فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی
ایک سچّی کہانی) (حصّہ 25)----------------
اپنے مُرشد پاک کے پردہ فرمانے کے بعد وہ کافی
وقت دربار پر نہیں گیا۔ ایک عجیب سی اُداسی نے اُسے گھیر رکھا تھا۔ بہت سے دوسرے
مُریدین نے اُسے سُلطان محمد علی صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا, ہر وہ شخص جو سُلطان
محمد علی صاحب سے مل کر آتا وہ اُسے یہی بتاتا کہ فیض کا وہی عالم ہے, بس صورت
بدلی ہے باقی سب وہی ہے۔ اور اُسے اِس بات پر کچھ شک بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا
کہ اُس کے مُرشد پاک نے سلسلے کی باگ دوڑ قابل ہاتھوں میں دی ہے اور اُس کے دل میں
خواہش تھی کہ جلد از جلد سُلطان محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بھی بیعت کر لے۔ لیکن
کچھ ایسے حالات بنے کہ قریب دو سال تک اُس کی اُن سے مُلاقات نہ ہو سکی اِس دوران
اللّٰہ کی ذات نے اُس کے لیے کچھ اور سبق مرتب کر رکھے تھے۔

اُس کی جان پہچان میں ایسے بہت سے لوگ تھے جو
شوقیا طور پر مختلف طرح کے نشے کیا کرتے اِس لیے اکثر کسی ایسی جگہ بیٹھنا پڑ جاتا
تھا جہاں یہ سب کھلم کھلا چل رہا ہوتا تھا۔ وہ محفل کے رنگ میں اپنا رنگ بھرنے کا
ماہر تھا۔ اُس کی زبان مسجد اور میخانے میں ایک سا بیان کرتی تھی۔ اکثر لوگ اُسے حیرت
سے دیکھتے کہ کس ماحول میں کیا بات کر رہا ہے۔ لیکن اُس کی بات ایسی ہوتی کہ لوگ
اُسے سُننا پسند کرتے اور اکثر وہ بہت آسانی سے لوگوں کو مشکل مشکل باتیں سمجھا
لیتا تھا۔ اُس دن بھی وہ کسی دوست کے ساتھ اتفاقاً کسی کے ڈیرے پے پہنچا اور دیکھا
کہ اُس جگہ کا مالک وہاں بیٹھے لوگوں کو اولیاء کی باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہا
ہے اور لوگ بحث کے موڈ میں اُس سے اُلجھ رہے ہیں۔ نشے کی حالت میں اکثر انسان کا
ذہن ذیادہ گہرائی میں سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے اِس لیے اِس کے عادی لوگوں کو بات
تب ہی سمجھ آتی ہے جب وہ کچھ پی کر بیٹھے ہوں۔ وہاں موجود سبھی لوگ اپنی عام زندگی
میں کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے اور معزز طریقے سے اپنی زندگی گُزار رہے تھے۔ جس شخص
کا ڈیرا تھا اُس سے کسی شخص نے پُر زور انداذ میں کہا "بھائی اللّٰہ کے آخری
رسول کے بعد, اور مکمل ہدایت یعنی قرآن جیسی کتاب کے آنے کے بعد اب یہ مُرشد کہاں
سے آ گیا, رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم مُرشد کامل ہیں, بس بندے کا پکا
ایمان ہونا چاہیے اللّٰہ کی ذات پر نبی پاک کا پیغام تمام جہانوں کے لیے ہے, اُن
کے بعد کسی مُرشد کی کیا ضرورت ہے۔؟" اُس نے جب ماحول دیکھا تو بات کرنا ضروری
محسوس کیا۔ اور بُلند آواز میں ڈیرے کے مالک سے کہا "اگر آپ بُرا نہ منائیں
تو کیا میں بھی آپ لوگوں کی گفتگو کا حصّہ بن سکتا ہوں۔؟" "جی
ضرور" ڈیرے کے مالک نے خوشدلی سے کہا "اِن لوگوں کو میری بات سمجھ ہی
نہیں آتی کیا پتا آپ کی زبانی کچھ سمجھ آ جائے انہیں۔" اُس نے سوال کرنے والے
شخص کو مخاطب کیا اور کہا "بھائی میں آپ کو اپنے بارے میں بتاتا ہوں, میں ایک
ڈاکٹر ہوں, میں نے بازار سے میڈیکل کی کتابیں خریدیں اور ایک ایک کر کے ساری
کتابیں پڑھ ڈالیں اور اب میں اپنا کلینک کھولنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔"
سوال کرنے والے شخص نے اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کہا "اِس طرح محض
کتابیں پڑھ کر کوئی ڈاکٹر تھوڑی بن سکتا ہے, کالج, یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑتا
ہے, کسی اُستاد سے سبق لینا پڑتا ہے اور امتحان پاس کر کے ڈگری حاصل کرنی پڑتی ہے
پھر کہیں جا کر کوئی ڈاکٹر بنتا ہے۔" اُس شخص کا جواب سُن کر اُس نے مسکراتے
ہوئے کہا "جس کتاب کو انسانوں نے لکھا ہے, جسے پڑھ کر انسان کی جسمانی
بیماریوں اور اُن کے علاج کی خبر ملتی ہے اُس کے لیے اُستاد اور درسگاہ کی اہمیت
سمجھ آتی ہے لیکن جس کتاب کو اللّٰہ نے لکھا جس میں روح کی بیماری اور علاج کا بیان
ہے اُس کتاب کے بارے میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ اُسے ہم بِنا کسی اُستاد کے ہی سیکھ
سکتے ہیں۔ کتنی عجیب سوچ ہے نا۔؟ قرآن سیکھنا سمجھنا کسی قاری صاحب سے اِس کا تلفظ
سیکھنا نہیں بلکہ قرآن سیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ اِسے دل میں اُتارا جائے۔ کیوں قاری
صاحب میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔؟" اُس نے بات کرتے کرتے محفل میں موجود قاری
صاحب کو مخاطب کر کے پوچھا تو انہوں نے بھی اُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "قاری
کا کام تو صرف قرآن کی آیات کا تلفظ سمجھانا ہے اور ویسے بھی آج کل لوگ قرآن
سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پڑھتے ہیں تاکہ اپنے ملنے
جُلنے والوں میں سینہ ٹھوک کر کہہ سکیں کہ ہم نے قرآن پورا ختم کیا ہوا ہے, قرآن
حفظ کرنے والوں میں بھی اکثر لوگوں کا مقصد قرآن سیکھنا یا قرآن کو دل میں اُتارنا نہیں بلکہ لوگوں کے دل
میں اپنی عزت و احترام بڑھانا ہوتا ہے۔ اور محظ قرآن کی آیات یاد کر لینا اِس بات
کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن دل میں اُتر گیا ہے۔ اِس کا دل میں اُترنا کچھ اور معنی
رکھتا ہے۔ آج کل ہم لوگوں کے دلوں میں قرآن کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کہ ہونی
چاہیے, بچوں کے اسکول کے امتحان شروع ہوتے ہی ہم قاری اور حافظ لوگوں کو چھُٹی دے
دی جاتی ہے,
والدین بہت اطمینان سے کہتے ہیں کہ قاری صاحب
ہمارے بچے امتحان ہو رہے ہیں اس لیے اِس مہینے آپ بچّوں کو قرآن پڑھانے مت آئیے
گا۔ اسکول کی پڑھائی کا ہرج نہ ہو اِس خاطر امتحانوں سے پہلے ہی مدرسے خالی ہو
جاتے ہیں, جس قوم کی نظر میں قرآن کی یہ اہمیت ہو اُس قوم کے دل میں قرآن کی آیات
اور تلفظ تو ہو سکتا ہے لیکن قرآن کا نورِ ہدایت نہیں ہو سکتا۔" اُس نے کہا
"ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں, ہم دنیا کو دین پے فوقیت دیتے ہیں, گو کہ ہم برملا اس
بات کو تسلیم کرنے پے راضی نہیں ہوتے لیکن درحقیقت ایسا ہی ہے, بچّہ اسکول نہ جائے
تو بچّے کو مار مار کر بھیجا جاتا ہے لیکن قرآن پڑھنے سے چھُٹی کرنے میں کوئی
مسئلہ نہیں ہے۔ روزی روٹی کی فکر میں مبتلا لوگ ایک دوسرے کی روزی روٹی ہی کی فکر
کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی روزی روٹی پے ہی نظر رکھتے ہیں, اسی کے باعث ایک دوسرے
کو کمتر یا برتر سمجھتے ہیں۔ آج تو لوگوں کا نصب العین ہی دنیا اور نفس ہے, ایسے
لوگوں سے اِس بات کا شکوہ کرنا بے جا ہے کہ وہ دین کو اہمیت نہیں دیتے۔ ہم جس دنیا
میں رہتے ہیں وہاں بچّے کی پیدائش سے بھی پہلے سے ماں باپ اُس کی دنیا سوچنا شروع
کر دیتے ہیں, اسی دنیا کی طرز پر ہم اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں.., ایک حد تک تو
یہ بات جائز, درست, اور لازم ہے لیکن جہاں دنیا کی بھلائی کی اہمیت دین کی سوچ سے
تجاوز کرتی ہے وہاں یہ سوچ آنے والی نسلوں کے لیے وبال بن جاتی ہے۔ لوگوں کو جب
اِس دنیا میں اُتارا جاتا ہے تو اُنہیں اُن کا رب بھُلا دیا جاتا ہے۔ اور پھر اُس
کے والدین کے ذریعے اُسے کسی بھی مذہب و مسلک کی صورت رب کا نام بتا دیا جاتا ہے,
ساتھ ساتھ رب سے جوڑنے والوں کے نام بھی بتا دیے جاتے ہیں۔ اِن ناموں کو تھامے لوگ
رب کا ذکر کرتے ہیں, ہر نام کی تجلی ہوتی ہے, تجلی کا لفظ ویسے تو اللّٰہ کی ذات
کے جلوے کے لیے استمعال ہوتا ہے لیکن عرفِ عام میں کسی بھی شئے کے جلوے کو یا
اظہار کو تجلی کہا جائے گا۔ زمین تجلیات کا گھر ہے, دن رات میں انسان پر ہزارہا
تجلیات گُزرتی ہیں لیکن ہم اُنہیں اِس طرح سے نہیں دیکھتے, صبح ہوتی ہے تو سورج کی
تجلی اور شام ہوتی ہے تو چاند تاروں کی تجلی, ماں, باپ, بہن, بھائی, دوست احباب کی
تجلی, بچّہ اپنے بڑوں کی بول چال کو دیکھ کر بول چال سیکھتا ہے, عام طور پر دیکھا
جائے تو جن گھروں کے لوگ ذیادہ بولتے ہیں وہاں بچّے بھی جلدی بولنا سیکھ جاتے ہیں,
انسان پر جس طرح کی تجلیات ہوتی ہیں اُسی طرح کی چیزیں انسان سیکھتا ہے۔ ہر تجلی
تک پہنچنے کا ایک راستہ ہوتا ہے, جیسے زبان, انسان اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے لیکن
اُسی زبان کا غلط استمعال عموماً اُسے گھر سے باہر سیکھنے کو ملتا ہے, گناہ کی
سیکھ کسی نہ کسی جگہ سے ملتی ہے تو انسان گناہ کرنا سیکھتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے
کہ کچھ تجلیات انسان کو اپنے بڑوں سے ورثے میں ملتی ہیں اور کچھ تجلیات اُسے اپنے
