ہفتہ، 13 جون، 2015

کلام اقبال ضرب کلیم ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام 2 حصّہ

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدۖ اس کے بدن سے نکال دو
شیطان کا ایک منشور یہ ہے کہ کچھ قومیں فاقہ کش ہوتی ہیں ، یہ فاقہ کش تو ہیں لیکن ان فاقہ کشی کے اندر ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ موت سے نہیں ڈرتے، یعنی شجاع ، بہادر اور نڈرہیں۔ ان فاقہ کشوں کو روٹی کا لقمہ دکھائو اور روحِ محمد ۖ ان کے بدن سے نکال دو ، ظاہر ہے کہ فاقہ کش کے لئے فاقہ اس کی کمزوری ہے، لیکن فاقے کے عالم میں اس کے اندر بہت ساری اور مثبت خصوصیات ہیں یعنی فاقہ کش ہے لیکن دلیر ہے ، فاقہ کش ہے لیکن نڈر ہے ، فاقہ کش ہے لیکن غیور اور باحیاء ہے ، شیطان کے لئے آسان ہے کہ اس کی غیرت اور اس کی شجاعت کو ختم کرے ۔ ان کو ایک دسترخوان پر لابٹھائو ، ایک وقت کا ان کو بہت ہی چٹپٹا کھانا کھلائو پھر دیکھو ان کی غیرت و شجاعت کیسے رخصت ہوتی ہے ، بس اس فاقہ کش کے بدن سے روحِ محمد ۖ نکال دو ۔
اگر اسلام کو ختم کرنا ہے تو مسلمانوں کے دلوں سے حب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نکال دو ـ. یہ وہstatement ہے جو ایک یہودی ربائی نے دی وہ اسلام پر P.hd. کررہا تھا. اس جملے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب اسلام اور مسلمانان عالم پر کس قسم کی جارحیت کی Planningکی جارہی ہے . پہلے خاکوں کا شوشہ پھر قرآن کی بے حرمتی اور اب شیطانی فلم !!!! آخراس سے حاصل کیاہے .
They are achieving multiple task in a low cost with more effective impact.
١. ان حرکتوں کی سب سے زیادہ Audienceمسلم ہیں بار بار اس حرکت سے ان کو اس کا عادی بنانا مقصودہے تاکہ حرمت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کوان کے دلوں سے نکالنا آسان ہوجائے ـ. جب حب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) دلوں میں باقی نہ رہے گا مسلمان کا ایمان باقی نہ رہے گا.
٢. مسلمانان عالم کیونکہ پہلے ہی کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ان کی قیادت میں بھی نا اہل لوگ زیادہ ہیں جس کی بنا پر مغربی شیطانوں سے بدلہ لینے کی صلاحیت نہیں رہی اس لئے ان کا غم و غصہ اپنی ہی سرزمین اور اپنی ہی املاک پر نکلے گا اس سے یہ مزید کمزور اور قرض دار ہوں گے اور آہستہ آہستہ ان کے سر ہمیشہ کے لئے خم ہوجائیں گے.
٣. میڈیا کے ذریعے امت کو میٹھے الفاظ میں یہ باور کروایا جائے کے احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں. یوں امت مسلمہ ایک ایسی نیند سوجائے جس سے ان کے اٹھنے کی کوئی خاص امید نہیں .
