منگل، 23 جون، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی حصّہ چہارم. تا دس)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ چہارم)
----------------

اُس نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد اُس نے صرف دنیا داری کرنی ہے۔ اور جو خطا خود چل کے میرے پاس آئے گی, میں اُس کا ارتکاب ضرور کروں گا۔ شاید وہ اللّٰہ سے خفا ہو گیا تھا اور یہ سب کر کے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کو چند دن گزرے تھے کہ اُس کے والد کو کسی کام سے لاہور جانا پڑا۔ انہوں نے اُسے بھی ساتھ چلنے کو کہا تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا رات کا سفر کر کے وہ صبح فجر کے وقت لاہور پہنچ گئے اُس کے والد اُسے سب سے پہلے حضرت علی ہجویری رح کے مزار پے لے کر پہنچے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ جوں جوں سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا اُس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کے زیارت دور سے پوری طرح دکھائی دینے لگی۔ اور وہ جس سیڑھی پے تھا وہیں رُک گیا۔ اُس نے اپنے والد سے کہا "ابّو آپ جائیں اندر میں یہیں کھڑا ہوں" اُس کے والد نے اُس سے کوئی سوال نہ کیا اور اندر چلے گئے اور وہ وہیں کھڑا زیارت اور اُس کے ارد گرد آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہا تھا کچھ لوگ زیارت کو بوسہ دیتے اور کچھ وہاں دُعا کر رہے تھے۔ وہ پہلی بار کسی دربار پہ آیا تھا۔ اُسے مولوی صاحب کی بات یاد آئی کہ مزاروں پے شرک ہوتا ہے۔ لیکن آج جب وہ خود ایک مزار کے سامنے کھڑا تھا تو اُسے محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے صحیح نہیں کہا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ جو زیارت کو بوسہ دے رہے تھے اُن میں سے اکثر کے چہروں سے ایک سکون چھلکتا صاف دکھائی دے رہا تھا اور اسی سکون نے اُسے سوچنے پے مجبور کیا کہ یہ لوگ محو شرک نہیں ہو سکتے۔ ساتھ ساتھ اُسے یاد آیا کہ مولوی صاحب نے اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ مزاروں پے ایک شرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ اللّٰہ کے ولی سے سوال کرتے ہیں جبکہ اللّٰہ کے سوا کسی سے کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ اُس نے سوچا کہ اولیاء اللّٰہ اپنی ظاہری زندگی میں کیا کرتے ہوں گے تو اُس کے دل نے اُسے سمجھایا کہ یقیناً اولیاء اللّٰہ لوگوں کو اللّٰہ سے ملاتے ہوں گے۔ یہ خیال آتے ہی اُس کی آنکھوں میں امید کی چمک اُبھری۔ اُس نے زیارت کی جانب ایسے دیکھا جیسے صاحبِ زیارت تک اُس کی نظر کی رسائی ہو اور دل سے انہیں مخاطب کر کے کہا "آپ اللّٰہ کے دوست ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اللّٰہ والوں سے مانگنا شرک ہے, لیکن میں تو اللّٰہ والے سے اللّٰہ ہی کا سوال کر رہا ہوں۔ تو میری مُراد اگر پوری ہو جاتی ہے تو مجھے مشرک ہونا مولوی صاحب والے مومن بننے سے زیادہ محبوب ہے۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے, بس حق کی تلاش ہے, اگر آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجئے گا۔ ویسے میں اللّٰہ میاں سے ناراض ہوں اور تب تک ناراض رہوں گا جب تک وہ مجھے مِل نہیں جاتے۔ لیکن آپ کے پاس آ کے کچھ وقت کے لیے ناراضگی ملتوی کرنے کا جی چاہا۔ میں دربار کے آداب نہیں جانتا اس لیے آج اندر نہیں آؤں گا۔ جس دن آپ نے آداب سکھا دیے, اُس دن آؤں گا, ضرور آؤں گا, لیکن اُس سے پہلے نہیں۔
"حضرت علی ہجویری رح کے دربار سے واپس آنے کے بعد وہ ایک بار پھر سے اپنی زندگی میں مشغول ہو گیا۔ اُس کی زندگی کافی سخت تھی۔ نہ وہ پڑھائی لکھائی میں اچھا تھا اور نہ ہی کھیل کود میں۔ اِس لیے اُس کے ہم عمر بچّے اُسے اپنی ٹیم میں رکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ اِس وجہ سے اُسے اکیلا رہ کر دور سے  بچّوں کو کھیلتا دیکھنے کا موقع مِل جاتا تھا اور اس دوران اُسے اللّٰہ کی جانب متوجہ رہنے کا موقع مِلتا۔ وہ اکثر دوسرے بچّوں کے سلوک سے ٹوٹ جاتا تو سوچتا کہ میں نے ایسا کیا کِیا ہے جو سب بچّے مجھے تنگ کرتے ہیں جب کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تو آئینے کے سامنے کھڑا ہو کے سوچتا کہ شاید میں بہت بدصورت ہوں, اکثر آئینہ بھی اُس کے اس خیال کی تصدیق کر رہا ہوتا تھا, اُس کے بالوں کی عجیب سی کٹنگ  , اور اپنے ماموں, چچا وغیرہ سے لیے ہوئے پینٹ شرٹ میں, (جو اکثر اُس کی جسامت سے بڑی ہوتی تھیں) وہ بہت عجیب دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ چَھٹی جماعت میں پہنچا تو سرکاری اسکولوں کے یونیفارم تبدیل ہونے کا زمانہ تھا۔ اُس سے پہلے  کا  شلوار قمیض ہوتا تھا جسے بدل کر پینٹ شرٹ اور ٹائی کیا جا رہا تھا۔ اُسے بس اتنی خوشی تھی کہ چلو ایک پینٹ شرٹ تو میرے پاس اپنے ناپ کی ہو گی لیکن یہی بات اُس کے والدین کے لیے پریشانی کا باعث تھی کیونکہ اُس کے علاوہ اُن کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور تھا اور اُس کے والد شدید محنت کے باوجود بہت مشکل سے گھر چلا رہے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائی میں سب سے بڑا تھا اِس لیے اُسے اپنے والدین کی مجبوری کافی حد تک سمجھ آتی تھی۔ اُس کے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کسی بڑی دکان سے مکمل اسکول یونیفارم  خرید سکتے۔ اُس وقت اُس کے دل پے کیا گُزری یہ اُسکا اللّٰہ ہی جانتا ہے جب ایک ٹیچر نے اُسے سیٹ سے اٹھا کے پوری کلاس کے سامنے ذلیل کیا تھا۔  ٹیچر نے اُس کی بیلٹ پکڑ کے کھینچتے ہوئے کہا "یہ کون سے زمانے کی پینٹ پہنی ہوئی ہے تُو نے؟" کسی بچّے نے آواز لگائی "اپنے ابّو کے زمانے کی"۔ کلاس ٹیچراور بچوں   کے قہقہوں سے گونج اُٹھی۔ سارا وقت ٹیچر نے اُسے بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا رکھا تاکہ سب بچّے اُس کا یونیفارم  دیکھ سکیں۔ ویسے تو وہ کافی مضبوط تھا لیکن اُس روز وہ بہت ٹوٹ گیا تھا۔ کئی دن الگ الگ بہانوں سے اسکول سے چھٹیاں کرنے کے بعد اُس نے پھر سے اسکول جانا شروع کر دیا لیکن اسکول میں وہ اب کسی لڑکے سے آنکھ ملا کے بات کرتے ہوئے بہت جھجھک محسوس کرتا تھا۔ جب بریک  ہوتی تو وہ اسکول کی دیوار پے جا کے بیٹھ جاتا اور سب بچّوں کو گراونڈ میں کھیلتا دیکھتا رہتا۔  اسے جب بچپن میں کھلونے نہ ملتے تھے تو وہ ٹوٹی ہوئی لکڑیوں سے اپنے لیے بندوق, ہاکی یا بیٹ بنا لیتا۔ اکثر دوسرے بچّے اُس کا مذاق اُڑاتے لیکن ان حالات نے اُسے اپنا دل مارنا اور لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا سِکھا دیا تھا۔ اُس کی عادت بن گئی تھی کہ وہ خاموش رہتا اور ذیادہ تر تنہا رہتا تھا۔ جس تنہائی کو وہ اپنے لیے عذاب سمجھتا تھا اور جو ذلّت اُسے آٹھ, آٹھ آنسو رُلاتی تھی.

اُسی تنہائی اور ذلّت نے اُسے اتنا مضبوط کر دیا کہ وہ جینا سیکھ گیا۔ تنہائی نے اُسے حق کو سوچنے کا موقع دیا, وہ نہیں جانتا تھا مگر یہی تنہائی اور خاموشی اُس کی طاقت بننا شروع ہو گئی تھی۔ جب اُس نے لوگوں سے دور ہونا شروع کیا تو لوگ اُس کے قریب ہونے کے خواہشمند ہونا شروع ہو گئے لیکن اب اُسے لوگوں کی توجہ کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ اُس کے اپنے اندر جو دنیا آباد ہو رہی تھی وہ خود بھی ابھی اُس کی خوبصورتی سے ناآشنا تھا۔ شروع شروع میں جب دل پر چوٹ لگتی تھی تو وہ اکثر اکیلے میں رویا کرتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ مضبوط ہوتا چلا گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تلاش کو بھی بھولتا جا رہا تھا۔ شاید یہ بھولنے کا سلسلہ اُس دن سے جاری تھا جس دن وہ اللّٰہ سے کہہ کر آیا تھا کہ میں دنیا میں جا رہا ہوں۔

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ پنجم)
----------------

وہ اُس وقت بازار سے گُزر رہا تھا جب اُس نے پہلی بار کلامِ باہو سُنا۔ کسی دکاندار نے اونچی آواز میں کلام لگا رکھا تھا۔ باقی کے الفاظ تو اُس کی سمجھ سے بالا تھے لیکن ہر مصرے کے آخر پر ادا ہونے والا لفظ "ھُو" جیسے بار بار اُس کے دل کو چیر کے اُس کی روح کو سرشار کر رہا تھا۔ اُس نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ کیسا کلام ہے تو اُس نے بتایا کہ یہ کلامِ باہو ہے۔ سلطان باہو رح کا کلام ہے, آپ بہت بڑے ولی اللّٰہ گزرے ہیں۔ یہ سُن کر بے ساختہ اُس کی ذبان سے نکلا "بیشک یہ کلام کسی ولی اللّٰہ کا ہی ہو سکتا ہے۔" اتنا کہہ کر اُس نے گھر کی راہ لی۔ لیکن "ھُو ھُو" کی وہ صدا مسلسل اُس کے ساتھ تھی۔ گھر آ کے اُس نے سوچا کہ سلطان باہو رح ایک ولی اللّٰہ ہیں, کتنا اثر ہے اُن کے کلام میں۔ اور پھر اُسے یاد آیا کہ پچھلے سال لاہور داتا صاحب کے مزار پر بھی کافی عجیب کیف محسوس ہوا تھا۔ اسی سوچ میں محو شام ہو گئی مغرب کی اذانیں ہونا شروع ہوئیں اور وہ اُسی طرح اپنی سوچ میں مگن اذانوں کی آوازیں سُنتا رہا ایک مسجد سے أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا الله کی صدا آ رہی تھی تو ایک سے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کی آواز سنائی دے رہی تھی پھر یہ آوازیں مدھم ہوتی چلی جا رہیں تھیں کہ پھر سے اذان کی آواز آنا شروع ہو گئی کیونکہ باقی اذانیں ختم ہو چکی تھیں اس لیے یہ اذان صاف سُنائی دے رہی تھی اور پھر اذان کے اِن الفاظ پر اُس کی سماعت رُک گئی "اشهد ان علیاً ولی الله" یہ الفاظ اُس نے پہلی بار نہیں سُنے تھے لیکن اُس روز اِن الفاظ نے پہلی بار اُسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ اُس نے فوراً ارادہ کیا کہ آج مجھے امام بارگاہ جانا ہے۔ شیعہ مسلک سے اُسے تھوڑی بہت شناسائی اِس لیے بھی تھی کیونکہ اُس کی گلی میں تین گھر اہلِ تشیع کے تھے اور دو گھروں میں اُس کا آنا جانا بھی تھا۔ لیکن تلاشِ حق کی خاطر وہ کبھی امام بارگاہ نہیں گیا تھا۔