ماحول سے حاصل ہوتی ہیں اور پھر انسان آہستہ آہستہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ کچھ تجلیات
خود با خود اُس تک پہنچ جاتی ہیں اور کچھ کے لیے اُسے خواہش اور کوشش کرنی پڑتی
ہے۔ مثلاً رازِق کی تجلی ہم روز کھانے پینے کی شکل میں دیکھتے ہیں, خالق کی تجلی
ہمیں اپنے آپ میں اور اپنے چار سُو دکھائی دیتی ہے۔ اِس کے علاوہ شیطان کی تجلیات
بھی ہر جانب واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں, میں نے تھوڑا بہت بزنس کے بارے میں پڑھا
ہے اور مارکیٹنگ میرا پسندیدہ سبجیکٹ تھا۔ ہمیں پڑھایا گیا کہ اِس سبجیکٹ کی بنیاد
لوگوں کے دل میں اپنی مصنوعات کی خواہش پیدا کرنا ہے, یہ ایک آرٹ ہے, کوئی ایسی
بات کرنے کا, جو لوگوں کو یاد رہ جائے۔ اکثر اشتہارات لوگوں کو یاد ہو جاتے ہیں۔
اور اشتہار بنانے والے کی کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو اُن کے کلائنٹس کی
پروڈکٹ کا نام رٹ جائے۔ اِس تمام کوشش کے پیچھے شیطان کارفرما ہے جو انسان کو
ذیادہ سے ذیادہ دنیا اور نفس کی تجلیات دکھا کر اُس میں ذیادہ سے خواہشات بھرنا
چاہتا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا تو اکثر ٹیلیوژن پر کوئی گاڑی یا موٹر سائیکل دیکھ کر
میں اور میرا کزن اِس بات پر ایک دوسرے سے لڑ پڑتے تھے کہ یہ گاڑی میری ہے اور
اکثر اِس بات پر میں اُسے مارتا بھی تھا۔
آنکھ سے دکھائی دینے والی تجلی کا انسان کی سوچ
پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ہر طرح کی تجلی موجود رہتی ہے اور انہی
تجلیات میں اللّٰہ کی صفات کی تجلیات کے ساتھ ساتھ اللّٰہ کی ذات کی تجلی بھی
موجود ہوتی ہے۔ صفات کی تجلیات انسان کو خود ڈھونڈھ لیتی ہیں لیکن ذات کی تجلی
انسان کو خود تلاش کرنی پڑتی ہے۔ صفات کی طرح, ذات کی تجلی بھی انسان کو انسان میں
ہی ملتی ہے۔" ایک شخص نے اُسے ٹوکتے ہوئے حیرت سے کہا "لیکن یہ کیسے
ممکن ہے کہ اللّٰہ کی ذات کی تجلی کسی انسان کی صورت ظاہر ہو۔؟ اُس کی ذات کی تجلی
تو کوہِ طور نہیں برداشت کر پایا تو انسان کیسے کر سکتا ہے۔؟" تو اُس نے
مسکرا کر سوال کرنے والے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "انسان اشرف المخلوقات ہے
اور اُس کا شرف یہ ہے کہ اگر وہ مومن ہو جائے تو اللّٰہ کی ذات اُس کے دل میں سما
سکتی ہے۔ پہاڑ واقعتاً اِس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتا۔ لیکن مومن بندے کا دل اُس ذات
کا گھر کہلاتا ہے۔ اللّٰہ کی ذات کی تجلی ہر انسان کو اُس کی طلب کے مطابق ملتی ہے,
یہ تجلی وقت میں موجود اولیاء کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی ہے لیکن ہر شخص کسی ولی تک
نہیں پہنچتا۔ مطلب یہ کہ جس کے نصیب میں اللّٰہ کی ذات کی تجلی ہو گی وہ تجلی اُس
تک کسی بھی انسان کے روپ میں پہنچ جائے گی پھر جو اللّٰہ کا طالب ہو گا وہ اُس
تجلی کے محور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللّٰہ کا پیغام لوگوں تک پہنچ کر رہتا
ہے لیکن اللّٰہ والے کا ہاتھ وہ تھامتا ہے جو اللّٰہ کی جانب بڑھنا چاہتا ہے۔ آپ
نے کہا کہ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم مُرشد کامل ہیں, بیشک ایسا
ہی ہے, لیکن کوئی ذریعہ بھی تو ہو گا اُن سے جُڑنے کا, جُڑنا محض روزے, نماز یا
قرآن پڑھنے سے ہوتا تو آج ہم اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے نہیں ہوتے۔ دنیا کے کامیاب
ترین لوگوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ یا تو اللّٰہ والے تھے یا اللّٰہ والے
کے ساتھی تھے, اور پھر اپنے آپ کو دیکھیں, ہم اللّٰہ والے نہیں لیکن اللّٰہ والے
کے ساتھی تو بن سکتے ہیں۔ تاکہ وہ ہماری روح کی تربیت کر کے ہمارا دل اللّٰہ کے
لیے کھول دے, مُرشد سمجھاتا ہے کہ شیطان سے کیسے لڑا جائے اور نفس کو کس طرح مطمئن
کیا جائے۔" وہ ایک پل کو خاموش ہوا تو ایک شخص نے کہا "اچھا یہ مُرشد والی
بات تو سمجھ آ گئی لیکن وہ جو آپ نے ٹی وی والی بات کی, کہ اِس کے ذریعے سے انسان
میں خواہشات بھری جاتی ہیں, تو ہم لوگ کیا کریں۔؟ کیا ٹی وی دیکھنا چھوڑ
دیں۔؟" تو اُس نے کہا "نہیں.., ٹی وی دیکھیں.., لیکن اُن چیزوں کے اثر
کو پہچانتے ہوئے اُسے خود پے اثر انداذ مت ہونے دیجیئے۔ ٹیلیوژن سے صرف شیطان نہیں
بلکہ رحمٰان کا پیغام بھی ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو کسی فلم یا ڈرامے سے کچھ اچھا بھی
سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ اِس ٹیکنولوجی کو شیطانیت کے لیے استمعال کر رہے ہیں
تو کچھ لوگ اِسے رحمانیت کے لیے بھی استمعال کر رہے ہیں۔ کیونکہ تجلیات لاکھ
پُراثر سہی لیکن اثر اُسی پے ہوتا ہے جو اثر لینا چاہے۔ شیطان کو اگر اُسی کے کھیل
میں شکست دینی ہے تو اُسی کے ہتھیار کو اُس کے خلاف استمعال کرنا ہو گا۔ جس چیز کے
ذریعے اُس نے لوگوں کو گمراہ کیا ہے اُسی چیز کے ذریعے ہم لوگوں کو راہِ راست پر
بھی لا سکتے ہیں۔ جو لوگ اشتہار بناتے ہیں وہ اپنے ایک منٹ کے اشتہار میں اپنی
مصنوعات کی خصوصیات بیان کرنے کی جگہ اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے طور پر لوگوں کو
کوئی اچھی بات بھی بتا سکتے ہیں۔ جس سے لوگوں کو یاد رہ سکے کہ فلاں حدیث, آیت, یا
دانائی کی بات میں نے فلاں پان مصالے, فلاں چائے بنانے والوں کے تعاون سے سُنی
تھی۔ اگر انسان اپنا آپ پہچان لے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور شیطان اُس کا کچھ
نہ بگاڑ سکے گا۔" وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا اور لوگ انہماک سے اُس کی بات
سُن رہے تھے۔ اُس کی بات کے اختتام پر لوگوں نے اُس سے اُس کے مُرشد کا نام پوچھا
تو اُس نے سُلطان محمد علی صاحب کا نام لیا۔ اُن کا نام سُن کر جس شخص کا ڈیرا تھا
اُس نے چمک کر کہا "بھائی کیا اتفاق ہے کہ آپ کے مُرشد پاک کا نام محمد علی
ہے اور میرے مُرشد پاک کا نام علی محمد ہے۔
(جاری ہے)
(حصّہ 26)
----------------
باتوں باتوں میں اُس نے اُن لوگوں میں اپنی تلاش
کا بھی ذکر کیا جسے سُن کر اُن لوگوں پر اور بھی اثر ہوا اور وہ سب مُرید ہونے کے
لیے تیار ہو گئے۔ جس شخص نے سوال کیا تھا اُس نے کہا "چلو بھائی اب ہمیں یہ
بھی بتا دو کہ ہم کس کے ہاتھ پے بیعت کریں۔؟" تو اُس نے کہا "بھائی بیعت
تو نصیب کا کھیل ہے جس کا فیض جہاں جُڑا ہو گا وہ وہیں پہنچے گا, بیعت اُس کے ہاتھ
پے کرو جس کو دل مانے, ہر شخص کے لیے اُس کا اپنا مُرشد ہی بہترین ہوتا ہے اِس لیے
آپ مجھ سے پوچھو گے تو میں یقیناً اپنے مُرشد پاک کا ہی نام لوں گا کیونکہ میں جو
بھی جانتا ہوں اپنے مُرشد پاک کے ذریعے سے جانتا ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کا دل
کس کو مانتا ہے۔؟" اُس شخص نے عقیدت بھرے لہجے میں کہا "ہمارا دل تو آپ
کو مانتا ہے, آپ جس کا نام لیں ہم اُس کے مُرید ہو جائیں گے, کیونکہ یہ بات جو آپ
نے ہمیں آج سمجھائی ہے" اُس نے ڈیرے کے مالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"یہ بات یہ بھائی ہمیں قریب ڈیڑھ سال سے سمجھا رہا ہے۔ مگر سمجھ نہیں آتی
تھی, اور آج آپ نے جس طرح یہ بات سمجھائی تو دل آپ کو مان گیا, آپ کی بات بھی مان
گیا" اُس شخص نے کھُلے دل سے اُس کی تعریف کرتے ہوئے کہا تو اُس نے اپنی
تعریف سے خوش ہوئے بغیر کہا کہ "میں ایک باشرعا سلسلے کا بےشرعا مُرید ہوں,
بس قسمت سے اُن کا سایہ نصیب ہو گیا, سخی ذات نے میرے عیب سمیت مجھے قبول کیا, میں
اپنی خواہشات کے آگے اب بھی کمزور پڑ جاتا ہوں اور خطا کر بیٹھتا ہوں۔ لیکن میرا
مُرشد مجھے دھتکار نہیں دیتا کہ جا تُو نے فلاں گناہ کا ارتکاب کیا اِس لیے اب تُو
میری مُریدی سے خارج ہو گیا ہے۔ مُرشد, مُرید کے دل میں خطا کرنے سے پیدا ہونے
والے خیالات کا اثر بدل دیتا ہے, اگر وہ پہلے شراب پی کر گندی گندی گالیاں دیا
کرتا تھا تو اب شراب کا نشہ اُسے کسی اچھی سوچ پر, کسی اچھی بات پر مائل کرے گا۔
مُرشد, مرید کے ہاتھ سے شراب کا گلاس چھین کر نہیں پھینکتا بلکہ اُس کے دل کو ایسی
راہ چلا دیتا ہے جس پے چل کے اُسے خود اپنی حرکت پر دل سے افسوس ہو, شرم آئے, تاکہ
اُس کے دل میں گناہ سے اجتناب کا ارادہ پیدا ہو, اور اگر وہ گناہ سے اجتناب نہیں
بھی کرتا تو کم از کم گناہ کے بعد کی بُرائی سے محفوظ رہے۔ میں جس سلسے سے مُرید
ہوں وہاں شریعت کی سخت پابندی کی جاتی ہے, دربار پر یا مُرشد پاک کی محفل میں آپ
کو کوئی غیر شرعی حرکت نظر نہیں آئے گی۔ سُلطان باہو رح اِس قدر کامل مکمل ہستی
ہیں کہ فرماتے ہیں, جو شخص مُرید کو ایک نظر میں اللّٰہ کی ذات سے ملا نہ دے وہ
مُرشد کہلانے کے لائق ہی نہیں ہے۔ آپ رح کے بُلند معیارِ مُرشدی کے باعث کچھ ایسے
