ہفتہ، 13 جون، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی حصّہ 41 تا 50)



  فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 41)                                                          
----------------
اتنا کہہ کر اُس نے اپنی بات پے واپس آتے ہوئے کہا "ایک دفعہ میں نے سوچا کہ شیطان ہمارے ارد گرد موجود ہے تو ہم اُسے اور وہ ہمیں ضرور چھُوتا ہو گا لیکن اِس بات کی عقلی دلیل کیا ہے۔؟ اِس بات کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آگ ہمیں یا ہم آگ کو چھُوتے ہیں۔؟ کوئی ظاہری روپ, کوئی ظاہری اثر ایسا ضرور ہو گا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو گی۔ جب اِس سوال میں اُلجھ گیا تو سُلطان محمد علی صاحب سے یہی سوال دل زبانی پوچھا تو جواب میں ایک اور سوال مِلا, "تم نے ناخن تراشے کہ نہیں۔؟" میں نے کہا "جی دو تین دن پہلے ہی تراشے تھے, آپ حکم کریں تو دوبارہ تراش لیتا ہوں۔ لیکن اِس بات کا کوئی جواب نہ مِلا۔ تو میں نے سوچا کہ شاید میرے ناخن میں کوئی ایسی ناپاکی موجود ہے جس کے باعث مُرشد پاک نے مجھے میرے سوال کا جواب دینے کی جگہ مجھے ناخن تراشنے کو کہا ہے لیکن ناخن تو بہت چھوٹے ہیں میرے, اور صاف بھی ہیں۔ خیر میں نے انہیں پھر سے تراشنے کا ارادہ کیا, مگر جب ارادہ کیا تو ایک سوچ آئی کہ مُرشد پاک نے ناخن تراشنے کی بات کہی, کہیں یہی میرے سوال کا جواب تو نہیں۔؟ جب غور کیا تو پتا چلا کہ آگ ہمارے جسم کو چند مقامات سے قدرتی طور پر چھُوتی ہے اور ان مقامات پر آگ کا کچھ حصّہ رہ جاتا ہے اسی لیے ناخن اور جسم کے کچھ حصّوں کے بال تراشنے کو کہا جاتا ہے۔ جسم کے اِن خاص حصّوں کے علاوہ بھی شیطان ہمارے پورے جسم کو شہوت کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چہرہ, بال, سینہ, کمر, ٹانگیں ہر چیز کو آگ کے لحاظ سے ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت اور مرد کی خوبصورتی کا ایک معیار صبح شام ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور ہم سب اُس معیار پر پورا اُترنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ مرد چاہے کتنا ہی کم صورت ہو لیکن خوبصورت بیوی کا خواہشمند رہتا ہے۔ یہ خواہش ایک حد تک جائز ہے لیکن اُس سے آگے یہ خواہش فتنہ فساد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اکثر لوگ دل سے بہت حسین ہوتے ہیں لیکن شیطان نے جو پیمانے لوگوں کی آنکھوں میں گھول رکھے ہیں اُن کے باعث ہم اُن لوگوں کی خوبصورتی دیکھ ہی نہیں پاتے۔
میں جب 9ویں کلاس میں تھا تو اردو کی کتاب میں علامہ اقبال رح کی نظم شکوہ, جوابِ شکوہ پڑھنے کا موقعہ ملا۔ اردو کے ٹیچر کو نہ جانے مجھ میں ایسا کیا نظر آیا کہ انہوں نے مجھے 'شکوہ' یاد کرنے اور صبح اسمبلی میں سارے اسکول کے بچوں کے سامنے پڑھنے کے لیے کہا اور مجھے ایک شعر کی بھی سمجھ نہیں تھی, بہت مشکل سے میں نے وہ الفاظ یاد کیے تھے اور تھر تھر کانپتے ہوئے پورے اسکول کے سامنے اتنا بُرا پڑھا تھا کہ کئی دن لڑکے مجھے جہاں دیکھتے تو کہتے کہ "ہمیں تم سے یہ شکوہ ہے کہ تم نے 'شکوہ' بہت بُرا پڑھا۔" لیکن وقت کے ساتھ اُس کی سمجھ بھی مِل گئی۔ اپنے کلام 'شکوہ' میں ایک جگہ اقبال رح فرماتے ہیں کہ
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر ..
کہیں مسجود تھے پتھر, کہیں معبود شجر ..
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر ..
مانتا پھر کوئی اندیکھے خُدا کو کیونکر ..
اُس کی بیوی نے کہا "بس ایک مصرعہ سمجھ نہیں آیا" تو اُس نے ایک بھر پور مسکراہٹ سے کہا "جو مصرعہ سمجھ نہیں آیا اُسی کو سمجھانے کے لیے اتنی ساری تمہید باندھی ہے۔ "خُوگر" مطلب طلبگار۔ "پیکرِ محسوس" مطلب ایسا پیکر جسے محسوس کیا جا سکے۔ اقبال رح یہاں یہ بات کہ رہے ہیں کہ لوگ خدا کے نام پر کسی ایسے سراپے کا اقرار کرتے تھے کہ جسے وہ دیکھ سکتے۔ تو اقبال اپنا شکوہ بیان کرتے ہوئے اسلام سے پہلے کا منظر بتاتے ہیں کہ مسلمانوں سے پہلے انسان ایسے خُداؤں کی پرستش میں محو تھا جسے وہ دیکھ سکتا تھا, چھُو سکتا تھا, محسوس کر سکتا تھا, تو ایسے وقت میں کوئی  اندیکھے خُدا کو کیسے مانتا۔                                                                                                                          
شیطان اسی چال سے انسان کو بے وقوف بناتا آیا ہے کہ وہ انسان کی نظر کے ذریعے اُس کی سوچ کو "خُوگرِ پیکرِ محسوس" بناتا ہے۔ زمین میں ہمیں اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے ہم اُسے ظاہری طور پر چھُو کر جان سکتے ہیں لیکن اپنی ذات کے لیے اللّٰہ نے ایسا روپ چُنا جسے نہ چھُوا جا سکے اور نہ دیکھا جا سکے۔ اُس نے ہر شئے میں سما کر, ہر جگہ موجود رہ کر بھی ہر ایک کی نظر سے پوشیدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ انسان کی فطرت ہے کہ یہ ماحول سے مانوس ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے جب ہر چیز کو الگ الگ وجود کے ساتھ دیکھا تو اللّٰہ کو بھی مجسم صورت میں دیکھنے کی چاہ پیدا ہوئی اور اسی بات کا فائدہ اُٹھا کر شیطان نے اُنہیں آگ, جانوروں, اور پارسا لوگوں سے لے کر سورج, چاند, ستاروں تک ہر دوسری شئے کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا۔  دھیرے دھیرے لوگوں کو سمجھ آئی کہ خُدا یہ سب نہیں بلکہ اِس سب کا پیدا کرنے والا ہے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو اَن دیکھے خُدا کی ذات سمجھ آنا شروع ہوئی تو انہیں خُدا کی موجودگی کا احساس ملنا شروع ہوا لیکن جب ہم شیطان کے بنائے ہوئے نظام کے غلام ہوئے تو اُس نے پھر سے ہمیں "خُوگرِ پیکرِ محسوس" بنانا شروع کر دیا۔ انبیاء, اولیاء, صالحین کی کرامتوں پر شک کرنا لوگوں کی عادت ہے کیونکہ ہم دن رات بناوٹ میں سچائی دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہم اپنی نارمل زندگی میں کسی مرد یا عورت کو اُتنے زاویوں سے نہیں دیکھتے جتنے زاویوں سے ہماری فلمیں اور ڈرامے ہمیں مرد و زن کا جسم دکھاتے ہیں۔ عام زندگی میں ہم اتنے حادثات بھی نہیں دیکھتے جتنے حادثات ہمیں ٹی وی دکھا دیتا ہے۔ جرائم, دھوکہ, محبت, نفرت اور نہ جانے کون کون سے موضوعات سے جُڑی داستانیں ہمارے گمان کے دریچوں میں گھر کیے رہتی ہیں اور انسان انہی جھوٹی کہانیوں میں اپنی زندگی کی سچائی تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ اُسے یہ بھی سمجھ آتا جاتا ہے کہ صفائی اور سچائی سے جھوٹ بولنا بھی ایک فن ہے جسے خلوص سے نبھانے والا ایک سچا فنکار کہلاتا ہے۔ جب ہم جھوٹ میں سچائی تلاش کرنے کے عادی ہو گئے تو ہمیں ہر سچ میں جھوٹ دیکھنے کی عادت ہو گئی۔ ہم اللّٰہ اور اللّٰہ والوں سے بدگمان ہونا شروع ہو گئے۔ ہم میں سے چند لوگ اپنی دنیاوی خواہشات کے ہاتھوں کسی ڈھونگی پیر وغیرہ کا نشانہ بنتے ہیں اور ایسی وارداتوں کی کہانیاں ہزاروں لوگوں کو سچے اللّٰہ والوں سے دور کرنے کے کام آتی ہیں۔ ہم پھر سے اَن دیکھے خُدا کے انکار میں محو ہیں۔ اگر مَن چاہی عزت, دولت, شہرت وغیرہ ہے تو اللّٰہ ساتھ ہے اور اگر یہ سب نہیں ہے تو اللّٰہ ساتھ نہیں ہے۔ اللّٰہ والا اگر اچھی نوکری, اچھی عورت, اچھا کاروبار دیتا ہے تو وہ اللّٰہ والا ہے اور اگر ہماری خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ اللّٰہ والا ہی نہیں ہے۔ آج ہم سورج, چاند, ستاروں جیسی چیزوں کی جگہ دنیا, نفس, اور شیطان کی پرستش میں محو ہیں۔ جس طرح وہ لوگ ظاہری صورت کی خاطر مختلف مخلوق کی پوجا میں مصروف تھے اُسی طرح ہم بھی آج اپنی خواہشات کی پرستش میں مصروف ہیں۔
دورِ جاہلیت کے وہ بُت پرست, وہ کافر, وہ یہود و نصارا شاید ہم سے بہتر تھے, کیونکہ اُن کے بُت, اُن کا کُفر سب کے سامنے تھا۔ لیکن ہم تو اپنے بُت, اپنا کُفر, اپنی روح میں چھُپائے جی رہے ہیں۔ وہ لوگ جو بیٹیوں کو زندہ دفنا کر دیا کرتے تھے وہ شاید اپنے گناہوں کی ادائیگی میں ہم سے زیادہ صاف گو تھے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفنانے کی رسم تو نہیں ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی رسمیں ہیں جن کے باعث بہت سی بیٹیاں جیتے جی ہر روز بار بار دفن کی جاتی ہیں اور ہم اِس عمل کو گناہ ماننے کی جگہ اِس سب کو اپنا فرض یا حق سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ یہود و نصارا جن کے بارے میں قرآن کی زبانی اللّٰہ نے کہا کہ یہ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے وہ یہود و نصارا آج ہمارے اندر موجود ہیں۔ یہ یہود و نصارا امریکہ, اسرائیل وغیرہ نہیں بلکہ نفس اور دنیا کی خواہشات ہیں جس نے تمام انسانوں کو مذہب و مسلک کی تمیز کے بغیر اپنے شکنجے میں پھنسا کر ذلیل کر رکھا ہے۔ ہم امریکہ, اسرئیل یا انڈیا سے جنگ کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا مقصد بتاتے ہیں لیکن نفس کے خلاف, دنیا اور شیطان کے خلاف جنگ کرنے کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ہم لوگوں کو اللّٰہ, ایشور, بھگوان کے نام پر اعتراض ہے, موسیٰ, عیسیٰ, محمد کے نام پر اعتراض ہے, اِن مقدس ناموں کے علاوہ اور بہت سے نام ہیں جن کی بنیاد پر ہم مذہب, مسلک, رنگ و نسل کی دشمنی نبھانے میں مصروف ہیں۔ لیکن اِس مشترکہ دشمن 'شیطان' پر تو سب کی رائے ایک ہے نا۔ اس دشمن سے لڑنے کی خاطر ہی ایک ہو جائیں۔ جیسے اکثر فلموں میں دکھاتے ہیں کہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق زمین پر حملہ کر دیتی ہے۔ اُسی طرح اگر سچ میں کوئی مخلوق حملہ آور ہو جائے تو سب زمین والے محض انسانیت کی بقا کے لیے اکھٹے ہو کر اُس مخلوق کا مقابلہ کریں گے۔ تو اِس وقت شیطان کی طرف سے انسان کے خلاف یہی جنگ چل رہی ہے۔ لیکن ہم میں کسی کو اِس جنگ کی پرواہ نہیں ہے۔
(جاری ہے)
محمد کامران احمد

 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 42)                                                        
----------------
اُس نے سگریٹ سُلگاتے ہوئے اداس سے لہجے میں کہا "میری بہت خواہش تھی کہ اِس جنگ میں انسانیت کی کچھ مدد کر سکتا لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پایا, انسانیت کی مدد تو دور, میں تو اپنی مدد بھی نہیں کر پایا۔ تو اُس کی بیوی نے اُس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا "آپ اتنی بڑی بڑی باتیں اتنی آسانی سے سمجھا جاتے ہیں کہ جن کے لیے ہمیں الفاظ ہی نہیں ملتے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے بلکہ یہ سوچیں کہ آپ سب کچھ کر سکتے ہیں, شیطان آپ کے حوصلے توڑنے کی کوشش میں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر آپ اُس کے خلاف کھڑے ہو گئے تو وہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے گا, اِس خوف سے وہ آپ کو آپ کی ہی نظروں میں کمزور ثابت کر کے آپ کو آپ کے مقصد سے دور کر رہا ہے۔" اُس نے خالی خالی آنکھوں سے اپنی بیوی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "میرا مقصد تم لوگوں کو آگے لانا تھا, اب تم لوگ اپنی جگہ پہنچ گئے ہو, اس لیے اب میرے ہونے کا مقصد ختم ہو گیا ہے" اُس کی بیوی نے اُس کے کندھے پکڑ کر اُسے جھجھوڑتے ہوئے کہا "یہ فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں کہ کس کا مقصد پورا ہو گیا اور کس کا نہیں, اگر آپ کا مقصد پورا ہو گیا ہوتا تو آپ اِس وقت زندہ ہی نہیں ہوتے, آپ زندہ ہیں, اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مقصد ابھی باقی ہے۔ موت تب آئے گی جب اُس نے آنا ہے, اللّٰہ نے ہم سب کو ایک مقررہ وقت دیا ہے لیکن اِس وقت کو کس طرح گُزارنا ہے یہ ہماری مرضی پر ہے, انسان کی اصل شخصیت اُس کا دنیاوی کام کاج نہیں بلکہ اُس کا دل ہوتا ہے, وہ کسی فیکٹری کا مالک ہو یا کوئی عام مزدور, اللّٰہ اُسے اُس کے دل کے حال سے جانتا ہے, آپ اِس بات کی پرواہ چھوڑ دیجیے کہ آپ اللّٰہ کا پیغام عام کر سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ اُس کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے نا, اُس کی مرضی ہے کہ وہ جس کو چاہے اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے استمعال کرے اور جسے چاہے چھُپا کر رکھے۔ تو آپ کیوں اِس فکر میں خود کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں کہ میں پیغام عام نہیں کر رہا۔ جب اللّٰہ چاہے گا تو خود بہ خود آپ اس پیغام کا حصّہ بن جائیں گے۔ اور انشاء اللّٰہ وہ وقت ضرور آئے گا جب آپ مُرشد پاک کا پیغام وہاں تک پہنچائیں گے جہاں میں بھی نہیں پہنچا سکی لیکن تب تک خود کو سنبھال کر رکھیں, آپ اپنے دشمن کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں, لیکن اُس کا مقابلہ کرنے کی جگہ آپ ہتھیار ڈال کر میدان چھوڑنے کی تیاری میں مشغول ہیں۔ بس یہی غلطی ہے آپ کی۔ اور یہی آپ کے دشمن کی فتح ہے" اپنی بیوی کی بات سُن کر اُس کی نشے میں ڈوبی آنکھوں میں اُمید کی ایک مدھم سی کرن نمودار ہو رہی تھی۔ اُس نے کہا "ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں کوشش کروں گا خود کو اِس سب سے نکالنے کی" اُس کی بیوی نے کہا "میں آپ کے ساتھ ہوں, آپ کوشش کیجیے انشاء اللّٰہ مہربانی ہو گی۔ آپ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ آپ نے مُرشد پاک سے ظاہری طور پر ملنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ کے الفاظ بار بار اِس بات ثبوت پیش کرتے ہیں کہ مُرشد پاک سے آپ کا باطنی رابطہ بہت مضبوط ہے لیکن ظاہری رابطہ بھی کچھ معانی رکھتا ہے اور اِس سب مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ آپ نے ظاہری رابطہ ختم کر لیا ہے اِسی لیے آپ کا ظاہر بگڑنا شروع ہو گیا ہے۔" اُس نے اپنی بیوی کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ اللّٰہ خیر کرے گا, انشاء اللّٰہ میں ضرور کوشش کروں گا۔ اور اب تم پریشان نہیں ہونا, مجھے بات سمجھ آ گئی ہے, تھینکس, تم نے مجھے وہ کچھ سمجھایا جو میں خود سے سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں میری چال ہی اُلٹی ہے شاید, ایک دفعہ مجھے استھما کا مرض ہو گیا تھا۔ ایک دن اٹیک ہوا تو میں تھوڑا سا گھبرایا, دوسرے دن دفتر میں ایک سموسہ کھایا اور ٹھنڈا یخ پانی پیا اور ساتھ ہی سگریٹ سُلگا لیا۔ ابھی ایک دو کش ہی لگائے تھے کہ سانس آنا تقریباً بند ہو گیا, گھبراہٹ سے آنکھ سے خود بہ خود آنسو آنا شروع ہوئے تو میں اپنی حالت پے بے ساختہ مسکرا اُٹھا۔ دفتر کے لوگ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے تو ڈاکٹر نے مجھے نیبلائز کرنے کے بعد مجھے کہا کہ ٹھنڈی اور کھٹی چیزیں بلکل نہیں استمعال کرنی ہیں آپ نے, تو میرے ساتھ گئے دفتر والوں میں سے ایک نے کہا ڈاکٹر صاحب اسے سگریٹ سے بھی تو منع کیجیے, تو ڈاکٹر نے چونک کر مجھ سے پوچھا تم سگریٹ پیتے ہو۔؟ خبردار سگریٹ تو تمھارے جیسے مریض کے لیے خود کشی ہے۔ اگر تم نے سگریٹ پیا, تو اگلی دفعہ اٹیک ہو تو میرے پاس نہیں آنا۔ ڈاکٹر کی بات سُن کر میں اور ڈر گیا۔ دوپہر میں ایک بجے کے آس پاس مجھے اٹیک ہوا تھا اور شام پانچ, ساڑھے پانچ تک میں نے ڈر کے مارے ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ لیکن شام کو جب میں گھر سے باہر نکلا تو دل میں خیال آیا کہ شاید شیطان نے میرے سانس کے ذکر پر حملہ کیا ہے۔ یہ سوچ کر میں نے کہا اے شیطان تیری یہ ہمت کہ تُو میرے ذکر پے حملہ آور ہوتا ہے۔ اتنا کہتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ تُو تو خود شیطان سے ڈرا ہوا ہے کہ کہیں یہ پھر سے میرا سانس بند نہ کر دے, اسی لیے تین چار گھنٹے سے تُو نے کچھ بھی نہیں کھایا پیا۔ پھر تُو کس منہ سے شیطان پر بھڑک رہا ہے۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے بازار کا رُخ کیا۔ چاٹ والے سے تیز مرچ مصالے والی چاٹ بنانے کو کہا اور ساتھ ہی ٹھنڈے یخ سوڈے کا گلاس خریدا اور چاٹ کے ساتھ ساتھ سوڈا ختم کیا پھر سگریٹ سُلگا کر ایک اور دکان پر گیا اور ٹھنڈی ٹھنڈی لسی پی۔ اور گھر واپس آنے تک تین چار سگریٹ اور پی لیے۔
 اب یہ علاج نہیں بلکہ خود کشی کی ہی کوشش گنی جائے گی لیکن یہ حرکت کرنے کے بعد سے آج تک مجھے دوبارہ سانس کا مسئلہ نہیں ہُوا۔ خیر وہ سب اپنی جگہ لیکن انشاء اللّٰہ میں خود کو بدلنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ تم پریشان مت ہو۔ اللّٰہ خیر کرے گا۔ تم نے بیوی کا حق ادا کر دیا, مجھے ناز ہے تم پر اور میں اللّٰہ کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے اتنی اچھی بیوی دی مجھے۔" اُس کی تعریف پر اُس کی بیوی نے دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا "یہ سب میں اپنے شوہر کے لیے نہیں بلکہ اپنے مُرشد پاک کے مُرید کے لیے کر رہی ہوں, جب تک شوہر کے لیے کوشش کرتی رہی تب تک میں ناکام ہی رہی لیکن آج جب اللّٰہ کا بندہ سمجھ کر, ایک بیوی کی سوچ سے نکل کر, محض ایک انسان بن کر ایک انسان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہوں, تو سب آسان لگ رہا ہے۔ میں بیوی کی طرح آپ کی مدد نہیں کر سکی, بہت جلدی مایوس ہو جاتی تھی, لیکن اب میں پُر امید ہوں۔ اللّٰہ کرم کرے گا۔ انشاء اللّٰہ کوئی ایسا سبب بنے گا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ مُرشد پاک نے آپ کو جو ڈھیل دی ہوئی ہے وہ جلد ہی ختم ہونے والی ہے اور مُرشد پاک آپ کو کان سے پکڑ کر واپس لے کر آئیں گے۔ آپ کی بات مجھے سمجھ آ رہی ہے شاید اِس سب میں میری اپنی تربیت بھی پوشیدہ تھی۔ میں نے اپنے دل میں آپ کی محبت کا ایک بہت بڑا بُت تراش رکھا تھا جو شاید آپ کو نشے میں ڈولتے دیکھ کر ٹوٹ گیا۔ اِسی لیے میں نے آپ کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن آج آپ کی بات سُن کر مجھے آپ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ سب آپ جیسے شخص کو زیب نہیں دیتا, اب میں آپ کو کسی چیز سے نہیں روکوں گی۔ اب آپ کو مُرشد پاک خود ہی روکیں گے۔ مجھے آپ سے کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو مجھ سے دور نہ کرتے تو شاید میں اپنا آپ کبھی نہ پہچان سکتی۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ غلط نہیں ہیں لیکن میں خود کو سمجھانے سے قاصر تھی۔ کامل مُرشد کی شان ہے کہ طالب کے دل میں رکھے تمام بُت توڑ کر اُس دل کو کعبہ بناتا ہے۔ اگر آپ یہ سب نہ کرتے تو میں خود پر کبھی اعتماد نہ کر پاتی۔ اِس سب کے پیچھے آپ کے لیے بھی کچھ سبق تھے اور میرے لیے بھی لیکن اِب بس کریں۔ اپنا آپ سنبھالیں واپس پلٹیں۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے اور جو آپ کے حصّے کا کام ہے وہ آپ ہی نے کرنا ہے اُسے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اِس لیے اِن مایوسی کے خیالات سے کنارہ کیجیئے اور واپس آئیں۔ چلیں اب سو جائیں صبح دفتر بھی جانا ہے آپ نے" اُس رات جب وہ سونے کے لیٹا تو بہت دیر تک اپنی بیوی کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ اُس نے اپنے دل میں اپنے دشمن سے لڑنے کا اور خود کو بدلنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
ابھی اپنی بیوی سے وہ سب باتیں کیے اُسے چند دن ہی گُزرے تھے کہ اصلاحی جماعت کی ایک معتبر شخصیت حاجی محمد نواز صاحب اُس کے گھر تشریف لائے اور آتے ساتھ گھر کے مالک سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب وہ اُن کے سامنے گیا تو انہوں نے بہت شفقت سے اُس کی خیر خیریت دریافت کی۔ وہ حاجی نواز صاحب کا بہت گرویدہ تھا اور اُس روز وہ اُس کے گھر میں اُس کی نظروں کے سامنے بیٹھے اُس سے محوِ گفتگو تھے۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بات کرتے جائیں اور وہ انہیں سُنتا جائے۔ جب گفتگو کے دوران انہوں نے اُس سے پوچھا کہ دل پے اسمِ اللّٰہ کیسے نقش کرتے ہو تو اُس نے جان بوجھ کر اُن کے سامنے اُلٹا نقش کر کے بتایا تاکہ حاجی نواز صاحب اُسے اور زیادہ سمجھائیں اور یہی ہوا بھی۔ جب اُس نے دل پر اسمِ اللّٰہ کا نقش اُلٹا بنایا تو حاجی صاحب نے فوراً اُس سے کہا "آپ نے اپنے موبائل فون میں سِم ہی اُلٹی ڈالی ہوئی ہے تو موبائل کام کیسے کرے گا۔ اسمِ اللّٰہ کا نقش ایسے نہیں بلکہ ایسے کرتے ہیں" اور یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی اُنگلی سے اُس کے دل پر اسمِ اللّٰہ نقش کیا۔ اور ایک پل میں اُس نے اپنے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس کی۔ جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔
(جاری ہے)
محمد کامران احمد
 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 43)                                                        
----------------
حاجی نواز صاحب کے جانے کے بعد شام تک وہ نشہ آور چیزوں کے استمعال سے چھُٹکارے کے بارے میں سوچتا رہا لیکن شام ہوتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ پھر سے اُسی مشغلے میں مصروف ہو گیا۔ لیکن شاید اُس کی اِس لت کے دِن گِنے جا چُکے تھے۔ اِس لیے اگلے روز سے کچھ ایسے حالات بنے کہ دو تین روز تک اُسے کوئی نشہ آور چیز میسر نہ آ سکی جس کی وجہ سے اُسے شدید تکلیف سے گُزرنا پڑا لیکن اِس تکلیف کا اختتام ایک مضبوط ارادے پر ہُوا جس کے بعد اُس نے سگریٹ کے علاوہ ہر طرح کی نشہ آور چیز سے کنارہ کر لیا۔ اِس سب سے جان چھُڑانے میں اُس کا ساتھ دینے والوں میں سب سے بڑا کردار اُس کی بیوی نے ادا کیا۔ اُس کا حوصلہ بڑھایا, دن رات اُس کی خدمت کی اور اُسے دوبارہ زندگی میں آگے بڑھنے کی اُمید دی۔ اِس سب کے دوران ایک روز اُس نے اپنی بیوی سے کہا "تمہیں پتا ہے میری واپسی میں تمہارے ساتھ ساتھ میری معزوری کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ میں اگر معزور نہ ہوتا تو کسی نہ کسی جگہ جا کر نشے کے لیے کچھ نہ کچھ ڈھونڈ ہی لیتا۔ انسان اکثر اپنی کم عقلی کے باعث نعمت کو زحمت سمجھ لیتا ہے لیکن وقت انسان کو احساس دِلا دیتا ہے کہ وہ غلط تھا اور اللّٰہ نے اُس کی بہتری ہی سوچ رکھی تھی۔
اُس کی والدہ حجِ بیت اللّٰہ کا ارادہ رکھتی تھیں اور ہمیشہ اُس سے کہا کرتی تھیں کہ "حج پے محرم کے طور پر تم چلنا میرے ساتھ۔ تمہارے ابّو زندہ ہوتے تو اُن کے ساتھ جاتی لیکن اِب وہ نہیں ہیں تو میں چاہتی ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔" اور وہ جواباً ہمیشہ اپنے چھوٹے بھائی کا نام لیا کرتا اور کہتا کہ "آپ حج پر اُسے ساتھ لے کر جائیے گا, آپ کے ساتھ کوئی ایسا ہو جو آپ کا خیال رکھ سکے, میں تو اُلٹا آپ کے لیے بوجھ بن جاؤں گا۔" تو اُس کی والدہ کہتیں کہ "اولاد کیسی ہی کیوں نہ ہو, ماں کے لیے بوجھ نہیں ہوتی, تم بس ارادہ کرو باقی سب سبب اللّٰہ خود بنا دے گا۔" اور وہ اپنی والدہ کی بات سُن کر لاجواب ہو جاتا تھا اور کہتا کہ جب وقت آئے گا تو سوچوں گا۔ اگست 2010 میں اُس نے نشہ آور چیزوں سے کنارہ کیا اور سن 2011 میں اُس کی والدہ نے حج پے جانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے پھر سے اُسے ساتھ چلنے کو کہا۔ اُس نے جواب دیا کہ "امّی اب تو میں ایک ہاتھ میں چھڑی پکڑنے کے باوجود دوسری جانب بھی سہارے کا محتاج ہوں۔ اب میں کیسے جا سکتا ہوں اور آپ اکیلے مجھے کیسے سنبھالیں گی۔؟" تو اُس کی والدہ نے کہا "میں اکیلی کہاں ہوں بیٹا, اللّٰہ ہے نا میرے ساتھ, اُس کے ساتھ کے سہارے میں نے تمہیں اُس وقت سنبھالا تھا جب تم نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ ہی بول سکتے تھے۔ تو اب بھی وہی اللّٰہ مدد کرے گا, بس تم ارادہ کرو باقی سب اللّٰہ پر چھوڑ دو۔" لیکن اُس نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اپنا پاسپورٹ بنوا لو میں ایسے نہیں جانا چاہتا۔ اُس کے بھائی نے کہا کہ "آپ نہیں جائیں گے تو ظاہر ہے کہ مجھے ہی جانا ہو گا لیکن میری بھی ہمیشہ سے یہی خواہش ہے کہ امّی کے ساتھ آپ جائیں۔" تو اُس نے ذرا تیز لہجے میں کہا "تُو سمجھتا نہیں ہے میں امّی کے لیے اور مسئلہ بن جاؤں گا" تو اُس کے بھائی نے بدستور دھیمے لہجے میں کہا "شاید اِس وقت آپ کو ضرورت ہے امّی کی بات سمجھنے کی۔ آپ اپنے آپ کو کمزور جان کر ایسا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ آپ کوشش کریں تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔" اُس نے اپنے بھائی کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کمرے سے چلا گیا۔ اگلے روز اُس کے دل نے اُسے سمجھایا کہ جب قسمت سے وہاں جانا نصیب ہو رہا ہے تو تُو کیوں نہ نہ کر رہا ہے۔ ہاں بول اور قدم بڑھا جس نے تیرے لیے اِس سفر کا بُلاوا بھیجا ہے سفر بھی وہ خود ہی سنبھالے گا۔ اور آخر کار اُس نے اپنی والدہ کے ساتھ حج کے لیے جانے کی حامی بھر لی۔ حج کے لیے تمام کاغذی کاروائی وغیرہ باآسانی حل ہو گئی۔
بہت عرصے بعد اُس نے پھر سے نماز پڑھنا شروع کی۔ ایک طویل عرصے سے وہ ظاہری نماز و روزے کا پابند نہ تھا۔ کبھی کبھی نماز پڑھتا بھی تو کسی بھی وقت بِنا نیت کے صرف دو رکعت نماز پڑھتا۔ وہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ جب اُس نے سُلطان محمد اصغر علی رح کا دستِ بیعت تھاما تھا تو اُس نے باجماعت نماز ادا کرنی شروع کر دی تھی لیکن باجماعت نماز میں اُسے حلاوت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ باجماعت نماز میں حلاوت محسوس نہ ہونے کو وہ اِس طرح دیکھتا تھا کہ کیونکہ جماعت میں بیمار یا بوڑھے لوگوں کی موجودگی کے باعث مولوی صاحب نماز تیز تیز پڑھاتے ہیں اس لیے حلاوت محسوس نہیں ہوتی لیکن باجماعت نماز کے بارے میں تاکید کو سوچ کر اُس نے باجماعت نماز ترک نہیں کی۔ باجماعت نماز سے دل کو وہ سُرور و سکون نہیں ملتا تھا اس لیے وہ جماعت کے بعد الگ سے دو رکعت نماز ادا کر لیا کرتا تھا۔
