ﷺ کو اپنائیں پھر آپ ھما یعنی وہ چیز جو آپ سے ابھی پو شیدہ ہے وہ آپ شکا کر لیں گے۔۔خودی کے اسرار جان جائیں گے۔
  اے مسلمان تیرا نصب العین بهت بلند ہے یعنی دنیا میں نیابت الہیہ کے مقام پر فائز ہونا . لیکن اس کے حصول کے لیے پہلے تو کاائنات کی قووتوں کو مسخر کر .اس کے بعد تو ہما کا شکار کر سکتا ہے  یہ دنیا اور اس میں جو کچه ہے سب کو اللہ نے مصلحت سے پیدا کیا ہے تاکہ تو اسے اپنی خودی کی تکمیل کے لیے استعمال کرسکے

...........................................................................   

تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
تشریح
 اے مسلمان  اگر تو لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ کہنا  چاہتا ہے تو زبان سے  مت کہ بلکہ دل سے  کہہ تاکہ تیرے اعمال سے توحید کا رنگ  ظاہر ہو سکے . کیونکہ  یہ کلمہ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ گفتار نہیں بلکہ ایسی تلوار ہے  جو باطل کو فنا کرنے مین مطلق رعایت نہیں کرتی  مسلمانوں سے سارہ شکوہ یہ ہے کہ وہ 
لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ زبان سے تو کہتے ہیں پر اس کے اقتضا پر عمل نہیں کرتے . وہ عرصہ دراز سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کے لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ صرف زبان سے ادا کر دینا کافی ہے  حالانکہ کامیابی کے لیے اس کے مفہوم پر بهی عمل کرنا ہی ضروری ہے  اس کا مفہوم یہی ہے کہ اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت نہیں کرسکتے .لیکن عمل ہمارے قول کی تکزیب کرتا ہے  یعنی ہم خوشی کے ساته غیر اللہ کی اطاعت کرتے ہیں       
لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ گفتار نہیں تلوار ہے یعنی موحد غیر اللہ کی اطاعت نہیں کرسکتا  کلمہ.  
لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ اللہ ایک دعوہ ہے جبکہ محمد رسول اللہ اس دعوہ کی دلیل ہے کوی بهی دعوہ بنا دلیل کے نہیں ہوتا. .الہ کوی نہیں ماسوا اللہ . نظام کوی نہیں ماسوا نظام اللہ کے . حاکمیت کسی کی نہیں ماسوا اللہ کی حاکمیت کے   . بادشاہی کسی کی قبول نہیں ماسوا اللہ کی بادشاہی کے زمین اللہ کی نظام اللہ کا . اور اس دعوے کی دلیل محمد رسول اللہ .وہ یہ ہے . کے اللہ کے پیارے حبیب محمدﷺ ہی اللہ کے آخری رسول ہیں ان کے کردار افکار اسو حسنہ  ان کی زندگی اعمال رہتی دنیا تک اس دعوے کی کهلی دلیل ہیں کے ان کے کردار سے یہ ثابت ہوتا ہے کے کوی نہیں الہ ماسوہ اللہ. اے غافل تیرے زبان سے ادا لفظ اس وقت تک کامل نہیں جب تک تیرا عمل اس کے مطابق نہ ہو . تو چاہے اس کو لغت ادائیگی کے فن سے سجا کر پیش کرے . چاہے تو عربی ہو چاہے عجم ہو جب تک تیرا دل گواہی نہ دے .......اور دل کی گواہی تیرے کردار پر منحصر  کرتی ہے 

2 تبصرے:

shaukat awan نے لکھا ہے کہ

عرشِ اعلیٰ کی فضاؤں میں ہو پرواز تری
صوتِ تقدیر سہی ہمدم و ہمراز تری
لاکھ مستور ہو سینے میں ترا قلبِ دونیم
داستاں اشک پیازی کی ہو غماز تری
تیرے ہر لفظ میں سوزاں ہو جگر مثلِ کباب
گفتگو سحر و کرامت ہو کہ اعجاز تری
چشمِ گریاں میں فروزاں ہوں یہ لعلوں کے چراغ
آہِ سوزاں کی تجلی میں ہو پرواز تری
اشتراکی کی غضب ناک نگاہوں کے بدوں
کون سنتا مرے جبریلؔ یہ آواز تری



(جبریل)
Back to Conversion Tool

shaukat awan نے لکھا ہے کہ

عرشِ اعلیٰ کی فضاؤں میں ہو پرواز تری
صوتِ تقدیر سہی ہمدم و ہمراز تری
لاکھ مستور ہو سینے میں ترا قلبِ دونیم
داستاں اشک پیازی کی ہو غماز تری
تیرے ہر لفظ میں سوزاں ہو جگر مثلِ کباب
گفتگو سحر و کرامت ہو کہ اعجاز تری
چشمِ گریاں میں فروزاں ہوں یہ لعلوں کے چراغ
آہِ سوزاں کی تجلی میں ہو پرواز تری
اشتراکی کی غضب ناک نگاہوں کے بدوں
کون سنتا مرے جبریلؔ یہ آواز تری



(جبریل)
Back to Conversion Tool

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