ایک بار پہلے بھی اُسے وہاں جانے کا خیال آ چُکا تھا لیکن پھر اُس کے دل نے اُسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اور آج بھی بار بار اُسے یہی خیال آ رہا تھا لیکن وہ بار بار اِس خیال کو شیطان کی کوئی چال سمجھ کے رد کرتا ہُوا امام بارگاہ کی جانب قدم بڑھاتا جا رہا تھا۔ اُس نے کئی بار لاحول پڑھی اِس کے علاوہ اور جو کچھ اُسے یاد تھا اُس نے سب پڑھ ڈالا لیکن اِس خیال کو رد نہیں کر پایا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ آخر ایک سُنسان گلی سے گُزرتے اُسے محسوس ہُوا کہ اِس گلی میں آتے ساتھ کوئی اُس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے اور وہ اندیکھا شخص اَن سُنی آواز میں اُسے کہہ رہا ہے کہ ابھی مَت جاؤ وہاں, ابھی تمہارے اندر بہت سی کم فہمی ہے, جس کی بنا پر ابھی تم سمجھ نہیں پاؤ گے اور ہو سکتا ہے گُمراہ ہو جاؤ, اِس لیے ابھی لوٹ جاؤ۔ جب وقت آئے گا تو اللّٰہ کی ذات تمھیں خود وہاں لے جائے گی۔" اُن الفاظ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ واپس پلٹنے پے مجبور ہو گیا اور اپنے گھر واپس آ گیا۔ اُس دن کے بعد سے اُس نے تلاشِ حق کی کوشش ترک کر دی۔
ایک دن بے سبب گھومتے وہ ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں kung fu سکھائی جاتی تھی۔ اُس نے اُسی دن سے یہ کھیل سیکھنا شروع کر دیا۔ اُس کے اُستاد نے اُسے سمجھایا کہ اِس کھیل کے سیکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی آپ کو اوئے کہہ کر مخاطب کرے تو آپ اُس  کے ہاتھ پاؤں توڑ دیں بلکہ اِس کا مقصد آپ میں اتنی برداشت پیدا کرنا ہے کہ کوئی آپ کے منہ پہ تھوک کر بھی چلا جائے تو آپ اُف تک نہ کریں"۔ یہ بات اُسے عجیب لگی, اُس نے کہا "لیکن سر اگر دوسروں کی زیادتی کو برداشت ہی کرنا ہے تو یہ kung fu سیکھنے کا کیا فائدہ ہے۔؟" استاد نے اُس کی جانب دیکھا اور کہا "میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلا وجہ اپنی بہادری کے جوہر دکھانے سے پرہیز کرنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے برداشت کرنا چاہیے کیونکہ کسی کو چوٹ پہنچانا آپ کے بڑا Fighter ہونے کی نشانی ہے لیکن کسی کی دی ہوئی چوٹ کو برداشت کرنا اور چوٹ پہنچانے والے کو معاف کر دینا آپ کے بڑا انسان ہونے کی علامت ہے۔ یہ کھیل آپ کو بڑا Fighter بنانے سے ذیادہ آپ کو بڑا انسان بنانا چاہتا ہے۔ اگر آپ بڑے انسان بن گئے تو یقیناً آپ بڑے Fighter ہیں لیکن اگر آپ بڑے انسان نہ بن سکے تو آپ kung fu میں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہو جائیں آپ نے kung fu سے کچھ نہیں سیکھا۔ اُسے اپنے اُستاد کی بات سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی اِس لیے اُس نے صبح شام kung fu کی practice کرنا شروع کر دی اکثر وہ اکیلا ہی practice کرتا رہتا تھا۔ تلاشِ حق کا خیال اُس کے لاشعور میں کہیں کھو چُکا تھا۔ اب تو اُسے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ اُس نے کبھی حق تلاش کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ وقت گُزرتا جا رہا تھا, میٹرک کے امتحان دینے کے بعد اُس نے سوچا کیوں نہ ایک سے پانچویں جماعت تک کے بچّوں کو tuition پڑھا کر کچھ پیسے کمائے جائیں۔ جلد ہی محلے کے چند گھروں میں اُس نے چھوٹے بچّوں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اور بہت جلد اِس کام میں اچھا خاصہ نام بھی بنا لیا۔ اُس کے students اُس سے بہت پیار کرتے تھے۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ بہت مشکل مشکل سوال بچّوں کو بہت آسانی سے سمجھا لیتا تھا۔ اُس کی عادت تھی کہ پہلے ہی دن اپنے students سے کہتا کہ آپ نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا اگر آپ نے کام نہیں کیا تو آپ مجھ سے یہ نہیں کہیں گے کہ سر میرے پیٹ میں درد تھا یا مجھے بخار تھا, مجھے یہ بہانے پسند نہیں ہیں, میں نہیں چاہتا کہ آپ میرے ڈر سے اللّٰہ سے ڈرنا چھوڑ کر مجھ سے جھوٹ بول دیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ مجھ سے یہ کہہ دیں کہ سر میرا دل نہیں چاہ رہا تھا کام کرنے کا یا میں کھیل رہا تھا اِس لیے میں نے کام نہیں کیا۔ وہ اپنے students کا دوست بن کہ اُنہیں سکھاتا اور اس طرح بچّے بہتر انداذ سے اُس کی بات سمجھ جاتے اور پڑھائی میں بہتر سے بہتر کارکردگی دکھاتے۔

کافی عجیب بات ہے کہ وہ پڑھنے سے ذیادہ پڑھانے میں تیز تھا۔ اُس نے اُن کلاسز کے students کو بھی پڑھایا جن کا کورس اُس نے خود کبھی نہیں پڑھا تھا۔ اللّٰہ نے بچّوں کو پڑھانے کے حوالے سے اُسے بہت عزت سے نوازا۔ لیکن گھریلو حالات نے اُسے تعلیم چھوڑ کر بیس سال کی عمر میں ایک چھوٹی سی سرکاری نوکری کرنے پے مجبور کر دیا۔ اللّٰہ نے اُسے یہاں بھی بہت عزت دی۔ سرکاری نوکری ملنے تک اُس نے زندگی کے بہت سے سبق سیکھ لیے تھے۔ عشقِ حقیقی کا طالب مجاز کی سیڑھیاں چڑھ چُکا تھا۔ دنیا اور اِس کی بُرائی کو سمجھ چُکا تھا۔ اُس کے وقت کا شاید ہی کوئی ایسا گناہ ہو جس سے اُس کی آشنائی نہ تھی۔ اُس وقت اُس کی عمر اکیس سال تھی جب وہ اپنے جگری دوست کی شادی میں شریک تھا, بارات کی واپسی پر دولہا کی گاڑی گھر جانے سے پہلے امام بارگاہ پہنچی۔ وہ ایک اور گاڑی پے اپنے ایک اور دوست کے ساتھ تھا۔ جس دوست کی شادی تھی وہ گاڑی سے اُتر کر امام بارگاہ کے اندر چلا گیا اور وہ اپنے دوسرے دوست کے ساتھ باہر گاڑی میں انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں کسی بچّے نے آ کے اُس سے کہا "انکل..! کیا آپ مجھے امام بارگاہ کے اندر لے جائیں گے, اتنی رات ہے اور بادلوں کی وجہ سے روشنی بھی کم ہے, مجھے اکیلے جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے, بس سلام کر کے واپس آ جائیں گے" اُس نے کہا "ٹھیک ہے, چلو۔" آج وہ پہلی بار امام بارگاہ کے اندر آیا تھا, اُس کے اندر کسی قسم کا کوئی احساس نہیں تھا, نہ خدا کا اور نہ ہی خدا کے گھر کا۔ اُس بچّے نے اُس سے آگے چلتے ہوئے عَلم کو بوسہ دیا اور دُعا کرنا شروع ہو گیا۔

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ ششم) محمد کامران احمد
----------------

وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے عَلم کے سامنے کھڑا تھا, اُسے ایسے کھڑا دیکھ کر اُس بچّے نے کہا "آپ نے سلام نہیں کیا۔؟" اُس نے کہا "مجھے نہیں پتا کہ کیسے سلام کرتے ہیں, آپ مجھے بتائیں, کیسے کرتے ہیں سلام۔؟" بچّے  نے فوراً اُس سے معافی مانگی اور کہا کہ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ شیعہ نہیں ہیں ورنہ میں آپ سے یہاں آنے کو نہیں کہتا"۔ اُس نے کہا کہ میرے نزدیک ہر وہ جگہ قابلِ احترام ہے جہاں سے اللّٰہ کو پکارا جاتا ہو۔ اب یہاں آیا ہوں تو سلام تو کر کے جانا چاہیے۔ بچّے نے کہا کہ بس عَلم کو بوسہ دیجیے اور دعا کر لیجیے۔ اُس نے آگے بڑھ کر عَلم کو ہاتھ سے چھُوا اور ہاتھ ہونٹوں اور پیشانی سے لگایا۔