  اکثر باجماعت نماز میں اُس کا دل ایک صدا بُلند کرتا "امام کی نیت میرے قدموں کے نیچے" وہ اپنے دل کی صدا پے کئی بار استغفار پڑھتا۔ ایک روز جب وہ دفتر سے نکل کر ظہر کی نماز باجماعت ادا کرنے کی خاطر مسجد گیا تو نماز شروع کرتے ہی دل نے پھر سے وہی صدا بُلند کی "امام کی نیت میرے قدموں کے نیچے" تو اُس نے دل سے کہا "اے دل تُو کیوں نماز میں کُفر بَکتا ہے۔" تو دل نے کہا "میں کُفر نہیں کہتا میں تو حق بیان کرتا ہوں, جس شخص نے اللّٰہ کو جانا ہی نہیں, جو نماز میں حاضر ہی نہیں ہوتا اُس کے پیچھے اُٹھک بیٹھک کرنے سے کیا حاصل۔؟ تُو مُردوں کے بیچ کھڑا ایک ایسے شخص کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہے جو نماز میں حاضر ہی نہیں ہے۔" تو اُس نے دل کو سمجھاتے ہوئے کہا "باجماعت نماز اگر مُنافق کے پیچھے بھی ادا کرنی پڑے تو کرنی چاہیے" تو دل نے اُس کی ہنسی اُڑاتے ہوئے کہا "لیکن اِس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ کسی کے بھی پیچھے نماز ادا کر لو۔ مُنافق ہونا اور بات ہے۔ اور نماز میں غیر حاضر ہونا اور بات ہے۔ ہو سکتا ہے کے مولوی صاحب ہر طرح سے ایک اچھے انسان ہوں لیکن نماز میں غیر حاضر ہونے سے نماز ہی نہیں ہوتی ایسی باجماعت نماز سے کون سا ثواب کمانا چاہتا ہے تُو۔؟" دل کی اس بات پر اُس نے جھِلا کر دل سے کہا "میں ثواب کی نیت سے کچھ بھی نہیں کرتا, میں تو اُس کی رضا کی خاطر اُسے لائقِ عبادت جان کر اُس کی پرستش کرنے کی کوشش کرتا ہوں, اور تُو مجھے بہکانے کی کوشش کر رہا ہے" دل نے کہا "اللّٰہ کو سوچ کر نماز پڑھنے والا کسی ایسے شخص کی اِقتدا میں کیسے نماز ادا کر سکتا ہے جس کے ذہن پر اپنی بیٹی کی بیماری کی فکر سوار ہو۔" اتنا کہہ کر دل خاموش ہو گیا۔ نماز اختتام کو پہنچی تو اُس نے سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت نماز اور پڑھی۔ تب تک کافی سارے لوگ نماز پڑھ کر جا چُکے تھے۔ وہ مسجد کے فرسٹ فلور پر نماز پڑھا کرتا تھا کیوں کہ وہاں لوگ کم ہوتے تھے اکثر نماز کے بعد مولوی صاحب کچھ بیان کیا کرتے تھے اور اکثر بہت سی اچھی باتیں سُننے کو مِل جایا کرتی تھیں اِس وجہ سے وہ مولوی صاحب کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ اُس روز وہ اپنے دل کی باتوں پے کافی اُلجھا ہوا تھا اِس لیے سوچا کہ جا کے مولوی صاحب کا درس سُن لیتا ہوں شاید کچھ سکون مِل جائے۔ مگر جب وہ مسجد کے فرسٹ فلور سے اُتر کر مسجد کے ہال میں گیا تو مولوی صاحب دکھائی نہ دیے اُس نے دیکھا کہ کچھ لوگ جو اکثر مولوی صاحب کا سُنا کرتے تھے مسجد کی اگلی صفوں میں بیٹھے ہیں۔ وہ اُن کے ذرا قریب ہُوا تو کسی کو کہتے سُنا کہ "مولوی صاحب کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اِس لیے وہ آج جلدی گھر چلے گئے ہیں, آج درس نہیں ہو گا۔" یہ الفاظ سُن کر اُسے ایک جھٹکا سا لگا اور دل کے الفاظ یاد آئے۔ اُس نے سوچا کہ صوفی سرمد شہید رح کے یہ الفاظ شاید اُسے اِسی لیے سُنائی دے رہے تھے کیونکہ اِس دور میں نماز پڑھنے والے اور پڑھانے والے دونوں کی سوچ بس دنیا اور دنیا داری ہی رہ گئی ہے۔ نماز میں اللّٰہ کے سوا ہر قسم کا خیال انسان کی سوچ کا محور رہتا ہے۔ ایسی باجماعت نماز سے بہتر ہے کہ انسان تنہائی میں نماز اختیار کرے۔ اُس دن کے بعد سے اُس نے باجماعت نماز ترک کر کے اکیلے نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔ اُسے کائنات میں غور کرنا اچھا لگتا تھا۔ شاید اُس کے رب نے اُسے سوال کرنے کا ہُنر سکھا رکھا تھا اِسی لیے اُسے اکثر اپنے سوالوں کے جواب باآسانی مل جایا کرتے تھے۔لوگ اُس پے کُفر و شرک کے فتوے لگائیں گے لیکن وہ ایسا ہی تھا اور اُسے اِس بات کی پرواہ بھی نہیں تھی کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔ اُسے خود کے لیے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ عجیب سوچ تھی اُس کی۔ نہ دوزخ کا خوف, نہ جنت کا لالچ, نہ دنیا کی چاہت, اور نہ آخرت کی فکر۔ فکر تھی تو فقط اتنی کہ کسی طرح انسانوں کو شیطان کے چُنگل سے آزاد کرایا جا سکے۔ وہ اکثر اللّٰہ سے دُعا کرتا کہ "مجھے بس ایک بار کچھ ایسا سمجھا دیجیے جس سے میں انسانوں کو ایک کر سکوں۔ اپنی بات لوگوں کے دل تک پہنچانے کا فن عطا کر کے, بس ایک بار لوگوں تک بات پہنچانے کا موقعہ دے دیجیے۔ پھر اُس کے بعد بیشک مجھے ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جلا دینا مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں جاننا کہ کس کے دل میں کیا ہے"۔ جیسے قُربِ الہٰی کی راہ پر چلنے والے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں انبیاء, اولیاء اور دیگر شخصیات کا دیدار ہو, اِس طرح سے اُس نے کبھی کسی شخصیت کے دیدار کی خواہش نہیں کی۔ باطن میں روحانی طور پر بہت کچھ ہوتا ہے لیکن اُس نے کسی شئے کی طلب نہ کی۔ اگر مانگا تو اللّٰہ سے لوگوں کے لیے اللّٰہ ہی مانگا اور اِس کام کا وسیلہ بننا طلب کیا۔ اُس کی خواہش فقط اتنی تھی کہ ایک اللّٰہ کے نام پر سب انسانوں کو ایک کیا جا سکے۔ بس اس سے زیادہ اُس کی اور کوئی خواہش نہیں تھی۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ..
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ..
اقبال رح کے بہت سے اشعار اُسے اپنی زندگی کا حصّہ محسوس ہوتے تھے اور اکثر اپنی حالت بیان کرنے میں اُس کے لیے مددگار بھی ثابت ہوتے تھے۔ اکثر جب لوگ اُس کے الفاظ سے متاثر ہوتے ہوئے اُس کے ظاہر پر اُنگلی اُٹھاتے تو وہ علامہ اقبال رح کا یہ شعر اکثر پڑھا کرتا تھا کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے, مَن باتوں میں موہ لیتا ہے ..
گُفتار کا غازی تو یہ بنا, کردار کا غازی بن نہ سکا ..
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 44)                                                                    ----------------
جیسے جیسے اُس کا حج پے جانے کا وقت قریب آ رہا تھا ویسے ویسے اُس کا دل اور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جس جس کو بھی پتا چلا کہ وہ حج کے لیے جانے کا ارادہ رکھتا ہے اُس نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق اُسے کچھ نہ کچھ کہنا ضروری سمجھا۔ کسی نے اپنے لیے دُعا کرنے کے لیے کہا تو کسی نے اپنوں کے لیے دُعا کرنے کی گزارش کی, کچھ لوگوں نے اُس کی ٹانگوں کے مسئلے کے پیشِ نظر اُسے حج کے فیصلے پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ تو کچھ نے کعبے کے سامنے اپنی صحت یابی کے لیے دُعا کرنے کے لیے کہا۔ تقریباً ہر دوسرے شخص نے اُسے بتایا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دُعا مانگو قبول ہوتی ہے۔ اِس لیے فلاں دُعا مانگنا اور فلاں فریاد کرنا۔ لیکن سب لوگوں کی دُعائیں دنیا تک ہی محدود تھیں۔ ہر ایک کو وہ اپنی بات سمجھا نہیں سکتا تھا اِس لیے خاموشی سے سب کے مشورے سُنتا رہتا۔ ایک حافظ صاحب, جو بہت خوبصورت قاری بھی تھے, اُس کے صاحبِ فہم دوستوں میں سے ایک تھے, انہوں نے بھی جب اُس سے یہی بات کہی کہ خانہ کعبہ کو دیکھتے ساتھ پہلی نظر میں اپنی صحت یابی کے لیے دُعا مانگیے گا تو اُس سے رہا نہ گیا اور اُس نے کہا "یار حافظ صاحب آپ سے پہلے بھی کئی لوگ یہ مشورہ دے چُکے ہیں مجھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر اللّٰہ سے مانگنے کے لیے کسی کے پاس ایک ایسا موقعہ ہو جس میں اُسے یقین ہو کہ اُس کی دُعا رد نہیں ہو گی تو کیا یہ اُس کی خود غرضی کی انتہا نہیں ہو گی کہ وہ محض اپنی ذات کے لیے کچھ مانگ لے۔ ایسے شاندار موقعے پر تو اُسے تمام انسانوں کی بھلائی طلب کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اُس کی عطا کا کچھ حق ادا کر سکے۔ اگر میں آپ سے کہوں کہ حافظ صاحب جو مانگنا ہے مانگو تو آپ مجھ سے میری اوقات کے مطابق مجھ سے بہت ذیادہ مانگ لیں گے تو دس بیس ہزار روپے کا سوال کریں گے, یہی بات آپ سے کوئی بادشاہ کہے تو آپ بادشاہ کی اوقات اور سخاوت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کوئی سلطنت یا مال و دولت کا تقاضہ کریں گے, لیکن جب کُل جہانوں کا بادشاہ کسی مقدس مقام کو خود سے منسلک کر کے اُس در کی فضیلت بیان کرتے ہوئے لوگوں کو یہ کہتا ہے کہ میرے در پے آ کر جو سوال کرو گے میں قبول کروں گا تو ہم یہاں دینے والے کی شان کے مطابق اُس سے تمام انسانوں کی بھلائی کیوں نہیں مانگتے۔؟ میری دُعا ہے کہ اللّٰہ مجھے اگر ایسا موقع دے تو اُس موقعے پر ایسی دُعا مانگنے کی توفیق بھی دے جس میں سب کی بھلائی ہو۔ ورنہ مجھ سے بڑا خودغرض کوئی نہ ہو گا۔ تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ میں اتنے اچھے موقعے کو اِس طرح ضائع کر دوں۔ ویسے میرے خیال میں دُعا کی قبولیت صرف اور صرف اللّٰہ کی رضا پر منحصر ہے۔ اللّٰہ کی رضا, دُعا کرنے والے کے دل کی حالت, دُعا کے الفاظ, اور اُس دُعا کے مقصد پر منحصر ہوتی ہے۔ نہ کہ دُعا کرنے والے کے ظاہری مقام پر۔ لوگ کعبے کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا مانگتے ہوں گے۔ لیکن ہر ایک کو وہ سب ظاہری طور پر عطا نہیں کیا جاتا۔ دُعائیں ضرور دُعا کرنے والوں کے اعمال ناموں میں محفوظ ہو جاتی ہوں گی لیکن ظاہری قبولیت کے پیچھے بہت سی رمز پوشیدہ ہوتی ہے۔ جس کے باعث انسان ظاہر میں اللّٰہ کی حکمت کو نظر انداز کرتے ہوئے بے مقصد دُعائیں کر کر کے عطا کرنے والے سے بدگمان ہو جاتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنی تمام تر طاقت کا استمعال صرف اور صرف انسان کے اندر بے مقصد خواہشات پیدا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ انہی خواہشات کے دھارے بہہ کر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ استقامت, طلب سے بہتر راستہ ہے۔ کیونکہ طلب کرنے والا اپنی طلب کے مطابق حاصل کرتا ہے اور طلب پوری نہ ہونے پر یا طلب سے کم ملنے پر, عطا کرنے والے سے بد گُمان ہو کر راہ سے بھٹک سکتا ہے لیکن استقامت رکھنے والا ہر حال میں اللّٰہ سے راضی رہنے کی کوشش میں رہتا ہے اِس لیے اُس پر عطا, عطا کرنے والا اپنی شان کے مطابق کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اللّٰہ سے ہر حال میں راضی ہو جاتا ہے تو اللّٰہ بھی اُس کے ہر حال سے راضی ہو جاتا ہے۔" حافظ صاحب نے اُس کی بات اطمینان سے سُنی اور کہا "سبحان اللّٰہ کیا سوچ ہے آپ کی۔ یقیناً اللّٰہ نے کسی خاص مصلحت سے آپ کو اس آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔"
حج کے سفر کے بارے میں سوچ کر وہ اکثر اپنی والدہ کے لیے پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی اُسے یہ خیال بھی آتا کہ شاید اِس سفر میں میری موت لکھی ہو۔ اور وہ اکثر اپنے قریبی دوستوں سے اِس خدشے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا کہ "کہ شاید حج کے دوران میری موت واقع ہو جائے, تو کہا سُنا معاف کر دینا" ایک دفعہ اُس کی اس بات پر اُس کے ایک دوست نے مذاق کرتے ہوئے اُسے کہا "بھائی تُو بے فکر رہ تُو نہیں مرتا, ایسے مقدس مقامات پر نیک لوگ مرتے ہیں اِس لیے تُو بے فکر رہ, کچھ نہیں ہو گا تجھے, کچھ عرصے بعد تُو پھر سے یہیں ہمارے ساتھ بیٹھا سموسے کھا رہا ہو گا۔"
