فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 15)
----------------
----------------
وہ اپنی تنخواہ سے پیسے بچا بچا کر دوسرے تیسرے مہینے اپنے لیے سُوٹ سلوایا کرتا اور تقریباً ہر وقت ہی سُوٹ پہنا کرتا اکثر دوست مزاق میں پوچھتے "یار تو سوتا بھی کوٹ پینٹ میں ہے۔؟" اُسے بارشوں میں بھیگنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر برستی بارش میں ہاتھ کھولے آسمان کو دیکھا کرتا اور اُس ذات کو, جو ہر جگہ موجود ہے, محسوس کرنے کی کوشش کرتا۔ اُسے بالوں کے الگ الگ انداز بنانے کا بھی شوق تھا۔ بہت سے لوگ اُس کے حُلیے اور باتوں کے بیچ کنفیوز ہو جاتے تھے۔اچھی شکل و صورت کے ساتھ اللّٰہ نے اُسے اچھی آواز اور انداز بھی دیا تھا۔ لوگ اکثر اُس کی شخصیت سے مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔ کسی قریبی دوست نے کہا "یار اللّٰہ رسول کی بات تو تُو بہت زبردست کرتا ہے لیکن یہ سب باتیں تیرے سراپے سے میل نہیں کھاتیں۔ یا تو لباس بدل لے یا باتیں بدل لے" تو اُس نے کہا "فی الحال تو میرا ان دونوں میں سے کچھ بھی بدلنے کا ارادہ نہیں ہے ویسے کچھ بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔؟ اللّٰہ کا نام لینے کے لیے کسی خاص حُلیے کو اپنانے کی ضرورت پڑتی ہے کیا۔؟ ویسے میرا حُلیہ اِسی بات کی دلیل ہے کہ اللّٰہ کا نام کسی بھی روپ میں رہ کر لیا جا سکتا ہے۔" لوگ اُس کے پاس بیٹھنا اُس کی بات سُننا پسند کرتے تھے۔ الگ الگ مسلک کے لوگ بلکہ اکثر غیر مسلم بھی اُس کے پاس بیٹھنا اور اُس کی بات سُننا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ کسی مسلک یا مذہب کی نہیں بلکہ ایک اللّٰہ کی بات کرتا تھا, لوگوں کو مایوسی سے بچانے والی اور اللّٰہ کی ذات سے امید پیدا کرنے والی بات کرتا تھا۔
ُاس کا اپنے مُرشد سے تعلق زیادہ تر دل زبانی ہی رہا۔ وہ رات بھر کا سفر کر کے صبح سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے پاس پہنچتا اور اکثر اُنہیں ایک نظر دیکھ کر ہی واپس چلا جاتا تھا, جب بھی راستے میں ہوتا تو سوچتا کہ آج جا کے مُرشد پاک سے کیا کیا کہوں گا لیکن جب اُن کے سامنے جاتا تو ذبان ہی نہ ہلتی۔ سو وہ دل کی زبانی جو کہہ سکتا ہوتا کہہ جاتا اور اکثر تو اُن کے سامنے اُس کے دل کی ذبان بھی بند ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے دوست کو بیعت کروانے کے لیے لے کے گیا تو اُس کے کالے کپڑوں, کلین شیو چہرے اور ننگے سر کے باعث ایک دو لوگوں نے اُسے کچھ سخت باتیں کہیں جس کے باعث وہ دُکھی دل لیے مُرشد پاک کے سامنے پہنچا تو آپ (رح) نے سیاہ رنگ کی سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی آپ (رح) نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے سر سے ٹوپی اُتارتے ہوئے فرمایا "ٹوپی نال کی ہوندا اے جی, اے ویکھو اَسی اتار دتی ٹوپی, تے ٹوپی اُتارن نال اِسی گھٹ گئے آں کیا۔؟ اللّٰہ دل ویکھدا ہے جی" (ٹوپی سے کیا ہوتا ہے جی, دیکھو ہم نے اُتار دی ٹوپی تو کیا ہم کم ہو گئے ہیں۔؟ اللّٰہ دل دیکھتا ہے جی) اُسے مُرشد سے بس ایک نظر کی طلب رہتی تھی, وہ اکثر دور کھڑا دل کی زبانی بس اپنے مُرشد پاک سے ایک نظر کا سوال کر رہا ہوتا تھا "بس ایک نظر, پلیز ایک نظر دیکھ لیجیے مجھے" اور جب وہ اُس کی جانب دیکھتے تو اُس کی نظر جُھک جاتی, وہ اُن کی نظر کو اپنی روح میں اُترتا محسوس کرتا, اُس نظر کی سرشاری الفاظ میں نہیں بیان کی جا سکتی, اُس ایک نظر میں اُسے کیا ملتا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