بھی ہیں جو آپ کی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ اُس مقام سے مُریدین کو
آگاہ کرانے سے قاصر رہتے ہیں جس کا سُلطان باہو رح ذکر فرماتے ہیں۔ اِس لیے وہ اُن
کے ولی اللّٰہ ہونے سے ہی مُکر جاتے ہیں۔ اصل میں آپ رح جس مقام کی بات کرتے ہیں
اُس پر کھڑے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ
اللّٰہ کی ذات صرف اُن ہی کے در سے ملتی ہے اور باقی کسی جگہ کوئی فیض نہیں ہے۔ جس
شخص کے دل میں اللّٰہ کی طلب ہو اُسے اللّٰہ ضرور ملتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر ہو
تو اللّٰہ ہر روپ میں ملتا ہے, اور نظر ہی نہ ہو تو ہر نظارہ بے معنی ہے۔ تو آپ کے
دل میں اگر اللّٰہ کی چاہ ہے تو وہ مسجد, مندر, امام بارگاہ, میں ہی نہیں بلکہ آپ
کے ارد گرد موجود انسانوں, جانورں, پہاڑوں میں بھی دکھائی دے گا, فلموں, ڈراموں,
گانوں میں بھی اُس کے پیغامات سُنائی دیں گے۔ مُرشد, مُرید کے دل کی آنکھ کھولتا
ہے۔ اگر کوئی شخص تمھارے دل کی آنکھ کھول سکتا ہے تو اُس کا سلسلہ, طور, طریقہ کچھ
بھی ہو اُس کا ہاتھ تھام لینا چاہیے, لیکن خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھنی
چاہیے, جب تک کہ مُرشد کامل نہ مل جائے۔ اکثر ہم خود اِس لائق نہیں ہوتے کہ کسی
کامل ہستی تک پہنچ سکیں۔ اللّٰہ لوگوں کو ہر جانب سے پُکارتا ہے, اگر کوئی یاد
کرنے والا ہو تو ہر شئے اُسی کی یاد دلاتی ہے۔ میرے خیال میں آپ لوگوں کا فیض وہاں
جُڑا ہے جہاں سے آپ کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے دعوت دی جا رہی ہے۔ اس لیے آپ لوگوں کو
اُس کے مُرشد کے ہاتھ پے بیعت کرنی چاہیے جو آپ کو ایک طویل عرصے سے اِس جانب لانے
کی کوشش کر رہا ہے۔" اُس کی بات سُن کر ڈیرے کے مالک نے کہا "کیا آپ جانتے
ہیں میرے مُرشد پاک کو۔؟" تو اُس نے کہا "نہیں..., لیکن میں اتنا جانتا
ہوں کہ جس کا مُرید اتنی طویل کوشش کرنے کی سکت رکھتا ہو وہ ضرور کوئی سچّا درویش
ہو گا جس نے اپنے مُرید میں اتنی چاہ بھری کہ وہ اتنے عرصے سے اِن لوگوں کی باتیں
سُنتا ہے اور پھر بھی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تو میں آپ کی کوشش آپ کی محنت اور آپ کی
لگن کو سلام کرتا ہوں۔"
اُن کے مُرید انہیں سرکار پُکارا کرتے تھے۔ اِس
بات کو شاید ایک دو دن ہی گُزرے تھے کہ اُن میں سے اکثر لوگ سرکار علی محمد کے پاس
جانا شروع ہوئے اور اُن سے اُس کا ذکر بھی کیا تو انہوں نے اُس سے ملاقات کی حامی
بھر لی۔ اگلے روز جب ڈیرے کے مالک کی دعوت پے وہ دوبارہ اُس ڈیرے پے پہنچا تو اُسے
بتایا گیا کہ سرکار علی محمد نے آپ کو یاد کیا ہے اور اُس نے فوراً اُن سے ملنے کا
ارادہ کر لیا۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ سرکار علی محمد ایک بےشرعا سلسلے سے تعلق
رکھتے ہیں, ایک ایسا سلسلہ جو شریعت کی نفی کرتا تھا۔ ایک ایسا سلسلہ جسے اولیاء
کے بہت سے سلسلے, سلسلہ ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سلسلہ چل رہا
ہے, پیری مُریدی چل رہی ہے, لوگ آتے ہیں, جُڑتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق فیض بھی
حاصل کرتے ہیں۔ وہ خود جس سلسلے سے بیعت تھا وہاں بھی شریعت کے بغیر پیری مُریدی
کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لیکن وہ ایسے اولیاء کے قصّے بھی سُن چُکا تھا جنہوں نے
شریعت سے ہٹ کر زندگی گُزاری۔ اُس کا ذہن اُلجھ رہا تھا۔ وہ انہی سوچوں میں مگن
تھا کہ ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی ایک نے سوال کیا "بھائی یہ باشرعا
بزرگ اور بے شرعا بزرگ کیا ہوتا ہے۔؟" اُس نے سوال سُن کہ سوچا کہ آج پھر
اپنے سوال کا جواب, اپنی زبانی ہی دینا پڑے گا۔ اُس کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا
کہ جس سوال پر وہ خود سے اُلجھ رہا ہوتا تھا وہی سوال کوئی اور اُس سے پوچھ بیٹھتا
تھا اور اُسے جواب دیتے دیتے اُسے خود اپنی بات کا جواب مِل جاتا تھا۔ اُس نے ہلکی
سی مسکراہٹ سے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا "سُلطان باہو رح کی تعلیمات کے
مطابق بےشرعا شخص مُرشدی کے لائق ہی نہیں ہے۔ آپ رح نے فرمایا کہ کوئی شخص ہوا میں
اُڑتا ہو, یا پانی پر چلتا ہو یا اُس کے حکم سے بارشیں برستی ہوں لیکن اگر وہ کسی
ایک بھی سُنتِ رسول کا تارک ہو تو اُس کے پیچھے مت چلنا کیونکہ وہ شخص راہبر نہیں
بلکہ راہزن ہے وہ تمھیں منزل تک کبھی نہ پہنچائے گا اور راہ میں ہی چھوڑ دے گا۔
جیسے میں نے پہلے بھی کہا کہ سُلطان باہو رح کامل ذات ہیں اور کاملیت کی بات کرتے
ہیں۔ فرض کرو کسی کو اسلام آباد سے کراچی جانا ہے تو وہ جہاز میں بیٹھ کر بھی جا
سکتا ہے اور بس یا ٹرین سے بھی جا سکتا ہے۔ جہاز رُکے بغیر پہنچ سکتا ہے, لیکن
ٹرین اور بس کے سفر میں جگہ جگہ پڑاؤ ہوں گے, مطلب سفر بندے کی چاہت اور اُس کی
جیب میں موجود نقدی کے حساب سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح اللّٰہ کی جانب کیے جانے والا
سفر بھی چاہت اور نقدی سے طے کیا جاتا ہے۔ اِس راہ کی نقدی اخلاص ہے جس میں جتنا
اخلاص ہو گا وہ اُتنی ہی تیزی سے اللّٰہ کی جانب بڑھ سکتا۔ لوگ اللّٰہ سے طرح طرح
کے گُمان رکھتے ہیں, اسی باعث رنگ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں, کوئی ڈر کے بات ماننے والا
ہوتا ہے تو کوئی اپنی کوشش کا بدلہ حاصل کرنا چاہتا ہے, کسی شخص کو اپنے نفس کی
تسکین درکار ہوتی ہے تو کوئی دنیا پرست ہوتا ہے۔ لوگوں کی الگ الگ سوچ کے باعث
انہیں الگ الگ طریقے سے اللّٰہ کی ذات ملتی ہے۔ ایک شخص اگر کسی گناہ کی لت میں
پھنسا ہوا ہے تو کیا اُس کے نصیب میں اللّٰہ کی محبت نہیں ہو سکتی۔؟ نیک لوگ بُرے
لوگوں سے پرے رہتے ہیں اور بُرے لوگ نیک لوگوں سے حجاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس لیے اللّٰہ نے ایسے سبب بنا رکھے ہیں جو ہر
مقام سے لوگوں کو اللّٰہ کی جانب بُلاتے ہیں۔ تو جو لوگ ڈرنے والے ہیں اُن کے لیے
دوزخ کا ڈر پیدا کیا, جو لوگ اپنے اعمال کا صِلہ طلب کرتے ہیں اُن کے لیے جنت کی
خوشخبری رکھی, ہر طرح کے ذہن کے لیے اُسی کی سوچ سے ملتا جُلتا کوئی ایسا سبب رکھا
جس کے ذریعے وہ اللّٰہ کی راہ حاصل کر سکے۔ جس طرح کسی اونچی عمارت کے الگ الگ
فلور ہوتے ہیں اُسی طرح باطن میں ہر اچھائی اور بُرائی کے درجات موجود ہوتے ہیں
اور ہر درجے پر کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنی تمام تر بُرائی کے
باوجود اللّٰہ کے ساتھ خالص ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ ہر جگہ موجود
ہے اور اُس تک پہنچنے کے لیے کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ بےشرعا بزرگوں کو عام
طور پر رد کیا جاتا ہے کیونکہ اِس طرح لوگ شریعت سے دور ہو کر معاشرے میں بےراہ
روی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جن اولیاء نے شریعت کی نفی کی اُن کا کچھ خاص
مقام تھا جس کی بنیاد پے انہوں نے نفی کی۔ ایک ایسا مقام جسے سمجھنا مُلّا حضرات
کے بس کی بات نہیں ہے۔ لوگوں کو فنائیت کا مقام سمجھانے کے لیے اللّٰہ نے وقت میں
ایسے اولیاء بھیجے جنہوں نے مصلحت کے تحت ایسا کیا۔ حضرت منصور حلاج رح, بابا بھلے شاہ رح,
صوفی سرمد ﺷﮩﯿﺪ رح, حضرت مادھو لعل حسین رح, وہ چند بزرگ ہیں جو اِن سلسلوں کی
بنیاد کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺻﻮﻓﯽ ﺳﺮﻣﺪ ﺷﮩﯿﺪ ﺭﺡ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺗﮭﺎ کہ ﻭﮦ ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺟﺰﻭ, ﯾﻌﻨﯽ ﺻﺮﻑ " ﻻ ﺍلہ " ﭘﮍﮬﺘﮯ تھے ﻭﮦ ﺳﺮ ﺑﺮہنہ بھی ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﭼﻨﺎنچہ ﻋﻠﻤﺎء ﮐﺎ ﺍﺟﺘﻤﺎﻉ ﮨﻮﺍ۔ ﻋﻠﻤﺎء ﻧﮯ ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﯿﺎ کہ ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺟﺰﻭ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮ؟ تو صوفی ﺳﺮﻣﺪ رح ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : " ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﻐﺮﻕ ﮨﻮﮞ, ﻣﺮتبہ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﮞ"۔