جتنی دیر میں اُس کی انگلیاں اُس کے ہونٹوں کو چُھو کر اُس کی پیشانی تک پہنچیں اُتنی دیر میں ایک بجلی سی اُس کے اندر کوند چُکی تھی, اُس نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور آسمان کی جانب دیکھا, کالے کالے بادلوں کے ہالے میں چاند صاف دکھائی دے رہا تھا اور اُس پل اُس نے اُس بچّے کو کہتے سُنا "اللّٰہ میاں, مجھے حق کی تلاش ہے, پلیز میری مدد کیجیے"۔ اُس نے حیرت سے اُس بچّے کو دیکھا کہ اتنی سی عمر اور ایسی دُعا۔؟ اُس کا دل چاہا کہ وہ بھی یہی دُعا کرے, تو اُس نے بچّے کی دُعا اپنی زبان سے دہرائی اور پھر اپنے اعمال کو سوچ کر شرمندگی سے سر جُھکا لیا۔ وہ بچّہ واپس جانے لگا تو وہ بھی اُس کے پیچھے پیچھے امام بارگاہ سے باہر نکل آیا۔ اُس پے ایک عجیب سی خاموشی طاری ہو رہی تھی, کسی کی بات سُنائی نہیں دے رہی تھی, زبان جیسے گنگ ہو رہی تھی۔ وہ کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا تھا جہاں اُسے لوگوں کی اور لوگوں کو اُس کی آواز مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ وہ بار بار خود سے سوال کر رہا تھا کہ یہ مجھے کیا ہو رہا ہے اور اُس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے حق کی تلاش ہے, مجھے اللّٰہ کی تلاش ہے۔ وہ امام بارگاہ سے اپنے دوست کے گھر گیا اور اُسے دور سے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا شاید وہ اپنی حالت سے پریشان تھا اِس لیے کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسلام آباد کی بارشیں بہت شدید ہوتی ہیں اس رات جب وہ اپنے دوست کے گھر سے پیدل واپس اپنے گھر جا رہا تھا تو شدید بارش ہو رہی تھی رات کافی ہو چُکی تھی وہ مسلسل اسی سوچ میں کھویا تھا کہ وہ کس منہ سے تلاشِ حق کا سوال کر رہا ہے؟ اپنے آپ کو اپنے گناہوں پے ملامت کرتا وہ زور زور سے روتا ہوا سنسان سڑک کے کنارے چلتا جا رہا تھا شدید بارش ہونے کے باوجود اُسے گرم گرم آنسو اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہے تھے سُوٹ ٹائی پہنے وہ سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا گھر کی جانب چلا جا رہا تھا, ایک شدید بےچینی نے اُسے گھیر رکھا تھا, وہ اِس حالت میں گھر نہیں جانا چاہتا تھا, اُس نے سوچا کہ گھر کے پاس والی مسجد میں جاتا ہوں اور نماز پڑھتا ہوں, شاید ایسا کرنے سے دل کو کچھ سکون نصیب ہو جائے۔ پھر اُس کے دل نے اُسے ملامت کی کہ نہ جانے کتنے سال ہو گئے ہیں تم نے عید کے علاوہ مسجد کی شکل نہیں دیکھی اور آج اچانک سے تمہیں کیا ہوا کہ تم حق کی تلاش کرنے اور نماز میں سکون کی دولت تلاش کرنے کا سوچ رہے ہو۔ جاؤ کہیں جا کے شراب پیو, کسی سے جھگڑا کرو, کوئی اور گناہ کرو, شاید تمہارا نشہ ٹوٹ رہا ہے, اسی لیے اب تمہیں خُدا یاد آ رہا ہے۔ دیکھ اِس وقت تو مسجد بھی بند ہے اگر سچ میں آج تیرے اندر کچھ بدل رہا ہوتا تو کم سے کم یہ مسجد تو کُھلی ملتی, جاؤ جا کے کسی میکدے کا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ اللّٰہ میاں کا گھر عشاء کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رو رو کر اُس کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں اور وہ گھر کی جانب جانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ اُسے یاد آیا کہ مسجد کی بیسمنٹ سے ایک راستہ مسجد کے اندر جاتا تھا وہ فوراً پلٹا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا بیسمنٹ کی سیڑھیوں تک پہنچا۔ عام طور پے سیڑھیوں کا راستہ بند رہتا تھا لیکن اُس روز وہ راستہ کُھلا دیکھ کر اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی وہ دل و زبان دونوں سےکہے جا رہا تھا thank you اللّٰہ میاں thank you so much کہ آپ نے مجھے رد نہیں کیا اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اوپر مسجد تک پہنچا جوتے اُتارے اور اندر چلا گیا اندر ایک بزرگ شخص شروع کی صفوں میں بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے اُس نے لاکھ چاہا کہ اُن کی توجہ اُس کی جانب نہ ہو لیکن وہ تو جیسے اُسی کے انتظار میں تھے اُس کے اندر آتے ساتھ ہی انہوں نے اُسے گہری نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا۔ وہ اُن سے اگلی صف میں جا کر کھڑا ہُوا اور  نماز پڑھنے کی کوشش شروع کی لیکن شدید رقت کے باعث وہ آیات کے الفاظ ادا کرنے سے قاصر رہا۔

جیسے تیسے اُس نے دو رکعت نماز ادا کی اور دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے "اللّٰہ میاں میں نہیں جانتا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے مجھے, میں بس حق جاننا چاہتا ہوں, بس مجھے آپ کی تلاش ہے, جہاں سے بھی ہو, جیسے بھی ہو, بس آپ چاہیے ہو, مجھے پتہ ہے کہ میں جو مانگ رہا ہوں اُسے مانگنے کی اوقات نہیں ہے میرے پاس, لیکن پھر بھی مانگ رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تُو چاہے تو کسی کو بھی, کچھ بھی عطا کر سکتا ہے, مجھے اپنا آپ عطا کر دے" مسلسل رو رو کر اب وہ اتنا نڈھال ہو چُکا تھا کہ اُس سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا تھا۔ وہ وہاں سے اُٹھ کے جانے لگا تو اُن بزرگ نے اُسے روکا اور بہت شفقت سے پوچھا "بیٹا کیا بات ہے" اُس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکل پایا اور وہ بے اختیار اُن کے سینے سے لگ کر رونا شروع ہو گیا پھر اُس نے ایک بار پھر خود کو سنبھالا اور اُن بزرگ سے اجازت چاہی۔ گھر پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا مگر اُس کے دل کا اضطراب کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔ بستر سے اُٹھ کر وہ فرش پے بیٹھ گیا اور سر سجدے میں رکھ کے پھر سے رو رو کے وہی سوچ دُہرانے لگا پھر شاید روتے روتے بے ہوش ہو گیا۔ اچانک دل کے کسی کونے سے آواز آئی, "اُٹھ قرآن اُٹھا"۔ وہ فوراً اٹھا اور قرآن اٹھایا اور اپنے بستر پے بیٹھ گیا۔ اور سوچا کہ قرآن بیچ سے کھول لیتا ہوں اور جہاں نظر پڑی وہیں سے پڑھوں گا۔ جب اُس نے قرآن کھولا تو جن الفاظ پے نظر پڑی وہ کچھ یوں تھے کہ

وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ

اور جنہوں نے ہمارے لیے جستجو کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بے شک الله محسنين کے ساتھ ہے ﴿سورة العنكبوت 69﴾

یہ آیت پڑھ کے  اُس نے قرآن بند کر دیا, اُس پے پھر سے رقت طاری ہو گئی اور اُس نے کہا "اللّٰہ میاں میں بہت گناہگار ہوں اور آپ مجھے یہ جواب دے رہے ہیں کہ جو لوگ ہمارے لیے جستجو رکھتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے؟ میں نے تو کبھی آپ کی تلاش نہیں کی۔ اتنا کہہ کر وہ قرآن سینے سے لگائے روتے روتے نہ جانے کب سو گیا۔ شاید اُس آیت سے اُس کے دل کو کچھ قرار نصیب ہو گیا تھا۔

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ سات)
----------------

اگلے روز اُس نے کافی مُشکل سے اپنے دوست کے ولیمے میں شرکت کی کیوں کہ ابھی تک اُس کے حواس قابو میں نہیں آ رہے تھے اُسے بولنے اور لوگوں کی بات سمجھنے میں کافی دقت پیش آ رہی تھی۔ ولیمے سے فارغ ہو کر اُس نے گھر کی راہ لی اور گھر پہنچ کر پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس راہ چلا جائے اور اللّٰہ کو کیسے تلاش کیا جائے؟ اُس کے دل نے اُسے سمجھایا کہ اللّٰہ کی طلب ہے تو اُس راہ چلو جہاں تمہارا دل تمہیں لے جا رہا ہے۔ اُس نے کہا "یہی دل تو مجھے شراب خانوں میں لے جاتا رہا ہے اب اللّٰہ کی راہ بھی اِس سے پوچھ کے چلا تو پھر تو ہو گیا کام تمام۔" دل نے اُسے وہ حدیث یاد دلائی کے "جس چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے اُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے اُسے ترک کر دو۔" اُس نے کہا "اگر ایسی بات ہے تو سچ یہ ہے کہ دل نے ابھی تک کسی کو تسلیم نہیں کیا لیکن امام بارگاہ کی جانب میرا دل کھنچا جا رہا ہے۔ یہ جگہ منزل کا راستہ ضرور دے گی مجھے۔ شاید میرا رب اپنا آپ عطا کرنے سے پہلے مجھے آزمانا چاہتا ہے۔ کیونکہ میں تلاشِ حق میں میں کسی بھی مسلک کو اپناتا تو شاید کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر میں شیعہ ہوا تو میرے گھر والے تو شاید سمجھوتا کر لیں لیکن باہر والے, میرے دوست, رشتے دار, اور اہلِ محلہ۔؟ شاید لوگ مجھے قتل ہی کر ڈالیں گے۔ خیر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ اگر اِس راہ سے میں تیری جانب قدم بڑھا سکتا ہوں تو جب تک تُو مجھے مل نہیں جاتا میں اِسی راہ پر چلنا چاہوں گا۔ اے اللّٰہ میں تجھ سے دور جاتے ہوئے نہیں بلکہ تیری طرف آتے ہوئے مرنا چاہتا ہوں۔ اگر تیری جانب آتے مجھے مار بھی دیا جائے تو بھی مجھے منظور ہے۔ اگر میری یہی آزمائش ہے تو میں تیار ہوں۔ آج سے ابھی سے شیعہ ہوتا ہوں۔ میری تلاش کوئی مذہب یا کوئی مسلک نہیں ہے مجھے تُو چاہیے, تو اگر تُو ہندؤ کو ملتا ہے تو میں تجھے ہندؤ بن کے ڈھونڈھنے کو تیار ہوں اگر تُو یہودیوں کو ملتا ہے تو میں یہودی بن کے تجھے ڈھونڈتا۔ مگر تُو نے مجھے امام بارگاہ سے پُکارا اِس لیے
لا إلہ إلا الله
محمد رسول الله
عليٌّ وليّ الله ۔ ۔ ۔
اُس روز سے اُس نے نماز ہاتھ کھول کے پڑھنی شروع کی اور کالا رنگ پہننا شروع کیا۔ محرم کا مہینہ شروع ہوا تو سارے محلے میں اُس کے شیعہ ہونے کی بات پھیل گئی۔ گھر میں تو محرم سے پہلے ہی سب کو پتہ تھا, اُس کے والدین کا خیال تھا کے اُس کے شیعہ دوست نے اُس پر جادو کروا دیا ہے, جب اُس کی والدہ نے اُس کے سامنے اپنے خدشے کا اظہار کیا تو اُس نے مجذوبانہ انداز سے کہا " امّی یہ جادو نہیں ہے, یہ عشق کا آسیب ہے, یہ آسیب اوّل تو چڑھتا نہیں اور جس پے چڑھ جائے اُس کی جان لے کر بھی اُسے نہیں چھوڑتا" اُس کی امّی نے جیسے اُس کا جواب سُنا ہی نہیں اور بیتاب سے لہجے میں کہا "اگر تمہارے ابّو تمہیں کہیں لے کر جائیں کسی کے پاس دم وغیرہ کروانے کے لیے تو کیا تم جاؤ گے؟" اُس نے مسکرا کر اپنی امّی کے پریشان چہرے کو دیکھا اور اُن پاس جا کر بیٹھا اور اُن کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا "امّی میں ٹھیک ہوں, مجھے کچھ نہیں ہوا میں بس اللّٰہ کو تلاش کر رہا ہوں, اور اگر کسی کے جادو کرنے سے لوگوں کو شیعہ کیا جاتا ہوتا تو آج ساری دنیا شیعہ ہوتی, کسی کو کیا ضرورت ہے آپ کے بیٹے کو شیعہ کرنے کی, میں پورے ہوش و ہواس میں شیعہ ہوا ہوں, آپ پریشان مت ہوں, بس دُعا کیجیے کہ اللّٰہ مجھے کامیاب کرے" اُس کی امّی نے اُس کے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "بیٹا یہ دُعا تو میں ہر وقت کرتی ہوں, اپنے سارے بچّوں کے لیے, لیکن تم بڑے ہو اور تمہاری عادت ہے کہ تم ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہو اِس لیے تمہاری فکر ذیادہ رہتی ہے, خیر اب میرے دل کو تھوڑی سی تسلّی ہو گئی ہے اس لیے اب تم جا کے سو سکتے ہو, مجھے بھی نیند آ رہی ہے, اور تھوڑا سا ٹائم ملے تو نہا بھی لینا اتنے گندے بال ہو رہے ہیں تمہارے" اُس کی امّی کے لہجے میں اپنے بیٹے کے لیے ابھی بھی پریشانی تھی۔