دن رات تیزی سے گُزر رہے تھے اور جلد ہی وہ دن آن پہنچا جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ اسلام آباد ایرپورٹ کی جانب محوِ سفر تھا۔ عجیب حال تھا اُس کا, ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرا ہاتھ اپنی والدہ کے کندھے پے رکھے وہ دل میں ندامت لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ اسلام آباد ایرپورٹ سے ہی اللّٰہ کی مدد لوگوں کی صورت اُن کے ساتھ ہو گئی تھی۔ لوگوں نے ہر ممکن حد تک اُن کے کام آنے کی کوشش کی۔ مکّہ پہنچتے ساتھ رہائش گاہ پے سامان رکھنے کے بعد سب لوگ مسجد الحرام کی جانب روانہ ہوئے۔ مکّہ کی فضا میں ایک جلال کی سی کیفیت رہتی ہے۔ لوگوں کے برتاؤ میں بھی ایک سختی سی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے ہر شئے اللّٰہ کے گھر کے ادب و احترام کا اشارہ کر رہی ہو۔ مسجد کے باہر ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو معزور اور بزرگ لوگوں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر اُجرتاً طواف اور سعی وغیرہ کروا دیتے ہیں۔ اُسے بھی ایسے ہی طوافِ کعبہ کرنا پڑا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ اُس نے کیا دُعا مانگنی ہے۔ ویسے بھی ایک طویل عرصے سے اُسے صرف ایک دُعا مانگنے کی عادت تھی۔ "اے اللّٰہ .. سب کو مل جا" بس وہ یہی مانگا کرتا تھا اور اُس دن بھی خانہ کعبہ کو دیکھ کر اُس کے دل سے یہی الفاظ نکلے کہ "اے اللّٰہ سب کو اپنی ذات, اپنا قرب عطا فرما, اللّٰہ میاں ہم سب انسان آپ سے بہت دور آ گئے ہیں, شیطان نے ہمیں ٹُکڑے ٹُکڑے کر دیا ہے, ہم نے غلطی کی شیطان کی پیروی کر کے, وہ ہمیں تجھ سے اتنا دور کر چُکا ہے کہ اب تیرا پتہ بھی یاد نہیں ہمیں, اے اللّٰہ ہم نے اپنی جانوں پے ظلم کیا اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے تباہی و بربادی کو اپنا مقدر بنا لیا, اور آج شیطان ہمارا قتلِ عام کرنے میں مصروف ہے اور ہم سب خاموشی سے اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ایک دوسرے کو قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اگر تُو نے ہم پے رحم نہ کیا تو ہمیں برباد ہو جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اے اللّٰہ مجھے میرے لیے کچھ نہیں چاہیے, میں جس حال میں بھی ہوں, خوش ہوں,بس اتنی سی گزارش ہے کہ حضرتِ انسان کی حالت پے رحم فرمایا جائے اور ہمیں ایک ہو کر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی جائے" اللّٰہ کے گھر کی شان و عظمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسا جلال کا عالم جس میں زبان گنگ اور ذہن ماؤف ہو جاتا ہے اور انسان کسی خواب کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ کعبے کا منظر ابھی آنکھوں میں ٹھیک سے سما نہ پایا تھا کہ طواف کا مرحلہ اختتام کو پہنچ گیا۔ سعی سے فارغ ہو کر اُس نے اور اُس کی والدہ نے نمازِ فجر ادا کی اور عُمرے کے باقی مناسک سے فراغت کے بعد واپس رہائشگاہ کا رُخ کیا۔ ابھی انہیں آئے ایک دو دن ہی گزرے تھے کہ سفرِ مدینہ کا اعلان ہوا۔ اِس اعلان کے ساتھ ہی ایک عجیب سے احساس نے اُس کے دل کو گھیر لیا تھا۔ جیسے کوئی آغوش جس میں اُس کی روح گھُلی جا رہی تھی۔ مکہ میں اُس کی رہائش حرم سے کافی فاصلے پر تھی اِس لیے اُس کے لیے بار بار حرم جانا مشکل تھا۔ اُس کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے اپنی جانب سے اُس کی ہر ممکن مدد کی اور کسی تکلیف کا احساس نہ ہونے دیا۔ مدینہ جاتے ہوئے اُسے یہی ڈر تھا کہ یہاں بھی اگر رہائش دور مِلی تو یہاں بھی اُسے حرم میں ذیادہ وقت گُزارنے کا موقع نہیں ملے گا۔ عجب حالت تھی دل کی, جب اُن کی بس حرم کے ارد گرد چلتی ہوئی کبھی حرم کے قریب سے گُزرتی تو کبھی دور سے۔ بس میں موجود ہر شخص کی خواہش تھی کہ حرم کے قریب رہائش ملے اور اللّٰہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مسجدِ نبوی کے بلکل سامنے روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب ہی رہائش ملی جب پہلی بار مسجدِ نبوی, روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے جانے کا مرحلہ آیا تو اُس کے ساتھ موجود سب لوگوں نے اُس کی والدہ کو یقین دِلایا کہ وہ اُس کا خیال رکھیں گے اور اُس کے ساتھ رہیں گے۔ لیکن مسجدِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں داخل ہوتے ساتھ سب لوگ اُس سے الگ ہو گئے اور وہ تنہا ہو گیا۔ اُسے چلنے پھرنے کے لیے کسی کے کندھے پے ہاتھ رکھنا پڑتا تھا اور بنا سہارے کے وہ چلتے چلتے گِر جایا کرتا تھا اِس لیے خود کو اتنی بھیڑ میں اکیلا دیکھ کر وہ ایک پل کو گھبرا سا گیا۔ لیکن دور سے نظر آتی روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں اور گنبدِ خِضرہ کے منظر نے اُسے تھام لیا اور اکیلے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اپنے بچپن میں اُسے ایک ہی نعت یاد تھی اور یہی نعت وہ ہر جگہ پڑھا کرتا تھا۔ اُس روز روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب قدم بڑھاتے وہی نعت اُس کی سوچ کے جہان میں گونج رہی تھی۔
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود اُنہی کو پُکاریں گے ہم دور سے
راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
حج کے دِنوں میں ایک جانب سے روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے راستہ بند کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب سے لوگوں کو روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے ایک طویل قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ جس جانب روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ہے اُس جانب وہاں کی انتظامیہ کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں جو لوگوں کو دوسری طرف سے آنے کا کہتے ہیں۔ وہ دور سے دیکھ رہا تھا کہ وہ لوگ سخت انداز میں لوگوں کو وہاں سے پیچھے دھکیل رہے تھے۔ اُسے لگا شاید اُسے بھی دھکیل دیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ اُس کی حالت دیکھتے ہوئے  ایک شخص نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ تھاما اور اُسے لے جا کر روضۂ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں کے سامنے ایک ستون کے ساتھ کھڑا کر دیا۔
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 45)                                                        
----------------
دل کا عجیب حال تھا۔ اپنی حالت پے ندامت سے زمین میں گڑھ جانے کو جی چاہ رہا تھا۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور پیش کرنے کے لیے اُس کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ دل تھا کہ اُسے بار بار عرضِ تمنا کرنے کو کہہ رہا تھا مگر احترامِ بارگاہ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم میں جیسے اُس کے الفاظ کی جراعت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پھر اُس نے دل سے پُکارتے ہوئے کہا "یارسول اللّٰہ میرے دل پے ہاتھ رکھ دیجیے تاکہ میری دھڑکنوں کو کچھ قرار نصیب ہو اور مجھے اجازت دیجیئے کہ جو میں کہنے کی خواہش رکھتا ہوں وہ آج آپ سے کہہ سکوں۔ مجھے ڈر ہے کہ میری آواز حد سے تجاوز نہ کر جائے, مجھے ڈر ہے کہ میرے الفاظ کسی گستاخی کے مرتکب نہ ٹھریں۔ مجھے بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اپنی فریاد اپنے انداز میں بیان کر سکوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے ادب کا بُلند و محتاط ترین معیار بھی بارگاہ اقدس کے آداب کے شایاں نہیں ہے, اس لیے یارسول اللّٰہ..! اِس گندے کو, اِس بے ادب و گستاخ کو اپنی بات کہنے کے لیے اپنے ٹوٹے پھوٹے عشق و ایمان کی امان درکار ہے۔ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اپنا مُدعا بیان کر سکوں۔"
اسی اثناء میں انتظامیہ کہ لوگوں نے رش کم کرنے کی خاطر جالیوں کے سامنے کھڑے لوگوں کو وہاں سے ہٹانا شروع کر دیا۔ ویسے بھی ایشیا کے سارے مسلمان اُنہیں مشرک دکھائی دیتے ہیں اِس لیے ہم پے کچھ زیادہ سختی کی جاتی ہے اور شرک سے روکنے کی بھی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک پل کو اُسے خیال آیا کہ شاید اُسے اپنا حال بیان کرنے کی اجازت نہیں ملی, اور اِسی بات کے اظہار میں اُسے یہاں سے دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے ہی پل اُس کی غلط فہمی دور ہو گئی جب اُس کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور کسی نے اُسے نظر بھر کے بھی نہیں دیکھا تو یہ سوچ کر اُس کا دل خوشی سے جھوم اُٹھا کہ اللّٰہ کے رسول رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اُسے فریاد کی اجازت دے دی۔ اُس نے اپنے مُضترب دل کو سنبھالا, آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے, آواز و انداز کو اور موئدب کرنے کی کوشش کی, اپنے الفاظ سنبھالے اور دل کی زبان سے آقائے دو جہاں صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے گزارش کرتے ہوئے کہا "یارسول اللّٰہ میں اُس وقت کے لوگوں میں سے ایک ہوں جس وقت میں زمین پے انسان ذِلّت کی انتہا کو پہنچ چُکا ہے۔ لوگ جہالت میں پیدا ہوتے ہیں اور جہالت کے رائج کردہ نظام کے تحت, موت آنے تک ہر پل جہالت کے ہاتھوں, ایک نئی موت مَر مَر کر زندگی جیتے ہیں۔ ہم اپنے اخلاق, اپنا کردار, اپنی وُسعت سب کچھ کھو چُکے ہیں۔ حضور میں اپنے وقت کا گناہگار ترین شخص ہوں۔ اور اتنا شدید گناہگار ہوں کہ مجھے ہر گناہ کرنے والے کی مجبوری سمجھ آ جاتی ہے اِس لیے میں اُن سے نفرت نہیں کر پاتے۔ مجھے دُکھ ہوتا ہے روز مَرتی ہوئی انسانیت کو دیکھ کر۔ سڑک پے بھیک مانگنے والے شخص سے لے کر تخت و تاج والوں تک اور پانچ نمازیں پڑھانے والے مُلّا سے لے کر بڑی بڑی درگاہوں کے گدی نشنیوں تک سب اپنی اپنی فکر میں جی رہے ہیں۔ کسی کو بھی انسانیت کی یا انسانوں کی پرواہ نہیں ہے سب اپنی مسجد, اپنا حُجرہ, اپنا مُلک, شہر یا قصبہ, قبیلہ بچانے کی فکر میں مُبتلا ہیں۔ اور اب تو یہ تقسیم ہم میں اِس قدر گھُل چُکی ہے کہ ہم نے اِسے صرف اپنی ذات تک بھی محدود کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہم میں جو ہدایت والے ہیں وہ لوگوں کی جہالت کے باعث اپنا آپ چھُپائے بیٹھے ہیں۔ اور اِس عالم میں ہر مذہب میں بیٹھے دین کے ٹھیکے داروں نے مذہب کے نام پر انسانیت کا قتلِ عام شروع کیا ہوا ہے۔ آپ محسنِ انسانیت ہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں تمام انسان اور ہر طرح کی مخلوق کا وجود صرف اور صرف آپ کی ذات اقدس کے اظہار کی خاطر ہے۔ آپ نے اِس وقت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا سب اُسی طرح پورا ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ روز مَرتے ہیں, نہ مارنے والے کو پتہ ہے کہ وہ کیوں کسی کی جان لے رہا ہے اور نہ ہی مَرنے والا جانتا ہے کہ اُس کی جان کیوں لی گئی۔ آج ہمارا قبلہ عورت ہے۔ ہماری تمام خواہشات کا رُخ دنیا, نفس اور شیطان کی جانب ہے۔ اہل اللّٰہ اِسی باعث ہم سے دور ہو گئے ہیں کیونکہ ہم اُن سے بھی اللّٰہ نہیں بلکہ دنیا و نفس کی لذّت طلب کرتے ہیں۔
آج دنیا پرست, نفس پرست اور شیطانیت کی پوجا کرنے والے لوگوں کو واپس بُلانے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود اپنے اوپر سب دروازے بند کر لیے ہیں۔ یارسول اللّٰہ وہی حال ہے جو آپ کے ظہور سے پہلے تھا بلکہ ہم لوگ شاید اُن سب سے بھی گئے گُزرے ہیں۔ میں اُنہی گناہگاروں میں سے ایک ہوں۔ میرا تعلق اُس دور سے جب بے لباسی, جھوٹ, دھوکہ, زنہ, چوری, سب عام ہے۔ لُوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ گناہوں کی بارش ہے, یارسول اللّٰہ میں گناہوں سے اپنا دامن نہیں بچا پایا۔ بلکہ دامن بچانے کی کوشش بھی نہیں کر پایا۔ میں اپنے وقت کے لوگوں سے مشابہ تقریباً سبھی گناہوں کا آئینہ ہوں۔ میں اپنے لوگوں کی جانب سے آپ سے گُزارش کرتا ہوں کہ ہمیں ہمارے دشمن نے قید کر لیا ہے۔ ہماری مدد کیجیے۔ اور اگر آپ نے ہماری مدد نہیں کی تو یقیناً ہم برباد ہو جائیں گے۔ یارسول اللّٰہ ہم جو بھی ہیں, جیسے بھی ہیں, آپ کے ہیں, اللّٰہ نے ہمیں آپ کی اُمت میں پیدا کیا اِس نسبت سے ہماری داد رسی بھی آپ کے ہاتھ ہے۔ یارسول اللّٰہ میرے لوگوں پے رحم فرمائیں۔ یارسول اللّٰہ ہمیں ایک کر دیجیے۔ یارسول اللّٰہ ہم لوگ شیطان کی قید میں مجبوری کی اُس حد تک جا پہنچے ہیں جہاں پاکباز عورتوں کو جسم اور ولی صفت مَردوں کو ضمیر بیچنا پڑ جاتا ہے۔ بچّوں سے اُن کا بچّپن اور بوڑھوں سے اُن کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔ ہم سب خاموش تماشائیوں کی طرح ایک دوسرے کی عزت کو پامال ہوتا دیکھتے ہیں۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں جانوروں کی طرح ذبح ہوتے دیکھتے ہیں لیکن کچھ نہیں بولتے, یارسول اللّٰہ ہمیں شیطان کے اِس سحر سے نکال کر محبت و عشقِ الٰہی کے سحر میں مُبتلا کر دیجیئے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جو مانگ رہا ہوں ہم لوگ اُس سب کے اہل نہیں ہیں لیکن ہمیں اہل بننے کی جانب دھکیلا تو جا سکتا ہے۔ تاکہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں تو عشقِ حقیقی کو پہنچ سکیں۔ یارسول اللّٰہ میری اور کوئی دُعا نہیں ہے۔ مجھے بس میرے لوگوں کی خیر درکار ہے۔ پلیز اللّٰہ سے کہیے کہ ہمیں اپنی جانب پھیر لے۔ اللّٰہ آپ کا ہے اور ہمیں ہمارا اللّٰہ تبھی ملے گا جب ہم آپ کے ہوں گے۔ یارسول اللّٰہ آپ رحمت اللعالمین ہیں پلیز میرے لوگوں پے اپنی رحمت برسا دیجیے۔ یارسول اللّٰہ آج وہ وقت ہے جب دنیا بھر میں مسلمان ہونا ایک گالی بن چُکا ہے۔ ہم سب خود بھی اپنے مذہب کو گالی دیتے ہیں اور دوسرے بھی ہمیں ہمارے مذہب کے باعث انسانیت کا دشمن گردانتے ہیں۔ یارسول اللّٰہ وہ مذہب جس کا نام ہی سلامتی ہے, وہ مذہب جو تمام انسانیت کی بھلائی کے لیے اُتارا گیا آج وہی مذہب ظلم و دہشت کا نشان بنا ہوا ہے۔ یارسول اللّٰہ اِس مذہبِ اسلام کو پھر سے سب انسانوں کے لیے سلامتی کا باعث بننے کا موقع دیجیئے۔ ہم میں موجود اُن خاص بندوں کو لوگوں پے ظاہر کر دیجیئے جو ہمیں ایک کر سکتے ہیں۔ ہمیں برباد مت ہونے دیجیئے۔ یارسول اللّٰہ ہمیں بچا لیجیئے۔ ہمیں پھر سے ایک کر دیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔"
