تصوف - 1:::::::::::::
بسم اللہ جی، آئیں تشریف رکھیں۔۔ باقاعدہ لیکچر شروع کرنے سے پہلے ان طلباء کی پریشانی حل کرتے ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ پتہ نہیں کیا بلا ہے یہ تصوف۔۔ خدا جانے یہ اسلام ہے یا اسلام کے نام پر کوئی بعد کی ایجاد۔۔ وہ جسے آپ بدعت کہتے ہیں، جی ہاں وہی۔۔ جس کا ثبوت نہ قرآن سے ملتا ہے نہ احادیث و سنت سے۔۔آپ نے اسکو بدعت کیوں سمجھا اور اس سے بدظن کیوں ہوئے؟ میں بتائے دیتا ہوں۔۔ دراصل آپکا ٹاکرا آپکے معاشرے میں موجودان دین فروشوں سےہوا ہے جو اپنے دھندے کو تصوف کا نام دے کر آپکو ٹھگتے ہیں۔۔ موجودہ دور میں تصوف بدنامی کی حد تک بگڑ چکا ہے، وجہ اسکی یہی ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے، مارکیٹ میں اسکی نقل بھی اسی مقدار میں موجود ہوتی ہے۔۔ ہمیں پہلے جعلی تصوف فروشوں کی دکانیں بند کرنی ہیں، تاکہ خالص اور معیاری چیز نکھر کے سامنے آئے۔۔ آئیے آپکو بتاؤں کہ کن کن باتوں کو آج 'عین تصوف' سمجھا جا رہا ہے اور ان کا بزنس زور شور سے جاری ہے۔۔حالانکہ ان میں سے کسی ایک چیز پر تصوف اسلامی کا اطلاق نہیں ہوتا۔۔ توجہ کیجئے کہ کون کونسی باتیں تصوف کا لازمہ نہیں ہیں۔۔.تصوف کے لئے کشف و کرامات شرط نہیں ہیں، نہ ہی دنیا کے کاروبار میں ترقی دلانے کا نام تصوف ہے، تعویذ گنڈوں کا نام تصوف نہیں ہے، نہ ہی جھاڑ پھونک سے بیماری دور کرنے کا نام تصوف ہے، مقدمات جیتنے کا نام تصوف نہیں ہے، نہ ہی قبروں پر سجدہ کرنے، ان پر چادریں چڑھانے اور چراغ جلانے کا نام تصوف ہے، اور نہ آنے والے واقعات کی خبر دینے کا نام تصوف ہے، اولیاء اللہ کو غیبی ندا کرنا، مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا تصوف نہیں ہے، اس میں کوئی ٹھیکیداری نہیں ہے کہ پیر کی ایک توجہ سے مرید کی پوری اصلاح ہو جائے گی اور سلوک (تصوف) کی دولت بغیر مجاہدے اور بغیر اتباعِ سنت حاصل ہو جائے گی، آئی سمجھ؟ تصوف میں کشف و الہام کا صحیح اترنا لازمی نہیں ہے،اور نہ وجد و تواجد اور رقص و سرور کا نام تصوف ہے۔۔!! یہ سب چیزیں تصوف کا لازمہ بلکہ عین تصوف سمجھی جاتی ہیں۔ ۔ فی الحقیقت یہ ساری خرافات اسلامی تصوف کی عین ضد ہیں۔ ۔!!دیکھا آپ نےکہ لوگوں نے کن کاموں کا ٹھیکہ لے رکھاہے، اور سادہ لوحوں کو گمراہی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔۔ آئندہ نشست میں بات ہو گی کہ ' تصوف کیا ہے؟ تصوف کو تصوف کیوں کہا جاتا ہے؟ ۔ ہمارے ساتھ رہئے۔۔!! (نوٹ: صرف اس پوسٹ سے متعلق کسی لفظ یا بات کی سمجھ نہ آئی ہو تو بلا جھجھک پوچھئے){ بحوالہ: دلائل السلوک - مولانا اللہ یار خان رحمۃ اللہ علیہ}(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف - 1-1 (الجھن سے سلجھن تک):::::::::::::::::::::::::::::::::::::
آج کی نشست میں احباب کے الجھاؤ اور راقم کےسلجھاؤ آپکے استفادہ کیلئے پیش خدمت ہیں۔1- دلِ ناداں کہتے ہیں: آپ نے کہا تصوف میں کشف و کرامات شرط نہیں ،،مگر ،،راہ سلوک کے عارضی پڑاؤ ضرور ہیں ۔حقیقی اور خالص صوفی کبھی مستقل یہاں نہیں رہتا ۔ اسی طرح آنے والے واقعات کی خبر دینا اور لوگوں کا ان صاحب حال افراد سے مدد کا طالب ہونا ،حاجت روا سمجھنا کسی حد تک بہرحال موجودہ اور قدیم تصوف کا لازمی حصہ ضرور ہے۔ اور اس سے انکار ممکن نہیں ۔ ایک عام اور سادہ لوح انسان ان خاص چیزوں کو ایک الگ اور عین اسلام سمجھ کر راغب ہوتا ہے جعلی یا اصلی جو بھی تصوف ہو اپنے طرف بلانے کے یہی طریقے رکھتا ہے ۔جواب-دین کی طرف راغب کرنے کیلئے تو انبیاء علیھم السلام بھی کشف و معجزات دکھاتے اور آنے والے واقعات کی خبر دیتے آئے ہیں.. اسمیں کیا عجب ہے کہ نبی ﷺ کی پیروی کے راستے میں امتی کو کچھ دکھا دیا جائے یا اسکے ہاتھ پر محیر العقول بات (کرامت) صادر ہو.. یہ کشف و کرامات وغیرہ صوفیاء کے نزدیک ان کھلونوں کی مانند ہیں جن سے بچوں کو بہلایا جاتا ہے کہ میاں اِدھر دیکھو، یہاں توجہ کرو.. انہی کو اصل سمجھ کر اور انہی پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنا سفرِ ولایت و سلوک میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ صاحبِ حال افراد سے حاجت روائی اور مددطلب کرنا کسی تصوف کا حصہ نہ تھا ،نہ ہے۔حصولِ فیض بہ توفیق اللہ دوسری شے ہے۔2۔ محمد شہباز کہتے ہیں:آ پ یہ کہہ سکتے ہیں کہ صرف یہ یہ چیزیں ہی تصوف نہیں ہیں ،لیکن یہ کہنا کہ یہ یہ چیزیں تصوف نہیں ہیں، محل نظر ہے۔ اس لیے کے ان میں بہت سی چیزیں، خرافات نکال کر ، بہر حال تصوف سے متعلق رہی ہیں اور ہیں۔۔مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف کشف و کرامات کا نام تصوف نہیں، صرف جھاڑ پھونک اور دم سے بیماری کا علاج ہی تصوف نہیں، لیکن یہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ کشف و کرامات اور دم سے بیماری کے علاج کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں، صوفیا (جی ہاں اصلی اور سب لوگوں میں محترم صوفیا) کے ہاں ایسے امور بکثرت ملتے ہیں۔جواب- کشف و کرامات، جھاڑ پھونک ذیلی چیزیں ہیں.. یہ بالکل ایسے ہے کہ آپ کھیت میں گندم اگائیں اور ساتھ میں کچھ مفید خود رو جڑی بوٹیاں بھی اُگ آئیں.. مسئلہ یہ ہوا کہ کچھ لوگوں نے سادگی میں ان جڑی بوٹیوں سے لوگوں کا بھلا شروع کر دیا تاکہ کم ظرف لوگ انکے ساتھ جڑے رہیں۔ یہاں تک تو حدود شرعی کے اندر سب ٹھیک تھا.. کچھ ناعاقبت اندیشوں نے گندم کو بھلا کر جڑی بوٹیوں کو ہی اصل سمجھ لیا اور بھٹک گئے.. کیونکہ اس سے عوام میں شاوا شاوا بھی ہوتی تھی اور نفس کو تسکین بھی ملتی تھی.. بہرحال، تصوف کا اصل موضوع قربِ الہی، عبادات میں حد درجہ خلوص اور پیروئ سنت خیر الانام صلی اللہ علیہ وسلم ہے
۔تصوف -2::::::::::
:::دوستو، میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی آپکو بتایا ہے کہ میرے آنے پر یہ 'کلاس سٹینڈ' اور 'کلاس سِٹ' نہ کیا کریں، مجھے برا لگتا ہے۔۔چلیں بیٹھ جائیں شاباش۔۔ کل کا سبق آپ نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے تو آج مسئلہ نہیں ہوگا۔۔ پتہ ہے لوگ کیا کہتے ہیں؟ وہ جی فلاں نے کہا کہ اللہ والے صوف (اون) کا لباس پہنا کرتےتھے، تو انہیں صوفی کہا جانے لگا اور یوں یہ تصوف بنا۔۔ میں نے کہا، بھئی تب تو رواج ہی موٹے کھدر کا تھا، مشینی دور تو تھا نہیں کہ نرم اور کاٹنی لباس بنایا جا سکے، آج جو بندہ پھٹے اور موٹے کپڑے پہن کر ملنگ بن جائے کیا وہ صوفی ہو جائیگا؟۔۔ فلاں کہتا ہے کہ تصوف صفا سے ہے، یا صفہ سے ہے، یا الصفو سے ہے۔۔ یار چھوڑ دو سب فلانوں کو، اسکا لفظی مطلب کوئی بھی ہو، اس میں شک نہیں کہ یہ دینِ اسلام کا ایک اہم شعبہ ہے۔۔اس کی اساس نیت اور عمل میں خلوص پر ہے۔۔قرآن کریم کا سب سے پہلا ترجمہ فارسی زبان میں ہوا۔۔ جس طرح ہم صلوٰۃ کو اردو میں نماز، اور صوم کو روزہ کہتے ہیں، اسی طرح فارسی میں 'تزکیہ' کو تصوف لکھ دیا گیا، بس اتنی سی بات ہے جس کا بتنگڑ بنا دیا گیا ہے۔۔ اب کوئی آپ سے کہے کہ قرآن و حدیث میں نماز، روزہ ثابت کرو، تو کیا کریں گے آپ؟ تو میری جان، آپ تصوف کو قرآن کے مطابق تزکیہ کہہ دیں اور حدیث کے مطابق احسان کہہ دیں تو آپکی ساری الجھن فِشوں ہو جائیگی۔۔کون کہتا ہے کہ اس راہِ تصوف/سلوک/تزکیہ/احسان میں ہم سنتِ نبوی ﷺ اور شریعت کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں؟ جنابِ من، اس شعبے کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ ہم پورے اخلاص سے سنت کے مطابق شریعت پر عمل کریں، اللہ سے ذاتی تعلقات قائم کریں ، اسے پرسنلی جانیں ، اور اسکی رضا حاصل کریں۔۔کسی کے کہنے سننے پہ مسلمان نہ بنیں کہ اللہ ایسا ہے، اللہ ویسا ہے،، بلکہ ہمیں خود پتہ ہو کہ اللہ کیسا ہے، کیا چاہتا ہے،،اس سے باتیں کریں، اسکی باتیں سنیں۔۔ ریڈیو کی ٹیونگ درست چینل پہ نہ ہو تو آپ اس چینل کی نشریات نہیں سُن سکتے۔۔ اپنے قلب کی ریسیونگ فریکونسی کو اللہ کے نور و معرفت کی ٹرانسمٹنگ فریکونسی پر ٹیونگ کرنا تصوف ہے۔۔ یہ ہم آہنگی لائف ٹائم کیلئے ہوگی۔۔ دنیا کے سارے جائز کام آپ کریں گے۔۔اپنی نیند بھی پوری کریں گے اور لانگ ٹوور پر بھی جائیں گے۔۔ مگر اس سب کے باوجود کسی ایک لمحے کیلئے بھی آپکی کال آپکے رب سے ڈراپ نہیں ہو گی، یہی تصوف ہے۔۔ صحابہ کرام تاجر تھے، حکمران تھے، مزدور تھے،جرنیل تھے یا سپاہی تھے ،، سوتے تھے یا جاگتے تھے،، ہنستے تھے یا روتے تھے، غرض کسی بھی حالت میں ہوتے تھے، اللہ کا قرآن کہتا ہے 'تراھم رکعا سجدا' تم انہیں جب بھی دیکھو تو رکوع و سجود میں ہوں گے۔۔ کمال ہے، یعنی دنیا کا ہر عمل عبادت بن گیا۔۔ کیسے؟ یہ ہماری اگلی نشت کا موضوع ہو گا۔۔ایک ہوتا ہے عبادت کو زبردستی کرنا، مجبوراً کرنا،، اور ایک ہوتا ہے عبادت کی بھوک لگنا، اللہ کے سامنے حاضری کی طلب و تڑپ ہونا،، یہ جو اپنی دلی مرضی اور خوشی سے اطاعت والی کیفیت ہے، یہی تصوف ہے۔۔ یہ کیسے پیدا ہو گی؟ یہ بھی ہماری اگلی نشت کا ٹاپک ہو گا۔۔ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ صحابہ کو صوفی کیوں نہ کہا گیا اور آج یہ صوفی کہاں سے پیدا ہو گئے ہیں، نیز تزکیہ کے لئے کون کون سے عوامل کی ضرورت ہے۔۔!کہتے ہیں کہ، بھائی جی یہ تصوف تو بڑا مشکل کام ہے، بڑی مصیبتیں ہیں اس میں۔۔! کیوں جی، کیا آپ نے کر کے دیکھا ہے؟ جس فیلڈ کا پتہ نہ ہو اس میں خواہ مخواہ اپنی رائے گھسیڑنا عقلمندی نہیں میرے دوست۔۔ چند عزیزوں کی نصیحت ہے کہ بڑے گھمبیر اور خاردار موضوع کو چھوا ہے آپ نے، رہنے دیجئے، جانے دیجئے، چھوڑ دیجئے، پھنس جائیں گے۔۔ تو عزیزم آپکی نذر ایک بند۔۔!!-- کیا کہتا ہے ناصح، لوگو روکو اس دیوانے کو،،ہم نکلے ہیں سر کٹوانے، یہ چلا سمجھانے کو،،،دانش مندی اچھی شے ہے، پر سیمابؔ جی بات سنو،،شمع جلے تو یہ سمجھانا تم جا کر پروانے کو۔۔۔!!(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف - 3::::::::::::