ﻋﻠﻤﺎء ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﺍ کلمہ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﻮ کہا ﻣﮕﺮ ﺑﮯ ﺳﻮﺩ۔ اس لیے ﻭﮦ ﻭﺍﺟﺐ ﺍﻟﻘﺘﻞ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻗﺘﻞ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﺍ ﺻﺎﺩﺭ ﮨﻮﺍ, ﺷﺎﮦ ﺍﺳﺪ اللّٰہ ﻧﮯ جو ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﺩﻝ ﺑﺰﺭﮒ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻣﺪ شہید ﮐﮯ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺭﻓﯿﻖ ﺗﮭﮯ, فتویٰ جاری ہونے پے اُن سے کہا " ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﺍ کلمہ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﺗﺎکہ ﺟﺎن ﺑﺨﺸﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ" ﺳﺮﻣﺪ شہید ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ نہ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺮ ﭘﮍﮬﺎ :
ﻋﻤﺮ ﯾﺴﺖ ﮐﮧ ﺁﻭﺍﺯﮦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮩﻦ ﺷﺪ
ﻣﻦ ﺍﺯ ﺳﺮ ﻧﻮ ﺟﻠﻮﮦ ﺩﮨﻢ ﺩﺍﺭ ﻭ ﺭﺳﻦ ﺭﺍ
یعنی: ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺪﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺩﺍﺭ ﻭ ﺭﺳﻦ ﭘﺮ ﺟﻠﻮﮦ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ
ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ کہ ﻗﺘﻞ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ یہ ﺷﻌﺮ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ :
ﺳﺮ ﺟﺪﺍ ﮐﺮﺩ ﺍﺯ ﺗﻨﻢ ﺷﻮﺧﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﻣﺎ ﯾﺎﺭ ﺑﻮﺩ
ﻗﺼﮧ ﮐﻮﺗﮧ ﮐﺮﺩ ، ﻭﺭﻧﮧ ﺩﺭﺩ ﺳﺮ ﺑﺴﯿﺎﺭ ﺑﻮﺩ
یعنی: ﺍﯾﮏ ﺷﻮﺥ ﻧﮯ, ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﯾﺎﺭ ﺗﮭﺎ, ﻣﯿﺮﮮ ﺗﻦ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺟﺪﺍ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ
(ﺍﭼﮭﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ کہ) ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﻣﺨﺘﺼﺮ ﮐﺮ ﺩﯼ, ﻭﺭﻧﮧ ﺩﺭﺩ ﺳﺮ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﺎ
ان اولیاء نے جو بات کہی وہ عُلماء کی نظر میں
کُفر و شرک تھا, لیکن اہلِ نظر دیکھ سکتے تھے۔ جیسے بابا بھلے شاہ رح..., ایک بار
عالم جذب میں آپ کے منہ سے منصور کا نعرہ ”انالحق“ نکل گیا۔ اس وقت آپ بٹالہ کے
ضلع گورداس پور میں قیام پذیر تھے۔ جب لوگوں نے آپ کے منہ سے یہ نعرہ سنا تو آپ کو
پکڑ کر قاضی شہر فاضل الدین کے پاس لے گئے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا جا سکے۔
شیخ فاضل الدین جو ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کی چاشنی سے بھی لبریز تھے۔ انہوں
نے مجذوب کی حالت دیکھی تو کہا: ”ایہہ سچ کہندا اے ، ایہہ حالے الھا (کچا ۔ الھڑ)
ہی اے۔ ایہنوں آکھو شاہ عنایت کول جا کے پک آوے“ (یہ سچ کہتا ہے, یہ ابھی کچّا ہے,
اِسے کہو کہ حضرت شاہ عنایت رح کے پاس جائے تاکہ یہ پکا ہو جائے) بابا بلّھے شاہ
کے منہ سے نکلنے والا کلمہ معمولی نہ تھا اور اس پر انہیں موت کی سزا بھی دی جا
سکتی تھی مگر شیخ فاضل الدین نے پنجابی زبان کے لفظوں کی رعایت دیتے ہوئے اگلے پڑاﺅ کی طرف بھیج دیا۔ مطلب
یہ کے سمجھ والے سمجھتے ہیں۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ
وقت کے ساتھ ساتھ اللّٰہ اولیاء کرام کی کرامات بھی نمایاں سے نمایاں ترین کرتا جا
رہا ہے۔ جس بات کے لیے منصور حلاج واجب القتل ٹھرے اُسی بات کے لیے بابا بھُلے شاہ
کو معاف کر دیا گیا جبکہ دونوں صاحبِ نظر قاضی کی عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔
اللّٰہ والا باشرعا یا بے شرعا نہیں ہوتا وہ تو بس اللّٰہ والا ہوتا ہے۔ اللّٰہ
اُسے کیسے پسند کرتا ہے یہ اللّٰہ کا اور اللّٰہ والے کا مسئلہ ہے مُرید کو اِس
چکّر میں نہیں پڑنا چاہیے کہ پیر صاحب نماز پڑھتے ہیں کہ نہیں۔ بلکہ یہ دیکھنا
چاہیے کہ اُن کی صحبت میں بیٹھ کر اُس کا دل بدل رہا ہے کہ نہیں۔ اگر کسی ولی کی
صحبت سے دل بدل رہا ہے تو ایسے ولی کو دل دے دینا چاہیے۔ اور خلوصِ سے نیت سے دل
پیش کرنے کے باوجود دل نہ بدلے تو ایسے پیر صاحب کو چھوڑ بھی دینا چاہیے۔ اور کسی
صاحبِ نظر کو تلاش کرنا چاہیے۔"
(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی
ایک سچّی کہانی) (حصّہ 27)
----------------
ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا
"بھائی یہ اناالحق کیا ہے۔؟ میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے لیکن کسی نے نہیں
بتایا" اُس نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا "آپ نے نور دیکھا
ہے۔؟ اللّٰہ کا نور۔؟" اُس شخص نے کہا "ہم کوئی ولی بزرگ تھوڑی ہیں جو
اُس کا نور دیکھ سکیں۔ بس ایک خیال سا آتا ہے کہ اللّٰہ کا نور روشنی کے ایک سمندر
کی مانند ہو گا جس کی کوئی حد نہیں ہو گی۔" اُس شخص کے جواب پر اُس نے کہا
"اِس طرح کا گمان ہر شخص کے دل میں رہتا ہے کیونکہ ہم سب اِس دنیا میں آنے سے
پہلے اُسے دیکھ چُکے ہیں, اور ہماری روح اُسی کے نور کا حصّہ ہے۔ وہ بلب دیکھ رہے
ہو۔؟" اُس نے بات کرتے کرتے ڈیرے پے لگے بلب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
"اس بلب کے اندر بھی روشنی ہے اور باہر بھی, لیکن روشنی کے جو ذرّات بلب کے
اندر ہیں اُنہیں ہم بلب ہی کہتے ہیں اور جو ذرات باہر ہیں اُنہیں روشنی کہتے ہیں,
روشنی کے یہ ذرّات بلب سے جتنا دور ہوتے جائیں اُتنا ہی مدھم پڑتے جائیں گے۔ اب
اگر کسی طریقے سے اِن مدھم ذرّات کو واپس بلب کی جانب لے کر جایا جائے تو یہ ذرّات
جیسے جیسے بلب کے قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ہی یہ روشن سے روشن تر ہوتے جائیں
گے اور ایک مقام ایسا آئے گا کہ روشنی واپس بلب میں داخل ہو جائے گی۔ اسی طرح
انسان کے اندر جو نور موجود ہے وہ اُسی ذات کا امر ہے لیکن دوری کے باعث مدھم ہے۔
جب ایک شخص حُبِ الٰہی میں آگے بڑھتا ہے تو اُس کے سینے میں موجود نور روشن ہونا
شروع ہو جاتا ہے, اِسی روشنی کے بڑھنے کو درجات کا بُلند ہونا بھی کہا جاتا ہے۔
اللّٰہ کے قریب لے جانے والی راہوں میں سب سے تیز راہ عشق ہے۔ تو جب کوئی روشنی کا
ذرّہ اپنے مرکز پے واپس پہنچ جاتا ہے تو وہ مرکز کا حصّہ بن جاتا ہے۔ اِس بات کا
اظہار کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ اِس لیے جب حضرت منصور حلاج نے اقرار کیا
تو اُنہیں قتل کرنے کا فتویٰ صادر کیا گیا۔ یہ مقام ایک راز ہے جسے ہر خاص و عام
پر نہیں کھولا جا سکتا۔ انہوں نے جو کہا وہ اپنے مقام کے اعتبار سے صحیح کہا لیکن
ایسی بات کو مقامِ شریعت میں بیان کرنا روا نہ تھا۔ کہتے ہیں, تم اِک گورک دھندا
ہو۔ وہ ذات, کہ خود ہی چھُپتا ہے, اور خود ہی چھُپاتا ہے, اور پھر کہتا ہے کہ مجھے
ڈھونڈ ۔ تو جس نے اُسے پا لیا وہ مندر میں بیٹھا بھی مومن ہو گیا اور جو اُسے
ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہ کر سکا وہ کعبے میں بھی بیٹھا کافر ہی رہ گیا۔ اگر آپ دنیا
کی ابتدا سے لے کر اب تک کے حالات پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ سب چیزیں
آہستہ آہستہ نازل ہوئیں۔ ابتدا میں مقصد صرف انسانوں کی آبادکاری تھا۔ انہیں زمین
میں چلنے پھرنے, جینے مرنے کا طریقہ بتانا تھا۔ لوگ اپنے مسائل کے فیصلے کروانے کے
لیے سیدھے اللّٰہ سے سوال کر لیتے اور جواب مل جاتا۔ جیسے ہابیل اور قابیل کی مثال
ہے کہ انہوں نے اپنی اپنی قربانی اللّٰہ کے حضور پیش کی اور اللّٰہ نے ہابیل کی
قربانی قبول کر لی۔ آہستہ آہستہ اللّٰہ کا پیغام زمین میں بڑھتا گیا لیکن اُس سے
کلام کا طریقہ خفی ہوتا گیا۔ جیسے جیسے انسان کی سمجھ, اُس کا فہم وسیع ہوتا گیا
ویسے ویسے اللّٰہ نے اپنی ذات کے اظہار کو روشن سے روشن تر اور پوشیدہ سے پوشیدہ
تر کر دیا۔ کبھی اُس کی آواز آسمان سے سُنائی دیتی تھی اور پھر اُس کا پیغام جبریل
علیہ السلام لے کر آنا شروع ہو گئے۔ جس رب نے بنی اسرائیل کے لیے اپنی کتاب پتھر
کی سِلوں پے نقش کر کے اپنے نبی کے ہاتھ دی اُسی رب نے رہتی دنیا تک کے لیے تمام
کتابوں کا نچوڑ یعنی قرآن اپنے محبوب بندے کے دل پر نازل کیا۔ وہ رب جس نے اسماعیل
علیہ السلام کی ایڑھی سے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا اُسی رب نے میدانِ کربلا میں
اپنے محبوب ترین بندوں کو ایک بوند پانی نہ دیا۔ جس رب نے عیسیٰ ابن مریم کو زندہ
آسمان پر اُٹھا لیا اُسی رب نے حسین ابن علی کا سر نیزے پے چڑھ جانے دیا۔ آخر
کیوں؟ کچھ تو بھید ہو گا اِس سب کا؟ تو بھید یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنے محبوب بندوں
کے روپ میں اپنے عشق کی مثالیں قائم کرتا ہے۔ جس بندے کا دل اللّٰہ کا عرش بن
جائے, اللّٰہ جس کے رگ و پے میں سما جائے, وہی ایسی قربانی دے سکتا ہے۔ کٹے ہوئے
سر کا نیزے پے تلاوت کرنا, زمین و آسمان میں فنا اور بقا کی اِس سے بڑی مثال موجود
نہیں ہے۔ جب قطرہ سمندر سے مل گیا تو اُسے سمندر کہنا روا ہے۔