شدید رقت کے عالم میں وہ روضۂ رسول کے سامنے کھڑا آج اپنے دل کی ہر بات اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے کہہ دینا چاہتا تھا اُس کے ضبط کا بند ٹوٹ چُکا تھا۔ اِس لیے وہ جو کچھ کہہ سکتا تھا اُس نے سب کہہ دیا۔ اِس دوران کسی شخص نے اُسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ "یارسول اللّٰہ میں نے سوچا تھا کہ آپ کے روضے کی جالیوں میں سے آپ کے روضے کے اندر کا منظر دکھائی دیتا ہو گا لیکن یہاں تو اندر بھی پردہ پڑا ہوا ہے شاید یہ ہماری ہی آنکھوں پے پڑے دنیا و نفس کے پردوں کا اثر ہے جس کے باعث ہمیں اندر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ یا پھر یہ سعودی حکومت کی ہمیں شرک سے روکنے کی کوشش ہے۔ خیر جو بھی ہے مگر آپ کے اور ہمارے بیچ پڑا یہ پردہ بہت تکلیف دہ ہے۔ یارسول اللّٰہ یہ پردہ اُٹھا دیجیئے, ہمیں اپنا جلوہ دکھا دیجیئے۔ اِس روتی, سسکتی انسانیت کو ظُلمت سے نکال لیجیئے۔" اسی دوران اُس کے ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک شخص اُس تک پہنچ گیا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر جالیوں کے قریب لے گیا۔ روضۂ رسول کی جالیوں سے کچھ فاصلے پر ایک اور آڑ کھڑی کی جاتی ہے تاکہ ایشین مسلمان روضۂ رسول کی جالیوں کو چھُو کر بھی شرک نہ کر سکیں۔ کچھ دیر اُس آڑ کے پاس کھڑے ہونے کے بعد اُس کے ساتھ موجود شخص نے اُس کا ہاتھ تھاما اور اُسے لے جا کر روضۂ رسول کے ساتھ موجود ستونوں کے بیچ کھڑا کر دیا۔ وہ سب عشاء کی جماعت ہو جانے کے بعد مسجدِ نبوی پہنچے تھے اِس لیے اُس کی عشاء کی نماز ابھی رہتی تھی۔ اُس جگہ بھی بہت شدید رش تھا اور حج کے دِنوں میں کسی کو بھی وہاں زیادہ نماز نہیں پڑھنے دیتے بلکہ انتظامیہ کہ لوگ نماز کے دوران بھی لوگوں کو اُٹھا دیتے ہیں لیکن اُس نے سکون سے نماز ادا کی اور کسی نے اُسے وہاں سے بھی نہیں ہٹایا۔ نماز ادا کرنے کے بعد ایک اور شخص اُسے مِلا جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے واپس رہائشگاہ کی طرف لے گیا۔ وہ بھیڑ میں چل پھر نہیں سکتا تھا اِس لیے اُسے کسی سہارے کی ضرورت پڑتی تھی اور شہرِ رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی ایسی مہربان فضا تھی کہ جہاں اُسے ضرورت محسوس ہوتی اُسی جگہ کوئی نہ کوئی شخص اُس کی مدد کے لیے موجود ہوتا تھا۔
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 46)                                                                          
----------------
جب وہ اپنی رہائش پر پہنچا تو کمرے کی کھڑکی سے گنبدِ خِضرہ سامنے دکھائی دیتا تھا۔ صاف سُتھرے کمرے اور آرام دے بستر جیسے ہر چیز رحمتِ عالم کی رحیمی کا نمونہ ہو۔ اُس کے ساتھ موجود تقریباً سبھی لوگوں نے اِس بات کا ذکر کیا۔ سب کو  اِس بات احساس شاید اِس لیے بھی ذیادہ تھا کیونکہ مکّہ میں ملنے والے بستر چھوٹے اور کم آرام دہ تھے۔اُس نے سوچ رکھا تھا کہ جب سونے کے لیے لیٹوں گا تو آنکھ بند کر کے رسولِ خُدا سے اور ذیادہ التجائیں کروں گا۔ مگر جب سونے کا وقت ہوا تو اُسے لگا کہ اُس کے پاس الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ رِقّت کے عالم میں بس ایک ہی جُملہ بار بار اُس کے ذبان و دِل سے ادا ہو رہا تھا۔ "یارسول اللّٰہ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے ۔ یارسول اللّٰہ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔" میرے لوگ, میرے لوگ, کہتے کہتے کب وہ نیند کی وادی میں اُتر گیا اُسے پتہ بھی نہ چلا۔ فجر کے وقت آنکھ کھُلی اور روضۂ رسول کے پاس مسجد کے صحن میں نماز ادا کرنے کے بعد وہ بہت دیر تک دور بیٹھا روضۂ رسول کو, گنبدِ خضرہ کو اور گنبد کے پس منظر میں چمکتے چاند کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اکثر اسمِ اللّٰہ کو اپنے تصور میں رکھتا۔ اور ہر وقت اپنی سوچ کے ہر منظر میں اللّٰہ کے نام کو ساتھ رکھنے کی کوشش کرتا۔ اسی سوچ میں وہ اکثر اسمِ محمد اور اسمِ علی بھی دیکھا کرتا اور دل زبانی اپنی کیفیت بیان کر کے سکون حاصل کر لیتا تھا۔ ایک دفعہ اُس نے اِس بات کا ذکر کسی دوست سے کیا تو اُس کے دوست نے پوچھا "تم اِن ناموں کا تصور کرتے ہو, اُن سے بات کرتے ہو, تو کیا اُن کی طرف سے جواب بھی آتا ہے۔؟" تو اُس نے جواب دیا کہ "مجھے کسی نہ کسی صورت اپنے سوالوں کے جواب مل ہی جاتے ہیں۔ اُن ناموں سے میں نے کبھی جواب کی ضد نہیں کی۔ میں بس کہہ دیتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے مجھے جواب بھی مِل جاتا ہے۔ میں تو بس اِن مقدس ناموں سے اپنا احساس بیان کرنے پے یقین رکھتا ہوں۔ جواب آئے یا نہ آئے سوال کرتے رہنے چاہیے۔ اور ویسے بھی جو لوگ جواب آ جانے کو سوال سُن لیے جانے کی دلیل سمجھتے ہیں وہ اکثر جواب نہ ملنے پر مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ مقدس ہستیاں ہیں میری ہمت نہیں ہوتی کے جواب کی خاطر بار بار سوال کروں۔ اِس لیے میں سوال کر کے سُن لیے جانے کا یقین کر لیتا ہوں اور اعتماد رکھتا ہوں کہ اگر میرا سوال جواب کے لائق ہوا تو جواب ضرور ملے گا اور جواب نہ ملے تو میں جواب کی ضد کرنے کی جگہ اپنا سوال بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔"
اُس روز گُنبدِ خِضرہ کے پس منظر میں چمکتے چاند کو دیکھتے ہوئے جب اُس نے اپنے تصور پے غور کیا تو اُسے اسمِ علی دکھائی دیا اور یاد آیا کہ یہ تصور اُس وقت سے مسلسل اُس کے ساتھ ہے جب وہ روضۂ رسول کے ساتھ ریاض الجنئہ میں مختلف ستونوں کے قریب نماز ادا کر کے آیا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ اُن ستونوں کے بیچ ایک ستون کا نام ستونِ علی تھا۔
[5/9, 1:17 PM] محمد اسماعیل: مسجدِ نبوی میں شدید رش کے باعث وہ دوبارہ روضۂ رسول کی جالیوں کے سامنے نہیں جا سکا۔ قریب نو دن اُسے مدینہ میں گُزارنے کا موقع مِلا۔ ہر روز وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی رہائش پے آتا اور جب ظہر کی نماز کے لیے مسجدِ نبوی میں جاتا تو عشاء پڑھ کر ہی واپس آتا۔ لوگوں کو آتا جاتا دیکھنا اور اپنی سوچ کی زبانی اللّٰہ کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے محوِ فریاد رہنا اُس کا معمول تھا۔ لوگ نماز کے بعد تلاوت کرتے نفلی نمازیں اور مسنون دُعائیں پڑھتے جبکہ وہ نماز پڑھ کر اکثر سو جایا کرتا تھا یا پھر درود شریف پڑھتا رہتا تھا۔ اور بِنا کچھ کھائے پیے ظہر سے عشاء تک کا وقت گُزارتا۔ اُسے ہر وقت سگریٹ پینے کی عادت تھی لیکن مسجدِ نبوی کے سرور میں اُسے سگریٹ کی بھی طلب نہیں ہوتی تھی۔ اُسے مسجدِ نبوی کے ارد گرد موجود بُلند و بالا عمارتیں عجیب لگ رہی تھیں اُسے یاد آیا کہ مکّہ میں بھی اُسے حرم کے گِرد حرم سے اونچی عمارات دیکھ کر بہت عجیب محسوس ہوا تھا۔ دل نے اُسے سمجھایا کہ "بادشاہوں کی خواہشات کی تکمیل میں آج کل کے علم و حکمت کے ٹھیکے دار کچھ بھی کہہ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ بات سمجھتے ہوئے تُو اِس سب کو دیکھ کر حیران کیوں ہوتا ہے۔ اپنے وقت کے لوگوں کو دیکھ, کیا انہیں اِس سب سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ اللّٰہ کے گھر کی عمارت اونچی ہونی چاہیے یا نیچی۔؟ یہ تو بس اپنی دنیا بُلند کرنا چاہتے ہیں اور بس۔"
مسجدِ نبوی میں روز وہ بہت سے لوگوں کو دیکھتا الگ الگ مُلکوں سے آئے مسلمانوں کو الگ الگ انداز میں ایک ساتھ باجماعت نماز پڑھتے دیکھ کر اُس کے دل کو ایک گہرا سرور حاصل ہوتا تھا۔ سعودی عرب میں ایک مسلک کے علاوہ کسی دوسرے مسلک کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ حج پے جاتے ہوئے آپ کسی قسم کی کوئی کتاب نہیں لے جا سکتے۔ لیکن تمام راستہ ایک خاص قسم کا لِٹریچر پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے جو ایک خاص سوچ کی تبلیغ کرتا ہے۔ جہاں مختلف مسلک رسول اللّٰہ کو محترم اور مکرم ترین ذات مانتے ہوئے اُن کی پیروی کرتے ہوئے بُلند ہونے کی بات کرتے ہیں وہیں اِس سوچ کے ماننے والے, لوگوں کو رسولِ خُدا کو اپنے برابر لا کر سوچنے کا درس دیتے ہیں۔ اُنہیں اپنی طرح کا انسان سمجھ کر دین سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی لیے اکثر لوگ حج و عُمرہ کر لینے کے بعد شرک و بدعت کے فتوے صادر کرنے میں بہت ماسٹر ہو جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگ ہر بات کا ریفرنس پوچھنے کے بھی ماسٹر ہوتے ہیں لیکن اپنی بات کے ریفرینس میں عام طور پر اِن کے پاس ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ہم نے یہ بات حرم میں سُنی ہے۔
لیکن اُس نے کبھی کسی کتابی ریفرینس پر کسی بات کو قبول یا رد نہیں کیا تھا کیونکہ اُس کا ماننا تھا کہ حق خود اپنے ہونے کی دلیل ہوتا ہے اِسی لیے وہ ہر بات کو اِسی روشنی میں دیکھتا تھا۔
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 47)                                                        
----------------
ایک صاحب مسجدِ نبوی میں الگ الگ لوگوں سے بات کرتے ہوئے اُسے روز دکھائی دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی اُس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اِس کی ایک وجہ اُس کا کالا لباس بھی تھا۔ اُس روز وہ آنکھ بند کیے لیٹا ہوا تھا اور دل دل میں درود شریف پڑھ رہا تھا کہ اپنے پاس بیٹھے لوگوں کی گفتگو سُن کر وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اُس نے دیکھا کہ وہی صاحب کسی شخص کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ "صرف اللّٰہ سے مانگو, اللّٰہ کے سوا کسی سے بھی کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ کسی سے کیوں کہا جائے کہ میرے لیے دُعا کیجیئے جب اللّٰہ تمھاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہے تو تمھیں چاہیے کہ تم خود اُس سے مانگو۔" اُسے اپنی جانب متوجہ دیکھ کر اُن صاحب نے اور زور سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا "کسی پیر, فقیر سے جا کر کیوں کہا جائے کہ ہمارے لیے دُعا کرو۔ اگر وہ اتنا قریب ہوتا تو اپنے لیے دُعا کر کے خود امیر نہ ہو جاتا۔؟ گھر بنا لیتا, فقیر کیوں بنا پھر رہا ہے۔؟ لوگوں کو ایسی دُعاؤں کے لالچ دے کر یہ پیر وغیرہ لوگوں کو شرک و بدعت پر مائل کرتے ہیں اور لوگوں کے مال کے ساتھ ساتھ اُن کا ایمان بھی لُوٹ لیتے ہیں۔ دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا بدعت ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کبھی صحابہ نے رسول اللّٰہ کا میلاد منایا ہو۔ یہ سب کیا ہے یہ گیارویں منانا, جمعراتیں منانا۔ اور آج کل تو میوزک بھی اِس کا حِصّہ بن چُکا ہے۔ مطلب ایک تو بدعت کا عذاب اوپر سے ایک اور حرام چیز کو ساتھ شامل کرنے کا عذاب الگ سے ہے۔ بیشک گُمراہی مذید گُمراہی کا باعث بنتی ہے۔ آپ چلیں میرے ساتھ مولانا صاحب کا بیان سُنیں اور اپنے دین کو پہچانیں, ہدایت حاصل کریں۔" اُس نے اور دوسرے شخص نے کوئی جواب نہ دیا تو اُس شخص نے مذید کہا "آپ لوگ اتنی دور سے یہاں آئے ہیں محض نمازیں اور تلاوت مت کیجیئے۔ اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش کیجیئے ہم انجانے میں ایسی بہت سی حرکتیں کر جاتے ہیں جو شرک و بدعت کے زُمرے میں آتی ہیں یہاں آئے ہیں تو کچھ سیکھ کر جائیں۔" اُس شخص کے شدید اصرار پر اُس نے سوچا کہ اِن صاحب کی اتنی ساری محنت کے صِلے میں انہیں کچھ نہ کچھ جواب تو دینا ہی چاہیے اِس لیے اُس نے کہا"جی انشاء اللّٰہ ضرور سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ ماشاء اللّٰہ آپ بہت محنت اور لگن سے لوگوں تک دین کی سمجھ پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے آپ یہ کارِخیر کتنے عرصے سے سر انجام دے رہے ہیں۔؟" اُس کے مُنہ سے اپنی تعریف سُن کر اُن صاحب نے فوراً ترنگ میں آتے ہوئے کہا "بس میں تو اپنی پوری زندگی دین کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں بھی آپ بھائیوں کی طرح پاکستان سے ہوں۔ ہر سال اللّٰہ مجھے میرے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ اِس پاک سر زمین پر آنے کا موقع دیتا ہے۔ میں آٹھ حج کر چُکا ہوں اور بہت سے عُمرے بھی کیے۔ ہماری جماعت ہر سال لوگوں کو یہاں بھیجتی ہے ہم تبلیغ بھی کرتے ہیں اور حج و عُمرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔"