جب لوگوں میں بات پھیلنا شروع ہوئی تو کئی لوگوں نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کی کسی نے راتوں کو امام بارگاہ آتے جاتے اُس پے چُھپ کر وار کر کے, راہِ خُدا میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی تو کسی نے اُس کے گھر کے دروازے پر اُس کے نام کے ساتھ کُتا کُتا لکھ کر اپنی دینی محبت کا ثبوت دیا۔ اُس نے اُس شخص کو لکھتے ہوئے دیکھا مگر اُس پے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اگلے دن وہ اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اُس کے کمرے کا ایک دروازہ گھر سے باہر کھُلتا تھا جس پے کُتا کُتا لکھا گیا تھا اور ایک دن گزرنے کے باوجود اُس نے اُن الفاظ کو مٹایا نہیں تھا۔ ایک لڑکا جو اُس سے I.Com کی tuition پڑھنے آتا تھا دروازے پے آیا تو آتے ساتھ اُس کی نظر اُس فقرے پے پڑی, اُس نے جلدی سے جیب سے مارکر نکالا اور تیزی سے اُس لکھے ہوئے کو مٹانا شروع کر دیا۔ اُس کی نظر پڑی تو اُس نے کہا "مٹاؤ نہیں اسے لکھا رہنے دو" اُس کے student نے کہا "سر آپ کو پتا ہے کہ یہ لکھا ہوا ہے اور آپ نے اسے مٹایا نہیں" اُس نے کہا "نہیں میں نے اِسے اِس لیے نہیں مٹایا کیونکہ اُس نے یہ میری نفرت میں نہیں بلکہ اللّٰہ کی محبت میں لکھا ہے, اُس کی نظر میں مَیں شیعہ ہو کر اللّٰہ سے دور جا رہا ہوں اور وہ اپنی جانب سے میرا بھلا ہی سوچ رہا ہے کہ شاید اپنے ہی دروازے پر اپنے نام کے ساتھ کُتا کُتا لکھا دیکھ کر میں اپنا راستہ تبدیل کر لوں, میں کون ہوتا ہوں اُس کے اظہارِ محبت کو مٹانے والا" اُس کے student نے کہا "سر مجھے فرقوں کا تو نہیں پتا کہ کون سا صحیح اور کون سا غلط ہے لیکن آپ پر مجھے پورا یقین ہے کہ آپ غلط نہیں ہو سکتے انشاءاللّٰہ آپ اپنی تلاش میں ضرور کامیاب ہوں گے۔"

(جاری ہے)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ آٹھ)
----------------

اُس نے ماتم کیا, نوحے پڑھے, ننگے پیر چلا غرض خود کو شیعہ ثابت کرنے کے لیے وہ جو جو کر سکتا تھا اُس نے کیا, اور امام حسنٌ کی شہادت کی رات جب اُس نے پہلی بار زنجیر زنی کی تو اُس کے والدین نے اُسے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ آج کے بعد تم ہمارے لیے اور ہم تمہارے لیے مر گئے۔
ایک رات امام بارگاہ سے واپسی پر ایک سنسان گلی سے گزرتے ہوئے کچھ لوگ اُس پے حملہ آور ہوئے۔ اُسے kung fu چھوڑے ہوئے کئی سال ہو چُکے تھے لیکن اُس روز اُسے احساس ہوا کہ شدید smoking اور کئی سال practice نہ کرنے کے باوجود وہ ابھی تک اپنا دفاع اچھی طرح کر سکتا ہے۔ حملہ آور ایک سے دو, تین ہوئے اور ہوتے ہوتے سات, آٹھ لوگ اپنے چہرے چھُپائے ہاتھوں میں ڈنڈے اور زنجیریں لیے کافی دیر اُسے زیر کرنے کی کوشش میں رہے لیکن اُسے چھونا اُن کے لیے ناممکن ثابت ہو رہا تھا۔ ابھی تک وہ یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ یہ حملہ اُس پے کس وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں سے پوچھ بھی رہا تھا کہ آخر کیوں وہ اُس کی جان لینا چاہ رہے ہیں مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا, اُن سب کی کوشش تھی کہ کسی طرح اُسے دبوچ لیا جائے لیکن شاید اُس وقت وہ مار کھانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اچانک حملہ آوروں میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا "کافر, کافر _ _" اُس نے حیرت سے اُن لوگوں کی جانب دیکھا اور پوچھا "تم لوگ مجھے اِس لیے مارنا چاہ رہے ہو کہ میں شیعہ ہو گیا ہوں؟" ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا "تُو کافر ہے اور واجب القتل ہے, ہم تجھے دین سے پھرنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیں گے" اُس نے لڑائی کے دوران ایک حملہ آور سے ایک ڈنڈا چھین لیا تھا جو ابھی تک حملہ آوروں کی درگت بنانے میں اُس کے کام آ رہا تھا۔ اُس نے فوراً ڈنڈا پھینکتے ہوئے کہا "ارے یار تم لوگوں نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اس لیے مارنا چاہ رہے ہو۔" اُس نے دونوں ہاتھ کھول کے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا "ویسے بہتر تھا کہ تم زبان سے بات کرتے لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حق پے ہو اور تمہاری اِس مار پیٹ سے میں اِس راہ سے پلٹ جاؤں گا تو آؤ مارو, میں بھی دیکھوں کتنا شوق اور لگن ہے تم لوگوں میں لوگوں کو اللّٰہ کی راہ پر لانے کا" سب حملہ آور اُسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ اُسی وقت آس پاس کے گھروں کی لائٹس روشن ہونا شروع ہو گئیں شاید شور سُن کے لوگ جاگ گئے تھے اور دور پولیس کا سائرن سنائی دیا جسے سُن کر حملہ آور اور گھبرا گئے اور انہوں نے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔ اُن کے جانے کے بعد اُس نے بھی اُٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھر کی جانب چل دیا۔

سارا راستہ وہ اُن حملہ آورں کی سوچ پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ کیسا دین تھا اُن کا۔؟ کس نبی, کس صحابی کے ماننے والے تھے وہ لوگ۔؟ کون سے مذہب کے پیروکار تھے۔؟ کِس مسلک نے انہیں لوگوں کو راہِ حق پے لانے کا یہ راستہ بتایا۔؟ اللّٰہ میاں یہاں تو لوگ مذہب کی پہچان ہی بھول چُکے ہیں۔ مذہب یا مسلک کا مقصد اگر اللّٰہ کی طلب نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔؟ کیا نماز کا طریقہ بدل لینے سے, کلمے کے الفاظ بڑھا لینے سے کوئی مومن یا کافر ہو سکتا ہے؟ جب تک کہ وہ اپنا دل نہ بدلے۔؟ کیا مذہب و مسلک محض عبادت کا طریقہ ہے۔؟ یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے جب ہاتھ کھول کر نماز پڑھیں تو شیعہ بن جاتے ہیں, ہاتھ باندھ کے نماز پڑھیں تو سُنّی اور رفع الیدین کر لیں تو اہل حدیث ہو جاتے ہیں۔ جب دل کے اندر کچھ نہیں بدلا تو کیا فرق پڑتا ہے سُنّی سے شیعہ ہو جانے سے۔؟ ہندؤ سے مسلم ہو کر کسی شخص نے کیا بدلا اگر اُس نے اپنا دل نہیں بدلا تو۔؟ اور اگر کسی نے اپنا دل بدل لیا تو کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ اُسی مذہب میں مر جائے جس میں وہ پیدا کیا گیا تھا۔؟
اُس کے دماغ کی سوئی انہی سوالوں پے ٹِک گئی تھی۔ "اللّٰہ میاں آپ مجھے اِن لوگوں کو ایک کرنے کا گُر سکھا دیجیے۔ میں آپ سے آپ کو مانگ رہا تھا لیکن میں بہت گندا ہوں, میں اِس لائق نہیں ہوں کہ آپ کو حاصل کر سکوں۔ تو میں اپنی دُعا واپس لیتا ہوں کیونکہ آپ مجھے مِل گئے اور یہ لوگ اسی طرح آپس میں جھگڑتے رہے, نماز, روزے, کے طریقے کو مذہب مانتے ہوتے ایک دوسرے کو کافر کافر کہہ کر مارتے رہے تو میں تجھے حاصل کر کے کون سا کارنامہ سرانجام دوں گا۔ پھر تو مجھ سے بڑا خود غرض کوئی نہ ہو گا اگر میں محض اپنے لیے ہدایت طلب کروں اور لوگوں کی فکر نہ کروں۔ شاید یہی اصل کُفر ہو گا۔ اللّٰہ میاں مجھے آپ چاہیے ہیں لیکن اپنے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے۔ اِن لوگوں کے گناہوں کے بدلے مجھے جس جہنم میں ڈالنا چاہیں ڈال دیجیے گا لیکن اِن لوگوں کو سمجھ عطا کر دیجیے انہیں تو یاد ہی نہیں ہے کہ مذہب اپنایا کس لیے جاتا ہے۔" وہ دعا کرتے کرتے رو پڑا۔ "اے اللّٰہ مجھے کچھ ایسا کرنے کا موقع دینا جس سے میں لوگوں کو ایک کرنے میں انسانیت کی مدد کر سکوں۔ اور اگر میں ایسا کچھ کرنے کے لائق نہیں رہا تو مجھے موت دے دیجیے میں اپنے لیے نہیں جینا چاہتا۔ اِس دنیا میں آیا ہوں تو لوگوں کے لیے کچھ کر کے جانا چاہتا ہوں۔

اُسے شیعہ ہوئے قریب سات ماہ گُزرے  تھے اِس دوارن اُس کی بہن کی شادی طے ہو گئی اُس کی بہن کے سُسر سلطان باہو رح کے سلسلے سے مُرید تھے۔ اُس سے مِل کر انہیں احساس ہوا کہ اِس لڑکے میں اللّٰہ کی طلب ہے اور انہوں نے اُسے ایک کارڈ دکھایا جس پے سُرخ رنگ کے دل میں سنہرے رنگ سے اللّٰہ کا نام لکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اِس نقش کو "اسم اللّٰہ ذات" کہا جاتا ہے اُس نے کہا میں یہ نقش لینا چاہوں گا, کیسے ملتا ہے یہ نقش۔؟ تو انہوں نے بتایا کہ سانسوں کے ساتھ اِس نقش کا ذکر کیا جاتا ہے اور مُرشد پاک سے اِس ذکر کی اجازت لینی ضروری ہے۔ اجازت لینے کے لیے آپ کو اُن سے ملاقات کرنی پڑے گی۔ اور ملاقات کے لیے آپ کو شور کوٹ جانا پڑے گا۔ سات, آٹھ گھنٹے کا سفر ہے۔"  اُس نے سوچا کہ تلاشِ حق میں یہ آٹھ گھنٹے کا سفر کیا معنی رکھتا ہے اور کہا "انشاءاللّٰہ میں ضرور آپ کے ساتھ چلوں گا۔ جلد یا بدیر جب بھی آپ کا جانا ہو تو پلیز مجھے بتا دیجیئے گا میں بس وہ نقش حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن میں بیعت نہیں کروں گا ابھی مجھے صرف نقش چاہیے, بیعت کیے بغیر ذکر کی اجازت مل جاتی ہے نا؟ اُس نے بےقراری سے پوچھا تو انہوں نے کہا "جی ہاں ذکر لینے کے لیے بیعت کرنا ضروی نہیں ہے" اُس نے خوش ہو کر کہا "ٹھیک ہے۔ ویسے آپ کے مُرشد پاک کا نام کیا ہے۔؟" انہوں نے کہا "ہمارے مُرشد پاک کا نام ہے "سُلطان محمد اصغر علی"

(جاری ہے)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ نو)
----------------