ایک بات اور کہتا چلوں کہ اگر کسی بزرگ سے کوئی
کرامت ظاہر ہوتی ہے تو محض اِس وجہ سے کہ وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ
وسلم کا غلام ہوتا ہے, یہ بات اِس لیے بیان کر رہا ہوں کیوں کہ ایک بار کسی سے بات
کرتے ہوئے میں نے اُسے سُلطان باہو رح کے مطالق بتایا کہ آپ رح کے چہرے کو دیکھ کر
لوگوں کی زبان سے کلمہ جاری ہو جایا کرتا تھا تو اُس نے فوراً کہا کہ "کیا
سُلطان باہو رح حضور پاک صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی ذیادہ پہنچ رکھتے تھے
(نعوذبللّٰہ) کہ جو کلمہ لوگوں کو پڑھانے کے لیئے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ
وسلم نے اتنی محنت کی وہ سُلطان باہو رح کو دیکھنے ہی سے جاری ہو جاتا تھا۔؟"
تو میں نے اُسے کہا کہ کوئی بھی ولی حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی غلامی ہی
سے ولی بنتا ہے, اس لیے اُس سے جو کرامت ظاہر ہوتی ہے وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ
علیہ و آلہ وسلم ہی کی ذات کا, اُن کے فیض کا, اُن سے محبت کا اظہار ہوتی ہے۔
اللّٰہ نے تمام کائنات اپنے محبوب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بنائی, اگر
رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو یہ کائنات ختم ہو
جانی چاہیے تھی۔ لیکن یہ کائنات اگر ابھی بھی باقی ہے تو یقیناً اِس کا مقصد اب
بھی رسولِ خُدا حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں۔ اللّٰہ کی پہچان,
ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی صورت, زمین میں ظاہر ہو چُکی ہے لیکن اللّٰہ کے
محبوب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی پہچان ابھی باقی ہے, جب تک یہ پہچان مکمل نہیں
ہو جاتی افلاک تباہ نہیں ہو سکتے۔ اولیاء کرام کی صورت, زمین میں اِسی پہچان کا
عمل جاری ہے۔ الگ الگ رنگ میں اولیاء کرام اُسی ایک ذات اقدس صلی اللّٰہ علیہ و
آلہ وسلم کی وسعت کے اظہار میں محو ہیں۔
اصل میں جب کوئی اللّٰہ کی جانب بڑھ رہا ہو تو
شیطان اُس سے طرح طرح کے سوال پوچھتا ہے۔ نور و بشر, شیعہ, سُنی, ہندو, مسیحی جیسے
سوالوں میں اُلجھاتا ہے۔ جو اُس کے سوالوں میں اُلجھتا ہے, اُلجھتا ہی چلا جاتا
ہے۔ انہی سوالوں سے نجات دِلانے کے لیے انسان کو کسی اُستاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ
نے اکثر اُستاد کے احترام میں بہت بڑی بڑی باتیں پڑھی ہوں گی, یہ باتیں اسکول کی
کتابیں پڑھانے والے اُستاد کے بارے میں نہیں بلکہ دین سکھانے والے اُستاد یعنی
مُرشد کے بارے میں کہی گئی ہیں۔ سُلطان باہو رح اپنی کتاب عین الفقر میں لکھتے ہیں
کہ حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان ہے "جس نے حصولِ دنیا کی
خاطر علم حاصل کیا وہ کافر ہے, جس نے حُجّت بازی کے لئے علم حاصل کیا وہ منافق ہے
اور جس نے رضائے الہٰی کی خاطر علم حاصل کیا وہ مسلم ہے۔" اب اِس بات کا مطلب
یہ نہیں ہے کہ دینی و دنیاوی علم حاصل کرنا چھوڑ دو, ڈاکٹر, انجینیر, یا عالم
وغیرہ بننا چھوڑ دو۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کے اپنے علم و ہنر کا مقصد حصولِ دنیا
یا لوگوں کی واہ وائی حاصل کرنا نہ ہو۔ کبھی کبھی محفل میں کسی کو لاجواب کر کے
اپنے علم کا ثبوت دینے سے ذیادہ ضروری خاموش رہ کر اپنی بڑائی ثابت کرنا ہوتا ہے۔
حیل و حُجّت کرنے والے عالم ہوں یا اُن کی باتوں کو دہرانے والے عام لوگ, دونوں ہی
فتنا و فساد کے باعث ہیں۔"
(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی
ایک سچّی کہانی) (حصّہ 28)
----------------
وہ خاموش ہوا تو ڈیرے پے موجود ایک اور شخص نے
اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا "بھائی یہ نور اور بشر والی بات مجھے بھی آج تک
سمجھ نہیں آئی, مولوی صاحب کہتے ہیں کہ نبی پاک ہماری طرح بشر تھے, اور پیری
مُریدی والے لوگوں میں بیٹھو تو یہ کہتے ہیں کہ وہ نور ہیں۔ مولوی صاحب کہتے کے
نور کہنا شرک ہے اور یہ لوگ کہتے کہ نور نہ کہنا شرک ہے۔ آپ بتاؤ کیا صحیح
ہے۔؟" اُس نے سوال کرنے والے سے کہا "دیکھو ہم مانتے ہیں کہ اللّٰہ ہر
جگہ موجود ہے, اگر وہ ہر جگہ موجود ہے تو اِس کا مطلب کہ ہم سب اُس کی ذات کے اندر
موجود ہیں, تمام زمین و آسمان کو اُسی نے گھیرے رکھا ہے۔ سب اُسی کا نور ہی ہے۔ بس
اصل نور سے دور آ جانے کے باعث اُس کی صورت بدل گئی ہے لیکن وہ صورت بدل جانے کے
باوجود, اُسی نور کے سمندر میں موجزن ہے, جو اُس کا اصل ہے۔ اللّٰہ نے اپنے محبوب
صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا آئینہ بنایا اور جب اُس میں اپنا عکس دیکھا تو
اُس پے عاشق ہو گیا۔ اُسی نورِ محمدی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے تمام ارواح کو
پیدا کیا گیا۔ ارواح میں سب سے پہلے تمام انسانی ارواح کو پیدا کیا گیا۔ نورِ
محمدی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے جو ارواح پیدا ہوئیں اُن میں حضرت آدم علیہ
السلام کے نور سے فرشتے پیدا ہوئے اسی لیے اُن سے آدم کو سجدہ کرنے کو کہا گیا۔
اللّٰہ نے دوسرے سجدے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں دوسرے سجدے کی اجازت دیتا
تو بیوی سے کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا تو سمجھ
آیا کہ جہاں کوئی ایک ذات کسی دوسری ذات کے وجود سے جنم لے وہاں سجدہ روا ہو جاتا
ہے, عورت کیونکہ مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی اِس لیے اللّٰہ نے فرمایا کہ میں کسی
اور کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا کہتا۔ یہ
بات شوہر کی عظمت سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھید کا اظہار ہے کہ جیسے اُس نے
حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے حضرت حوّا علیہ السلام کو پیدا فرمایا اُسی طرح
اُس نے ایک نور سے دوسرے نور جنم دیا اور کیونکہ تمام خلقت کا جنم ایک اللّٰہ کے
ہی نور سے ہے اِس لیے اُس نے اپنی عبادت میں کسی کو بھی شریک بنانے سے انکار کر
دیا۔ تمام تر نور اللّٰہ ہی کا ہے۔ ہر شئے اُسی کی ذات کا اظہار ہے۔ اچھائی کا
خالق اللّٰہ ہے تو بُرائی کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے, سب اللّٰہ کی ذات کا
اظہار ہے سب اللّٰہ کا نور ہے۔ یہ نور اور بشر کا جھگڑا بے فیض عالموں کا پیدا
کردہ ہے درویش کے لیے سب نور ہے۔ جیسے سُلطان باہو رح فرماتے ہیں کہ "میں
علمِ دیدار کا عالم ہوں, مجھے نور ہی نور دکھائی دیتا ہے۔" دیارِ عشق میں کس
کا کیسا مقام ہے اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اپنا مقام پیدا کرنے کے بارے
میں سوچنا چاہیے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں فقط تم جیسا
انسان ہوں۔ تم جیسا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم ہوں۔ بہت سے لوگ آپ صلی اللّٰہ علیہ
و آلہ وسلم کو اپنی طرح یا اپنے آباؤ اجداد کی طرح فانی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر
بڑی عقیدت سے ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن میں پوری عمارت جل جانے کے باوجود
قرآن پاک محفوظ رہا۔ افسوس ہوتا ہے سُن کر کہ کلام جس کتاب میں لکھا ہوا ہے اُس کے
بارے میں یہ سوچ ہے کہ یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا اور جس پے یہ کلام نازل ہوا اُس جسم
و دل کو فانی سمجھتے ہیں۔"
وہ خاموش ہوا تو ڈیرے کے مالک نے کہا "میرے
خیال میں اب ہمیں سرکار علی محمد سے ملاقات کے لیے چلنا چاہیے۔" تو اُس نے
تائید کی اور وہ سب اُن سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ اسلام آباد کے سیکٹر
آئی۔نائن میں پہلی بار وہ اُن سے ملاقات کے لیے پہنچا۔ ایک فلیٹ کے الگ الگ کمروں
میں لوگ بیٹھے تھے اور ایک کمرے کا دروازہ بند تھا۔ ڈیرے کے مالک نے اُسے ایک کمرے
میں انتظار کرنے کو کہا اور خود بند کمرے کی جانب بڑھا۔ اُس کی شخصیت ایسی تھی کہ
لوگ خود بہ خود اُس کی جانب کھنچے چلے آتے, وہ جس بھی محفل میں ہوتا سب نگاہیں اُس
کی جانب ہوتیں۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا کہ وہاں جاتے ساتھ ہر شخص کی نظر اُسی پر
تھی شاید اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن سب میں یہ بات پھیل چُکی تھی کہ کوئی
شخص سات سال کی عمر سے تلاشِ حق میں محو ہے۔ کچھ لوگوں نے اِسی بارے میں حیرت سے
اُس سے پوچھا تو اُس نے کہا اِس میں اتنا حیران ہونے کی بات نہیں, میں بھی آپ جیسا
ہی ہوں, گناہ گار ہوں, خطا کار ہوں, بس یہ اللّٰہ کی مہربانی تھی کہ اُس نے اُس
عمر میں ایسی سوچ دی اور میرے بار بار بہکنے کے باوجود مجھے بار بار وہ سوچ پھر سے