اُن صاحب کی بات پر اُس نے کہا "میں جب یہاں آ رہا تھا تو اتنے سارے لوگوں نے دُعا کرنے کو کہا تھا۔ آپ تو ہر سال یہاں آتے ہیں آپ سے بھی بہت سارے لوگ دُعا کرنے کو کہتے ہوں گے نا۔؟" تو اُن صاحب نے بدستور اپنی سعادتوں پے اِتراتے ہوئے کہا "ہاں بہت سے لوگ ہر سال بہت سی دعائیں کرنے کو کہتے ہیں میں نے تو ڈائری رکھی ہوئی سب کی دُعائیں لکھ کر لے آتا ہوں اور کعبے کے سامنے بیٹھ کر سب کی دُعائیں اللّٰہ کے گھر تک پہنچا دیتا ہوں۔" اُن کی بات سُن کر اُس نے مُسکراتے ہوئے کہا "آپ نے وہاں کبھی کسی کو یہ نہیں کہا کہ اللّٰہ سے مانگو مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو یا یہ کہ اللّٰہ سے ڈائریکٹ دُعا مانگو وہ تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ وہاں نہیں بتایا لوگوں کو کہ کسی سے دُعا کرنے کو کہنا شرک ہو جاتا ہے۔؟ اگر آپ اپنی ڈائری میں دُعا نوٹ کر کے اللّٰہ کے گھر تک پہنچا سکتے ہیں تو یقیناً جس کا دل اللّٰہ کا گھر ہو وہ بھی لوگوں کی دُعا اللّٰہ تک پہنچا سکتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن میں لوگوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے دُعا کرنے کو کہا۔ میں نے تو نہیں سُنا کہ کسی کو یہ جواب ملا ہو کہ مجھ سے نہیں اللّٰہ سے مانگو۔" اُن صاحب نے متذبب لہجے میں کہا "اور یہ جو قبروں سے جا کے دُعائیں مانگتے ہیں یہ بھی تو شرک ہی ہے۔ قبروں سے کیوں مانگتے ہیں لوگ۔؟ جب کہ مرنے والا مَر گیا اب تو وہ خود محتاج ہے اُس نے کسی کے لیے کیا کرنا ہے اب۔؟ بجائے اِس کے کہ صاحب قبر کے لیے دُعا کی جائے یہ لوگ اُلٹا اُنہی سے دُعا مانگنے لگ جاتے ہیں, یہ لوگ پیروں فقیروں کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں, مرنے والا مر گیا, پتہ نہیں قبر میں ہڈیاں بھی ہوں گی کہ نہیں اور یہ لوگ اُن سے اِس طرح مدد مانگتے ہیں جیسے وہی سب کچھ ہوں۔"تو اُس نے ذرا سنجیدہ لہجے میں کہا "قبر میں ہڈیاں, آپ کی اور میرے جیسے لوگوں کی سڑائی جاتی ہیں اللّٰہ والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اِس کی واضح مثال ہمیں واقعہ معراج میں ملتی ہیں۔ وہ انبیاء جنہوں نے رسول اللّٰہ کی اقتدا میں بیت المقدس میں نماز ادا کی تھی وہ سب اُس وقت صاحبِ قبر تھے۔ ہم مسلمانوں پر پانچ نمازیں اور تیس روزے بھی کسی صاحبِ قبر ہی کے مشورے کے باعث فرض ہوئیں تھیں۔ موسیٌٰ اُس وقت صاحب قبر ہی تھے جب انہوں نے رسول اللّٰہ سے سفرِ معراج کے دوران ملاقات کی۔ کیا اِس واقعے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صاحبِ قبر سُنتے بھی ہیں اور سفارش بھی کرتے ہیں۔" اُن صاحب نے چِڑ کر کہا "آپ انبیاء کی بات کر رہے ہیں۔ آج کل وہ لوگ کہاں۔؟"
 محمد اسماعیل: میں مانتا ہوں کہ اکثر لوگ اپنا منفرد انداز بناتے بناتے کچھ ذیادہ ہی منفرد ہو جاتے ہیں اور اُن کا اندازِ بیاں اکثر ادب کی حد سے باہر ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ سب شرک و بدعت میں نہیں آتا۔ "بھر دو جھولی میری یامحمد" اِس طرح کے اشعار کو اکثر لوگ شرک گردانتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو ذات ہمارے وجود کی وجہ ہے, کُل کائنات کا نظام جن کے اظہار کی خاطر بنا وہ ذات جس کے صدقے آسمان بارشیں برساتا اور زمین اناج اُگاتی ہے, وہ ذات جس کی وجہ سے انسان کو اللّٰہ سے عشق کرنے کی اجازت ملی۔ وہ ذات جس کی وجہ سے عجز و ایمان کی جھولی عطا ہوئی اگر وہ ذات بھی اِس جھولی کو نہیں بھر سکتی تو پھر اِسے کوئی بھی نہیں بھر سکتا۔ اللّٰہ کو لوگ جس کے وسیلے سے جانتے ہیں۔ جن کا نام لے کر لوگ اللّٰہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں جن کی محبت کو اللّٰہ نے خود تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا اُن سے سوال نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے۔ سب اللّٰہ ہی سے ہوتا ہے لیکن اللّٰہ نے ہر چیز کا سبب بنا رکھا ہے۔ اُس سبب کو پُکارنا پڑتا ہے۔ اکثر سُنا ہو گا کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اللّٰہ سے مانگو۔ لیکن اللّٰہ سے مانگنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری وسیلے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ اللّٰہ آپ کو تسمہ لا کر نہیں دیتا بلکہ آپ کے لیے سبب بنا دیتا ہے تسمہ آپ کو بازار سے ہی خریدنا پڑتا ہے آسمان سے نازل نہیں ہوتا۔ کسی دوست سے اُدھار مانگنا, کسی ڈاکٹر کے علاج سے شفایاب ہو جانے کی امید رکھنا, کسی سرکاری اہل کار کو رشوت دے کر اپنا کام نِکلوانے کی امید رکھنا یہ سب چیزیں بڑے آرام سے سمجھ آ جاتی ہیں اور یہاں شرک محسوس نہیں ہوتا لیکن جب کوئی شخص اللّٰہ کے رسول یا صالحین کی ارواح سے دین کی سیکھ سمجھ حاصل کرنے کا سوال کرتا ہے یا اپنی ظاہری زندگی کی مشکلات میں آسانی کی سفارش کرنے کو کہتا ہے تو ہم شرک کے فتٰوے صادر کرنے لگ جاتے ہیں۔"
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 48)                                                      
----------------
اُس شخص نے جھِلا کر کہا "اور یہ جو لوگ یاعلی مدد کہتے ہیں یا حضرت علی کو مُشکل کُشا کہتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟" تو اُس نے کہا "میں ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتا اگر میں کسی شخص سے مدد مانگوں گا تو کیا میں شرک کا ارتکاب کروں گا۔؟" اُس شخص نے چکرا کر کہا "لیکن جو موجود ہی نہیں وہ آپ کی مدد کیسے کر سکتا ہے۔؟" تو اُس نے کہا "موجود اور غیر موجود کی بات میں آپ سے پہلے بھی کہہ چُکا ہوں اِس لیے دُہراؤں گا نہیں۔ خیر آپ کا موبائل فون بہت اچھا لگا مجھے, کتنے کا ہے۔؟" ان صاحب نے فوراً اپنے قیمتی موبائل کی قیمت بتائی تو اُس نے کہا "ویسے یہ موبائل فون بھی بہت کمال کی چیز ہے اِس موبائل کے بنانے والے کی ذہانت کی داد دینی چاہیے جس کے دماغ نے لوگوں کے لیے اتنی آسانیاں پیدا کر دیں۔" تو اُن صاحب نے کہا "داد کا اصل مستحق تو گراہم بیل ہے جس نے فون ایجاد کیا تھا۔ حج کے سفر میں ہم لوگوں کے لیے اِس سے بہت آسانی ہو گئی ہے لوگوں کو ڈھونڈنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ میں تو گراہم بیل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اگرچہ وہ غیر مسلم تھا لیکن تمام انسانوں کی بہت سی مشکلات آج بھی اُس کے دم سے حل ہو رہی ہیں۔" اُس نے اُس شخص کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا "ویسے کیا گراہم بیل کو اُس کی موت کے بعد شکریہ کہنا شرک نہیں ہے۔؟" اُس شخص نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے مذید کہا "عجیب بات ہے نا کہ گراہم بیل تو مرنے کے بعد بھی لوگوں کی مدد کر رہا ہے اُن کی مُشکلیں آسان کر رہا ہے اور اُسے خراجِ تحسین پیش کرنے میں بھی کوئی بُرائی نہیں ہے لیکن اللّٰہ کے مقرب بندے جن کی زندگی کے حالات, جن کے فرمان, رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں اُن سے کچھ سیکھ کر یا اُن کے بُلند مرتبہ کو دیکھ کر اگر کوئی اُن سے مدد طلب کرے یا اُنہیں اپنی مشکل حل کرنے والا کہہ کر پُکارے تو ہم اُسے خارج از دین کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ایسی سوچ پر اور ایسے عُلماء پر جو معاشرت و ثقافت کو دین کے ساتھ ایسا گڈ مڈ کر کے پیش کرتے ہیں کہ لوگ نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے۔ تو اُن صاحب نے کہا کہ "میں تو ابھی طالب علم ہوں اور زندگی بھر طالب علم ہی رہوں گا, انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔ لیکن جس کا دل اللّٰہ نے ہدایت کے لیے بند کر دیا ہو ایسا شخص کبھی کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ ہم تو بحث نہیں کرتے کسی سے۔ تمھارا دین تمھارے لیے اور ہمارا دین ہمارے لیے۔" پھر اُس شخص نے رازدارانہ انداز میں اُس سے سوال کیا "آپ یہاں اور لوگوں سے تو بات نہیں کرتے۔؟" تو اُس نے سرد سے لہجے میں کہا "میں یہاں لوگوں سے بات کرنے نہیں آیا ہوں۔ ہاں اگر کسی کو بہت شوق ہو بات کرنے کا تو اُس سے اُس کی تسلی کی خاطر بات کر لیتا ہوں۔ آپ بے فکر رہیں آپ کے حصّے کے بیوقوفوں کو میں یہاں کچھ نہیں کہوں گا۔ اب آپ جائیں کسی اور کو جا کہ شرک و بدعت سمجھائیے گا۔" وہ صاحب اُس کا انداز دیکھ کر بنا کچھ کہے اپنی جگہ سے اُٹھ کر چلے گئے۔ کیونکہ وہ سمجھ چُکے تھے کہ اُن کی دال یہاں نہیں گلنے والی۔
اُس شخص کے جانے کے بعد اُس نے خود کو ملامت کی کہ تُو نے اُس کا دِل دُکھایا لیکن دِل نے کہا کہ "وہ جس ارادے سے آیا تھا اُسے ایسا ہی جواب ملنا چاہیے تھا ورنہ وہ جان نہ چھوڑتا اور نہ جانے کون کون سے فتٰوے سُننے کو ملتے اِس لیے جو ہوا اچھا ہوا۔ ادھورا علم فتنہ ہوتا ہے۔ عجیب لوگ ہیں خود مانتے ہیں کہ ابھی طالب علم ہیں اور پھر بھی اُستاد بن کے لوگوں کو سِکھانے کی کوشش کرتے ہیں, پہلے اپنی تعلیم تو مکمل کر لو پھر سِکھانے کی کوشش کرنا۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں معاشرے میں جو کسی بھی بات کو پوری طرح جانے بغیر ہی اُسے آگے بیان بھی کرتے ہیں اور اپنے نظریے کی پیروی کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں, یہی نہیں بلکہ اپنا نظریہ نہ ماننے والوں کو خارج از دین گرداننے سے بھی باز نہیں آتے۔
کسی جاننے والے کا عاجزی میں خود کو کم علم کہنا جائز ہے لیکن جو شخص علم والا ہو اُس کی کیفیت یہ نہیں ہوتی ہے کہ میں تو کم علم ہوں, وہ تو کہتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہو پوچھ لو, میں جواب دوں گا۔ اگر کوئی شخص خود کو کم علم سمجھتا ہے تو اُسے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔ یا پھر اپنی رائے کو آخری رائے سمجھتے ہوئے دوسروں کے دماغ پر لادنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب تک کسی شخص کو کسی چیز کا پورا علم نہ ہو تو ہم عام زندگی میں بھی اُس کا اعتبار نہیں کرتے لیکن دین مذہب کے معاملے میں فوراً یقین کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے آئیے میں آپ کا علاج کر دوں تو آپ اُسے کہیں گے کہ بھائی پہلے اپنی ڈگری مکمل کر لے بعد میں میرا علاج کر لینا۔ لیکن دین کے معاملے میں لوگ کالج میں ایڈمشن لیے بغیر ہی ایک دوسرے کا آپریشن کرتے پھرتے ہیں اور لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ اِس آپریشن میں اُن کا دِل نکال لیا گیا ہے اور مُردہ جسم کو لوگوں کے بیچ تعفن پھیلانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔
اِس طرح کے لوگ ہر مذہب و مسلک میں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دماغ چھوٹے اور مُنہ بڑے ہوتے ہیں اِس لیے ایسے لوگ دین دھرم کے معاملے میں اکثر بہت جلدی آگ بگولا ہو جاتے ہیں یہ لوگ بہت پُر اعتماد انداز میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مانتے بھی ہیں کہ اُن کی رائے ناقص ہے مگر پھر بھی اظہار کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اِس دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کی اصل تعلیمات سے غافل ہیں اور اسی لیے ایسی ناقص رائے رکھنے والے لوگ دین اور علم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔"
اُس نے اپنے دِل کی طویل تقریر سُن کے کہا "اے دِل تُو ٹھیک کہتا ہے لیکن اُس کی دِل آزاری ہوئی بس یہ بات مناسب نہیں لگی مجھے۔" تو دل نے کہا "یہ تمھارا ظرف ہے کہ تم یہ محسوس کر رہے ہو۔ یہ اعلی ظرفی ہے کہ تم اپنے دشمن کو معاف کر دو لیکن جو اللّٰہ کا دشمن ہے, یا اللّٰہ کی مخلوق کا دشمن ہے, اُسے معاف کرنے کا اختیار تمھارے پاس نہیں ہے۔ یہاں بات ظرف کی نہیں ذمہ داری کی ہے۔ جو شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہو اُس کی دِل آزاری کر دینی چاہیے, ہو سکتا ہے کہ اِسی بہانے وہ راہِ راست پر آ جائے اور اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اگلی بار کسی سے ایسی بات کرتے ہوئے وہ ایک بار سوچے تو صحیح کہ وہ جو بات کہنے جا رہا ہے اُس کا مکمل علم بھی ہے اُس کے پاس یا نہیں۔" اُس نے کہا "میں سمجھتا ہوں تیری بات لیکن میں تو سب کو ایک ہونے کا درس دینا چاہتا ہوں۔" تو دل نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا "سب لوگ ایک نہیں ہو سکتے, حق و باطل قیامت تک کے لیے ہیں۔ سب کو ایک کرنے کی کوشش اچھی ہے لیکن سب کسی ایک جانب تو نہیں آ سکتے نا۔ کوئی نہ کوئی تو مخالف رہے گا ہی۔ اور جو بات تم کہنے جا رہے ہو, اُس میں تو مخالفوں کی قطار لگنے والی ہے۔ کس کس کی دِل آزاری سے بچنے کی کوشش کرو گے۔؟ اور اگر یہی کرتے رہو گے تو اپنی بات کیسے پہنچاؤ گے لوگوں تک۔؟ اِس لیے حق بات کے بیان میں حق کے سوا کسی کی پرواہ مت کرنا۔ بِنا تصدیق بات کرنے والے بہت ہوتے ہیں تصدیق کے ساتھ بات کرنے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔ اور بات کی تصدیق حدیث کا ریفرینس جان لینے سے نہیں بلکہ دل کے اقرار سے ہوتی ہے۔ اگر ریفرینس سے دل کی تصدیق ہو جاتی ہوتی تو آج زمین پر ایک ہی مذہب ہوتا۔ اگر تمھیں تورات یا انجیل کے صدیوں پرانے نُسخے مل جائیں تو کیا اُنہیں پڑھ کر تم اپنا مذہب بدل لو گے۔؟ مذہب تو دور لوگ محض احادیث کے ریفرنسز سے خود اپنے دل کو اپنے مسلک پر بھی راضی نہیں کر پاتے۔ کتابیں پڑھ لینے سے تصدیق نہیں مل جاتی, تصدیق تب تک نہیں ملتی جب تک کہ دِل کو احساس حاصل نہ ہو۔ حق کو محسوس کیے بغیر انسان اپنے جسم کو اپنے دماغ کو راضی کر سکتا ہے لیکن اِس سے دِل راضی نہیں ہوتا۔ بِنا تصدیق کے بات آگے بیان کر دینے والوں کو اسی لیے ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ تصدیق سے خالی زبان کا علم فتنہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ آج ہر مذہب و مسلک بلکہ زندگی کے ہر شُعبے میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے ادھورے علم سے دوسرے لوگوں کا نقصان کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ بس یہی غلطی ہے ہماری کہ ہم ایسے لوگوں کو جواب دینے کی جگہ اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں۔ اگر انسانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو اُنہیں سب سے پہلے اپنے ادھورے علم کے اظہار سے روکنے کی کوشش کرو تاکہ لوگ مکمل بات کرنے والوں کی بات پر کان دھر سکیں۔" اُس نے کہا "اے دل میں پہلے کبھی تجھ سے جیت سکا ہوں جو آج جیت جاؤں گا۔؟ تُو ٹھیک کہتا ہے مگر پھر بھی میں کم سے کم ایک بار اپنی بات سب کو سمجھانے کی کوشش ضرور کروں گا پھر اللّٰہ کی مرضی وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گُمراہ کرے۔"