کسی کا مُرید ہونا اُس کی خواہش نہیں تھی۔ وہ تو بس حق جاننا چاہتا تھا۔ اور اسمِ اللّٰہ کا وہ نقش گویا اُس کے دل و دماغ میں سما گیا تھا۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا۔ کوئی ولی اللّٰہ کس مقصد سے لوگوں کو اسمِ اللّٰہ کا نقش دے کر سانس کے ساتھ اللّٰہ کا نام جپھنے کا درس دیتا ہے۔؟ اِس سے ذکر کرنے والے کو کیا حاصل ہوتا ہو گا۔؟ اُس نے اپنے سوال پھر اپنے دل کے سامنے لا کے رکھ دیے۔ دل نے اُسے ایک حدیث یاد دلائی کہ "ہر چیز کی صفائی کے لیے ایک آلہ ہے, اور دل کی صفائی کے لیے ذکرِ اللّٰہ ہے۔" ہاں وہ تو ہے لیکن اِسے ہم Scientifically کیسے ثابت کریں گے کہ ذکر کرنے سے انسان کے دل پر کوئی اثر پڑتا ہے۔؟ دل نے اُسے اسکول کی چھٹی, ساتویں جماعت کی سائنس کی کتابیں یاد کرائیں جن میں اُس نے آنکھ کے بارے میں پڑھا تھا کہ آنکھ سے ایک روشنی نکلتی ہے اور کسی بھی چیز سے ٹکرا کر واپس آنکھ تک جاتی ہے اور جس چیز سے وہ روشنی ٹکرا کے واپس آ رہی ہوتی ہے اُس کا عکس آنکھ کے پردے پے بناتی ہے جس سے دماغ سمجھتا ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور وہ منظر دماغ کے کسی کونے میں محفوظ بھی ہو جاتا ہیں جو بوقتِ ضرورت ہم یاد بھی کر سکتے ہیں۔ اب سوچو اگر کوئی شخص اللّٰہ کا نام سامنے رکھ کر صبح شام اِس نام کو اپنی آنکھ سے اپنے دل میں اُتارے تو اُس پے اثر ہو گا کہ نہیں۔؟ اور جس شخص کو اپنی سانس کے ساتھ اللّٰہ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے تو وہ جو مرضی کر رہا ہو لیکن وہ اللّٰہ کی یاد سے غافل نہیں ہو گا۔ اِسی لیے اولیاء اللّٰہ, لوگوں کو اللّٰہ کی یاد میں رہنے کو کہتے ہیں۔"
"ارے واہ..! کیا بات ہے, پھر تو حُبِ نبی کی خاطر اسمِ محمد کا بھی تصور کیا جا سکتا ہو گا۔" اُس نے خوش ہو کر اپنے آپ سے کہا۔ اُس رات وہ اپنے دل کو بہت وسیع محسوس کر رہا تھا اور ایک عجیب سا سکون اُسے اپنی آغوش میں سمیٹے جا رہا تھا۔ چند دن گزرے کہ اُسے پیغام مِلا کہ آج رات ہم نے شور کوٹ جانا ہے۔ ایک تھکا دینے والا رات بھر کا طویل سفر کرنے کے بعد جب وہ بس سے اُتر کر پیدل سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی جانب بڑھ رہا تھا تو اُسے بتایا گیا کہ "مُرشد پاک کے سامنے آپ جو بات بھی چاہیں اپنے دل کی زبانی اُن سے کہہ سکتے ہیں۔ وہ دل کی زبان سُن لیتے ہیں۔" اُس نے اُن کی بات کا یقین نہیں کیا اور سوچا میں نے کیا کہنا ہے اُن سے۔؟ مجھے جو کہنا تھا میں اللّٰہ میاں سے کہہ چُکا ہوں۔ اُن سے بس "اسمِ اللّٰہ" کی اجازت مل جائے۔ جب وہ اُن کے ڈیرے پے پہنچا تو وہاں موجود لوگوں کو دیکھ کر اُسے ایک عجیب سے سکون کا احساس ہونے لگا۔ روشن چہروں والے لوگ۔ اُن کے چہروں پے داڑھیاں اور سر پے سندھی ٹوپیاں تھیں جو بہت خوب صورت لگ رہی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو جینز, شرٹ میں اُس جگہ مِس فٹ محسوس کر رہا تھا کسی نے اُسے ایک کپڑا دیا اور کہا اِسے سر پے رکھ لو۔ اُس نے وہ کپڑا عربی انداز میں سر پے رکھا اور سب لوگوں سے ذرا فاصلے پے جا کر سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گُزری تھی کہ اُس نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھلا اور سب لوگ اپنی اپنی جگہ موئدب ہونے لگے اور اُس کمرے سے باہر تشریف لاتے بزرگ کی جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔ جب اُس نے اُنہیں دیکھا تو خود با خود اُس کے اندر اُن کے لیے ادب کا احساس جاگا اور وہ ذرا سیدھا ہو کر دیوار سے ہٹ کے با ادب ہو کر کھڑا ہوا اُسی پل انہوں نے اُس کی جانب دیکھا تو جیسے اُس کا دل اُس کے قابو میں نہیں رہا اور اُس نے دل کی زبانی اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون ہیں, مجھے تو اپنا نہیں پتا, لیکن مجھے اللّٰہ کی تلاش ہے, اگر آپ اِس تلاش میں میری مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجیے" ۔ جتنی دیر میں اُس نے اپنی بات مکمل کی اُتنی دیر میں سلطان محمد اصغر علی (رح) چلتے ہوئے اُس کے قریب آئے اور اپنا داہنا ہاتھ اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے اسلام و علیکم کہا۔ اُس نے اُن سے مصافہ کرتے ہوئے وعلیکم اسلام کہنے کی کوشش کی مگر اُن کے سامنے ذبان نہ ہل سکی اور وہ دل دل میں سلام کا جواب دے کر اُنہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔ اُن سے ذیادہ دلکش سراپے کا انسان اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُنہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑے پکڑے اُسے دُعا دی "پُتر اللّٰہ کامیاب کرے گا, اللّٰہ پاک خیر کرسی" اور اتنا فرما کر وہ وہاں سے تشریف لے گئے۔
اِس ملاقات کے بعد سے اُس پے ایک کیف سا طاری ہو گیا اُسے اپنی سوچ میں توازن محسوس ہو رہا تھا۔ ایک گہرائی اُس کے اندر سما رہی ہو جیسے۔ جب اسمِ اللّٰہ ذات کے ذکر کا طریقہ سمجھنے کے لیے بیٹھا اور سلطان محمد اصغر علی (رح) کے ایک مقرب مُرید نے اُس کی جانب اِسم اللّٰہ ذات کا نقش بڑھایا تو اُسے محسوس ہوا جیسے وہ کارڈ (جس پے اسمِ اللّٰہ کا نقش تھا) دھڑک رہا ہے۔ نقش کو دیکھتے دیکھتے اُس پے ایک غنودگی سی طاری ہو رہی تھی ایک کیف تھا جس نے ایک پل کو اُس کی آنکھ بند کر دی اور سر جھکا دیا۔ اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے اُن کے ہاتھ سے نقش لیا اور غور کرنے کی کوشش کی تو نقش سچ میں دھڑک رہا تھا۔ اُس نے پھر سے خود کو جھنجھوڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کاغذ کا ٹُکڑا دھڑک رہا ہو۔؟ یہ شاید اُس کے اپنے اندر کی کیفیت تھی۔ نقش کو دیکھ دیکھ کر اُس پے بار بار شدید غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ اُسے یوں نیند میں جھومتا دیکھ کے انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا" بیٹا آپ تھکے ہوئے ہیں, آپ کو نیند آ رہی ہے, مگر کچھ دیر ہوش و حواس میں رہ کر ذکر کا طریقہ سمجھ لیجیئے" اُس نے اُن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "ہاں میں بہت تھکا ہوا ہوں اور نیند بھی آ رہی ہے مگر میں بیہوش نہیں ہوں یہ غنودگی شاید اِس نقش کا اثر ہے, آپ ذکر کا طریقہ سمجھائیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔"
اُس نے اسمِ اللّٰہ ذات کا ذکر کرنا شروع کیا تو اُسے اپنے اندر ایک وسعت محسوس ہونا شروع ہو گئی اُسے اپنے سوالوں کے جواب اپنے ہی اندر سے ملنا شروع ہوئے گئے۔ اُسے ہر بات تصدیقِ قلب کے ساتھ سمجھ آنے لگی۔ اُسے سمجھ آنا شروع ہوا کہ فرقہ واریت درحقیقت ہم سب کے اندر کی تقسیم کا نام ہے۔ ہم کسی کے ساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں, اُس کے سُکھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں, اور اکثر اُسے اچھا انسان بھی مانتے ہیں لیکن جہاں اُس کے مذہب و مسلک کی بات آتی ہے تو ہم اُس کی آخرت کو برباد تصور کرتے ہیں۔ اِس سے کسی دوسرے کو تو فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارے اپنے دل پر بدگُمانی کی ایک تہہ چڑھ جاتی ہے۔ یہی بدگمانی ہمیں سماجی طور پے منقسم کرتی ہے اور سماج میں ایک پہچان اُبھارتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے مخالف ہیں, کس لیے مخالف ہیں؟ اِس لیے کے ہمیں ایک دوسرے کی عبادت اور عبادت گاہ ٹھیک نہیں لگتی۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے لوگ جس طریقے سے اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں, اور اللّٰہ سے جس طرح کا گمان رکھتے ہیں اُس سے وہ ضرور جہنم میں چلے جائیں گے چاہے وہ نیکوکار ہی کیوں نہ ہوں, اور ہم جس مسلک, یا جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہم تمام گناہوں کے باوجود جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ کیسی بیمار سوچ ہے کہ شروع کرتے ہیں اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے اور پھر اُسی اللّٰہ کی رحمت و مہربانی کو اپنی ذات تک محدود کر لیتے ہیں۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو رحمت اللعالمین مانتے ہیں اور پھر اُن کی رحمت کو اپنے فرقے اور مذہب تک کے لوگوں کے لیے خاص کر لیتے ہیں۔ اسلام مکمل سلامتی کا دین ہے۔ اس کی سلامتی کو تمام انسانوں تک پہنچنا چاہیے لیکن یہ سلامتی ایک دوسرے پر اپنے نبی, صحابی, یا امام کی برتری ثابت کرنے سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ایک اللّٰہ پے بھروسے اور یقین کا درس دینے سے یہ سلامتی لوگوں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اکثر جگہوں پے لکھا ہوتا ہے "مذہبی گفتگو سے پرہیز کیجیے" یہ جملہ اِس لیے لکھا جاتا ہے تاکہ امن و امان قائم رہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو کافر مشرک ٹھہرائے بنا دین کی بات ہی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم بھول چُکے ہیں کہ دین کا مطلب اللّٰہ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے, ہمیں یاد ہی نہیں ہے کہ دین کا مطلب اپنی اصلاح کرنا ہے۔ ہم سب خود کی اصلاح کیے بغیر ہی سب کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور یہی بات تمام فساد کی جڑ ہے۔  اُس نے اللّٰہ سے دُعا کی کہ "اللّٰہ میاں مجھے لوگوں کو اِس سوچ سے پاک کرنے کا موقع دینا۔ میں آپ سے اِس کے سوا اور کچھ نہیں مانگتا۔"

(جاری ہے)
: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ دس)
----------------

وہ جیسے جیسے اِسم اللّٰہ ذات کا تصور کرتا جا رہا تھا اُس کے دل کو سیدھ ملتی جا رہی تھی اور ذکر کی اہمیت اُس پے واضح ہوتی جا رہی تھی۔ اُس کے دل نے اُسے کہا کہ "زندہ اور مُردہ انسان کی پہچان سانس سے یا دھڑکن سے ہوتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ کہ انسان میں سانس اور دھڑکن کا عمل انسان کی روح سے وابستہ ہے۔ جب ایک شخص ذکر شروع کرتا ہے تو سمجھو کہ بیک وقت وہ اپنی سانس اور دھڑکن پر اللّٰہ کے نام کا پہرہ بٹھا لیتا ہے۔" ہاں وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کیا ایسا کچھ قرآن و سُنت سے بھی ثابت ہے۔؟ اُس نے دل کو ٹوکا۔ ویسے تو ایسی بہت سی آیات تھیں جن میں ذکر اور اہلِ ذکر کے الفاظ موجود تھے لیکن اُس وقت قرآن اُٹھانے پر جو آیت اُس کے سامنے آئی وہ سورہ انبیاء کی ساتویں آیت تھی۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُون (سورہ انبیاء 7)

اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) مَردوں کو ہی (رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے (لوگو!) تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔

اُس نے یہ آیت اور اُس کا ترجمہ کئی بار پڑھا تھا۔ الگ الگ جگہ الگ الگ طرح سے اِس آیت کا ترجمہ بیان کیا گیا تھا۔ کئی جگہ 'اہلِ ذکر' کا مطلب "اہلِ علم, اہلِ کتاب., یا "وہ جو یاد رکھتے ہیں" بیان کیا گیا تھا۔ اُس نے سوچا کہ جب عربی میں 'اہلِ ذکر' کا لفظ موجود ہے تو اردو میں 'اہل ذکر' کے لفظ کا الگ الگ انداز سے ترجمہ کیوں کیا جا رہا ہے۔؟ تو دل نے اُسے اپنے وقت کے علماء کا وہ چہرہ دکھایا جس کا استمعال کرتے ہوئے وہ قرآن سے اپنی مرضی, مقصد, یا ضرورت کا معنی اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اُس چہرے کے پیچھے اُسے اپنے جیسے بہت سے لوگ دکھائی دیے جو اُن عُلماء کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے اُن کی بات کو حرفِ آخر سمجھ کر دنیا سُدھارنے نکل پڑتے ہیں۔

اکثر رات کو اپنے گھر کے سامنے اکیلے کھڑے ہو کے سگریٹ پیتے رہنا اُس کی عادت تھی, اس دوران وہ اپنی سوچوں میں مگن رہتا تھا۔ اُس رات بھی جب وہ وہاں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا تو کچھ فاصلے پے اسٹریٹ لائٹ کے پاس اُس کے محلے کے چار, پانچ, لڑکے کھڑے آپس میں مذہبی قسم کی گفتگو کرنے میں مصروف تھے اُن میں سے ایک لڑکا اپنے حُلیے سے کسی مدرسے کا طالبِ علم لگ رہا تھا اُن کی بات کا موضوع شاید یہ تھا کہ کون سا فرقہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔ کہ اچانک اُس طالبِ علم دکھائی دینے والے لڑکے نے بلند آواز میں کہا "شیعوں کا ماتم دیکھنا, اُن کے جلوس دیکھنا کُفر ہے, جو یہ سب دیکھتا ہے اُس کا نکاح ختم ہو جاتا ہے, شدید گُناہ ہے اِن کی مجلسوں میں جانا, یہ سب کُفر و شرک ہے۔" ویسے تو اُسے عادت نہیں تھی کسی سے بحث کرنے کی لیکن اُس وقت شاید اُسے باقی لڑکوں پے غصہ آ گیا جو بڑے انہماک سے اُس کی بات سُن رہے تھے۔ اُس نے اُن کی جانب جاتے ہوئے دور سے آواز لگائی "ہیلو بھائیوں, ماشاء اللّٰہ بہت ایمان افروز گفتگو ہو رہی ہے کیا میں پاس آ کے سُن سکتا ہوں" وہ سگریٹ منہ میں دبائے ہوئے بات کرتا اُن کے پاس پہنچ گیا۔ وہ لڑکے عمر میں اُس سے دو, چار سال چھوٹے تھے اور محلّے داری کی وجہ سے اُسے صرف شکل سے جانتے تھے کیوں کہ وہ کسی سے ذیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ آج اُسے اِس طرح اپنی جانب آتے دیکھ کر سبھی حیران ہوئے۔ اُس نے ایک لڑکے کے کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے اُس لڑکے کی طرف دیکھا جو شیعہ مسلک کی بات کر رہا تھا اور بہت ادب سے کہا "بھائی بہت عجیب بات سُنی میں نے آپ سے, اِس لیے آپ کے پاس آیا, یہ نکاح ٹوٹ جانے کی ایسی وجہ تو میں زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں, آپ کوئی عالم ہیں۔؟ ہاں میں عالم کا کورس کر رہا ہوں اور اِس سے آگے مُفتی بنوں گا۔" اُس نے بدستور گرم لہجے میں جواب دیا۔ "واہ بھائی اتنی لگن ہے آپ میں دین سیکھنے کی کہ اِس کے لیے آپ نے اپنی پوری زندگی ہی وقف کر دی ہے., ماشاء اللّٰہ, ویسے یہ نکاح ٹوٹنے والی بات آپ نے کہیں پڑھی ہے یا کسی سے سُنی ہے۔؟" اُس نے اپنے لہجے کی مٹھاس برقرار رکھتے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے کہا "میں نے سنا ہے اور جن سے سُنا ہے مجھے یقین ہے کہ انہوں نے حق کہا ہو گا, یہ میرے دوست ہیں یہ شیعوں کے جلوس میں جانے کی بات کر رہے تھے, اس لیے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر تھا کہ اُن شیعوں کے جلوس میں مت جانا, ذکرِ علی کے بغیر تو اِن شیعوں کی نماز ہی نہیں ہوتی" اُس نے کہا "بھائی کیا ذکرِ علی کے بغیر آپ کی نماز ہو جاتی ہے۔؟" عالم لڑکے نے پُر زور انداز میں کہا "ہاں, الحمد للّٰہ میری نماز ہو جاتی ہے" اُس نے کہا "اچھا۔؟ آپ نماز میں درودِ ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں نا۔؟" عالم لڑکے نے کہا "ہاں ہم درودِ ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں"۔ "پورا درود پڑھتے ہیں۔؟ میرا مطلب, رسول اور آلِ رسول دونوں پے درود بھیجتے ہیں نا۔؟" اُس نے اپنے الفاظ پے زور دیتے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے اِس بار جھنجھلائے ہوئے جواب دیا "ہاں میں پورا درود پڑھتا ہوں"۔ اُس نے مسکرا کر کہا "پھر ذکرِ علی تو آپ بھی کر رہے ہیں۔ آلِ رسول کی ابتدا کہاں سے ہے۔؟" ۔ "حضرت علی سے ہے" اس بار جواب اُس کے ساتھ کھڑے باقی لڑکوں نے دیا تھا۔ عالم لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا تو اُس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا "نکاح ٹوٹ جانے کی وجوہات میرے خیال میں اللّٰہ نے صاف الفاظ میں بتا دی ہیں اور اُن وجوہات میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ کسی دوسرے مذہب و مسلک کی عبادات دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا یا مکروہ ہو جائے گا اور ہم لوگوں کے تو نکاح بھی نہیں ہوئے ابھی, تو ہمارا کیا ٹوٹے گا۔؟ ویسے تو نفرت کی عادت ہی بُری چیز ہے لیکن اگر کسی سے نفرت ہی کر رہے ہو تو تھوڑا level تو رکھو," اُس نے سوچا کہ عالم بھائی کو اولیاء اللّٰہ کے حُسنِ سلوک کی کوئی بات بتائی جائے اِس مقصد سے اُس نے بات جاری رکھتے ہوئے اُن سے پوچھا "آپ اولیاء کرام کو تو مانتے ہیں نا۔؟" تو عالم لڑکے نے گرجدار آواز میں کہا "حضرت ابو بکر صدیق رض, سے بڑا ولی کوئی نہیں حضرت عمر رض سے بڑا ولی کوئی نہیں, حضرت عثمان غنی رض سے بڑا ولی کوئی نہیں" اتنا کہ کر وہ عالم لڑکا چُپ ہو گیا تو اُس نے پوچھا "اور حضرت علی۔؟" جس پر عالم لڑکے نے پُر زور لہجے میں کہا "ہم حضرت علی کو نہیں مانتے اُن کی فوجوں نے حضرت عائشہ کی فوجوں سے جنگ کی تھی اِس لیے ہم انہیں نہیں مانتے" اُس نے حیرت سے اُس عالم لڑکے سے پوچھا "آپ سچ مُچ عالم بن رہے ہو۔؟ کیا بات ہے آپ کی, جو عیب آپ کو اہلِ تشیع میں دکھائی دے رہا ہے  وہی عیب کسی اور نام سے آپ نے خود بھی پال رکھا ہے, اور خود کو اُس عیب میں آپ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔؟ میں کسی مسلک کے ساتھ یا خلاف نہیں ہوں۔ لیکن میں نفرت کے خلاف ہوں۔
میرا ماننا ہے کہ جس اللّٰہ نے اپنے محبوب کی محبت میں ہم سب کو تخلیق کیا اُس کی کائنات میں محبت کے سوا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن یہ دیکھ کے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم اللّٰہ ہی کے نام پر ایک دوسرے کی نفرت میں مبتلا ہیں اور اُس نفرت میں ہم ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ آپ کے ماننے یا نا ماننے سے کسی ولی, بزرگ, یا صحابی کو کوئی فرق نہیں پڑتا, حضرت علی اپنے حصّے کی دنیاوی زندگی گُزار چُکے ہیں انہوں نے جو کیا اُس کی پوچھ اُن سے موئرخوں نے نہیں کرنی بلکہ اللّٰہ نے کرنی ہے اور اللّٰہ بہترین جاننے والا ہے۔ آپ کیوں خود کو کسی ایسے انسان کی بُرائی کرنے میں مبتلا کرتے ہیں جسے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہوا۔؟  کسی کی بُرائی بیان کر کے آپ گناہگار تو ہو سکتے ہیں لیکن اِیسا کر کے آپ ثواب نہیں کما سکتے۔ اگر کسی کی بُرائی کرنا کسی پے لعنت بھیجنا دین کا حصہ ہوتا تو سب سے پہلے شیطان پر لعنت بھیج کر ثواب کمانے کا حُکم دیا جاتا۔ آخر کیوں ہم پے ایسے لوگ حاوی ہیں جو دین و مذہب کو محبت کا درس بتاتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے سے نفرت کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک صحابی کا دوسرے صحابی سے اگر جھگڑا ہے تو بھی میں اور آپ کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے۔؟

وہ بنا رُکے بولتا جا رہا تھا اور عالم لڑکا متذبب انداز میں اُس کی بات سُن رہا تھا۔ اُس نے کہا "اگر آپ کسی ایک صحابی کی طرف سے دوسرے صحابی کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہی چاہتے ہیں تو پہلے اُن کے جیسا کردار پیدا کیجیئے پھر بات کیجیے, اگر لوگوں میں محبت نہیں بڑھا سکتے تو پلیز نفرت بھی مت پیدا کیجیئے۔" عالم لڑکے نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا تو اُس نے کہا "اگر میری باتوں سے آپ کی دل آزاری ہوئی تو میں آپ سے معافی مانگتا ہوں لیکن ایک بار میری بات کو ٹھنڈے دماغ سے سوچیے گا ضرور کہ سرِ محشر آپ نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یا کسی صحابی کے اعمال کا۔" اتنا کہہ کر وہ باقی لڑکوں سے مخاطب ہوا اور کہا "اللّٰہ ایک ہے, اُس نے خود ہی لوگوں کو الگ الگ مذہب و مسلک میں اُتارا کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ الگ الگ انداز سے لوگ اُسے اور اُس کے برگزیدہ بندوں کو یاد کریں۔ وہ اِس لائق ہے کہ الگ الگ رنگ میں اُس کی عبادت کی جائے اِس لیے ایک دوسرے کی عبادت کے طریقے اور اُس کے اعتقاد کی روشنی میں اُس شخص کو ملنے والی جنت اور دوزخ کا فیصلہ اُسی پر چھوڑ دو جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اور اپنی عبادت اپنے کردار اور اپنے اخلاق کی فکر کرو۔ جیسے کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں بہتر ہوں" اتنا کہہ کر اُس نے اُن لڑکوں سے اجازت لی اور واپس گھر آ گیا۔

(جاری ہے)

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 20 جون، 2015

اقبال کا قرآنی فقر

رمضان المبارک خصوصی پوسٹ
اقبال  کا قرآنی فقر
اپنا مقما پیدا کر ایڈمن محمد اسماعیل

مکمل تحریر >>

جمعرات، 18 جون، 2015

بدھ، 17 جون، 2015

بال جبریل کلام

کلام اقبال
بال جبریل     قطعہ 
پیر مغاں آتش پرستوں کا پادری آتش پرستوں کا پیشوا
درناب سونے سے  هی قیمتی بات
خوداری سے مراد  اپنے دین کے اصولوں کی حفاظت
ہنرمندی سے مراد  غیر اسلامی نظریات کی تردید کا سلیقہ
مے شراب کو کہتے ہیں یہاں تعلیم ہے

اس قطعہ میں اقبال نے پیر مغاں کی زبان سے یہ نکتہ بیان کیا ہے جو بلحظ مفہوم   سچے موتیوں سے بهی زیادہ قیمتی ہے
". کہ جس قوم کے نوجوان خودار اور ہنرمند نہ ہوں اس کے حق میں مغربی تعلیم  زہر کا   حکم رکهتی ہے مطلب یہ کہ اگر مسلمان نوجوان اسلامی تعلیمات  حاصل کرنے سے پهلے مغربی تعلیم  حاصل کریں گے تو یقینا ان کے اندر الحاد اور  بیدینی پیدا ہوگی  لحاظہ اپنے بچو کو پہلے دینی تعلیم سکهاو

اس کو انہو نے ضرب کلیم میں یو ں بیان کیا ہے

جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گر فرنگیانہ

مکمل تحریر >>

منگل، 16 جون، 2015

کلام اقبال ضرب کلیم چوتها حصہ

کلام اقبال  ضرب کلیم  چوتها حصہ

ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام

اہل حرم سے ان کی روایات چهین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو!