عطا کی۔ تو اِس سب میرا کوئی کمال نہیں ہے بس اللّٰہ نے راستہ ہی کچھ ایسا رکھا
تھا۔"
ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ ڈیرے کا مالک
ہانپتا ہوا اور تقریباً بھاگتا ہوا آیا اور کہا "چلو بھائی سرکار بُلا رہے
ہیں۔" اُس کی حالت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اُس نے اپنے مُرشد کا جلال دیکھا
ہے۔ ڈیرے کے مالک نے مزید کہا کہ "میں نے جیسے ہی بتایا کہ میں آپ کو یہاں
انتظار کرنے کے لیے بٹھایا ہے تو ناراض ہو گئے اور کہا کیا تجھے نہیں پتہ کہ کس کو
انتظار کروانا ہے اور کسے نہیں, جا فوراً اُسے اندر لے کر آ۔" اُس کی بات
سُنتے سُنتے وہ اُن کے کمرے کے دروازے تک پہنچا اور کمرے کے اندر داخل ہوا۔ کمرے
کے فرش پر دریاں بچھی ہوئی تھیں اور کمرے کے بیچ فرش پر ایک بستر بچھا ہوا تھا جس
پر سرکار علی محمد صاحب دیوار کے ساتھ تکیے رکھے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ وہ اُن سے
ملنے کے لیے ان کے پاس بیٹھا تو انہوں نے اُسے گلے سے لگا لیا اور اُن کی سانس سے
ھُو ھُو کی صدا پورے کمرے میں سُنائی دینے لگی۔ کافی دیر انہوں نے اُسے سینے سے
لگائے رکھا اور پھر اُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور سب سے کہا "دیکھو اللّٰہ کہاں
کہاں سے اپنے بندوں کو پُکارتا ہے, اِس دنیا میں لوگوں نے پیری مُریدی کو دھندا
بنایا ہوا ہے, سچ کیا ہے, حق کسے کہتے ہیں نہ تو کسی کو پتا ہے اور نہ ہی کوئی
بتاتا ہے۔" پھر اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "تُو خوش قسمت ہے کہ اللّٰہ
نے تجھے تیرے دل سے پُکارا," پھر اپنے مُریدین سے کہا "اللّٰہ انہیں
ملتا ہے جو اُسے اپنے اندر تلاش کرتا ہے۔ یہ جو کچھ تم اپنے باہر دیکھتے ہو یہ سب
تو دھوکہ ہے, فریب ہے, جسے اپنے اندر خدا نہ ملا اُس کے لیے کعبہ کلیسا ایک سا ہے,
اور جسے اپنے اندر خُدا مل گیا اُس کعبے کلیسے کی حاجت ہی نہیں رہتی۔"
مُریدین سے بات کرتے کرتے انہوں نے اُس کی دراز زلفوں کو ہاتھ سے اُس کے چہرے سے
ہٹاتے ہوئے شرارت سے کہا "یار تُو تو بہت خوبصورت ہے, لڑکیاں تو بہت مرتی ہوں
گی تجھ پر۔" تو اُس نے نظر جھُکا کر ادب سے کہا "سرکار جو اُس پے مر
مِٹا ہو اُس پے دنیا مرتی ہے, دو چار مجھ پے مَر گئیں تو کیا ہوا" انہوں نے
اُس کے جواب پے مسکرا کر کہا "اچھی خوبصورت شخصیت ہے تیری, آواز بھی زبردست
ہے, جا کوئی فلموں, ڈراموں میں کام کر, آج کل ویسے بھی اچھا پیسہ مل جاتا ہے اِن
کاموں میں, کہاں درویشوں میں آ بیٹھا ہے تُو۔؟" اُن کے سوال پے اُس نے بدستور
ادب سے جواب دیا "اگر اُس کا عطا کردہ حُسن اُسی پر نہ لُٹایا, تو کس کام کا یہ حُسن و
جمال۔؟" انہوں اُس کا جواب سُنا اور مریدین کی جانب دیکھتے ہوئے اُس کو مخاطب
کرتے ہوئے مذاق اُڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے کہا "بھئی کوئی لڑکی شڑکی
پھنسائی ہے کبھی, کسی لڑکی کو چھیڑ کر تھپڑ بھی کھایا کبھی۔؟ یا بس اللّٰہ ہی تلاش
کرتا رہا ہے, کوئی دلگی سُنا, کوئی نشہ کیا کبھی۔؟ شراب بھی پی کبھی یا بِن پیے ہی
لڑکھڑا رہا ہے"
اُس نے مسکرا کر اُن کی جانب دیکھا۔ وہ جان گیا
تھا کہ سرکار علی محمد اُس کا امتحان لے رہے ہیں۔ اُس نے کہا "سرکار میں دنیا
کا کوئی کام نہیں چھوڑا, ہر طرح کی بات کرنا جانتا ہوں, لیکن اللّٰہ والوں کے سائے
میں بیٹھ کے غیر اللّٰہ کی باتیں نہیں کی جاتیں مجھ سے, اکثر دوستوں کے ساتھ ہوتا
تھا تو وہ مجھ سے پاس سے گُزرنے والی لڑکی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے تھے اور
مجھے پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ اُس کے لباس میں کیا کیا چیزیں نمایاں تھیں, اکثر
دوست اِس بات پر نظر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے اور پوچھتے لڑکی تو دیکھی
تھی نا تُو نے یا لڑکی ہی نظر نہیں آتی۔؟ تو میں کہتا لڑکی تو نظر آ جاتی ہے پر وہ
سب نظر نہیں آتا جو تمہیں دکھائی دیتا ہے۔ بندہ اُس کو دیکھے جو ہمارے لیے ہو,
پرائی عورت کو دیکھ کر دل ترسانے کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کی
ضرورت نہیں پڑی کیونکہ لڑکیاں میرے پیچھے بھاگتی تھیں, لیکن کبھی اس شکل کا ناجائز
فائدہ نہیں اٹھایا, اور تھپڑ آج تک ایک ہی لڑکی سے کھایا ہے جو اب میرے دو بچوّں
کی ماں ہے۔" اِس سوچ سے, کہ کہیں انہیں اُس کا بار بار بات پھرانا, ناگوار نہ
گزرے, اُس نے کھُل کے اپنی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا "سرکار اِن باتوں
میں میرا دل لگتا ہوتا تو میں درباروں کی خاک نہ چھانتا۔" انہوں نے غور سے
اُس کی جانب دیکھا اور کہا "تُو باہو سرکار کا مُرید ہے نا, تو چل کلامِ باہو
سُنا" اُس نے اُن کی فرمائش کا احترام کرتے ہوئے بُلند آواز میں کلامِ باہو
پڑھنا شروع کیا "الف اللّٰہ, چنبے دی بُوٹی, میرے من وچ مُرشد لائی ھُو۔ ۔
۔" کلام پڑھتے ہوئے وہ سُلطان محمد اصغر علی رح کو سوچ رہا تھا اور جب وہ یہ
بیعت پڑھ رہا تھا "اے تن میرا چشمہ ہوئے, تے میں مُرشد ویکھ نہ رجاں
ھُو" تو یہ سوچ کر کہ وہ اب سُلطان محمد اصغر علی رح کو دوبارہ اُس روپ میں
نہیں دیکھ سکتا, اُس کی آواز بھرّا گئی اور اُسے کلام پڑھتے پڑھتے رُک جانا پڑا۔
سرکار علی محمد نے اُس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اُس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا
"غم نہ کر پُتر تیرا مُرشد ہر دم تیرے ساتھ ہے., اللّٰہ والے اپنے چاہنے
والوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں" پھر اپنے مُریدین کی جانب دیکھتے ہوئے
کہا "اِس سے سیکھو حُبِ مُرشد کیا ہوتا ہے, یہی وہ شئے ہے جو مُرید کو فیضیاب
کرتی ہے۔ اِس کا مُرشد سچ میں کامل ہے جس نے اِسے یہ سمجھ عطا کی, تُو ٹھیک کہتا
ہے پُتر, اللّٰہ والوں کے سائے میں بیٹھ کر غیر اللّٰہ کی بات نہیں کرتے۔"
(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی
ایک سچّی کہانی) (حصّہ 29)
----------------
اسی دوران سرکار علی محمد کا ایک اور مرید اندر
آیا اور بہت عقیدت سے اُن کے ہاتھ چومے پھر اُن کی اجازت سے اُن کے منہ پے بوسہ
دیا تو انہوں نے بوسہ دینے والے کو بناوٹی غصے سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا
"یہاں میرے سامنے آ کے میرا منہ چوم رہا ہے جیسے بڑی محبت ہے مُرشد سے اور
ویسے مُرشد کو اپنا نوکر بنایا ہوتا ہے, تیری جوتی گُم گئی تو اُسے ڈھونڈ کے لانا
کیا میرا کام ہے۔؟" آنے والے شخص نے فوراً اُن کے پاؤں پکڑ لیے تو انہوں نے
مُریدین کو مخاطب کر کے کہا "یہاں آتے ہوئے راستے میں اِس کی جوتی گُم ہو گئی
تو یہ کہتا ہے کہ مُرشد میری مدد کرو, اب کوئی بتائے مجھے کہ مُرشد کا یہ کام ہے
کہ اِس کی جوتی ڈھونڈتا رہے۔" اُن کی اِس بات پر محفل میں بہت سے لوگوں کی
ہنسی کی آواز گونجی۔ اُسے سرکار علی محمد صاحب سے دل زبانی بات کرنے کا بھی بہت
لُطف آیا۔ اُن کی بات پر اُس نے دل دل سے اُن سے کہا "اِس طرح تو ہوتا ہے اِس
طرح کے کاموں میں, تُو نے دیوانہ بنایا تو وہ دیوانہ بنا, نہ دیتے اُس کی جوتی تو
اگلی بار ایسا نہ ہوتا, اب ڈھونڈ کے دی ہے تو بھُگتیں" انہوں نے فوراً اُس کی
طرف دیکھا اور کہا "پُتر میں تو بھُگتنے کے لیے تیار ہوں اور اِن کی جوتیاں
بھی ڈھونڈ کے دینے کو تیار ہوں لیکن یہ بھی تو بات سمجھیں, مُرشد سے دنیا ہی سیدھی
کرواتے رہتے ہیں اللّٰہ مانگنے کا خیال نہیں آتا انہیں۔ میں کہتا ہوں جب تک میں
ہوں, تب تک مجھ سے کچھ سیکھ لیں یہ لوگ, لیکن سیکھنے کا شوق ہی نہیں ہے انہیں, یہ
تو شرابیں پینے آتے ہیں یہاں, کل کو میں نہ ہوا تو کسی اور جگہ بیٹھے شراب پی رہے
ہوں گے کیونکہ اِن کا مقصد اللّٰہ نہیں بلکہ اِن کا نفس ہے۔ ہم بھی سمجھاتے رہتے
ہیں اور اِن کو مَن مانی کرنے دیتے ہیں کہ چلو میرے پاس بیٹھ کے پی رہا ہے تو باقی
بُرائیوں سے تو محفوظ ہے نا۔
اُسے پتا چلا کہ سرکار علی محمد کسی کو اتنی
آسانی سے بیعت نہیں کرتے, کہتے کہ پہلے طالب بنو پھر بیعت کرنا, مُرشد کی صحبت میں
بیٹھو جب بیعت کے لائق ہو جاؤ گے تو بیعت بھی مِل جائے گی., لوگ کئی کئی سال سے
اُن کی صحبت میں بیٹھ رہے تھے لیکن بیعت نصیب نہیں ہوتی تھی, جو لوگ بیعت تھے
انہیں بھی کئی سالوں کی صحبت کے بعد بیعت نصیب ہوئی تھی, ایک شخص کا پتا چلا جو
قریب دس بارہ سال سے اُن کی خدمت میں بیٹھ رہا تھا لیکن ابھی تک اُسے شرفِ بیعت
حاصل نہیں ہوا تھا۔ اُس نے دل زبانی اُن سے کہا "آپ تو اللّٰہ والے ہیں, کسی
کا بھی دل بدل سکتے ہیں, پھر ایسا کیوں ہے کہ اتنا طویل عرصہ آپ کی صحبت میں
بیٹھنے کے باوجود یہ لوگ اِس لائق بھی نہ ہو سکے کہ آپ کے ہاتھ پے بیعت کر