ُاس کا اپنے مُرشد سے تعلق زیادہ تر دل زبانی ہی رہا۔ وہ رات بھر کا سفر کر کے صبح سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے پاس پہنچتا اور اکثر اُنہیں ایک نظر دیکھ کر ہی واپس چلا جاتا تھا, جب بھی راستے میں ہوتا تو سوچتا کہ آج جا کے مُرشد پاک سے کیا کیا کہوں گا لیکن جب اُن کے سامنے جاتا تو ذبان ہی نہ ہلتی۔ سو وہ دل کی زبانی جو کہہ سکتا ہوتا کہہ جاتا اور اکثر تو اُن کے سامنے اُس کے دل کی ذبان بھی بند ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب وہ اپنے دوست کو بیعت کروانے کے لیے لے کے گیا تو اُس کے کالے کپڑوں, کلین شیو چہرے اور ننگے سر کے باعث ایک دو لوگوں نے اُسے کچھ سخت باتیں کہیں جس کے باعث وہ دُکھی دل لیے مُرشد پاک کے سامنے پہنچا تو آپ (رح) نے سیاہ رنگ کی سندھی ٹوپی پہنی ہوئی تھی آپ (رح) نے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے سر سے ٹوپی اُتارتے ہوئے فرمایا "ٹوپی نال کی ہوندا اے جی, اے ویکھو اَسی اتار دتی ٹوپی, تے ٹوپی اُتارن نال اِسی گھٹ گئے آں کیا۔؟ اللّٰہ دل ویکھدا ہے جی" (ٹوپی سے کیا ہوتا ہے جی, دیکھو ہم نے اُتار دی ٹوپی تو کیا ہم کم ہو گئے ہیں۔؟ اللّٰہ دل دیکھتا ہے جی) اُسے مُرشد سے بس ایک نظر کی طلب رہتی تھی, وہ اکثر دور کھڑا دل کی زبانی بس اپنے مُرشد پاک سے ایک نظر کا سوال کر رہا ہوتا تھا "بس ایک نظر, پلیز ایک نظر دیکھ لیجیے مجھے" اور جب وہ اُس کی جانب دیکھتے تو اُس کی نظر جُھک جاتی, وہ اُن کی نظر کو اپنی روح میں اُترتا محسوس کرتا, اُس نظر کی سرشاری الفاظ میں نہیں بیان کی جا سکتی, اُس ایک نظر میں اُسے کیا ملتا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
ایک بار اُسے ایک Insurance Company میں کام کرنے کا موقع مِلا۔ اُس کے ساتھ قریب 20 لوگ اور نئے بھرتی ہوئے تھے۔ شروع کے تین دن اُن کی Training کے لیے تھے جس میں انہیں insurance policies کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے سوالات کے جوابات دینا بھی سکھائے گئے۔ Class Instructor نے انہیں بتایا کہ جب اِس Insurance Company نے پاکستان میں اپنا Business شروع کرنے کا ارادہ کیا تو Market Analysis کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اِس مُلک میں insurance کو ایک غیر اسلامی چیز سمجھا جاتا ہے اس لیے ایسے Clients کو جو religious ہوں insurance لینے پے آمادہ کرنے کے لیئے اُن سب سے کہا گیا کہ مذہبی قسم کے clients کو بتائیں کہ ہم اپنا سارا پیسہ shares میں invest کرتے ہیں اِس لیے ہماری company کی insurance policies سُود سے بلکل پاک ہیں اور ساتھ ہی سعودی عرب کے کسی عالمِ دین کے فتوے کی photocopies بھی دی گئیں جس میں سُود سے پاک insurance policies کو حلال قرار دیا گیا تھا۔ وہ class ختم ہونے کے بعد بھی یہی سوچتا رہا کہ ہم لوگ چیزوں کو کس قدر گڈ مڈ کر لیتے ہیں۔ جگہ جگہ دین کے ٹھیکے دار بیٹھیں جو ہماری سوچ پے روک لگانے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار رہتے ہیں۔ خود کو عالمِ دین کہنے والے اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ خود کے پاس چار چار insurance policies ہوں گی, چھ, چھ Bank Accounts
ہوں گے لیکن عام لوگوں کو یہی درس دیں گے کہ خبردار سُود حرام ہے Bank Accounts, Insurance Policies سب سُود پر مبنی ہے یہاں اپنا مال مت رکھنا ورنہ برباد ہو جاؤ گے۔ وہ مُلک جس کے ذمّے اتنا سُود واجب الادا ہے کہ اُس میں ہر شخص world bank کا مقروض پیدا ہو رہا ہے اُس مُلک میں لوگوں کو اِس بحث میں اُلجھے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ کس کام میں سُود ہے اور کس میں نہیں۔ جو قوم پیدا ہی سُود ذدہ معاشرے میں ہو رہی ہو اُس کے تو ہر کام میں سُود ہو گا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللّٰہ نے کیوں ہمیں ایسے معاشرے میں پیدا کیا جس کی بنیاد سُود پے رکھی گئی تھی۔؟ یا تو اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ہم سے ناراض تھا اِس لیے اُس نے ہمیں گناہگاری میں پیدا کر کے گناہگار ہی مارنا چاہا لیکن یہ بات رحمت کے مُنافی ہے, اللّٰہ رحیم ہے, وہ کسی پے ظلم نہیں کرتا۔ تو اُس کی رحمت کی جانب دیکھیں تو پھر یقیناً کوئی ایسی بات ضرور ہو گی جس کی وجہ سے ہمیں یہ سُود کا بوجھ اللّٰہ کی جانب سے معاف کر دیا جائے گا۔ کیا عجیب دنیا ہے کہ میری پیدائش سے پہلے ہی میرے ذمّے اتنے گناہ ہیں جو میری بربادی کے لیے کافی ہیں۔ انہی سوچوں میں غلطاں وہ ایک بڑی مارکیٹ کے پاس پہنچ گیا, ارادہ تھا کہ بڑی دکانوں کے مالکان سے insurance policy خریدنے کے لیے کہوں گا لیکن دل نے اجازت نہیں دی اور وہ کسی سے بات کرنے کی کوشش کیے بغیر ہی گھر واپس چلا گیا۔ اگلا دن بھی ایسا ہی گُزرا کہ کسی سے بھی بات نہ ہو سکی۔ پھر اُس سے اگلے روز Office سے نکلتے ہوئے اپنے ایک اور ساتھی سے بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ اُسے کسی Traveling Agency کے مالک نے بُلایا تھا insurance policy کے بارے میں معلومات لینے کے لیے۔ اُس نے کہا میں بھی ساتھ چلتا ہوں تمھارے۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے۔ Traveling Agency پہنچ کر انہیں انتظار گاہ کی راہ دکھا دی گئی۔ وہ جہاں بیٹھے تھے اُس سے کچھ فاصلے پر ہی Travel Agents کی desks تھیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گُزری تھی کہ ایک مولانا صاحب اندر آئے جن کے ساتھ انہی کے حلیے والے چار لوگ اور تھے اور اُن چاروں کے موئدبانہ انداذ سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ مولانا صاحب اُن چاروں کے لیے نہایت محترم ہیں۔ مولانا صاحب ایک Travel agent کے سامنے والی کرسی پے براجمان ہو گئے آس پاس اور کُرسیاں بھی تھیں لیکن اُن کے ساتھ آئے لوگوں نے بیٹھنے کی کوشش نہیں کی۔ Travel agent جس عقیدت سے مولانا صاحب سے پیش آ رہا تھا اُس سے بھی یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ مولانا صاحب اکثر اس Traveling Agency کو اچھا Business دے دیتے ہوں گے۔

مولانا صاحب کو دیکھ کر اُسے نا جانے کیا سوجھی کہ اُس نے اپنے ساتھی سے کہا "یاد ہے ہم نے کلاس میں insurance
کے Islamic یا non-Islamic ہونے کے بارے میں پڑھا تھا؟ اُس نے کہا "ہاں یاد ہے۔ تم کیا کہتے ہو Islamic یا non-Islamic ۔؟"
"میرے خیال میں اسلام ہمیں اپنا future
plan کرنے سے نہیں روکتا لیکن میں یہ بات اِن مولانا صاحب سے کرنا چاہ رہا ہوں۔" اُس کے ساتھی نے اُسے ایسے دیکھا جیسے اُس کی دماغی حالت پر شک ہو رہا ہو۔ اور کہا "بھائی میرا مار کھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تمھارا دل چاہ رہا ہے تو جاؤ میں گھر جا رہا ہوں۔ ویسے وہ مولانا صاحب تم سے بات ہی نہیں کریں گے تو تم اُن کو بات سمجھاؤ گے کیسے۔ ؟" اُس نے کہا "تم بس یہاں بیٹھ کے دیکھو, مولانا صاحب خود مجھ سے بات کریں گے"۔
اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور جا کے مولانا صاحب کے ساتھ والی کرسی پے بیٹھ کر travel
agent کو مخاطب کیا "اسلام و علیکم بھائی, اگر آپ بُرا نہ منائیں تو کچھ دیر بات کر سکتا ہوں آپ سے۔؟ اصل میں آپ کے Boss نے ہمیں insurance
policy کے لیے بلایا تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اُن کا ہم سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تو میں نے سوچا کہ یہاں آیا ہوں تو آپ سے آپ کے کام کے بارے میں پوچھ لوں کہ کتنے کتنے پیسوں میں آپ مجھے کہاں کہاں بھیج سکتے ہیں؟ travel agent نے مسکرا کر کہا "کہاں جانا چاہتے ہیں آپ؟" (اُس کے کرسی پر بیٹھنے سے لے کر اب تک مولانا صاحب کی پوری توجہ اُسی پر تھی) اُس نے کہا "میں پاکستان سے باہر کہیں بھی نہیں چاہتا, بس ایسے ہی آپ کی job جاننا چاہ رہا تھا, اصل میں ہر job کی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ جس طرح میری job کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ insurance