مسجدِ نبوی میں اُسے بہت سے لوگ ملے جنہیں وہ جانتا نہیں تھا۔ اُن انجان لوگوں میں کچھ ایسے تھے کہ انہیں دیکھ کر دل عقیدت سے جھُکا جاتا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں دیکھ کر ہی اُس کا دل اُنہیں سخت الفاظ میں مخاطب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ اُس نے دونوں جگہ دل کو سنبھالنے کی کوشش کی اور خود کو میانہ روی پر مائل رکھنے کی کوشش کی۔ لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوئے اُسے اکثر خیال آتا کہ اقبال کے اشعار جو انہوں نے "ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام" کے عنوان سے کہے تھے, آج ہم ان اشعار کی ایسی تصویر بنے بیٹھے ہیں گویا ابلیس کا وہ فرمان اُس کے سیاسی فرزند حرف بہ حرف پورا کر چُکے ہوں۔
لا کر برہمنوں کو سياست کے پيچ ميں
زناريوں کو دير کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہيں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخيلات
اسلام کو حجاز و يمن سے نکال دو
افغانيوں کی غيرت ديں کا ہے يہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روايات چھين لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تيز
ايسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)
 فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 49)                                                                
----------------
مدینہ میں اپنے سبھی دن رات اُس نے مسجدِ نبوی میں یا اپنے ہوٹل کے کمرے میں گُزارے۔ اُس کے ساتھ کے سب لوگ مختلف زیارتوں پر گئے مگر وہ کسی زیارت پر نہیں گیا۔ اُس کی والدہ اور اُس کے ساتھ موجود اکثر لوگوں کو اُس کی یہ حرکت ناگوار گُزری۔ مگر اُس نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا۔
اُس کا ماننا تھا کہ ہم کسی ظاہری مقام سے اللّٰہ کے قریب یا دور نہیں ہو سکتے بلکہ وہ تو گناہ اور ثواب کے بارے میں بھی یہی فلسفہ رکھتا تھا کہ کوئی گناہ انسان کو اللّٰہ سے دور نہیں کرتا اور نہ ہی ثواب اللّٰہ کے قریب کرتا ہے۔ اُس کے کسی دوست نے اُس کی یہ بات سُن کر کہا "بھائی عجیب سائنس ہے تیری, اگر گناہ ثواب بندے کو قریب یا دور نہیں کرتے تو گناہ ثواب کا مقصد کیا رہ گیا۔" تو اُس نے کہا "جو ہر جگہ موجود ہو اُس سے کیسی دوری اور کیسا قُرب۔ یہ گناہ ثواب انسان کی اپنی سوچ کے پردے ہیں۔ اصل میں جب ہم گناہ کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو پست کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان کا ایک اصل مقام ہوتا ہے اور اُس اصل مقام سے پست درجات کے بہت سے کام انسان پر فرض ہوتے ہیں۔ اِس بات کو یوں دیکھو کہ جیسے کھانا پینا وغیرہ انسان کی شخصیت کا حصّہ نہیں ہے بلکہ اُس کی جسمانی ضرورت ہے۔ وہ کسی بھی درجے کا انسان ہو اُس کے لیے کھانا پینا ضروری ہے لیکن ہم کسی انسان کو اُس کے کھانے پینے سے نہیں بلکہ اُس کے اخلاق و کردار کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ہر شخص اپنے درجات سے اُتر کر نِچلے درجات پر جاتا ہے اور پھر واپس اپنے اصل مقام پر آ جاتا ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ شخص رفع حاجت کرتا ہے, ہم بستری کرتا ہے, لیکن یہ سب اُس کا کردار نہیں ہوتا۔ ایک جائز حد ہے جہاں تک انسان جا سکتا ہے, اُس حد سے تجاوز انسان کو گناہ میں مُبتلا کرتا ہے۔ گناہ کرنے سے انسان اپنے نفس کی نظر میں چور بن جاتا ہے۔ جیسے کسی شخص کے سامنے کوئی گناہ کرنا انسان کو اُس شخص کی نظر میں گِرا دیتا ہے اور اس وجہ سے ہم خود اُس کے سامنے بھلائی کی بات کرتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ جیسے جس شخص کو پتا ہو کہ ہم نماز کے پابند نہیں ہیں اُس شخص کو ہم نماز پڑھنے کا کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں لیکن جو ہمیں نہیں جانتا اُس کے نماز نہ پڑھنے پر ہم اُسے سختی سے ٹوکنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اسی طرح ہم اچھائی یا بُرائی کر کے اپنے نفس کی نظر میں بُلند یا پست ہوتے ہیں جسے ہم عام طور پر اللّٰہ کے قریب یا دور ہونا سمجھتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو یہی نفس اُس کا آئینہ بن کر اُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ تُو نے فلاں گناہ کر لیا اب تُو اللّٰہ سے دور ہو گیا ہے یا پھر یہ کہ تُو نے فلاں نیکی کی اب تو تُو اللّٰہ کے بہت قریب ہو گیا ہے۔ یہ دونوں سوچیں باطل ہیں۔ اللّٰہ اعمال سے نہیں خلوص سے ملتا ہے اور خلوص یہی ہے کہ اپنا آپ اُس کی ذات میں گُم کر دیا جائے۔ اُسے گناہ و ثواب, اجر و عذاب کی سوچ سے ہٹ کر سوچا جائے۔ ایک دوست کی طرح اُسے ہر وقت ساتھ رکھا جائے اور ایک دوست کی طرح مخاطب کر کے اُس سے بات کی جائے" اُس کے دوست نے حیرت سے کہا "دوست کی طرح مخاطب کر کے کیسے بات کی جا سکتی ہے اللّٰہ سے۔؟ اُس سے بات کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ بِنا وضو کے تو ہم نماز نہیں پڑھ سکتے اُس سے ہمکلام ہونا تو دور کی بات ہے۔" تو اُس نے کہا کہ "اسی لیے تو اللّٰہ نے کہا کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں وہ میرے ساتھ جیسا چاہے گمان کرے۔ جو لوگ اُسے ثواب, عذاب, حساب, کتاب والا سمجھتے ہیں اُن کے ساتھ وہ ویسا ہی بن کے ملتا ہے اور جو لوگ اُسے اپنا دوست سمجھ کر ساتھ رکھتے ہیں اُن کے ساتھ وہ دوست بن کر ہی رہتا ہے۔ جیسے کسی بھی غلطی کے باوجود اپنی ماں سے انسان یہ امید رکھتا ہے کہ وہ اُسے معاف کر دے گی اُسی طرح کی امید اللّٰہ سے بھی رکھنی چاہیے اور کسی گناہ کو اپنے اور اللّٰہ کے بیچ حائل نہیں کرنا چاہیے۔ اصل دوری یہی ہے کہ اللّٰہ کی جانب جاتے ہوئے کسی خطا کو مانع سمجھا جائے۔ یہ نفس ہے جو انسان کو کسی نہ کسی بہانے اللّٰہ کی جانب جانے کا حوصلہ اکھٹا کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ بس پہلا قدم ہی فیصلہ کرتا ہے کہ انسان میں راہ چلنے کا حوصلہ ہے کہ نہیں, اور شیطان اسی پہلے قدم کو روکنے کے لیے انسان کی سوچ میں کُوٹ کُوٹ کر یہ بات بھرنے کی کوشش کرتا ہے کہ تُو اللّٰہ کی جانب پلٹ نہیں سکتا۔ جو لوگ پھر بھی حوصلہ کرتے ہیں شیطان اُنہیں پاکی ناپاکی کی فکر میں مبتلا کرتا ہے اور مسائل میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب کوشش تو شروع ہو گئی لیکن شک جان نہیں چھوڑتا۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بدنی پاکیزگی کے حوالے سے خود کو مطمئن کر پاتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ جیسا بھی ہوں اللّٰہ کے سامنے حاضر ہو جانا چاہیے کیونکہ میں ہر حالت میں اُسی کے سامنے حاضر ہوں۔ ہر انسان جانتا اور مانتا ہے کہ ہر حالت میں وہ اللّٰہ کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ گناہ کے ارادے سے لے کر گناہ کر لینے کے بعد تک انسان کسی کی نظر میں ہو یا نہ ہو لیکن اللّٰہ کے سامنے ضرور ہوتا ہے, یہ بات اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کسی بھی حال میں اللّٰہ سے دور نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف ایک احساس یا ایک سوچ ہوتی ہے جو اُس کی روح کو مفلوج کر رہی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ نماز ترک کر دینے کا ذمہ دار لباس کی ناپاکی کو قرار دے کر اپنے دل کو تسکین پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ عمل, سوچ اور کوشش کو اکھٹا کر کے پاکی ناپاکی کے شک پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو شیطان انہیں مذہب میں موجود مسلکوں کی تقسیم سے جُڑی باتوں میں اُلجھاتا ہے اور یہ باتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ کس کس کو ماننا ضروری ہے اور کس کس کو نہ ماننا ضروری ہے۔ کس طریقے سے نماز ہوتی ہے اور کس طریقے سے نماز نہیں ہوتی, کس کس کا عمل درست نہیں تھا, کون کون گمراہ ہوا اور کون راہ پر رہا اِس کا پرچار کر کر کے ایک دوسرے کو برباد تصور کرنا ہی تصور کی بربادی اور فساد کی جڑ ہے۔ اللّٰہ اپنی تمام مخلوق کے لیے کافی ہے۔ وہ ہر انسان کا رب ہے۔ اُس کی جنت دوزخ اللّٰہ کے ہاتھ ہے اللّٰہ کی مرضی ہے کہ وہ اُس سے راضی ہو گا یا نہیں۔ لیکن اِس بات کو لے کر ہم کیوں ایک دوسرے کی جنت دوزخ کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔؟" اُس کے دوست نے پوچھا تو پھر شیطان سے بچنے کا کیا راستہ ہے کیا ہے وہ دین جسے تھام کہ ہم شیطان کی چالوں سے بچ سکتے ہیں۔؟ شیطان بہت طاقتور ہے اُس کے پاس اتنے سارے حربے موجود ہیں۔ " تو اُس نے کہا "دین ایک دوسرے کے عیب بیان کرنا ایک دوسرے کو اُس کے عقائد کے اعتبار سے کافر, مشرک گرداننا نہیں ہے۔ دین سلامتی کا نام ہے۔ دین اپنی اصلاح کا نام ہے۔ انبیاء, اولیاء, صالحین اِن سب کا ذکر لوگوں تک قرآن و حدیث اور دیگر کتابوں کے ذریعے اِس لیے پہنچایا گیا تاکہ لوگ اپنی اصلاح کریں اور اُن کے جیسے کردار کا حامل بننے کی کوشش کریں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب و مسلک کے ماننے والے جتنا زور دوسرے لوگوں پر اپنے پیشوا کی عظمت ثابت کرنے میں لگاتے ہیں اُتنا زور اگر وہ اپنے پیشوا کا کردار اپنانے میں صرف کریں تو لوگ خود بہ خود اُن کے پیشوا کو حق مان لیں گے۔ لیکن سب کے سب محض باتوں سے اپنا مذہب و مسلک ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اپنے لوگوں میں بیٹھ کر اُن سے اپنے فہم و فراست کی داد وصولنے کی حد تک یا لوگوں کو اپنے اپنے مسلک سے جوڑے رکھنے کی غرض تک تو ٹھیک ہے لیکن ایک معاشرے کی حیثیت سے, بنی نو انسان کی حیثیت سے زمین پر امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے یہ طریقہ غیر موضوع ہے۔ تمام لوگ کسی ایک مذہب کا حصہ تب بن سکتے ہیں جب کسی مذہب کے لوگ آپسی جھگڑے ختم کر کے تمام انسانوں کے لیے سلامتی کا باعث بننے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب ہم ہر ایک کو مذہب و مسلک اور ذات برادری وغیرہ سے ہٹ کر صرف انسان مانتے ہوئے اُس کی اور اُس کے مذہب کی عزت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دین کی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو اپنے اندر موجود حرص, ہوس, لالچ, بُغض, اور نفرت جیسے دشمنوں سے لڑ کر ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کرنے کا سبق دیا کریں, دنیا اور شیطان سے مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو اللّٰہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ دینا دین کی بات ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا ہے جو انسان کو انسان کا دشمن بناتی ہو تو وہ کوئی بھی ہو وہ دین کی نہیں بلکہ گمراہی اور فساد کی بات کر رہا ہے۔ کیونکہ رحمٰن و رحیم ذات کا دین انسانیت کے لیے رحمت بننے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو جو لوگ مخلوقِ خُدا سے بھلائی کرنے کو, خوش خُلقی اور رحیمی کو دین سمجھتے ہیں وہ کسی بھی مسلک و مذہب میں رہتے ہوئے اللّٰہ کو راضی کر لیتے ہیں اور جو یہ نہیں سمجھ پاتے اُن کا کسی بھی مسلک و مذہب کو اپنانا بےمعنی ہے۔" اُس دن اُس کا دوست تو اُس کی بات اچھی طرح سمجھ گیا تھا لیکن وہ یہ بات جانتے ہوئے کہ ہر شخص میری بات کو نہیں سمجھے گا, اپنی بات ہر شخص تک ایک بار ضرور پہنچانے کا خواہشمند تھا۔