سکیں۔؟" تو انہوں نے پھر سے اُس سے ظاہری طور پے بات کی اور کہا "پُتر
ہم کنجوس نہیں ہیں, بات یہ ہے کہ ہمارے پاس طالب نہیں آتا, کوئی سچّا طالب ہو تو
ہم اُسے خوار نہیں کرتے, لیکن جس میں اللّٰہ کی طلب ہی نہ ہو اُسے مُرید بھی نہیں
کرتے, پاس بٹھاتے ہیں, بات سمجھاتے ہیں کہ جس دن بات سمجھ آ جائے گی اُس دِن وہ
مُریدی کے بھی لائق ہو جائے گا, اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ سیکھتے ہم سے
ہیں لیکن بیعت کرنے کے لیے کسی باشرعا بزرگ کو ڈھونڈتے ہیں, ہمیں کوئی شوق نہیں ہے
مُریدین کی بھِیڑ اکھٹی کرنے کا, کوئی آئے تو ہم روکتے نہیں کسی کو۔ اب تو ایسا
دور آ گیا پیر بس مُریدین کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں پر
مُرید ہوں۔ ایسے مُرید نہیں چاہیے ہیں جو کسی جگہ بیٹھ کے ہمارا نام خراب کریں,
مُرید تیرے جیسا ہونا چاہیے کہ پیر فخر سے کہہ سکے کہ یہ میرا مُرید ہے۔" اُن
کی بات سُن کر اُس نے شرمندگی سے سر جھُکایا اور کہا "سرکار میں بھی اِس لائق
نہیں ہوں کہ مجھ پے فخر کیا جا سکے, میں تو بہت بُرا مُرید ہوں بلکہ مُرید کہلانے
کے لائق بھی نہیں ہوں, بس قسمت سے اُن کا سایہ نصیب ہو گیا, معارفت کی چار باتیں
سمجھ آ گئیں تو لوگ مجھے بھی عارف سمجھ لیتے ہیں, میرے مُرشد کے مُریدین میں میری
حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے, بہت سے عالم, عارف, عاشق لوگ میرے مُرشد کے سائے میں
پروان چڑھ رہے ہیں۔ اور میری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ میں بے شرعا ہوں۔"
انہوں نے شفقت سے اُس کی جانب دیکھا اور کہا "مُریدی نمازیں پڑھنے, روزے
رکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللّٰہ سے دل جوڑنے کا نام ہے, جس کا دل جُڑ گیا اُس کا
ہر کام نماز روزہ ہی ہے اور جس کا اللّٰہ سے دل نہ جُڑا, اُس کا نماز, روزہ, حج
وغیرہ سب دنیا داری ہے۔ درویش کو لوگوں سے نمازی, پرہیزگار کا لیبل نہیں چاہیے
ہوتا, اور نہ ہی اُسے لوگوں کے آنے جانے سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ درویش لوگوں کی
عقیدت کا بھوکا نہیں ہوتا وہ تو لوگوں سے دور بھاگتا ہے, اُس کے لیے اُس کا اللّٰہ
ہی کافی ہوتا ہے, وہ تو کہتا ہے کہ بس میں ہوں اور میرا یار ہو, وہ لوگوں سے بیزار
ہوتا ہے, کیوں درویش یار یار کرتے, یار ہی ہو چُکا ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ لوگوں میں
بیٹھتا ہے تو یہ درویش کا احسان ہے لوگوں پر کہ وہ دنیاداروں کو اپنے سائے میں جگہ
دیتا ہے۔
یسا کہ آقا پاک (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم) سے
جب جبرائیل نے پوچھا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز ادا کرے
تو ایسے جیسے وہ اللّٰہ کو دیکھ رہا ہے ورنہ وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔ اب اِس میں
احسان کہاں ہے, احسان کون کر رہا ہے اور کس پے کر رہا ہے یہ سمجھنے کی چیز ہے۔
نماز اللّٰہ کا گُمان کرنے کا نام ہے, جیسے ہر عبادت کرنے والا, دعا کرنے والا
اُسے پُکارتے ہوئے اُسے سوچنے کی کوشش کرتا ہے اُسی سوچ کو قائم کرنا نماز کہلاتا
ہے۔ اگر کوئی روز تیرے پاس آئے اور جذبات سے خالی دل لیے ایک ہی طرح کی باتیں کرتا
رہے تو کیا تُو بور نہیں ہو جائے گا۔؟ ظاہری نماز وہ سوچ قائم کرنے کے لیے ہے, جب
نماز قائم ہو جاتی ہے تو پھر اُس کا کھانا, پینا, جاگنا, سونا سب نماز ہے, آقا پاک
(صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم) نے زندگی بھر نماز اِس لیے ترک نہیں کی کیوں کہ وہ
جانتے تھے کہ میری اُمت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زندگی بھر نماز پڑھ پڑھ کر بھی
نماز قائم نہ کر سکیں گے۔ جس کی نماز قائم ہو گئی اُس کی نماز ہر وقت ادا ہو رہی
ہے, اُس کی نماز کبھی قضا نہیں ہوتی, مولا علی شیرِ خُدا وہ کامل مکمل ہستی, جس نے
نہ ظاہر میں کبھی نماز قضا کی اور نہ ہی باطن میں, اسی لیے اُن کی نماز کا قضا
ہونا نہ تو اللّٰہ کو منظور تھا اور نہ ہی اللّٰہ کے رسول کو منظور تھا, اِس لیے
سورج کو واپس بھیجا کہ پہلے شیرِ خُدا نماز ادا کریں گے پھر سورج غروب ہو گا۔ پس
ثابت ہوتا ہے کہ مومن کی نماز اللّٰہ اور اُس کے رسول کو اتنی پیاری ہے کہ وقت کو
واپس کر دیا جاتا ہے تاکہ اُن کی نماز نہ قضا ہو۔ تو نماز پڑھنے والے پڑھ کے چلے
گئے, اُسے تا حشر قائم بھی کر گئے۔ اب لوگ بس اصل نماز کی نقل کرتے ہیں, تو جو
جتنی اچھی نقل کر پاتا ہے وہ اتنا اصل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ نقل کرنا کوئی آسان بات
نہیں ہے۔ اور یہ نقل داڑھی, ٹوپی, تسبیح سے نہیں کی جا سکتی اِس کے لیے دل جلانا پڑتا
ہے تاکہ اُس کی روشنی میں روح اپنا آپ پہچان سکے, حضور غوث پاک کا فرمان ہے کہ جو
شخص اللّٰہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اُس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے۔ یہ پہچان کیا ہے
یہی بات سمجھنے کی چیز ہے۔ اور یہ بات کسی سے سیکھے بِنا سمجھ نہیں آتی۔ مُرشد کا
کام مُریدین کو اللّٰہ کی پہچان کرانا ہوتا ہے۔ لوگ سب اُلجھے ہوئے ہیں, مُلّا نے
سب کو عبادتوں میں اُلجھایا ہوا ہے, فلاں طریقے سے ہاتھ پاؤں دھوئے تو وضو ہے ورنہ
نہیں ہے۔ فلاں وقت نماز پڑھو اور فلاں وقت نماز مت پڑھو, فلاں فلاں سورت پڑھو اور
فلاں ترتیب سے رُکوع سجود کرو تو نماز ہوتی ہے ورنہ نماز ہی نہیں ہوتی۔ جسم و لباس
کی پاکیزگی اور طریقوں میں اُلجھایا ہوا ہے لوگوں کو۔ درویش لوگوں کو اِن چیزوں
میں نہیں اُلجھاتا۔ وہ سیدھے سیدھے دل کی بات بتاتا ہے۔ سچّا مُرشد لوگوں کو طور
طریقوں میں اُلجھانے کی جگہ اللّٰہ سے دل لگانا سکھاتا ہے۔ اللّٰہ سے دل لگانے کا
سفر عبادت سے نہیں بلکہ سلوک سے طے کیا جاتا ہے, اولیاء کی تربیت تو یہ ہے کہ نماز
پڑھ کے ایک ایک کو نماز نہ پڑھنے پر ٹوکنے
سے بہتر ہے تُو خود بھی نماز نہ پڑھتا۔ ایسی نماز, نمازی کے لیے عذاب کا باعث ہے
جسے پڑھ کر وہ دوسروں کو کمتر یا خود کو برتر محسوس کرنا شروع ہو جائے۔ اور ایسی
بےنمازی جو انسان کو عاجز بنائے, صرف انسان ہونے کی بنیاد پر لوگوں کا احترام کرنا
سکھائے وہ بےنمازی قُربِ الہٰی کا باعث ہے۔ مُلّا نے دین کے نام پر لوگوں کو نماز,
روزے کے طریقوں میں اُلجھا کر اللّٰہ کی راہ سے بھٹکایا ہوا ہے اسی لیے لوگ دین کی
بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کا گریباں پکڑ رہے ہوتے ہیں۔ لوگ دنیادار بیوقوف اور جاہل ہیں جو دین کو
جانتے ہی نہیں ہیں اور مُلّا کے بتائے مسئلوں میں اُلجھے رہتے ہیں۔ بڑے فنکار ہوتے
ہیں یہ لوگ۔ یہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں۔ وضو کے مسائل, نماز, روزے, طہارت کے مسائل,
وغیرہ وغیرہ۔ پھر اُس کے بعد مولوی صاحب مسئلہ سمجھاتے ہیں اور لوگوں کے مسائل
بڑھا دیتے ہیں۔ ایسا وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی, بال, لباس, تلفظ, نماز پڑھنے
کی جگہ, تصویریں اور نہ جانے کِن کِن چیزوں کو مُلّا, انسان اور اللّٰہ کے بیچ
کھڑا کر دیتا ہے۔ کیوں نہیں بتاتے یہ مُلّا لوگوں کو کہ اللّٰہ کی ذات کو اپنے
اندر تلاش کرو۔؟ حُسنِ سلوک اور سب انسانوں کو ایک برابر گِنّے کا درس کیوں نہیں
دیتے یہ مُلّا, پنڈت, پادری وغیرہ۔؟کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو دین دھرم کے نام
پر کھُلی اُن کی دُکانیں بند ہو جائیں گی۔
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی
ایک سچّی کہانی) (حصّہ 30)
----------------
درویش کیونکہ لوگوں کو اپنے پیچھے دوڑانے کا
قائل نہیں ہوتا اِس لیے وہ لوگوں کو مسئلوں میں نہیں اُلجھاتا بلکہ لوگوں میں مذہب
و مسلک کا فرق کیے بغیر انہیں حق بات بتاتا ہے, اِسی لیے لوگ درویش کے دیوانے ہوتے
ہیں۔ " بات کرتے کرتے سرکار علی محمد نے اُس کی جانب دیکھا اور کہا "تُو
بتا, تجھے اللّٰہ کی تلاش تھی, مسجد, امام بارگاہ دیکھی, دربار دیکھا اللّٰہ والا
دیکھا, اللّٰہ دیکھا کہ نہیں۔؟ اللّٰہ مِلا کہ نہیں۔؟"
اُس نے اُن کے سوال پر مسکرا کر کہا "جنہیں
میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں, وہ نکلے میرے ظلمت خانئہ دل کے مکینوں
میں" میں اپنے مُرشد پاک سے ملنے تک بہت اُلجھا رہا بہت سے سوال تھے دل میں,
لیکن مُرشد ملنے کے بعد جواب ملنا شروع ہو گئے۔ جب میں شیعہ ہُوا تھا تو ایک دوست
نے پوچھا کہ کیا فرق پڑا تم پے شیعہ ہو جانے سے۔؟ تو میں نے کہا کہ میں فرق ہی
تلاش کر رہا ہوں, میں شیعہ, سُنّی نہیں بلکہ انسان بننا چاہتا ہوں, میں اِس مسئلے
کی جڑ تک پہنچنا چاہتا ہوں, اور لوگوں تک اِس کا حل پہنچانا چاہتا ہوں, میں نے جس