ایک non-Islamic چیز ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔" یہ الفاظ ابھی اُس کے منہ سے نکلے ہی تھے کہ مولانا صاحب نے گرجدار آواز میں کہا "آپ کس طرح ثابت کریں گے کہ insurance ایک اسلامی چیز ہے؟ آپ کوئی مُفتی ہیں, کوئی عالم ہیں, کس حیثیت سے آپ یہ فیصلہ صادر کریں گے کہ insurance حلال چیز ہے۔" اُس نے کہا "میں جو کہنا چاہتا ہوں اُس کے لیے میری اتنی حیثیت ہی کافی ہے کہ میں بھی اللّٰہ کی تخلیق کا ایک چھوٹا سا حصّہ ہوں۔ اللّٰہ نے دین کی سمجھ ہر انسان کے دل میں رکھی ہے تو یہ سمجھ کسی کو بھی عطا ہو سکتی ہے, اس کے لیے عالِم یا مُفتی کی ڈگری نہیں بلکہ ایک عدد دل درکار ہوتا ہے۔ اور الحمدللّٰہ دل ہے میرے پاس, آپ عالِم دین دکھائی دیتے ہیں اور یقیناً مجھ سے ذیادہ پاکیزہ دل رکھتے ہوں گے آپ عقلی دلیل سے مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیئے کہ میرا دل قائل ہو جائے۔ مجھے کسی حدیث کا حوالہ نہیں چاہیے کیونکہ اِس معاملے میں میرا علم کمزور ہے مجھے بس ایک ہی حدیث یاد ہے کہ جس چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے اُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے اُسے ترک کر دو" مولانا صاحب نے بدستور گرج کر کہا "سود حرام ہے, اور insurance میں بھی سُود involve ہے اس لیے insurance بھی حرام ہے"
"تو پھر آپ سُود کو حرام کہیں نا insurance کو کیوں حرام کہتے ہیں؟" اُس نے مطمئن لہجے میں مولانا صاحب سے سوال کیا۔ جس کا جواب مولانا صاحب نے یوں دیا کہ " insurance کروانا اللّٰہ کے ساتھ شرط باندھنا ہے, اللّٰہ کی ذات پے بھروسا ہونا چاہیے۔" اُس نے مسکراتے ہوئے کہا "سر ویسے تو مجھے کچھ خاص علم قرآن کا بھی نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی جگہ اللّٰہ نے یہ کہا ہے کہ جب تم میں سے کوئی قریب المرگ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد وغیرہ اپنے اہل و اعیال میں بانٹ دے۔؟ آپ بتائیے ایسی کوئی بات ہے قرآن میں؟"
"ہاں ہے لیکن اس آیت سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔؟ مولانا صاحب نے پوچھا۔ اُس نے کہا "میں اس آیت سے صرف یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے مستقبل کی planing سے نہیں روکتا, بلکہ حکم دیتا ہے کہ آنے والے کل کے بارے میں سوچو۔ ایک سُود ذدہ معاشرے میں جہاں بچّہ بچّہ سُود میں ڈوبا ہے وہاں اگر کوئی اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کچھ سوچ لیتا ہے تو ہمارے عُلماء کیوں اُسے لعن طعن کرتے ہیں؟ بہت سے bank accounts
سے ملنے والے سُود کے پیسے سے بہت سے غریبوں کے گھروں کا چولہا جلتا ہے, انہی bank accounts سے بہت سے لوگوں کی سفید پوشی کا بھرم قائم ہے۔ اتنے سارے لوگوں تک رزق پہنچنے کا ذریعہ ہیں یہ سُود کے بیوپاری Financial institutions .. مذہب کے کون سے خانے میں رکھیں گے آپ ایسے Bank Accounts اور insurance policies کو جن سے کسی بیوہ, یتیم, یا بوڑھے کو دو وقت کی روٹی میسر آتی ہو؟" travel agency کے لوگ اور خود مولانا صاحب کے ساتھی جو پہلے اُسے گھور رہے تھے اب اُن سب کی آنکھوں میں اُس کے لیے تائید نظر آ رہی تھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے مولانا صاحب نے اُس کا مذاق اُڑانے والے لہجے میں کہا "بیٹا لگتا ہے آپ تو کوئی ولی اللّٰہ ہیں, ویسے پینٹ شرٹ ٹائی پہنے والا کلین شیو ولی اللّٰہ پہلی بار دیکھا ہم نے۔"
"سر ولی تو کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں ہو سکتا ہے۔ لیکن میں کچھ ہونے کا دعوے دار نہیں ہوں بس اپنا point of view سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اِس سب میں اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں آپ سے۔ میری بات کو پلیز سوچیے گا ضرور۔ اللّٰہ حافظ" اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا travel agency سے باہر نکل گیا۔

"میرے خیال میں اسلام ہمیں اپنا future

اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور جا کے مولانا صاحب کے ساتھ والی کرسی پے بیٹھ کر travel



"تو پھر آپ سُود کو حرام کہیں نا insurance کو کیوں حرام کہتے ہیں؟" اُس نے مطمئن لہجے میں مولانا صاحب سے سوال کیا۔ جس کا جواب مولانا صاحب نے یوں دیا کہ " insurance کروانا اللّٰہ کے ساتھ شرط باندھنا ہے, اللّٰہ کی ذات پے بھروسا ہونا چاہیے۔" اُس نے مسکراتے ہوئے کہا "سر ویسے تو مجھے کچھ خاص علم قرآن کا بھی نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی جگہ اللّٰہ نے یہ کہا ہے کہ جب تم میں سے کوئی قریب المرگ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد وغیرہ اپنے اہل و اعیال میں بانٹ دے۔؟ آپ بتائیے ایسی کوئی بات ہے قرآن میں؟"
"ہاں ہے لیکن اس آیت سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔؟ مولانا صاحب نے پوچھا۔ اُس نے کہا "میں اس آیت سے صرف یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا رب ہمیں اپنے مستقبل کی planing سے نہیں روکتا, بلکہ حکم دیتا ہے کہ آنے والے کل کے بارے میں سوچو۔ ایک سُود ذدہ معاشرے میں جہاں بچّہ بچّہ سُود میں ڈوبا ہے وہاں اگر کوئی اپنی اولاد کے مستقبل کے لیے کچھ سوچ لیتا ہے تو ہمارے عُلماء کیوں اُسے لعن طعن کرتے ہیں؟ بہت سے bank accounts

"سر ولی تو کسی بھی جگہ کسی بھی روپ میں ہو سکتا ہے۔ لیکن میں کچھ ہونے کا دعوے دار نہیں ہوں بس اپنا point of view سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا اِس سب میں اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں آپ سے۔ میری بات کو پلیز سوچیے گا ضرور۔ اللّٰہ حافظ" اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا travel agency سے باہر نکل گیا۔
وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا کہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کے لیے اُس کا دین مشکل سے مشکل تر بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تم نے ٹوپی نہیں پہنی, شلوار قمیض پہن کے مسجد آیا کرو۔ بس دین کے نام پر یہی باتیں رہ گئی ہیں ہمارے پاس۔ اللّٰہ میاں کوئی تو راستہ ہو گا ہم سب کو یہ سوچ دینے کا کہ دین, مذہب, ایمان کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی خاص طرح کا لباس پہنا جائے بلکہ دین کا مطلب ایک خاص دل رکھنا ہے, جو ہر ایک سے اللّٰہ کے لیے محبت کرنا جانتا ہو۔
(جاری ہے)
(جاری ہے)
محمد کامران احمد
: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 16)
----------------
: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 16)
----------------
اُسے اپنا آپ کمزور نظر آ رہا تھا, اتنی بڑی دنیا, اتنے سارے لوگ, آخر کیسے ممکن ہو کہ یہ سب لوگ ایک ہو جائیں۔ میں اکیلا ایسا کیا کر سکتا ہوں۔؟ جو سب کے لیے ہو۔ وہ اکثر کہا کرتا "اللّٰہ میاں میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا جو صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے ہو, میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں جو سب انسانوں کے لیے ہو۔ کچھ ایسا جس سے انسانیت کو فائدہ ہو سکے۔ جب ہم توحید کے قائل ہیں تو ہمیں واحدانیت کا درس دینا چاہیے۔ لیکن ہم تقسیم کا درس دیتے ہیں۔ ہر مسلک و مذہب اسی بات پے زور دیتا نظر آتا ہے کہ بس ہم ہی ہیں جو صحیح ترین ہیں۔ کوئی بھی شخص خود کو بہترین سے کم ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے, تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اور لوگوں کے بیچ اعلیٰ یا ادنا ہونے کا فیصلہ, مذہب و مسلک کی جگہ اخلاق کی بنیاد پر کریں۔" اُس کی سوچ وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن ساتھ ساتھ اِس سوچ کو لوگوں تک پہنچا نہ پانے کا ڈر بھی شدید ہوتا جا رہا تھا۔
