جمعرات، 4 جون، 2015

کلام اقبال مع شرح

کلام اقبال                                           
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی
       ........چوتها حصہ                                                               مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی
تشریح
کج کلاہی کا لغوی مطلب ٹوپی کو سر پر ٹیڑھا رکھنے والا۔ یہاں مراد بے نیازی ، شہانہانداز                                      
گدا سے مراد اقبال جیسے آزاد منش مرد قلندر ہیں  
وہ مرد مومن جو اصل شہنشاہیت  جانتے ہیں یعنی کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے اور وہ   خدمت حلق کی رہنمائی کرنے کے لیے منتخب ہیں۔انکی اپنی ضرویات بہت قلیل ہوتی ہیں مگر اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں
حضور  ﷺ کے بعد اسکی بہترین مثال حضرت عمر فاروق ر.ض  ہیں۔                                                         
میری. قوم دنیا میں بادشاہت کرچکی ہے  اس لیے  رہ رسم بادشاہی سے آگاہ ہے .میں نے اسے دنیاں میں دوبارہ سر بلندی حاصل کرنے کا طریقہ بتا دیا ہے اور وہ میرے کلام کا مطالعہ کر رہی ہے  جس دن اس.نے میریے پیغام پر عمل شروع کر دیا  انشاللہ پهر سر بلند ہو جاے گی
اپنا مقام پیدا کر

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