مدینے کی فضائیں اُس کے وجدان کو وسیع سے وسیع تر کر رہی تھیں اور انسانوں کی گمراہی کا غم اُس کے دل کو رُلائے جا رہا تھا۔ وہ بےچین تھا لوگوں کو کسی ایسی راہ کی خبر دینے کے لیے جو انہیں اُن کی جگہ پر رہتے ہوئے, تمام لوگوں کے لیے باعثِ رحمت بننے کی سعی کرنے کا درس دے سکے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رحمت اللعالمین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا دین مخلوقِ خُدا کے لیے باعثِ رحمت بننے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)


فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 50)                                                          
----------------
رات دن تیزی سے گُزر رہے تھے اُس کی آتے جاتے ایک ہی رٹ تھی "یا رسول اللّٰہ میرے لوگوں پے اپنی رحمت برسا دیجیئے۔ میرے لوگوں کی مدد کیجیئے۔ اللّٰہ میاں سے میری فریاد کہہ دیجیئے۔ میں جانتا ہوں کہ ہم لوگ بہت گناہ گار ہیں۔ اگر اللّٰہ کی رحمت ہم سے ہماری گناہ گاری کی وجہ سے دور ہے تو اللّٰہ سے کہیے کہ ان سب کے گناہ مجھے دے دے۔ میں نے سُنا ہے کہ روزِ حشر لوگ ایک دوسرے سے نظریں چُرانے کی کوشش کرتے ہوں گے کہ کہیں یہ ہم سے ہماری نیکیاں نہ مانگ لے۔ یہ بھی سُنا ہے کہ لوگوں کے حساب کتاب کے دوران اُن کے گناہ و ثواب دوسرے لوگوں کو دے دیے جائیں گے۔ تو میں رہتی دنیا میں اپنا آپ اللّٰہ کے حضور پیش کرتا ہوں کہ میرے لوگوں کے سب گناہ مجھے دے دیجیئے لیکن انہیں ایک کر دیجیئے۔ اب بس کر دیجیئے ہم انسان اور خصوصاً مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہمیں معاف کر دیجیئے ہمیں پھر سے اپنی جانب پلٹا لیجیئے۔ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے۔" مسجدِ نبوی میں گُزارے اپنے تمام وقت میں اُس نے صرف ایسی ہی دُعائیں مانگیں۔ کبھی دل میں اپنے لیے کچھ مانگنے کا خیال آتا تو وہ بار بار ایک ہی بات دُہراتا کہ "میرا رب مجھے جس حال میں رکھے میں اُس سے راضی ہوں۔ مجھے اللّٰہ سے کچھ اور طلب نہیں ہے۔" اکثر اپنے لیے کچھ طلب کرنے کا خیال آنے پر وہ لاحول بھی پڑھتا پھر کچھ سوچ کر کہتا کہ "اللّٰہ سے اگر اپنے لیے کچھ مانگنا ہی ہے تو پھر لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ ہونا طلب کرنا چاہیے۔" پھر وہ یہی مانگتا کہ اُسے اللّٰہ کی سچی راہ عام کرنے کا سبب ہونا نصیب کیا جائے۔
ایک صاحب جن کا نام عطا اللّٰہ تھا, وہ اور اُن کے چند رشتے دار اُس کے حج کے سفر کے ساتھی تھے۔ عطا اللّٰہ صاحب بھی ایک سرکاری ملازم تھے اور جلد ریٹائر ہونے والے تھے۔ مسجدِ نبوی آتے جاتے ہوئے وہ تقریباً ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتے تھے۔ مسجدِ نبوی سے آخری بار باہر آتے ہوئے وہ عطا اللّٰہ صاحب کے کندھے پے ہاتھ رکھے دوسرے ہاتھ سے اپنی چھڑی سنبھالتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور بار بار دل کی زباں سے ایک ہی بات دہرا رہا تھا "یا رسول اللّٰہ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے"۔ وہ بار بار پلٹتا, روضۂ رسول کی جانب دیکھتا کہ شاید دل کو کوئی آواز سنائی دے کہ "جا تیرے لوگوں کو بخش دیا گیا" اور کچھ نہ سنائی دینے پے دوبارہ آگے کی جانب قدم اُٹھانا شروع کر دیتا۔
اقبال کا یہ شعر اکثر اُس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا تھا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مسجد کے باہری دروازے کے قریب پہنچ کر اُس نے پھر پلٹ کے روضۂ رسول کی جانب دیکھنے کا ارادہ کیا تو اچانک اُس کے دل میں ایک جوش سخاوت سے بھرپور آواز کی گَرج سُنائی دی "کون ہیں تیرے لوگ۔؟" ایک پل کو اُس کا دل دھڑکنا بھول گیا, زبان گنگ سی ہو گئی مگر دوسرے ہی پل اُس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوراً کہا "جتنے انسان ہیں سب میرے لوگ ہیں۔" دل زبانی یہ بات کہتے کہتے اُس نے اپنا رُخ روضۂ رسول کی جانب پھیرتے ہوئے کہا "یا رسول اللّٰہ میں تمام انسانوں کی بھلائی چاہتا ہوں۔ میں اپنے وقت کے بد ترین لوگوں سے لے کر بہترین لوگوں تک کے لیے خیر مانگنا چاہتا ہوں۔ ہر سینے میں دل ہے, تو ہر دل میں رب بسنا چاہیے۔ یہ گناہوں میں ڈوبے, شیطان کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بنے لوگ, میرے لوگ ہیں, یہ ایک دوسرے کا خون بہانے والے, غریبوں کا خون چوسنے والے, میرے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو ہر پل مر مر کے زندگی گُزارتے ہیں اور پھر بھی اللّٰہ کو یاد نہیں کرتے, وہ بھی میرے لوگ ہیں۔ یارسول اللّٰہ یہ ظالم کرنے والے اور ظلم سہنے والے, سب میرے لوگ ہیں۔ میں اِن سب کی بھلائی چاہتا ہوں۔ یارسول اللّٰہ میری بس یہی عرض ہے کہ میرے لوگوں پے رحم ہو۔ یارسول اللّٰہ میری گزارش ہے کہ نسلِ آدم پے رحم کیا جائے اور اُنہیں کشت و خوں سے نکال لیا جائے۔
یارسول اللّٰہ ہمارے وقت کے پارسا لوگ گناہ گاروں سے دور رہتے ہیں کہ کہیں اُن کی پارسائی پے حرف نہ آئے۔ اور گناہ گار نیک لوگوں کے رویے کی وجہ سے نیکی ہی سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ بُرے لوگ, بُروں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ جو خود کو اچھا سمجھتے ہیں وہ صرف اپنے جیسوں کو ہی اچھائی کے لائق سمجھتے ہیں۔ یارسول اللّٰہ ہم سب ایک دوسرے کے خلاف شیطان کے مددگار بنے بیٹھے ہیں۔ اگر کسی کا گناہ پتا چل جائے تو اُسے اِس قدر زلیل کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو گناہ کو ہی زندگی بنانے پے مجبور ہو جاتا ہے یا پھر زندگی ہی ختم کر لیتا ہے۔ اللّٰہ معاف کر دیتا ہے لیکن ہم لوگ ایک دوسرے کو کبھی نہیں معاف کرتے۔ عمر بھر ایک ہی خطا کی سزا دیتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی ہماری دادرسی نہیں کریں گے تو ہم گناہگاروں کی کون سنے گا۔ میں اپنے وقت کے گناہگاروں کی طرف سے آپ سے فریاد کرتا ہوں ہماری مدد کیجیئے۔ میں اللّٰہ میاں سے اکثر کہتا ہوں کہ یہ سب میرے نہیں بلکہ تیرے لوگ ہیں پھر پتا نہیں کیوں اِن سب کا درد مجھے محسوس ہوتا۔ نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر یہ گناہگار پلٹے تو دنیا پلٹ دیں گے۔ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں اِن لوگوں کے لیے, اللّٰہ کی جانب پلٹنے میں لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میری نیت میں کھوٹ ہے یا میرے جیسا خطاکار اِس سعادت کے لائق نہیں ہے تو جو اِس لائق ہے اُسے دنیا پے ظاہر کر دیجیئے۔ کچھ ایسا ہو جائے کہ جسے دیکھ کر لوگ اُس کی جانب رجوع کر سکیں۔ بس اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔" اُسے کوئی جواب نہ مِلا اور وہ سر جھُکائے اپنی رہائش کی جانب چل پڑا۔ مگر اب اُس کے دل کو ایک سکون سا تھا کہ اُس نے اپنی عرضی پیش کر دی۔
علامہ اقبال کا کلام, نسل آدم کے لیے اُن کے دل میں موجود شدید محبت و فکر کا, منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر ایک جگہ خالقِ کائنات سے گویا محوِ شکوہ ہوتے ہیں اور اُس کی کائنات کی فکر کو اُسی کے حوالے کرتے ہوئے کچھ اشعار فرماتے ہیں۔ اُس کی حالت بھی اقبال کے ان اشعار سے ملتی جلتی تھی۔
اگر کج رو ہیں انجم, آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو, جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی
خطا کس کی ہے یارب۔؟ لامکاں تیرا ہے یا میرا
اُسے صبحِ ازل انکار کی جُرأت ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا, وہ رازداں تیرا ہے یا میرا
محمد بھی تیرا, جبریل بھی, قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں, تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی, زیاں تیرا ہے یا میرا
جس بات کی فریاد وہ کئی روز سے کر رہا تھا آج اُس بات کے حوالے سے وہ پُرسکون تھا۔ لیکن شہرِ مدینہ سے جانے کا خیال اُسے بےچین کر رہا تھا۔ مدینہ جانے سے پہلے جب وہ شاعروں کا ایسا کلام پڑھتا یا سُنتا تھا جس میں شہرِ مدینہ کا ذکر ہوتا تھا تو وہ ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ شاید یہ سب شاعر, مدینہ شہر سے اپنی محبت کے اظہار میں قیاس آرای کر رہے ہیں لیکن اُس شہر کی فضاؤں نے اُس کے دل پر یہ حقیقت واضح کی کہ واقعتاً شہر مدینہ کی فضاؤں کا بیان قلم و زباں سے ممکن ہی نہیں ہے۔
جب وہ مدینہ سے واپس مکہ پہنچا اور اپنی والدہ کے ساتھ عُمرہ کرنے مسجدِ حرم پہنچا تو کسی وہیل چیئر کا انتظام نہ ہو سکا اِس بات پر اُس کی والدہ خاصی پریشان تھیں۔ اُس نے اپنی والدہ کو تسلی دی کے اللّٰہ کرم کرے گا, جس نے اپنے گھر بُلایا ہے وہی طواف و سعی بھی کروائے گا۔ آپ بے فکر رہیں, اللّٰہ پے بھروسا رکھیں, اللّٰہ کرم کرے گا۔" دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد اُس نے دعا کی کہ "اللّٰہ میاں مجھے ہمت دیجیئے گا, میں اپنی والدہ کے لیے باعثِ زحمت نہیں بننا چاہتا" دُعا کرنے کے بعد اُس نے اپنی والدہ کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے چھڑی پکڑ کر طوافِ کعبہ کیا۔ اُس روز اُس نے اپنے اندر ایک عجیب سی طاقت محسوس کی جس نے اُسے پیدل چلتے رہنے کا حوصلہ دیے رکھا۔ نمازِ فجر کے بعد جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ حرم سے باہر آیا اور رہائشگاہ تک پہنچنے کے لیے ٹیکسی تلاش کی تو کچھ عرب ٹیکسی والوں سے سامنا ہوا جو لوگوں سے کافی بدتہذیبی سے پیش آ رہے تھے, ایک ٹیکسی والے نے پچیس ریال مانگے۔ : جب کہ اُس کی والدہ کا اصرار تھا کہ ہم  پندرہ ریال دے کر آئے تھے اِس لیے پندرہ ریال سے ذیادہ نہیں دینے چاہیے۔ ابھی اُس کی والدہ یہ بات کر ہی رہیں تھی کہ ٹیکسی ڈرایور نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گاڑی چلاتے ہوئے کہا بیس ریال۔ شاید وہ یہ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ اب تو تم میری گاڑی میں بیٹھ گئے ہو اِس لیے تم مجھ سے بھاؤ تاؤ نہیں کر سکتے اور میں جو رقم مانگوں گا تمھیں ادا کرنی پڑے گی۔ پھر سارا راستہ وہ ڈرایور اِس بات کا اظہار کرتا رہا کہ مجھے راستہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تم کس جگہ جانے کا کہہ رہے ہو۔ جبکہ وہ مشہور جگہ تھی اور جگہ پوچھ کر ہی تو اُس نے کرایہ بتایا تھا۔ راستے میں اُس نے ایک ایشین شخص کے پاس گاڑی روکی جو اردو اور عربی دونوں بول سکتا تھا اُس شخص نے اُس سے پوچھ کر ڈرائیور کو راستہ سمجھایا مگر تھوڑی دیر بعد ڈرائیور گاڑی گھُما کر دوبارہ اُسی شخص کے پاس پہنچ گیا۔ اُس نے اُس شخص سے کہا "اِسے میری بات سمجھ نہیں آ رہی لیکن آپ کی بات تو سمجھ آنی چاہیے۔ میں ایک بلڈنگ کا نام لے رہا ہوں کوئی لمبا چوڑا راستہ تو نہیں بتا رہا جو سمجھ نہیں آ رہا" تو اُس شخص نے کہا "میں نے سمجھایا ہے راستہ لیکن پتہ نہیں کیوں اِسے سمجھ نہیں آ رہا خیر میں پھر سمجھاتا ہوں۔" اتنے میں ڈرائیور نے کرایہ بڑھاتے ہوئے پچیس ریال کہا تو اُس نے فوراً کہا "اچھا تو یہ بات ہے۔" پھر اپنی والدہ سے کہا کہ فوراً نیچے اُتر جائیں اور جیب سے پچیس کی جگہ تیس ریال نکال کر ڈرائیور کے ہاتھ پے رکھتے ہوئے دوسرے شخص سے کہا "آپ مت سمجھائیں اِسے کیونکہ سمجھنے کی ضرورت اِسے نہیں مجھے تھی کہ یہ ڈرائیور صاحب ہمیں مجبور سمجھ کر ہماری مجبوری سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس سے بس یہ کہیں کہ اللّٰہ کے شہر میں لوگوں کے بھروسے سے مت کھیلے" اپنی بات مکمل کر کے وہ پیدل ہی اپنی والدہ کے ساتھ رہائشگاہ کی طرف چل پڑا۔
اللّٰہ کی ذات کا طلب کرنے والے اکثر کسی خاص کیفیت کے متلاشی رہتے ہیں۔ کوئی خاص حالت کوئی خاص سرور جس سے وہ اپنے جسم کو, اپنی سوچ کو اور اپنے دل کو مطمئن کر سکیں کہ اللّٰہ اُن کے ساتھ ہے۔ کچھ لوگ معاشی و معاشرتی خوشحالی یا بدنی صحت و تندرستی وغیرہ کو اللّٰہ کی رحمت کی دلیل سمجھتے ہیں اور کچھ روحانی لطائف کے حصول کو اللّٰہ کے قُرب کی دلیل مانتے ہیں۔ لیکن اُس کی سوچ اِن دونوں سے الگ تھی۔ اُس کا ماننا تھا کہ انسان کو کسی بھی چیز کو اللّٰہ کے قُرب یا دوری کی دلیل نہیں ماننا چاہیے بلکہ اپنے حال پر اللّٰہ سے راضی رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیسے ہو, جس حال میں ہو, اُسی حال میں اللّٰہ کی عطا کردہ نعمتوں سے راضی ہونے کی اور اُس کا شُکر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اُس کی عادت تھی کہ کبھی کھانا کھاتے ہوئے کھانے کے بےذائقہ یا بدمزا ہونے کا شکوہ نہیں کرتا تھا کیونکہ اُس کا کہنا تھا کہ جب کھانا سامنے آ گیا تو یہ وہ کھانا نہیں ہے جو میری بیوی نے پکایا ہے بلکہ یہ وہ رزق ہے جو اللّٰہ نے میرے لیے بھیجا۔ اِس لیے سامنے آئے رزق کو اللّٰہ کی عطا مانتے ہوئے شُکر کے ساتھ کھانا چاہیے۔ وہ اپنی پوری زندگی اسی تصور میں ڈھالنے کی کوشش میں مگن رہتا تھا۔ اور کبھی کسی دلیل کے مل جانے سے حیران ہو کر خود کو قُرب والا نہیں تسلیم کرتا تھا اور نہ ہی دلیل نہ ملنے پے پریشان ہوتا کہ دور ہو گیا ہوں۔
(جاری ہے)
(تحریر: محمد کامران احمد)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