سائلنس پلیز۔۔آج یہ شور کیسا ہے۔۔ ذرا سی دیر کیا ہو گئی، آپ نے کلاس کی چھت کو سر پہ اٹھا لیا۔۔ سمجھدار طلباء کو یہ زیب نہیں دیتا۔۔ اب آپ بچے تھوڑی ہیں کہ آپکو ادب پہ لیکچر دئیے جائیں۔۔ 'سوری سر، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔'۔۔ ہوں۔۔ دیلڈن۔۔ آج بطور سرزنش میں خود سے سمجھانے کے بجائے آپ سے کچھ پوچھوں گا۔۔ کون جواب دے گا کہ صحابی بننے کیلئے کتنی تعلیم، ہنر ، محنت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے؟ اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیں کہ صحابیت کیلئے عمر کتنی ہونی چاہئے، صلاحیت کیا ہو اور کس خاندان سے ہونا لازم ہے؟۔۔' سر، میں بتاؤں؟' جی بتائیں۔۔ 'سر ویسے یہ کافی عجیب سوال ہے، کیونکہ ایسی تو کوئی شرط نہیں صحابی ہونے کیلئے۔۔ صحابی صحبت سے نکلا ہے، یعنی جو کوئی بحالتِ ایمان نبی کریم ﷺ کی صحبت (مجلس /محفل )میں آگیا، نبی کی نگاہ اس پر پڑی، یا اسکی نگاہ نبی پر پڑی، تو وہ صحابی ہو گیا'۔۔ٹھیک، ، اب یہ بھی بتا دیں کہ کوئی نماز، روزہ، جہاد وغیرہ لازم ہےمقامِ صحابیت پانے کیلئے؟ ۔۔ 'نہیں سر، بنیادی طور پر صحابیت کا منصب اسی لمحے نصیب ہو جاتا ہےجب یہ نگاہوں کا سودا ہوتا ہے،، یہ عبادات مزید انعام ہیں جوبہ خوشی و محبت ادا ہوتی چلی جاتی ہیں،، مثلاً کچھ صحابہ ایسے بھی ہیں جنکی وفات تب ہوئی جب نماز، حج، جہاد وغیرہ فرض ہی نہیں ہوئے تھے'۔۔بالکل درست کہا آپ نے، بیٹھ جائیں،، قبل اس کے کہ میں کچھ مزید وضاحت کئے دوں، یہ جان لیں کہ آج کا لیکچر بہت اہم ہے، اسکو نہایت توجہ سے اٹینڈ کریں، یہ ہماری اگلی نشستوں کیلئے بنیاد ہے۔۔ اب سنیں،، صحابیت ایسا منصب ہے کہ بالفرض دنیا جہان کے تمام چوٹی کے اولیاء، صلحاء، محدثین، اقطاب وغیرہ کے نیک اعمال اور انکے درجات کو مجسم کر دیا جائے، اور انکے رتبوں کا بہت اونچا مینار بنایا جائے۔۔ تو جہاں اس مینار کی چوٹی ہو گی، وہاں سے تبع تابعین کے مراتب شروع ہوں گے۔۔جہاں تبع تابعین کے منازل کی انتہا ہو گی، وہاں سے تابعین کا رتبہ شروع ہو گا۔۔اور جہاں دنیا جہاں کے تمام افراد کے مجموعی رتبے کی چوٹی کا آخری سرا ہو گا، وہاں سے صحابیت کا مقام شروع ہوتا ہے۔۔ سپوز، اگرساری دنیا کے لوگ آج ہی نیک ہو جائیں اور وہ ساری زندگی عبادت میں گزار دیں، تو کسی ایک صحابی کے رتبے تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔۔یہاں تک کسی کو کوئی کنفیوژن؟۔'ایکسکیوز می سر ،ایسا کیا سرمایہ تھا ان کے پاس کہ وہ دنیا جہان سے افضل ہو گئے؟ مثلاً ایک صحابی اسلام کے ابتدائی دور میں وصال پا گئے، اب ظاہر ہے انہوں نے نہ ہی اتنی عبادت کی، نہ روزے رکھے، نہ حج کئے، ، آج کے مسلمان ممکنہ طور پر اس سے زیادہ نیکیاں سمیٹے ہوئے ہیں، آج کے مسلمانوں کے پاس علم کی لائبریریاں ہیں، صحابہ کے پاس تو یہ بھی نہ تھیں۔۔ تو پھر ایسا کیوں؟'۔۔ ویری گڈ کوئسچن۔۔اسکا جواب سمجھنے کیلئے آپکو پہلے یہ جاننا ہو گا کہ قرآن مجید کے مطابق نبی کریم ﷺ کی نبوت کے چار فرائض ہیں۔
۔1۔ 'یتلو علیہم آیٰتہ'، تعلیمات پہنچانا—
2۔ 'ویزکیھم' ، اور تزکیہ کرنا –
3۔ 'ویعلمہم الکتاب '، اور کتاب کی تعلیم دینا –
4۔ 'والحکمۃ' اور حکمت/دانائی سکھانا— (آل عمران – 164)۔ ہر آنے والا شخص اسی ترتیب کے مطابق مستفید ہوتا تھا۔۔
1۔ سب سے پہلے اس تک اللہ کا پیغام و دین کی تعلیمات پہنچائیں گئیں۔
2۔ اگر اس نے قبول کر لیں تو اسکا تزکیہ(قلب و روح کو پاکیزہ ) کیا گیا۔
3۔ پھر اسے قرآن کے احکامات بتائے گئے۔
4۔ جسکے نتیجے میں اسے دانائی اور معرفت نصیب ہوئی۔۔یہاں سے نبوت کے دو پہلو سامنے آئے۔۔
A۔ تعلیماتِ نبوت،