دن پڑھا تھا کہ جستجو کرنے والوں کو اللّٰہ ہدایت ضرور دیتا ہے, اُس روز مجھے یقین
ہو گیا تھا کہ اللّٰہ مجھے مل گیا ہے, مجھے دکھائی دے گیا تھا کہ وہ ہمیشہ میرے
ساتھ ہی تھا, اللّٰہ کا مل جانا یہی ہے کہ انسان کو اللّٰہ کے ساتھ کا احساس مل
جائے, تو وہ احساس مجھے پہلے قدم پر ہی مل گیا تھا لیکن میں پورا حق جاننا چاہتا
تھا۔ میں چاہتا تو سکون سے گھر بیٹھ سکتا تھا کہ مجھے اُس کی ذات کا احساس نصیب ہو
گیا, اب تلاش کی ضرورت نہیں, کیونکہ جب اپنے اندر ذات مل جائے تو باہر ڈھونڈنے کی
ضرورت نہیں رہ جاتی۔ لیکن جب ذات محسوس ہوئی تو دل نے مجھ سے سوال کیا کہ اپنی ہی
قبر روشن کرنی ہے یا لوگوں کا بھی کچھ احساس ہے۔ بڑی خوشی, بڑا اطمینان ہے تجھے,
لیکن جن لوگوں میں رہتے ہوئے تجھ پے یہ سب مہربانی ہوئی کیا اُن لوگوں کا کوئی حق
نہیں ہے تجھ پے۔؟ دل کی بات سُن کر میں ڈر گیا اور ارادہ کیا کہ پورا سچ جاننے اور
لوگوں تک اُسے پہنچانے کی کوشش کروں گا, اِس لیے مجھے جو راہ دکھائی دی میں نے
ثابت قدمی سے اُس پر چلنے کی کوشش کی, اللّٰہ نے بہت سا قُرب عطا کیا, بہت سا راز
سمجھایا, اپنے مُرشد پاک سے مِلنے کے بعد جب میں نے پلٹ کر اپنی گُزشتہ زندگی کی
کمزوریوں اور محرومیوں کی جانب دیکھا تو مجھے ہر چیز درست نظر آئی اور میں اپنے
ماضی کو اللّٰہ کی رضا و حکمت مان کر پُرسکون ہو گیا, پھر مستقبل پے نظر دوڑائی تو
مُرشد نے اللّٰہ کی رضا و حکمت سے ہر حال میں راضی اور پرامید رہنے کا سبق دیا اور
مستقبل کی فِکر بھی بھُلا دی, جب ماضی و مستقبل سے چھُٹکارہ مِلا تو حال نصیب
ہُوا, حال نصیب ہُوا تو دل کی گرہ کھُلنا شروع ہو گئی اور بات پوری طرح سمجھ آنی
شروع ہو گئی۔ ہر حال میں اللّٰہ کی یاد قائم ہونا اللّٰہ کا مِل جانا ہے, کھاتے,
پیتے, سوتے, جاگتے, غرض کے ہر حال میں اُس کی یاد میں محو رہنا اللّٰہ کے قُرب کی
دلیل ہے۔ اگرچہ کہ ابھی تک میں کچھ کر نہیں پایا لیکن ارادہ ابھی تک پُختہ ہے۔"
سرکار علی محمد نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "تُو اتنے سارے لوگوں کو اتنی ساری
بات سمجھاتا ہے, لوگوں کو مُرشد والی راہ بتاتا ہے, اور کہتا ہے کہ کچھ کر نہیں
پایا ابھی تک۔؟ اور کیا کرنا ہے تُو نے۔؟ یہی کام ہوتا ہے بندے کا کہ لوگوں کو
بندگی سکھائے۔" اُس نے کہا "سرکار یہ سب بہت ناکافی ہے, میں نے بہت سے
دعوے کیے تھے, اللّٰہ سے کہا تھا کہ سب تک تیرا پیغام پہنچاؤں گا, لیکن میں کچھ
بھی نہیں کر پایا۔ روٹی کپڑا مکان میں ایسا اُلجھا ہوں کہ اپنی جگہ سے جُنبش بھی
نہیں کر پاتا, بس اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں ہے۔ مجھے اپنے اوپر ذمہ داری کا
ایک شدید بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے زمین پے ہونے والی ہر بُرائی ہر ظُلم میں
میری خاموشی کا دخل ہے۔ اگر میں خاموش نہ ہوتا تو شاید لوگوں کی سوچ بدل سکتا۔ کچھ
بڑا کر سکتا۔ لیکن میں سوائے سوچنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے کے, اور کچھ بھی نہیں
کر پایا۔ کبھی کبھی بہت ٹوٹ جاتا ہوں۔ تو خود سے کہتا ہوں کہ اب وقتِ آخر کی ابتد
ہونے کو ہے, بُرائی اپنے عروج کو جا پہنچی تو اچھائی نے بھی تمام در کھول دیے, اِس لیے
مجھ جیسے لوگوں تک بھی درویشی کی بات پہنچنا شروع ہو گئی ہے ورنہ یہ باتیں سمجھنے
کی اوقات نہیں ہے میری, درویشی کی چار باتیں سیکھ کر خود کو شاید کوئی درویش
سمجھنا شروع ہو گیا ہوں, یہ میرا نفس ہے شاید جو شہرت کا بھوکا ہے۔ لیکن میں خود
کو اس جواب پر مطمئن نہیں کر پاتا۔" کہتے کہتے اُس کی آنکھ نم ہو گئی, اور وہ
نظر جھُکائے خاموش ہو گیا۔
تو سرکار علی محمد نے کہا "دیکھ ہم تک جو
بھی اچھی بُری بات پہنچتی ہے وہ ہمارے پاس رحمان یا شیطان کی امانت ہوتی ہے۔ اُسے
آگے پہنچانا یا نہ پہنچانا انسان کا اپنا ظرف ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے پاس موجود
امانتوں کے امین ہوتے ہیں اور اُس امانت کی صحیح حقدار تک ترسیل کے لیے یا اُس
امانت میں خیانت کرنے کے لیے بےچین رہتے ہیں۔ جیسے بہت سے لوگ کسی کے راز کو راز
نہیں رکھ پاتے اور کچھ بہت اچھے ہمراز ہوتے ہیں۔ عام طور پے لوگ راز رکھنے کے
معاملے میں اپنے پرائے یا اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہیں, اِسی طرح اللّٰہ والے
اللّٰہ کے ہمراز ہوتے ہیں۔ اُنہیں یہ علم و معارفت اِس لیے نہیں دیا جاتا کہ سینے
سے لگا کر بیٹھ جائیں بلکہ اِس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ اُسے مخلوق کے فائدے کے
لیے استمعال کرے۔ اب اگر درویش وہ سب علم و معارفت ساتھ لے کر جنگل میں بیٹھا
اللّٰہ ھُو اللّٰہ ھُو کرتا رہے تو اِس کا مطلب کہ اُس نے اللّٰہ کی عطا کردہ
امانت میں خیانت کی۔ اسی وجہ سے درویش کو خانقاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے, اُسے لوگوں
کی عقیدتیں اکھٹی کرنے کا شوق نہیں ہوتا لیکن لوگوں تک پیغام پہنچانے کی خاطر اُسے
یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے عجز و عقیدت سے نفس بھاری ہوتا ہے اور اللّٰہ
کی امانت حاصل کرنے والوں کی سب سے بڑی آزمائش یہی ہوتی ہے کہ کس طرح لوگوں کی
بےجا عقیدت سے بچتے ہوئے, لوگوں تک حق پہنچایا جا سکے۔ جب شمع جلتی ہے تو اُس کے
گرد بہت سے پروانے اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن وہ سب سچّے پروانے نہیں ہوتے۔ ہر پروانہ
شمع میں جلنے کا خواہشمند نہیں ہوتا, وہ تو بس اُس کی حدّت محسوس کرنے کے لیے اُس
کی روشنی سے محظوظ ہونے کے لیے اُس کے ارد گرد اکھٹے ہوتے ہیں, شمع ایسے پروانوں
کے لیے روشن نہیں ہوتی, وہ تو اُن پروانوں کے لیے جَلنا قبول کرتی ہے جو شمع میں
جل کر شمع ہو جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض اولیاء نے ملامت کی راہ
اختیار کی۔ لوگ نماز روزے کے پابند لوگوں سے بہت آسانی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔
درویش, دنیا و عُقبا کے طالبوں سے دور بھاگتا ہے, وہ تو بس اللّٰہ کے طالب کا
مُنتظر ہوتا ہے۔ اللّٰہ کا طالب درویش کی شریعت پر نہیں بلکہ اُس کی عطا پر نظر
رکھتا ہے جبکہ دنیا و عُقبا کا طالب درویش کی شریعت سے ہی گھبرا کر بھاگ جاتا ہے۔
جو سچّے اولیاء شریعت کی پاسداری کرتے ہیں وہ کچھ اور حساب سے دنیاداروں کو خود سے
دور رکھتے ہیں, لمبی لمبی گاڑیاں, بڑے بڑے گھر دنیا و عُقبا کے طالبوں کو اللّٰہ
والوں سے دور رکھنے کے کام بھی آتی ہیں۔ تُو بتا, تُو جب اپنے مُرشد کے پاس گیا
تھا تو کیا تُو نے اُن کی گاڑی یا گھر وغیرہ پے توجہ دی تھی۔؟" اُن کے سوال
پر اُس نے نفی میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا "یہی سچے طالب کی نشانی ہے۔ تُو
جب میرے پاس آیا تو تُو نے باہر بیٹھے چرس اور شراب پیتے لوگوں کو دیکھ کر کیا
سوچا۔؟" اُس نے کہا "میں لوگوں کے اعمال پر کچھ خاص توجہ نہیں دیتا, ہر
شخص اپنی زبان سے اپنا اندر بیان کرتا ہے۔ یہ آپ کا پردہ ہے آپ کی شریعت ہے جس کے
جوابدہ آپ خود ہیں۔ لوگوں کا فیصلہ کرنے کی مجھے عادت نہیں ہے کہ کون صحیح ہے اور
کون غلط اور اگر یہ دیکھنا ضروری ہو کہ کون کتنے پانی میں ہے تو اُس کی بات سے اُس
کے ظرف کا اندازہ کرتا ہوں۔" سرکار علی محمد نے اپنے مُریدین سے کہا
"دیکھو یہ ہے سچا طالب جسے اللّٰہ والے سے صرف اللّٰہ ہی کی غرض ہے۔ تم لوگ
دیکھ رہے ہو میں اِس سے جو جو پوچھ رہا ہوں یہ سب بتا رہا ہے, اِس کا مطلب یہ نہیں
ہے کہ اِسے خود نُمائی کا شوق ہے یا مجھے اِسے جاننے کے لیے اِس کا امتحان لینے کی
ضرورت ہے یہ سب کہا سُنی تم لوگوں کے لیے ہے تاکہ تم سب کچھ سیکھو اور یہ جان سکو
کہ تمھارے مُرشد نے کسی اور کے مُرید کو اتنی اہمیت کیوں دی۔" پھر اُسے مخاطب
کر کے کہا "جب تُو آ کے مجھ سے مِلا تو اِن میں سے بہت سے لوگوں نے سوچا کہ
سرکار اِسے اتنی عزت کیوں دے رہے ہیں تو میں نے سوچا انہیں جواب دے دیا جائے"
پھر اپنے مُریدین سے کہا "یہ اِس کی نہیں اِس کے مُرشد کی عزت ہے, میں اِس کے
مُرشد کامل سے اظہارِ محبت کر رہا ہوں۔" پھر اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
"میرے پاس آتے رہتے ہیں دوسرے سلسلوں کے مُرید, میں کسی کو لفٹ نہیں کراتا
لیکن تُو بہت پیاری روح ہے اور کامل مُرشد والا ہے تیرے مُرشد نے تجھ میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی ورنہ بےشرعا درویشوں کی صحبت سے بڑے بڑے لوگ بھاگ جاتے ہیں, میرا سلام
ہے ایسے مُرشد کو جس نے اپنے مُرید کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔"
(جاری ہے)
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