چنانچہ اسی مقصد کے تحت مغربی سامراج نے ایک طرف مسلمانوں کے اندر ایسے فرقہ وارانہ علمی مباحث کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی شروع کی جن کا ہدف زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و ادب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اِنکار تھا تاکہ امت میں اہانت رسالت اور گستاخی نبوت کا فتنہ پیدا ہو۔ دوسری طرف یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق و ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ اس طرح مسلمانوں کے ذہنوں کو ہر دو طرح مسموم کرنے کا کام آج تک ہو رہا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
(2) سیرت کے فیضان اور تاثیر سے زندگی کے اَعمال و اَقدار کی محرومی
اسلام ایسے اعمال و اقدار کاحامل ہے جو زندگی کو ظاہراً و باطناً ایک مثبت تبدیلی سے آشنا کرتے ہیں۔ اسلام کے یہی اعمال و اقدار ماضی میں مسلمانوں کی مادّی و تعدادی کمزوریوں کے باوجود ان کے غلبہ و تمکنت کا باعث رہے ہیں۔ یہ اعمال و اقدار مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی میں تب ہی موثر ہو سکتے ہیں جب انہیں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی اور کلی تعلق میسر ہو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت انسانی شخصیت کے تمام اوصاف و کمالات کی جامع ہے۔ اس کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی ایسی جامع تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کامل اور اسوہ حسنہ کا صحیح نقشہ ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و امانت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت، جود و سخا اور رحمت و مودت جیسے عظیم خصائل و اَوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے اور ہر قاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو عظیم مصلح و رہنماء، عظیم مدبر و منتظم، عادل قاضی و منصف، بے نظیر مقنن، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، مثالی خاوند اور سربراہ خاندان، کامیاب سربراہِ ریاست اور اسی طرح ایک عظیم انسان کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو کی اہمیت و افادیت تبھی موثر ہے جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ دیکھا جائے۔ لیکن بعض مسلم مفکرین و مصنّفین نے رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کے بیان کو صرف اسی عملی پہلو تک محصور کر دیا اور وہ روحانی پہلو جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و بالا کمالات اور معجزانہ خصائص و امتیازات پر مشتمل تھا، اُسے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو محض صوفیاء و عرفاء کے لئے ہیں یا فقط عقیدت مندی کی باتیں ہیں جو نئے دور کی ضرورت نہیں۔
مزید برآں فضائل سیرت کے ظاہری پہلوؤں کا بیان بھی عقیدت و محبت کی چاشنی اور تعظیم و تکریم کے رنگ سے اس بنا پر عاری رکھا گیا کہ یہ جدید آداب تحقیق کے منافی ہے، لہٰذا اس غلو سے اپنی تحریروں کو مبرا ہی رکھنا چاہئے۔ نتیجتاً وہ قلبی عقیدت اور والہانہ محبت جو رفتہ رفتہ عشق میں بدل جایا کرتی ہے اس نسل کے دلوں سے ناپید ہوتی گئی اور بقول اقبال تعلیم یافتہ نوجوان نسل اس نوبت کو جا پہنچی ہے :
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 745، ساقی نامہ
سیرت کے عملی پہلوؤں کے بیان سے فکری و نظری دلائل کی صورت میں عقل پرست طبقے کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو بیشک نئے حالات میں قابل عمل اور نتیجہ خیز بھی ثابت کیا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا چراغ روشن نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سینوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیوانہ وار الفت و عقیدت کا وہ طوفان بپا نہیں کیا جاسکتا جس کی قوت سے وہ کفر و طاغوت کے خلاف ٹکرا جائیں اور ناموس دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اس طرح جانوں کے نذرانے پیش کر دیں کہ۔ ۔ ۔ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں) (1) ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ لاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ (کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے) (2) ۔ ۔ ۔ کے ایمان پرور نظارے دنیا کے سامنے آجائیں۔
(1) القرآن، الفتح، 48 : 29
(2) القرآن، المائده، 5 : 54
جب غیر مسلم مفکرین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے محض ظاہری پہلوؤں کو منفی انداز میں پیش کیا تو مسلم مفکرین نے بھی انہیں ظاہری پہلوؤں کو جواباً مثبت انداز میں پیش کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فضائل و کمالات کے بیان کو جدید دور میں غیر ضروری سمجھتے ہوئے ترک کر دیا تو خود مسلمانوں میں ہی دو طرح کے ذہن پیدا ہو گئے :
1۔ مغربیت زدہ سیکولر ذہن
2۔ مادیت زدہ مذہبی ذہن
مغربیت زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلاء ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا، مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث نہ صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے عاری اور اسلام کے روحانی تصورات سے نابلد ہو گیا بلکہ اسلام کی ابدی صداقت و عملیت اور عظمتِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور عقیدت میں بھی متزلزل ہو گیا۔ دوسری طرف مادیت زدہ مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا وہ جدید اسلامی لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانیء اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتقادی، فکری اور عملی طور پر وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کو فرسودہ، غیر ضروری اور جاہلانہ و شخصیت پرستی کے مترادف تصور کرنے لگا۔ بلکہ وہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ عظمتِ رِسالت کے درمیان خطرناک تضادات اور اِلتباسات کا شکار ہو گیا۔ اُس کی نگاہ میں مقامِ نبوت غیر اِرادی اور لاشعوری طور پر کم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور وہ اس نشے میں مبتلا رہا کہ اس کی توحید نکھر رہی ہے اور وہ شرک سے پاک ہو کر پختہ موَحد بن رہا ہے۔ اس طرح دونوں طبقات بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے اور یوں ہماری اعتقادی و فکری زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔
اِس دور میں اِحیائے اسلام اور ملت کی نشاۃِ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں ان کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظام حیات قبول کر لینا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ اِیمان اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے؛ اور اس اِتباع کے علاوہ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی، عشقی اور جذباتی لگاؤ مقصودِ ایمان ہے نہ تعلیمِ اسلام، بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے۔
اِس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملّی پر جو مضر اَثرات مرتب ہوئے وہ محتاج بیان نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل تصور کو اس طرح اُجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجوان نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ حبی تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانشِ فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کرسکیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 599، غزلیات (حصہ دُوُم)
اور اُنہیں دینِ حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہو جسے اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے :
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
(دین سارے کا سار درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَرمغانِ حجاز) : 1140، حسین اَحمد
اَندریں حالات عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اَزسرِ نو نمایاں کرنا اَشد ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ عصر حاضر کے فکری بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا ممکنہ حد تک اِزالہ کیا جاسکے۔ ہماری نظر میں ایک طرف حضور سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ محبوبانہ عظمت و شان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی شوکت و رفعت کا وہ عُلوّ جس کے پھریرے اَقلیمِ فرش و عرش پر پیہم لہرا رہے ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے فکری، علمی اور عملی عظمت کے وہ پہلو ہوں جن سے دنیائے علم و عمل جگمگا رہی ہے۔ اس جامع اور ہمہ جہت تصور کو حتی المقدور الفاظ کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کرایا جائے تاکہ تعلیمات اسلام اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا متوازن اور جامع تصور متعارف کرایا جاسکے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرے اور دلوں اور روحوں کی اُجڑی بستی بھی سیراب کرے۔
آج اِس اَمر کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور صلحائے اُمت کے تذکرے عام کئے جائیں جنہوں نے اپنی زندگیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور والہانہ عشق کی بھٹی میں سے گزارتے ہوئے قدم قدم پر ایسے ان منٹ نقوش ثبت کئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کوئی محب اپنے محبوب کے لئے محبت کی دنیا میں ایسے نذرانے پیش نہیں کر سکتا۔ ان کی انہی اداؤں کو آج بھی ہم اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں کیونکہ پریشان حال امت کے دکھوں کا مداوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر سنت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائے بغیر ناممکن ہے۔
اس خزاں رسیدہ چمن میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابوبکر و عمر اور بلال و بوذر رضی اللہ عنھم نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ
مطالعۂ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اُصول
مؤثر استدلال اور مضبوط و منظم علمی بنیادوں پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم و ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ دورِ حاضر کے درپیش مسائل اور تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ایسے اُصول طے کئے جائیں جو سیرت کے منظم اور مربوط فہم میں معاون ثابت ہوں۔
جب سے علوم کی ترتیب و تدوین کا مرحلہ شروع ہوا تمام علوم بشمول تفسیر، حدیث اور فقہ کی ترتیب و تدوین کے لئے اہل علم نے کئی اُصول طے کئے جن کی روشنی میں ان علوم کی ثقاہت کو نہ صرف پرکھا گیا بلکہ اُنہیں منظم و مرتب بھی کیا گیا۔ لیکن سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ اور تفہیم کے لئے تاحال کوئی واضح اُصول مرتب نہیں کئے گئے۔ دورِ حاضر میں جبکہ ملتِ اِسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کو سیرت کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت اور تقاضے پہلے زمانے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، اس امر کی ضرورت ہے کہ مطالعہ سیرت کے لئے مؤثر اور جامع ضابطوں کا تعین کیا جائے۔ اس ذیل میں یہاں کچھ اُصول بیان کئے جاتے ہیں :
سیرت کا بطور وحدت فہم اورتفہیم
فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح
عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اطلاقی مطالعہ
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازن اجتماعی کا حصول
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ
فہم کمالِسیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف
محمد اسماعیل
اپنا مقام پیدا کر

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