B۔ برکاتِ/ فیوضاتِ نبوت۔۔ یاد رکھیں، تصوف / تزکیہ/ سلوک / احسان کا شعبہ نبوت کے دوسرے پہلو سے متعلق ہے۔۔ توجہ ہے ناں سب کی؟ ۔۔ 'یس سر'۔۔ ویل، اب آگے سمجھیں۔۔نبی کریم ﷺ جب کچھ فرماتے ہیں تو وہ صرف الفاظ اور تھیوری نہیں ہوتی، بلکہ اسکے ساتھ کیفیات اور فیلنگز بھی ہوتی ہیں۔۔ نبی کریم ﷺ نے جب فرمایا کہ اللہ ایک ہے، تو جوشخص اس بات پر ایمان لاتا ہے ، اسے نظر تو نہیں آتا ، مگر وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اللہ واقعی ایک ہی ہے۔۔ اب چاہے اسے تپتی ریت پر لٹا کر اس پر گرم پتھر رکھ دئیے جائیں، یا اسے ابلتے ہوئے تیل میں ڈالا جائے۔۔ وہ احد احد ہی پکارتا ہے،، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ایک نہیں ہے۔۔اسی حالت کا حصول تصوف ہے۔۔ اس پر ایسی کیفیت وارد ہوتی ہے کہ ظاہری آنکھوں سے دیکھنے سےزیادہ اسے اپنی حیثیت کے مطابق قلبی یقین نصیب ہوتا ہے،، یہی تو احسان ہے۔۔ان فیلنگز کی اصل نوعیت میں آپکولفظوں میں محسوس تو نہیں کرا سکتا، البتہ آپ بطور مثال یوں سمجھیں کہ کوئی استاد آپکو ایک کام کرنے کا کہے، وہی کام آپکے والد کرنے کا کہیں، وہی کام آپکو میں کرنے کا کہوں، اور وہی کام کوئی محلے کا دوست کرنے کا کہے، تو اس کام کو سمجھنے اور ماننے کیلئے آپکے دل میں جواحساس اور جذبہ امڈتا ہے، وہ مختلف لوگوں کی شخصیات کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ جب فرما دیں کہ دیانت داری یہ ہوتی ہے، تو مخاطب مومن کو دیانت داری ایسی سمجھ آتی ہے کہ وہ مجسمِ دیانت ہو جاتا ہے،، یہی تو تزکیہ ہے۔۔یہ کمال تھا محمد رسول اللہ ﷺ کے سینۂ اطہر میں، کہ جوکوئی بحالتِ ایمان اس نورِآفتاب کے سامنے آتا گیا، وہ رنگا گیا، اسکا تزکیہ ہو گیا، وہ قاری نظر آتا تھا، لیکن حقیقت میں قرآن تھا،، وہ چلتا پھرتا مسلمان لگتا تھا ،لیکن اصل میں اسلام تھا۔۔ اللہ کریم کیا فرماتے ہیں قرآن میں صحابہ کرام کی کیفیت سے متعلق۔۔'ثم تلین جلودھم و قلوبھم الی ذکر اللہ'۔۔پھر انکے جلود (کھال/جلد کی جمع) اور قلوب (دل/قلب) اللہ کا ذکر کرنے لگے۔۔ یعنی نہ صرف اسکا قلب منور ہو گیا، بلکہ باڈی سیلز بھی ذاکر ہو گئے۔۔اب اسے آپ قلبِ نبی ﷺ میں موجود انوارات کہہ لیں، برکات کہہ لیں یا فیوضات کہہ لیں ۔۔ ان غیر مرئی سگنلز کا سورس یا منبع نبی کریم ﷺ کا سینہ اطہر ہے، جو ڈائرکٹ ذاتِ باری تعالی سے ریسیو کرتا ہے اور لوگوں میں تقسیم کرتا ہے۔۔ ہر چھوٹا بڑا شخص بہ حالتِ ایمان انکا اہل ہے۔۔'معاف کیجئے گاسر، میرے مائنڈ میں ایک سوال آیا ہے کہ وہ تو صحابہ تھے، براہ راست نبی کریم ﷺ سے مستفید ہو گئے، ہم تک کتابوں کے ذریعے علمِ نبوت تو پہنچ گیا الحمد للہ، ہم بھلا کیسے وہ کیفیات و برکات حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ ہم میں اور آقا علیہ السلام کے زمانے میں تو چودہ صدیوں سےزیادہ فاصلہ حائل ہے، ہمارا کیا بنے گا؟'۔۔ نائس کوئسچن ۔۔ اسکا جواب اگلی نشت پر موقوف کرتے ہیں کیونکہ آپ میں سے تین سٹوڈنٹس کو نیند کا ایک جھٹکا لگ چکاہے۔۔ 'سر، ایک سوال اور بھی رہ گیا کہ صحابہ کرام کو صوفی کیوں نہیں کہا جاتا؟'۔۔بیٹا اب پیریڈ کا ٹائم ختم ہو چکا ہے۔۔زندگی باقی توان شاء اللہ کل ملیں گے۔۔!!(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف – 4::::::::::::
آج تو کلاس میں خاموشی چھائی ہے، کی گل اے، تھک تے نئیں گئے؟"نہیں سر، آج ہم ہمہ تن گوش ہیں"۔۔ چلیں یہ بتائیں کل مرد حضرات نے جمعہ پڑھا تھا ، تو خطیب صاحب نے خطبے میں ایک حدیث مبارکہ بتائی تھی، خیر القرون والی، کس کو یاد ہے؟ ۔"سر مجھے"، ہاں بتاؤ شاباش اور ساتھ میں تشریح بھی کر دینا۔۔"جی سر، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: 'خیر القرونِ قرنی'۔ سب سے بہترین قرن (زمانہ/دور) میرا قرن ہے۔۔اس زمانے میں نبی کریم ﷺ موجود تھے اور صحابہ کرام بھی۔۔ 'ثم الذین یلونھم'۔ پھر اس کے بعد والا زمانہ۔۔ یعنی صحابہ کے صحبت یافتہ (تابعین)۔۔ 'ثم الذین یلونھم'۔ پھر اسکے بعد والا زمانہ۔۔ یعنی تابعین کے صحبت یافتہ (تبع تابعین)۔"۔۔ ویری گڈ، بیٹھ جائیں۔۔ آپکو یاد ہو گا کل ہم نے ڈسکس کیا تھا کہ صحابی ہونے کیلئے صرف نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بحالتِ ایمان حاضری شرط ہے۔۔یعنی کوئی محنت مجاہدہ نہیں کرنا ہوتا تھا۔۔ صحابہ اس بات کے طالب رہتے تھے کہ کب کون سا حکم ملے، اور ہم فوراً بلا چوں چراں تکمیل کریں۔۔ شاعر نے صحابہ کی تعریف میں کیا خوب کہا ہے، ؔخود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئےکیا نظر تھی ،جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیااسی طرح تابعی ہونے کیلئے بالکل یہی شرط تھی کہ بحالتِ ایمان صحابہ کی نگاہ نصیب ہو جائے۔۔ اور تابعی کی صحبت میں آنے والا مسلمان تبع تابعی ہوتا تھا۔۔یہ تین زمانے خیر القرون تھے۔۔ان میں نبوت کے باطنی علوم (برکات/ انوارات) کی فراوانی تھی۔۔ یہ برکات سینہ بہ سینہ ٹریول کرتی ہیں۔۔ نبی ﷺ کے سینے سے صحابہ کرام کے سینے میں، ان سے تابعین اور ان سے تبع تابعین کے قلوب تک یہ بغیر مجاہدے و محنت کے فقط صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہو جاتی تھیں۔۔