اہل حرم یعنی جو دین کی سمجه رکهتے ہیں یا  باقی ماندہ مسلمان  ان کو قومی ملی دینی روایات سے بیگانہ کردو  اس کی صورت یہ ہے کہ ایسا لٹریچر شائع کرو جس کے مطالعہ سے مسلمان نوجوان اپنی روایات اور  اپنے بزرگوں کے طور طریقوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکهنے لگیں  (نام نہاد ترقی پسند معاشرہ  ادیب اس ابلیسی فرمان پر نہایت خلوص کے ساته عمل کر رہے ہیں ) اور اسی قسم کی کتابیں ان کے نظام تعلیم میں شامل کر دو . اسی طرح تم اہل انگلستان و فرانس  مسلمانو کو ان کی ملی روایات سے بیگانہ کردو گے تو وہ صداقت کے ساته اعلان کریں گے کے 1350 سال قبل کا فرسودہ نظام جو نبی اکرم لیکر آے تهے وہ ہمارے لیے ناقابل عمل ہے  اور اس ترقی یافتہ دور میں اس کا اطلاق ( Application ) ممکن نہیں.
آہو یعنی ہرن ، خُتن مرکزی ایشیاء میں ایک علاقہ ہے ،   وہاں کاہرن بہت مشہور ہے جس کی ناف میں خوشبو ہوتی ہے ، جس کو کستوری کہتے ہیں بہت ہی معروف خوشبو ہوتی ہے یعنی اس ختن کے مرغزار میں جو ہرن رہتا ہے اس ہرن کو وہاں سے نکال دو  ، مرغزارِ ختن یعنی وہ مخصوص علاقہ جس کے اندر خوشبودار ہرن رہتے ہیں ۔مرغزار ختن سے تمثیل  ہمارے کامل شیوخ صوفیاء مراد ہے جن کے دم سے مرغزار چمن میں معرفت و حکمت کی خوشبو ہوتی ہے
اس مرغزار ختن سے اس آہو کو نکال دو ۔جب یہ آہو یہاں سے نکل جائے گا تو دو نقصان ہوں گے ، ایک نقصان تو یہ ہے ہرن کو ٹھکانہ نہیں ملے گا، یہ دربدر رہے گا اور دوسرا مرغزار ویران ہوجائے گا۔
جس ختن کے مرغزار میں آہونہ ہو وہاں گیدڑ آجائیں گے ، پہلے یہاں آہو ہوتے تھے اب ان کی جگہ گیدڑ آجائیں گے ، بھیڑیے آموجود ہوں گے.   اس لیے جتنا بہتر ہو ان کو ان کے صوفیا بزرگان دین سے بد زن کر دو جو ان کے دلوں میں عشق رسول کی شمع روشن کرتے تهے . جسکی بدولت یہ کفر کا مقابلہ کر سکتے ہیں  ان کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہو جاہیں گے  پہر وہ میرے یعنی ابلیسی نظام کو درہم برہم نہیں کر سکیں گے . اس لیے ان کو ان کے صوفیا علماء کے آستانوں سے دور کر کے  ابہام پیدا کردو.نئے نئے مذہبی پروپیگنڈہ کر کے عوام کو ان کے دلوں سے دور کر دو

محمد اسماعیل
اپنا مقام پیدا کر

مکمل تحریر >>

اتوار، 14 جون، 2015

حضرت رابعہ بصری ر ح مکمل سوانح حیات

مکمل تحریر >>

کلام اقبال....... رموز بیخودی.... خلاصہ مطالب مثنوی ( در تفسیر سوره اخلاص)

مکمل تحریر >>

کلام اقبال ضرب کلیم آبلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندو کے نام تیسرا حصہ

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو 
عربوں کو خوبصورت موٹریں ریشمی کپڑے اور دیگر سامان عیش و عشرت خصوصا ہر قسم کا سگریٹ کثیر تعداد میں سپلای کرو اور  تاکہ حجاز اور یمن سے اسلام بالکل خارج ہو جاے اور یہ خطہ دوسرا عراق اور مصر بن جاے
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ دمن سے نکال دو

اب رہ گے افغانی تو ان کا علاج یعنی ان کی دینی غیرت کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ لوگ ملاوں کے کہنے پر چلتے ہیں اس لیے سرحد اور آزاد علاقہ  اور افغانستان میں جس قدر علماء ہیں سب کا خاتمہ کر دو

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 13 جون، 2015

kalam-e-Iqbal by Rahat Fateh Ali Khan -Apna Muqam paida kar (complete)

مکمل تحریر >>

کلام اقبال ضرب کلیم ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام 2 حصّہ