پھر ماحول میں کثافت بڑھنا شروع ہوئی، برائیاں پھیلنے لگیں۔۔ ہر شخص میں وہ صلاحیت نہ رہی کہ تبع تابعین کے قلب سے انواراتِ نبوت ریسیو کر سکے۔۔ہاں جی، یہاں تک بات سمجھ آ گئی ہے تو آگے چلیں؟ "یس سر"۔۔اچھا، آپکو معلوم ہو گا کہ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: 'جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک کالا نقطہ لگ جاتا ہے، جب وہ توبہ کرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔ اگر توبہ نہ کرے اور گناہ کرتا رہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قلب مکمل سیاہ ہو جاتا ہے'۔۔ آپ میں سےمیڈیکل کے طلباء جانتے ہیں کہ کافر کا دل بھی اسی کلر کا ہوتا جس رنگ کا مومن کا دل۔۔ پھر یہ کون سا دل ہے جو بلیک ہوتا ہے؟ اِدھر اُدھر نہ دیکھیں، میں بتائے دیتا ہوں۔۔ یہ وہی باطنی دل ہے جس کے متعلق اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے: 'ہر شے کو چمکانے کیلئے ایک پالش ہوتی ہے، اور دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے'۔۔"لکل شیئ صقالۃ و صقالۃ القلوب ذکر اللہ"۔۔معاشرے کے اثرات اور انسانی گناہوں کی وجہ سے دلوں پہ جو گرد جمی، اسکو ہٹانے کیلئے تبع تابعین نے اپنے پاس آنے والوں کی اللہ کے ذکر سے ظاہری و باطنی تربیت کا اہتمام فرمایا۔۔ جو اس محنت کو اپناتا گیا اس کا قلب روشن ہوا اور انوارات کے قبول کرنے کی استعداد پیدا ہوئی ۔۔ تزکیہ نصیب ہوا، اور وہ صوفی کہلایا۔۔ جس طرح نبوت کے ظاہری علوم کیلئے مدارس بنے، کتابیں لکھی گئیں، لوگ مفسر، محدث، مجتہد، فقیہ کہلائے اور فقہ کے چار مشہور مسالک (حنفی، حنبلی، مالکی، شافعی) وجود میں آئے۔۔ بالکل اسی طرح نبوت کے باطنی علوم کے حصول کیلئے خانقاہیں بنی، لوگوں نے لسانی اور قلبی ذکر سیکھا۔ یہ تصوف کا شعبہ تھا جس کے چار مشہور سلاسل ( نقشبندی، قادری، چشتی، سہروردی) وجود میں آئے۔۔صحابی ایک ہمہ جہت شخصیت اور مجموعۂ صفات ہستی کا نام ہے۔۔ کیا آپ صحابی کو مفسر یا محدث کہتے ہیں؟ صحابیت تو ان سے کہیں زیادہ بلند مقام ہے۔۔ اسی طرح صحابی کو صوفی کہہ دینا ایسا ہے جیسا آپ فوج کے کسی جرنیل کو کیپٹن یا میجر کہہ دیں۔۔"ایکسکیوز می سر، نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بعد تو کوئی صحابی نہ بن سکا،تو کیا آپ ﷺ کے بعد یہ برکات ختم نہیں ہو جانی چاہئیں تھیں؟"۔۔ بیٹااب صحابی تو کوئی نہیں بن سکتا مگر انوارات آج بھی 'سینہ بہ سینہ' جاری و ساری ہیں ، اللہ کے ایسے اولیاء اس زمین کی آج بھی رونق ہیں جو یہ نعمت لُٹا رہے ہیں اور خوش نصیب بندے اپنے دامن کے مطابق سمیٹ رہے ہیں۔۔ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ برکات ختم ہو جائیں۔۔ اسلئے کہ حضور ﷺ کی رسالت کو تاقیامت باقی رہنا ہے، اور رسالت میں آپ ﷺ کی تعلیمات اور برکات دونوں شامل ہیں۔۔خیر القرون کے پاس بھی وہی تعلیمات (قرآن و حدیث) تھیں جو آج آپکے اور میرے پاس ہے، پھر ہمیں عمل کی توفیق کیوں نہیں ہے؟ جبکہ ان کی جان جا سکتی تھی، مگر عمل نہیں چھوٹتا تھا۔۔ہماری ذرا سی طبیعت خراب ہو تو سب سے پہلے دین چھوڑتے ہیں۔۔آج ٹی وی انٹرنیٹ کے ذریعے جس قدر تعلیمات پھیلائی جا رہی ہیں کیا پہلے ایسا تھا؟ مگر عمل میں وہ ہم سے مضبوط تھے۔۔ جب تک تعلیمات کیساتھ برکات و کیفیات نہیں آئیں گی، بندہ کورا ہی رہے گا۔۔ فقہ پڑھ جائیگا، مفسر اور مفتی بن جائیگا، لیکن اسکا نہ تو کردار مفتیان کرام والا ہو گا اور نہ اسے عبادت کی لذت سے آشنائی ہو گی۔۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ آپ ساری زندگی انار کے جوس کی تھیوری پڑھتے رہیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، مگر کبھی جوس پینے کا تکلف نہ کریں۔۔آپ ذرا ماضی قریب کے علماء ربانیین کی سوانح حیات دیکھیں تو وہاں یوں درج ہوتا ہے، 'حضرت نے درسِ نظامی سے فراغت کی سند لی، اور تحصیلِ طریقت (علمِ باطن) کیلئے فلاں اللہ والے سے تعلقِ ارادت قائم کیا، اور خلیفہ مجاز ہوئے'۔۔ آج کے لوگ تو اس ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے اور نرے کتابی علم پر قناعت کئے بیٹھے ہیں۔۔!"لیکن سر ،یہ صوفی لوگ تورہبانیت پسند ہوتے ہیں، جنگلوں میں پڑے رہتے ہیں، پھٹے پرانے لباس پہنتے ہیں، گردن میں تسبیح لٹکائے رکھتے ہیں وغیرہ، اسلام میں تو ایسا نہیں ہے ناں"۔۔ بیٹا آج پھر دو طلباء اونگھنے لگ گئے ہیں۔۔ اسلئے اسکا جواب ان شاء اللہ کل، ساتھ یہ بھی بتاؤں کا کہ تزکیہ کا اصل مفہوم کیا ہے۔۔ پخیر راغلے۔۔!!(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف – 5:::::::::::::
کل میں نے آپکو دل کے بارے میں بتایا تھا۔۔یہ ظاہری طور پرایک بلڈ پمپنگ مشین ہے جو پورے بدن میں خون کی صفائی و سپلائی کی ذمہ دار ہے۔۔اسے مسلز کا ایک لوتھڑا سمجھ لیں، جو اُس وقت سے تھرتھراہٹ میں ہے جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے۔۔ جس دن اسکی کپکپاہٹ رک گئی، تو سمجھیں وہ آپکی زندگی کا آخری سانس ہو گا۔۔خون ایک ناپاک چیز ہے، اگر جسم سے نکل کر بہہ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے، کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک۔۔ لیکن عجیب بات ہے کہ قرآن مجید کا نزول قلب پر ہوا ۔۔ نزلہُ على قلبك بإذن الله۔۔اور قرآن کو قبول بھی قلب ہی کرتے ہے۔۔إنما المؤمنون الذين إذا ذكر الله وجلت قلوبهم۔۔ جب مومن اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو انکے قلوب دہل جاتے ہیں۔۔اسطرح کی درجنوں آیات ہیں جن میں قلب کی بات کی گئی ہے۔۔ کیا یہ یہی فزیکل ہڑٹ ہے جسکا آئی سی یو میں اپریشن کیا جاتا ہے؟اللہ کریم کی ذات کی وسعت اتنی ہے کہ وہ ساری کائنات میں نہیں سما سکتے، مگر قلبِ مومن میں سما جاتے ہیں۔۔ یہ کونسا قلب ہے؟۔۔ وہ حدیث مبارکہ تو آپ نے سنی ہوگی جس میں اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا تھا: "انسانی جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم درست ہو گیا، اگر وہ بگڑا تو سارا جسم بگڑا، سنو، وہ قلب ہے"۔۔جس طرح میڈیکل سائنس نے دھڑکنے والے دل کی مختلف بیماریاں بتائی ہیں، اسی طرح قرآن مجید میں اللہ کریم نے باطنی قلب کی بیماریاں بھی بتائی ہیں اور خصوصیات بھی۔۔ہماری کلاس میں ایک ذاکر نائک تھا، کدھر ہے؟۔۔"یس سر، میں یہاں ہوں"۔۔ اچھا جی، قرآن میں قلب کی 15 ٹائپس بیان ہوئی ہیں، وہ کون کونسی ہیں ؟۔"سخت قلب ، متکبر قلب ، مہر لگا ہوا قلب ، مجرم قلب ، ٹیڑھا قلب،نہ سوچنے والا قلب، زنگ آلود قلب، گناہ آلود قلب، اندھا قلب، بے ایمان قلب۔۔سر،یہ 10 بیمار قلوب تھے، اور 5 صحت مند قلوب یہ ہیں۔۔ دانش مند قلب، لرز اٹھنے والا قلب، ایمان والا قلب، مطمئن قلب اور قلبِ سلیم"۔۔ ویری نائس۔۔اب سنیں ،یہ ان دلوں کی بات کی گئی ہے جن کا تعلق باطن سے ہے۔۔ ظاہر میں تو مومن و کافر کے دل ایک جیسا فنکشن پرفارم کرتے ہیں، لیکن ان کی باطنی حالت مختلف ہوتی ہے۔۔تصوف کی اصطلاح میں قلب ایک لطیفہ ربانی ہے، جسکی وضاحت اگلی کلاس میں ہو گی۔۔ یہ تو ہو گئیں قلب کی اقسام۔۔ اب انکی بیماریاں کون کونسی ہیں؟ بتا سکتا ہے کوئی؟۔۔"سر، میں بتاتی ہوں: قرآن و حدیث میں قلب و روح کی یہ بیماریاں مینشن ہوئی ہیں: شرک، تکبر، حسد، کینہ، بغض، جھوٹ، ریا کاری، ناجائزنفسانی خواہشات ، اللہ سے بے خوفی، یقین کی کمی، بد نیتی، بے چینی، انجانا خوف، بے حسی، نفاق، چغلی ،غفلت، وغیرہ"۔۔ شاباش بہت خوب۔۔اب مجھے یہ سمجھانے میں آسانی ہوگی کہ بیمار قلب کو صحت مند کرنا، مردہ دل کو زندہ کرنا، تاریک دلوں میں نور پھونکنا، بے حس دل کو با ضمیر بنانا، اندھے دل کو بینا کرنا، بے ایمان قلب کو متقی بنا دینا ،،اور اس اصلاحِ قلب کے نتیجے میں غلط عقائد کا صحیح ہو جانا، اعمالِ بد کا صالح ہو جانا، تزکیہ کہلاتا ہے۔۔فارسی میں اسے آپ تصوف کہہ لیں۔۔ تصدیقِ قلبی اور تزکیہ نہ ہو تو بندہ مردم شماری میں تو مسلمان ہوتا ہے لیکن اللہ کی کتاب کے مطابق نہیں ۔۔ خرد نے کہہ بھی دیا لاالہ تو کیا حاصل، دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے قلب و نگاہ میں یہ قوت رکھی تھی کہ آپ ﷺ کی بارگاہ میں ایمان قبول کرنے والے کا آٹومیٹک تزکیہ ہو گیا۔۔ اس کے دل سے تمام بیماریاں ڈیلیٹ ہو گئیں۔۔دوسروں کی جان و مال لوٹنے والے انسانیت کی حفاظت و فلاح کے ضامن کیسے بن گئے؟یہ اثر تھا برکاتِ نبوت ﷺ کا ۔۔آج ہمیں نبی کریم ﷺ کی تمام تعلیمات کا علم ہے، مگر عمل پر دل آمادہ ہی نہیں ہو پارہے۔۔کیوں بھئی، کمی کہاں رہ گئی؟؟ آج ہم میں انہی کیفیات و تجلیاتِ باری تعالیٰ کی کمی ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے سینۂ اطہر سے صحابہ میں منتقل ہوئیں، پھر تابعین، تبع تابعین سے چلتی ہوئی آج تک بفضل اللہ جاری ہیں۔۔ضرورت ہے اس نگاہِ ولی کی، جو اُن انوارات کی حامل ہو۔۔'قد افلح من تزکی '، ضروروہ فلاح پا گیا جس نے تزکیہ کرلیا۔۔لَکھ ہزار کتاباں پڑھیاں، ظالم نفس نہ مریا ھو،، اور ،نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں،، یہ صوفیاء پریکٹیکل لوگ ہوتے ہیں۔۔ یہ ضرورت پڑنے پر شمشیر اٹھا لیتے ہیں، تاجر بن جاتے ہیں، مزدوری کر لیتے ہیں، حکمرانی کر لیتے ہیں۔۔ صوفی گوشہ نشین نہیں ہوتا۔۔گوشے اللہ نے عورتوں کیلئے بنائے ہیں اور جنگل جانوروں کیلئے۔۔یہ کون سا تصوف ہے جو آبادیوں میں سے بھگا کر پردوں اور جنگلوں میں لے جائے۔۔