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدۖ اس کے بدن سے نکال دو
شیطان کا ایک منشور یہ ہے کہ کچھ قومیں فاقہ کش ہوتی ہیں ، یہ فاقہ کش تو ہیں لیکن ان فاقہ کشی کے اندر ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ موت سے نہیں ڈرتے، یعنی شجاع ، بہادر اور نڈرہیں۔ ان فاقہ کشوں کو روٹی کا لقمہ دکھائو اور روحِ محمد ۖ ان کے بدن سے نکال دو ، ظاہر ہے کہ فاقہ کش کے لئے فاقہ اس کی کمزوری ہے، لیکن فاقے کے عالم میں اس کے اندر بہت ساری اور مثبت خصوصیات ہیں یعنی فاقہ کش ہے لیکن دلیر ہے ، فاقہ کش ہے لیکن نڈر ہے ، فاقہ کش ہے لیکن غیور اور باحیاء ہے ، شیطان کے لئے آسان ہے کہ اس کی غیرت اور اس کی شجاعت کو ختم کرے ۔ ان کو ایک دسترخوان پر لابٹھائو ، ایک وقت کا ان کو بہت ہی چٹپٹا کھانا کھلائو پھر دیکھو ان کی غیرت و شجاعت کیسے رخصت ہوتی ہے ، بس اس فاقہ کش کے بدن سے روحِ محمد ۖ نکال دو ۔
اگر اسلام کو ختم کرنا ہے تو مسلمانوں کے دلوں سے حب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نکال دو ـ. یہ وہstatement ہے جو ایک یہودی ربائی نے دی وہ اسلام پر P.hd. کررہا تھا. اس جملے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب اسلام اور مسلمانان عالم پر کس قسم کی جارحیت کی Planningکی جارہی ہے . پہلے خاکوں کا شوشہ پھر قرآن کی بے حرمتی اور اب شیطانی فلم !!!! آخراس سے حاصل کیاہے .
They are achieving multiple task in a low cost with more effective impact.
١. ان حرکتوں کی سب سے زیادہ Audienceمسلم ہیں بار بار اس حرکت سے ان کو اس کا عادی بنانا مقصودہے تاکہ حرمت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کوان کے دلوں سے نکالنا آسان ہوجائے ـ. جب حب رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) دلوں میں باقی نہ رہے گا مسلمان کا ایمان باقی نہ رہے گا.
٢. مسلمانان عالم کیونکہ پہلے ہی کمزور کر دیئے گئے ہیں اور ان کی قیادت میں بھی نا اہل لوگ زیادہ ہیں جس کی بنا پر مغربی شیطانوں سے بدلہ لینے کی صلاحیت نہیں رہی اس لئے ان کا غم و غصہ اپنی ہی سرزمین اور اپنی ہی املاک پر نکلے گا اس سے یہ مزید کمزور اور قرض دار ہوں گے اور آہستہ آہستہ ان کے سر ہمیشہ کے لئے خم ہوجائیں گے.
٣. میڈیا کے ذریعے امت کو میٹھے الفاظ میں یہ باور کروایا جائے کے احتجاج کا کوئی فائدہ نہیں. یوں امت مسلمہ ایک ایسی نیند سوجائے جس سے ان کے اٹھنے کی کوئی خاص امید نہیں .
چنانچہ اسی مقصد کے تحت مغربی سامراج نے ایک طرف مسلمانوں کے اندر ایسے فرقہ وارانہ علمی مباحث کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی شروع کی جن کا ہدف زیادہ تر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و ادب اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا اِنکار تھا تاکہ امت میں اہانت رسالت اور گستاخی نبوت کا فتنہ پیدا ہو۔ دوسری طرف یہ فکری میدان اسلامی تحقیق کے نام پر متعصب یہودی اور عیسائی مستشرقین کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے اسلام کی تعلیمات اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور سیرت پر اس انداز سے کتب تصنیف کیں کہ اگر ایک خالی الذہن سادہ مسلمان ان تصانیف کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کا ذہن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان کتابوں کے باقاعدہ مطالعہ سے جو ذہن تشکیل پاتا ہے اسے عشق و ادب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہتا۔ اس طرح مسلمانوں کے ذہنوں کو ہر دو طرح مسموم کرنے کا کام آج تک ہو رہا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ بعض مسلم مفکرین کے ہاتھوں بھی نادانستہ یہی کام سرانجام پانے لگا۔ وہ اس طرح کہ جب دورِ جدید میں مسائلِ حیات بدلے اور نئے نئے تقاضوں نے جنم لیا تو کئی مسلم مفکرین نے اسلام کی تعلیمات اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو اس انداز سے پیش کرنا شروع کیا کہ عصر حاضر کے چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ہر چند کہ یہ علمی کوششیں نہ صرف درست تھیں بلکہ تقاضائے وقت کے پیش نظر ضروری تھیں، ان مفکرین کے سامنے مسلمانوں کو درپیش مسئلے کا محض ایک رخ رہا، دوسرا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس شخصیت کے دو پہلو ہیں جو اپنی اپنی جگہ علیحدہ اور مستقل بھی ہیں اور باہم لازم و ملزوم بھی۔ ان میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظرانداز کرنا اسلام کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
(2) سیرت کے فیضان اور تاثیر سے زندگی کے اَعمال و اَقدار کی محرومی
اسلام ایسے اعمال و اقدار کاحامل ہے جو زندگی کو ظاہراً و باطناً ایک مثبت تبدیلی سے آشنا کرتے ہیں۔ اسلام کے یہی اعمال و اقدار ماضی میں مسلمانوں کی مادّی و تعدادی کمزوریوں کے باوجود ان کے غلبہ و تمکنت کا باعث رہے ہیں۔ یہ اعمال و اقدار مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی میں تب ہی موثر ہو سکتے ہیں جب انہیں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی اور کلی تعلق میسر ہو۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت انسانی شخصیت کے تمام اوصاف و کمالات کی جامع ہے۔ اس کے مطالعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی ایسی جامع تصویر سامنے آتی ہے کہ انسان کامل اور اسوہ حسنہ کا صحیح نقشہ ذہن پر مرتسم ہو جاتا ہے۔ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ اَخلاق، حسنِ معیشت، شجاعت و بسالت، صبر و تحمل، صداقت و امانت، تدبر و بصیرت، عدالت و فقاہت، جود و سخا اور رحمت و مودت جیسے عظیم خصائل و اَوصاف کا علم حاصل ہوتا ہے اور ہر قاری حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو عظیم مصلح و رہنماء، عظیم مدبر و منتظم، عادل قاضی و منصف، بے نظیر مقنن، مثالی قائد و سپہ سالار، دیانت دار تاجر، مثالی شہری، مثالی خاوند اور سربراہ خاندان، کامیاب سربراہِ ریاست اور اسی طرح ایک عظیم انسان کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پہلو کی اہمیت و افادیت تبھی موثر ہے جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ دیکھا جائے۔ لیکن بعض مسلم مفکرین و مصنّفین نے رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و شمائل کے بیان کو صرف اسی عملی پہلو تک محصور کر دیا اور وہ روحانی پہلو جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند و بالا کمالات اور معجزانہ خصائص و امتیازات پر مشتمل تھا، اُسے یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا گیا کہ جدید تعلیم یافتہ نسل کا ان مسائل سے کوئی تعلق نہیں، یہ تو محض صوفیاء و عرفاء کے لئے ہیں یا فقط عقیدت مندی کی باتیں ہیں جو نئے دور کی ضرورت نہیں۔
مزید برآں فضائل سیرت کے ظاہری پہلوؤں کا بیان بھی عقیدت و محبت کی چاشنی اور تعظیم و تکریم کے رنگ سے اس بنا پر عاری رکھا گیا کہ یہ جدید آداب تحقیق کے منافی ہے، لہٰذا اس غلو سے اپنی تحریروں کو مبرا ہی رکھنا چاہئے۔ نتیجتاً وہ قلبی عقیدت اور والہانہ محبت جو رفتہ رفتہ عشق میں بدل جایا کرتی ہے اس نسل کے دلوں سے ناپید ہوتی گئی اور بقول اقبال تعلیم یافتہ نوجوان نسل اس نوبت کو جا پہنچی ہے :
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 745، ساقی نامہ
سیرت کے عملی پہلوؤں کے بیان سے فکری و نظری دلائل کی صورت میں عقل پرست طبقے کے اعتراضات کا جواب بھی دیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات کو بیشک نئے حالات میں قابل عمل اور نتیجہ خیز بھی ثابت کیا جاسکتا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں میں حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا چراغ روشن نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے سینوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیوانہ وار الفت و عقیدت کا وہ طوفان بپا نہیں کیا جاسکتا جس کی قوت سے وہ کفر و طاغوت کے خلاف ٹکرا جائیں اور ناموس دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر اس طرح جانوں کے نذرانے پیش کر دیں کہ۔ ۔ ۔ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں) (1) ۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ لاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لاَئِمٍ (کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے) (2) ۔ ۔ ۔ کے ایمان پرور نظارے دنیا کے سامنے آجائیں۔
(1) القرآن، الفتح، 48 : 29
(2) القرآن، المائده، 5 : 54
جب غیر مسلم مفکرین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے محض ظاہری پہلوؤں کو منفی انداز میں پیش کیا تو مسلم مفکرین نے بھی انہیں ظاہری پہلوؤں کو جواباً مثبت انداز میں پیش کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فضائل و کمالات کے بیان کو جدید دور میں غیر ضروری سمجھتے ہوئے ترک کر دیا تو خود مسلمانوں میں ہی دو طرح کے ذہن پیدا ہو گئے :
1۔ مغربیت زدہ سیکولر ذہن
2۔ مادیت زدہ مذہبی ذہن
مغربیت زدہ سیکولر ذہن جو فکری تشتت اور نظریاتی تشکیک میں مبتلاء ہو کر خود کو روشن خیال مسلمان تصور کر رہا تھا، مستشرقین کے زہریلے پراپیگنڈے کے باعث نہ صرف عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت سے عاری اور اسلام کے روحانی تصورات سے نابلد ہو گیا بلکہ اسلام کی ابدی صداقت و عملیت اور عظمتِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور عقیدت میں بھی متزلزل ہو گیا۔ دوسری طرف مادیت زدہ مذہبی ذہن جو مستشرقین کے پراپیگنڈے کے اثر سے کسی نہ کسی طور بچ گیا تھا وہ جدید اسلامی لٹریچر کے نتیجے میں اسلام اور بانیء اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتقادی، فکری اور عملی طور پر وابستہ تو رہا لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقیدہ کو فرسودہ، غیر ضروری اور جاہلانہ و شخصیت پرستی کے مترادف تصور کرنے لگا۔ بلکہ وہ عقیدۂ توحید اور عقیدۂ عظمتِ رِسالت کے درمیان خطرناک تضادات اور اِلتباسات کا شکار ہو گیا۔ اُس کی نگاہ میں مقامِ نبوت غیر اِرادی اور لاشعوری طور پر کم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور وہ اس نشے میں مبتلا رہا کہ اس کی توحید نکھر رہی ہے اور وہ شرک سے پاک ہو کر پختہ موَحد بن رہا ہے۔ اس طرح دونوں طبقات بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولتِ لازوال سے تہی دامن ہو کر ایمانی حلاوت اور روحانی کیفیات سے محروم ہو گئے اور یوں ہماری اعتقادی و فکری زندگی تباہی و ہلاکت کا شکار ہو گئی۔
اِس دور میں اِحیائے اسلام اور ملت کی نشاۃِ ثانیہ کی جس قدر علمی و فکری تحریکیں منصہ شہود پر آئی ہیں ان کی تعلیمات سے جو تصور مسلمانوں کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہو رہا ہے وہ یہی ہے کہ اسلام کو بحیثیت نظام حیات قبول کر لینا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہی کمالِ اِیمان اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے؛ اور اس اِتباع کے علاوہ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے خاص قسم کا قلبی، عشقی اور جذباتی لگاؤ مقصودِ ایمان ہے نہ تعلیمِ اسلام، بلکہ یہ جاہلانہ شخصیت پرستی کی ایک صورت ہے جو توحید خالص کے منافی ہے۔
اِس نام نہاد روشن خیالی سے ہماری حیاتِ ملّی پر جو مضر اَثرات مرتب ہوئے وہ محتاج بیان نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصل تصور کو اس طرح اُجاگر کیا جائے کہ آج کی نوجوان نسل جو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہے اس آفاقی حقیقت سے باخبر ہو کر پھر سے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ حبی تعلق استوار کر لے کہ اس کی نظروں کو دانشِ فرنگ کے جلوے کبھی خیرہ نہ کرسکیں۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اِقبال، کلیات (بالِ جبریل) : 599، غزلیات (حصہ دُوُم)
اور اُنہیں دینِ حق کی اس کامل تعبیر کی صحیح معرفت نصیب ہو جسے اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِس شعری قالب میں ڈھال دیا ہے :
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ اُو نرسیدی، تمام بولہبی است
(دین سارے کا سار درِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسائی کا نام ہے۔ اگر اس در تک ہم نہ پہنچ سکے تو ایمان رُخصت ہو جاتا ہے اور بولہبی باقی رہ جاتی ہے۔)
اِقبال، کلیات (اَرمغانِ حجاز) : 1140، حسین اَحمد
اَندریں حالات عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَہمیت کو قرآن و حدیث اور سیرت کی روشنی میں اَزسرِ نو نمایاں کرنا اَشد ضروری بلکہ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ عصر حاضر کے فکری بگاڑ اور عظمت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناآشنائی کے سبب پیدا ہونے والے روحانی زوال کا ممکنہ حد تک اِزالہ کیا جاسکے۔ ہماری نظر میں ایک طرف حضور سیّد دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ محبوبانہ عظمت و شان ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بارگاہ خداوندی میں حاصل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی شوکت و رفعت کا وہ عُلوّ جس کے پھریرے اَقلیمِ فرش و عرش پر پیہم لہرا رہے ہیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے فکری، علمی اور عملی عظمت کے وہ پہلو ہوں جن سے دنیائے علم و عمل جگمگا رہی ہے۔ اس جامع اور ہمہ جہت تصور کو حتی المقدور الفاظ کا جامہ پہنا کر عوام الناس میں متعارف کرایا جائے تاکہ تعلیمات اسلام اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا متوازن اور جامع تصور متعارف کرایا جاسکے جو بیک وقت نظروں اور عقلوں کو بھی مطمئن کرے اور دلوں اور روحوں کی اُجڑی بستی بھی سیراب کرے۔
آج اِس اَمر کی بھی اَشد ضرورت ہے کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور صلحائے اُمت کے تذکرے عام کئے جائیں جنہوں نے اپنی زندگیاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور والہانہ عشق کی بھٹی میں سے گزارتے ہوئے قدم قدم پر ایسے ان منٹ نقوش ثبت کئے ہیں کہ رہتی دنیا تک کوئی محب اپنے محبوب کے لئے محبت کی دنیا میں ایسے نذرانے پیش نہیں کر سکتا۔ ان کی انہی اداؤں کو آج بھی ہم اپنے لئے نمونہ بنا سکتے ہیں کیونکہ پریشان حال امت کے دکھوں کا مداوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر سنت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائے بغیر ناممکن ہے۔
اس خزاں رسیدہ چمن میں بہاریں تب ہی جوبن پر آسکتی ہیں جب آج کے پریشان حال نوجوان اپنے سینے سے عشق و محبت کے وہی تیر پھر پار کریں جن سے ابوبکر و عمر اور بلال و بوذر رضی اللہ عنھم نے اپنے دل چھلنی کئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ
مطالعۂ سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنیادی اُصول
مؤثر استدلال اور مضبوط و منظم علمی بنیادوں پر سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فہم و ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ دورِ حاضر کے درپیش مسائل اور تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ کے ایسے اُصول طے کئے جائیں جو سیرت کے منظم اور مربوط فہم میں معاون ثابت ہوں۔
جب سے علوم کی ترتیب و تدوین کا مرحلہ شروع ہوا تمام علوم بشمول تفسیر، حدیث اور فقہ کی ترتیب و تدوین کے لئے اہل علم نے کئی اُصول طے کئے جن کی روشنی میں ان علوم کی ثقاہت کو نہ صرف پرکھا گیا بلکہ اُنہیں منظم و مرتب بھی کیا گیا۔ لیکن سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطالعہ اور تفہیم کے لئے تاحال کوئی واضح اُصول مرتب نہیں کئے گئے۔ دورِ حاضر میں جبکہ ملتِ اِسلامیہ کی انفرادی و اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کو سیرت کے ساتھ مربوط کرنے کی ضرورت اور تقاضے پہلے زمانے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں، اس امر کی ضرورت ہے کہ مطالعہ سیرت کے لئے مؤثر اور جامع ضابطوں کا تعین کیا جائے۔ اس ذیل میں یہاں کچھ اُصول بیان کئے جاتے ہیں :
سیرت کا بطور وحدت فہم اورتفہیم
فکر و عمل کے بحران میں سیرت سے رہنمائی
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں قرآنی تعلیمات کی توضیح
عصری مسائل کے حل کے لئے سیرت کا اطلاقی مطالعہ
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں توازن اجتماعی کا حصول
سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بطور رسولِ اِنسانیت مطالعہ
فہم کمالِسیرت میں عقل اِنسانی کی نارسائی کا اعتراف
محمد اسماعیل
اپنا مقام پیدا کر
مکمل تحریر >>