میں آپکو بتا دوں کہ جن اکابر صوفیاء کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ وہ غاروں میں چلے گئے یا چلہ کشی کرنے لگے،، انکو حکومتوں نے دربدری پر مجبور کیا تھا۔۔ صوفیاء کے پاس لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے بادشاہوں کی شہرت داؤ پر لگی تو انہوں نے خوف سے صوفیاء کو جنگلوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔۔ دوسری وجہ کفر کے فتوے تھے جن کی وجہ سے صوفیاء عوام سے دور رہنے پر مجبور ہوئے۔۔ صوفی گوشہ نشین نہیں ہو سکتا، بھلا خوشبو کسی کونے میں بندہو سکتی ہے؟پھول تو چمن کی زینت ہوا کرتے ہیں، کیا بند کمروں اور کونوں میں گل کھلا کرتے ہیں؟آخر میں ایک پتے کی بات بتارہا ہوں، جسے آپ چاہے نہ مانیں، جن صوفیاء کو عوام سے دوری سہنا پڑی، ویرانی میں جا کر انکا مرتبۂ ولایت اسی سٹیج پر رہا، آگے ترقی نصیب نہیں ہوئی۔۔نیز مجنوں اور مجذوب لوگ جو ہمہ وقت مست رہتے تھے، وہ کون تھے، اور انکا تصوف سے کیا واسطہ تھا،، یہ پھر کبھی بتاؤں گا۔۔ اگلی کلاس روح، نفس اور ضمیر کے موضوع پر ہو گی ان شاء اللہ۔۔ چلو چھٹی کرو۔۔رب راکھا۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف – 6:::::::::::::
بہت ہی اہم ٹاپک ہے آج کا،، اس لیکچر میں آپکی توجہ ذرا سی بھی اِدھر اُدھر ہوئی تو ککھ سمجھ نہیں آنی۔۔ اسلئے سارے خیالات کو کچھ دیر کیلئے کلاس سے باہر رکھ دیں اور چھٹی کے بعد اٹھا لیجئے گا۔۔پچھلے دنوں حاجی عبد الشکور صاحب بوجۂ ہارٹ اٹیک انتقال فرما گئے۔۔مرنے سے چند لمحے پہلے دوست احباب ،خاندان والے انہیں حاجی صاحب ، بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔۔مرنے کے بعد کہنے لگے میت کو نہلا دو، میت کوکفن دو، ۔۔ کیا ہوا بھئی؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو ابا، خالو، چاچا پکار رہے تھے، اور اب میت میت کہنے لگےہو۔۔جو کچھ ملکیت تھا، اب وراثت ہو گئی، نکاح ٹوٹ گیا، بچے یتیم ہو گئے۔۔ کیوں جی؟ پڑے تو اب بھی آپکے سامنے ہیں،کس چیز کی کمی ہو گئی کہ ابو سے میت بن گئے؟ ہاں جی، وہی اصل مٹیریل تھا جو چلا گیا، اب پیکٹ ہی باقی رہ گیا، جسے آپ مٹی میں دفنا دیں گے، بد بو کے خوف سے۔۔اب آگے سنیں،، انسانی جسم کے دو حصے ہیں، روح اور بدن۔۔روح کی مثال بدن میں ایسی ہے جیسے پھول کی پتی میں پانی ہو،، یعنی بدن کے ہر خلیہ میں روح کا نفوذ ہے۔۔روح ایک invisible اور untouchable شے ہے، یعنی ایک لطیف چیز ہے۔۔جبکہ بدن کو دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے، یعنی یہ کثیف (Denser)شےہے۔۔ اللہ نے دو عالم (worlds) بنائے ہیں۔۔1۔ عالَمِ خلق،، اسکی پیدائش کا سبب مادہ یا matter ہے، اور اسمیں تمام اشیاء و مخلوقات فزیکل وجود رکھتی ہیں، ہمارا بدن بھی مادی ہے اور عالمِ خلق سے ہے۔۔ 2۔ عالَمِ اَمر،، اسکی پیدائش کا سبب اللہ کا اَمر ہے ۔۔ روح کا تعلق عالَمِ اَمر سے ہے۔۔' قل الروح من اَمرِ ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا' ۔۔اب کیوں ہے، کیسے ہے، اسکا ہمیں علم نہیں دیا گیا۔۔!عالمِ خلق فانی ہے۔جبکہ عالمِ اَمر ابدی اور لافانی ہےاسلئے روح فنا نہیں ہوتی۔۔ اور جس چیز میں یہ روح پھونک دی جائے وہ بھی فنا نہیں ہوتی۔۔روح اور بدن کا تعلق عارضی طور پر منقطع کیا جاتا ہے جسے آپ موت کہتے ہیں۔۔موت فنا کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اور جہان میں داخل ہونے کا ویزہ ہے۔۔آپکو پتہ ہو گا کہ بدن کی تخلیق چار چیزوں سے ہوئی ہے۔ ہوا، پانی، مٹی، آگ۔۔ ان چاروں کے ملنے سے انسانی نفس بنتا ہے۔۔یہ نفس چونکہ مادی اور فانی اشیاء سے مل کر بنا ہے،، اسلئے اسکی خواہشات اور ضروریات بھی مادی ہیں، یہ اُن دنیاوی آسائشوں کی طرف رغبت کرتا ہے جس سےمادی بدن کو تسکین ملے۔۔ بدن کو مادی غذا نہ ملے تو بیمار ہوجاتا ہے،علاج کیلئے فزیشن کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسکا علاج بھی مادی دوا سے کرتا ہے۔۔ اسی طرح روح کو روحانی غذا (اللہ کا ذکر) نہ ملے تو بیمار ہو جاتی ہے، معالجے کیلئے شیخِ کامل کی ضرورت ہوتی ہے، جو اسکا علاج بھی روحانی دوا(قلبی توجہ اوراللہ کا ذکر) سے کرتا ہے۔۔بدن کو مسلسل بھوکا رکھا جائے تو مر جاتا ہے، اسی طرح روح کو مسلسل پیاسا رکھا جائے تو یہ بھی مر جاتی ہے اور انسان ایک چلتی پھرتی لاش ہوتا ہے۔۔ ایک حدیث مبارکہ یاد آگئی مجھےجسکا مفہوم ہے:" اللہ کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اور نہ کرنے والے کی مثال مردہ کی سی ہے"۔۔ یہاں روح کی حیات و موت کا ذکر ہے۔۔انسانی فکر کا نام ضمیر ہے۔۔ اسکا تعلق نفس اور روح دونوں سے ہے۔۔ نفسانی خواہشات بڑھ جائیں یا روح بیمار ہو جائے تو ایسے شخص کی فکر بھی مر جاتی ہے، اور اسے مردہ ضمیر والا کہا جاتا ہے۔۔ضمیر کو زندہ کرنے کیلئے نفس کو دبانا پڑتا ہے اور روح کو جگانا پڑتا ہے۔۔روح کی نگہداشت کرنے اور اسے صحت مند رکھنے کے شعبے کو تصوف کہا جاتا ہے۔۔جس طرح روح کے بغیر بدن بیکار ہے، اسی طرح تزکیہ ، تصوف اور اخلاص کے بغیر عقائد اور عبادات بے معنی ہیں۔۔!!مجھے آپکی نیند کا خیال نہ ہوتا تو میں آپکو بتاتا کہ اس میں کتنی زیادہ مزید تفصیل ہے اور اس سے عذاب و ثواب ِ قبر، حشر میں دوبارہ اٹھایا جانا، اور معراج النبی ﷺ جیسے واقعات کیسے آسانی سے سمجھ آتے ہیں۔۔ مگر ہمارا موضوع تصوف تک محدود ہے۔۔آپکو اگر یہ لیکچر اچھی طرح سمجھ آ جائے تو آئندہ نشست میں روح کے اجزاء، لطائف، اور نفس کی اقسام سمجھنے میں بہت سہولت ہو گی، لہذا میرا مشورہ ہے کہ ایک بار اسے دہرا لیں، جس نے نہیں دہرایا، وہ بیٹھا رہےاور باقی طلباء چھٹی کریں۔۔ مگر رکیں، باہر بنچ پر آپکے خیالات کی گٹھڑی رکھی ہے، اپنے ساتھ لے جانا مت بھولئے گا۔۔ پخیر راغلے۔۔!!(تحریر: محمد نعمان بخاری)
تصوف - (الجھن سے سلجھن تک) :::::::::::::::::::::::::::::::::::::1۔ بنتِ انصاف کے کہنے کا مفہوم ہے: یورپ میں تصوف کی جب بات ہوتی ہے تو درختوں اور غاروں میں مشق کا ذکر آتا ہے۔تصوف کی تعریف جنگلوں اور غاروں کے بغیر ادھوری ہے۔جواب: چلیں اب اسکی وضاحت بھی ہو جائے.. غیرمسلم لوگ مختلف کرتب اور کمالات دکھانے، ہپناٹزم اور مسمرزم کی تربیت حاصل کرنے کیلئے کئی عرصہ تک دنیا سے کٹ جاتے ہیں، کم کھاتے ہیں، کم سوتے ہیں.. اس خاص توجہ اور نفس کشی سے ان میں کئی مہارتیں در آتی ہیں.. مثلاْ کئی میل دور بیٹھے بندے سے بات کر لینا،کسی شخص کے خیالات پڑھ لینا،قوت تخلیہ سے ہوا میں معلق ہو جانا وغیرہ.. یہ سب دنیاوی کام ہیں جو مادی ذرائع سے بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔ مثلاْ انسان بذریعہ جہاز ہوا میں معلق ہے، پانی پر تیر رہا ہے اور ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کو دیکھ رہا ہے.. روحانیت و تصوف کا یہ مطلب نہیں ،بلکہ یہ سیدھا سادا انسان کے کردار کو سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت کے دائرہ میں لانے کیلئے ایک طریقت یا راستہ ہے کوئی شعبدہ بازی نہیں ہے.. صوفیاء کو روح کی پاکیزگی اور قلب کی شفافیت کی وجہ سے کئی محیر العقول معاملات من جانب اللہ عطا ہوتے ہیں جو لوگوں پر دین کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے کارآمد ہوتے ہیں.. یہ عجیب بات نبی کے ہاتھ سے صادر ہو تو معجزہ اور امتی کے ہاتھ سے صادر ہو تو کرامت کہلاتی ہے.. کرامت سے اپنی بڑائی مقصود نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی عظمت کو منوانا مقصد ہوتا ہے.. تصوف سے جڑے اولیاء اللہ کی کرامات کو دیکھ کر غیر مسلموں نے اپنے یوگا وغیرہ کو بھی غلط طور پر تصوف کہنا شروع کر دیا ہے.. اسکی خاطر خواہ وضاحت پہلی کلاس (تصوف -1) میں ہو چکی ہے۔2۔ حامد طیبی پوچھتے ہیں: جب اسلامی تعلیمات قرآن وحدیث کی صورت میں موجود ھے ،تو پھر اس سلسلے (تصوف) پہ عمل کرنے کی کیا ضرورت ھے ؟؟؟ ھم اپنے مرشد کی بات تو مان لیتے ھیں مگر خدا اور رسول ﷺ کی نہیں مانتے ۔جواب:چوتھے لیکچر میں اسکی وضاحت موجود ہے کہ تعلیمات پربخوبی عمل کیلئے برکاتِ نبوت کی ضرورت ہے۔۔ ورنہ عبادات محض ایکٹنگ بن جاتی ہیں اور ان میں نہ خلوص رہتا ہے اور نہ کیفیت۔۔ تزکیہ کیلئے کتابیں پڑھنا کافی ہوتا تو پڑھ لکھ کرہر بندہ ولی اللہ بن جاتا۔۔ قرآن و سنت پر عمل کیلئے ہی تصوف کو اپنایا جاتا ہے۔۔ ہم اپنے مرشد کی بات اس لئے مانتے ہیں کیونکہ وہ اللہ و رسول کی بات بتاتا ہے، انہی کی اطاعت کی بات کرتا ہے۔۔ جو اللہ و رسول ﷺ کی بجائے اپنی پیروی کا درس دے اسے مرشد نہیں کہا جا سکتا۔3۔ حسن اقبال صوفیاء کی خلوت نشینی سے متعلق فرماتے ہیں: استاذ جی! ہو سکتا ہے بطور علاج بعض بزرگوں نے تنہائی اختیار کی ہو؟جواب: یہ خلوت نشینی حصولِ توجہ اور کنسنٹریشن پاور کی مضبوطی کیلئے ہوتی ہے.. ضروری نہیں کہ اسکے لیے دنیا سے کٹا جائے.. کچھ وقت مختص کر کے صوفیاء اللہ اللہ کرتے ہیں.. ایک بات اور بھی بتا دوں.. خلوت سے ارتکاز تو ضرور مل جاتا ہے اور یہ لازم بھی ہے،مگر حلقہ میں ذکر اذکار کرنا زیادہ فائدہ مند ہے.. جماعت کا ثواب تنہا نماز سے 27 درجے زیادہ ہے۔
1 تبصرے:
assalamo alaikum bhai agr ho sakay to muj se rabta krna ap ki tmam tahrirain read ki hain.kuch mashwra krna chata hu
0096176390670
imran shahzad
watsaap
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