مُرشد نے اُس کے دل کو سمجھایا کہ لوگوں کی حد سے ذیادہ پرواہ مت کرو تمہارا اور اِن سب کا رب ایک ہے, سو وہ جیسے تمہارا ہے, اُسی طرح سب کا ہے اور وہ اُن کے لیے کافی ہے۔ تمہارا کام ہے احسان کا چلن اپنانا, ہدایت کس کو دینی ہے یہ اللّٰہ کی مرضی پر ہے, تم بس اپنی طرف سے کوشش کبھی ترک مت کرنا, اللّٰہ کو اپنی راہ میں کوشش کرنے والے بہت پسند ہیں, تو کوشش کرتے رہو, اللّٰہ کرم کرے گا۔
ایک روز وہ اپنے دفتر سے کسی سرکاری کام سے ایک اور دفتر کی طرف جا رہا تھا اُس کی جیب میں صرف دو روپے تھے اِس لیے اُس نے سوچا کہ پیدل چلا جائے راستے میں اُس کی ملاقات اپنے ایک کزن سے ہو گئی جو وہاں قریب ہی کسی جگہ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے آیا۔ اُس نے اپنے کزن سے کہا "میں کسی کام سے جا رہا ہوں میرے ساتھ چلو پھر واپسی پے گھر اکھٹے چلے جائیں گے۔ کوئی پیسے ہیں جیب میں۔؟ میرے سگریٹ ختم ہونے والے ہیں اور میرے پاس صرف دو روپے ہیں۔" اُس کا کزن بھی اُسی کی طرح تھا جس کی جیب میں صرف واپسی کا کرایہ تھا۔ اُس نے بات کرتے کرتے اپنے کزن سے پوچھا "تمھیں پتا ہے ہم سب نے سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے ہاتھ پے بیعت کر لی ہے۔؟" اُس کے کزن نے اُس سے کہا "ہاں پتا ہے, ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اللّٰہ والوں کی صحبت کیوں ضروری ہے؟ ایسا کیا ہوتا ہے اولیاء کی نظر میں کہ اُن کے پاس جا کر لوگوں کے دل کا نظارہ بدل جاتا ہے۔؟"
اُس نے غور سے اپنے کزن کی طرف دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کا کزن پیری مُریدی کو کافی اچھی طرح سمجھتا تھا, شاید وہ اُس کا امتحان لینا چاہ رہا تھا اِس لیے اُس سے اِس قسم کا سوال پوچھ رہا تھا۔ اُس نے کہا "میں اکثر بہت پریشان ہو جاتا ہوں تو دل میں مُرشد پاک کی آواز سُنائی دیتی "پُتر اللّٰہ پاک خیر کَرسی" ۔ اِس ایک جملے میں نہ جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ میرے دل کو قرار آ جاتا تھا۔ اور میں پھر سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں جو انسان اللّٰہ کی ذات میں جتنا ڈوبتا جاتا ہے اُتنا ہی اُس کا نور وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اولیاء کرام نے تصورِ یار کی بات کی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ہماری نظر مناظر کو توڑنے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ جیسے کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے تو بُرا خیال رد کرتا ہے اور بُرائی میں محو ہو تو اللّٰہ کے خیال سے نظر چُراتا ہے, اذان کی آواز آتی ہے تو گانا کی آواز کم یا بند کر دی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو انسان کو عجیب لگتا ہے۔؟ یہ دو منظروں کا ٹکراؤ ہے جسے انسان اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ انسان کی زندگی انہی مناظر کا کھیل ہے کہ باہر دکھائی دینے والا منظر انسان کے اندر کون سا نظارہ تحریر کرتا ہے۔ یہ تحریر انسان خود لکھتا ہے اُس کی مرضی ہے وہ جو جی چاہے اپنے اندر تحریر کرے۔ دنیا میں لوگ اپنے اندر بہت سے منظر لیے گھومتے رہتے ہیں ہر شخص کے اندر ایک الگ دنیا آباد ہوتی ہے جس میں اُس کے پاس دنیا کی ہر چیز کی تصویر ہوتی ہے۔ ان میں کچھ تصویریں ایسی ہوتی ہیں جن کا اشارہ اللّٰہ کی جانب ہوتا ہے۔ اشارہ اِس لیے کیونکہ وہ اللّٰہ کی ذات سے نہیں بلکہ اللّٰہ کی کسی صفت سے سوال کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی رزق کے لیے پریشان ہے تو وہ رازق کو پُکار رہا ہے تاکہ اُس کے رزق کی تنگی دور ہو جائے لوگ اُس کی صفات کو پُکارتے ہیں, اُس کی ذات کو نہیں, انسان جیسا گمان رکھے گا ویسے روپ میں اللّٰہ اُسے ملے گا اور انسان اپنی غرض کے حساب سے اللّٰہ کا گُمان کرتا ہے, لوگ بہت سا رزق دینے والے اور بہت سی دنیا عطا کرنے والے خُداؤں کی تلاش میں رہتے ہیں, بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اللّٰہ کے طالب ہوتے ہیں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر کے منظر میں اللّٰہ کی تصویر ہوتی ہے ورنہ لوگ تو اللّٰہ کو سوچتے ہی نہیں۔ مُرشد کیونکہ اللّٰہ کے ساتھ خالص ہوتا ہے اِس لیے اُس کے اندر کے منظر میں اللّٰہ کے جلوے کثیر تعداد میں ہوتے ہیں تو جب وہ کسی شخص کو دیکھتا ہے تو اپنے اندر کے منظر سے اُسے جوڑ دیتا ہے۔ یہی وہ احسان ہے جو ایک مُرشد اپنے مُرید پر کرتا ہے۔ جس طرح حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ "احسان کیا ہے" تو آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "احسان یہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ اللّٰہ کو دیکھ رہا ہے۔" مُرشد ایسا شخص ہوتا ہے جو ہر وقت اللّٰہ کی یاد میں محو رہتا ہے جب ایسا شخص لوگوں سے گُھلتا ملتا ہے, انہیں دیکھتا ہے تو یہ حقیقی احسان ہے کسی بھی انسان پر کہ کوئی اللّٰہ والا اُس پے نظر کرے۔ تمام جہانوں کا سارا علم انسان کے اپنے اندر موجود ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ اُس علم کو اپنے اندر تلاش کیا جائے۔ جس طرح عقلمندوں, جاہلوں, امیروں, غریبوں, اور نیک یا بد لوگوں کی صحبت کا انسان کی سوچ پر کچھ اثر ہوتا ہے اُسی طرح اللّٰہ والوں کی صحبت بھی کچھ اثر رکھتی ہے۔ عقلمند سے عقل اور جاہل سے جہالت کی ترغیب ملتی ہے۔ عاقل یا جاہل دونوں میں سے کوئی بھی انسان پر کوئی تعویز یا کوئی جادو نہیں کرتا بلکہ اُن کے ساتھ رہنے سے اُن کی بات سُننے سے انسان کے خیالات متاثر ہوتے ہیں۔ اللّٰہ والے کیونکہ اللّٰہ سے لو لگائے ہوتے ہیں اِس لیے اُن کی صحبت سے انسان کے دل کی گرہ کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ مُرشد ایک ایک مُرید کے کان میں کہہ کے نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا بلکہ اُس کے پاس بیٹھنے سے, اُس کی بات سُننے سے, اُس کی نظر میں رہنے سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے اور اُسے تصدیقِ قلب کے ساتھ بات سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کی آنکھ اُس کے باطن کو ظاہر سے جوڑتی ہے, بہت سی باتیں جو زبان سے بیاں نہ ہو رہی ہوں وہ بھی نظر سے عیاں ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں اُن کی ہوس, لالچ, غصہ, پیار سب دکھائی دیتا ہے کیونکہ آنکھ وہ مقام ہے جہاں انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو جو شخص اپنے باطن میں اللّٰہ کی یاد رکھتا ہو اُس کی نظر کا عالم۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
کوئی انداذہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ باضُو کا۔؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
اُس کی بات سُن کے اُس کے کزن نے کہا "تیری باتیں سُن کر بہت اچھا لگا مجھے خوشی ہے کہ اللّٰہ نے تجھے اتنی جلدی اتنی ساری سمجھ دی لیکن میں تیرے مُرشد پاک کا مُرید نہیں بن سکتا, تجھے پتا ہے کہ میرے والد کسی اور سلسلے سے بیعت ہیں اور مجھے بھی اُسی سلسلے میں بیعت کرنی ہو گی" اُس نے اپنے کزن سے کہا "کوئی بات نہیں یار بیعت تو نصیب سے ہوتی ہے, جس کا جہاں نصیب ہو گا وہ وہیں مُرید ہو گا, اچھا میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں اُس دوکان سے سگریٹ خرید لوں" اُس کے کزن نے کہا "پیسے کہاں ہیں تیرے پاس۔؟" تو اُس نے کہا "دو روپے ہیں نا, ایک روپے کا ایک سگریٹ لوں گا اور ایک روپے کے دو سگریٹ بعد میں لے لوں گا" یہ کہتے کہتے وہ دوکان میں داخل ہو گئے اور اُس نے دوکاندار کو ایک روپیہ دیتے ہوئے ایک سگریٹ دینے کو کہا, جتنی دیر میں دوکاندار نے سگریٹ نکال کے کاؤنٹر پے رکھا اُتنی دیر میں اُس نے دوسرا روپیہ جیب سے نکالتے ہوئے ایک اور سگریٹ کا نام لیا جس کی قیمت دو روپے تھی اور کہا کہ وہ سگریٹ دے دو۔ دوکاندار نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے دوسرا سگریٹ نکال کر دیا جو اُس نے فوراً سُلگا لیا اور دوکان سے باہر آ گیا۔ اُس کا کزن اُسے غور سے دیکھ رہا تھا, اُس نے پوچھا کیا بات ہے تو کزن نے کہا "بھائی تُو اتنی دیر سے سگریٹ اور پیسوں کی فکر میں تھا اور اب بے فکر ہو کر ایک روپیہ خرچ کرتے کرتے دو کے دو روپے خرچ کر دیے, ایسا کیا خیال آیا تھا جس نے سارے پیسے خرچ کروا کر بھی تمہیں سکون عطا کیا۔؟" اُس نے کہا "جب میں نے ایک روپیہ بچایا تو میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ تجھے ایک روپے پے بھروسا ہے, لیکن ایک اللّٰہ پر بھروسا نہیں ہے, یہ سوچ کر میں نے دوسرا روپیہ بھی خرچ کر دیا اور سارے پیسے خرچ کر کے مجھے سکون ہے کہ میں نے ایک روپے کی جگہ ایک اللّٰہ پے بھروسا کیا" اُس کے کزن نے کہا "واہ کیا بھروسہ ہے, اب اللّٰہ تعالیٰ سے لوگ سگریٹ بھی مانگا کریں گے, تجھے پتہ ہے نا کہ میں تجھے بچپن سے جانتا ہوں۔؟ میں تجھ پے یقین نہیں کر پاتا, تیرا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب تُو کیا کر جائے, کبھی الگ الگ مسجدوں میں نمازیں پڑھتا ہے کبھی کبھی چرچ بھی چلا جاتا ہے کچھ وقت پہلے تُو شیعہ ہو گیا تھا اور اَب تُو مُرید ہو گیا ہے کل کو کیا پتہ کچھ اور ہو جائے, اور تیری یہ سوچ کہ اللّٰہ پے بھروسا کرو تو سگریٹ بھی مِل جائیں گے, اللّٰہ تعالیٰ کیوں دیں گے تجھے سگریٹ۔؟" اُس نے اپنے کزن کے سوال کا کچھ جواب نہ دیا, تھوڑی دیر میں وہ دونوں گھر پہنچے تو اندر داخل ہوتے ساتھ اُس کے چھوٹے بھائی نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا "ویسے تو آپ کی یہ عادت بہت بُری ہے لیکن پتا نہیں کیوں آج مارکیٹ سے گُزرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مہینے کی آخری تاریخیں ہیں آپ کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو آپ نے مجھی سے کہنا ہے تو چلو آج بھائی کے کہے بغیر ہی سگریٹ لے جاتا ہوں" اُس نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کزن کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کزن نے اُس سے کہا "تم مجھے بھی وہ نقش دکھاؤ جس کا تم ذکر کرتے ہو" اُس نے اسمِ اللّٰہ کا نقش اپنے کزن کو دکھایا۔ اُس نے نقش دیکھا اور چلا گیا۔ رات کو قریب گیارہ بجے اُس کزن نے آ کر اُس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور التجاء بھرے لہجے میں کہا "میں بہت دیر سے بس اسٹاپ پے کھڑا اپنے گھر کو جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن میرا گھر جانے کو دل نہیں کر رہا مجھے لگتا ہے کہ میری منزل بھی سُلطان محمد اصغر علی (رح) ہی ہیں میں کسی اور کا مُرید نہیں ہو سکتا پلیز مجھے اُن کے پاس لے چلو, میں اُن کا مُرید ہونا چاہتا ہوں" اُس اپنے کزن کو گلے سے لگا کر تسلی دی اور اگلی صبح اُسے بیعت کرنے کے لیے اپنے مُرشد پاک کے پاس لے گیا۔
اپنے کزن والے واقعے سے اُسے سمجھ آیا کہ جس نے بات سمجھنی ہوتی ہے اُسے تمہیدوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور جس نے بات نہیں سمجھنی اُسے کسی بھی دلیل سے بات سمجھائی نہیں جا سکتی۔
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 17)
----------------
مُرشد نے اُس کے دل کو سمجھایا کہ لوگوں کی حد سے ذیادہ پرواہ مت کرو تمہارا اور اِن سب کا رب ایک ہے, سو وہ جیسے تمہارا ہے, اُسی طرح سب کا ہے اور وہ اُن کے لیے کافی ہے۔ تمہارا کام ہے احسان کا چلن اپنانا, ہدایت کس کو دینی ہے یہ اللّٰہ کی مرضی پر ہے, تم بس اپنی طرف سے کوشش کبھی ترک مت کرنا, اللّٰہ کو اپنی راہ میں کوشش کرنے والے بہت پسند ہیں, تو کوشش کرتے رہو, اللّٰہ کرم کرے گا۔
ایک روز وہ اپنے دفتر سے کسی سرکاری کام سے ایک اور دفتر کی طرف جا رہا تھا اُس کی جیب میں صرف دو روپے تھے اِس لیے اُس نے سوچا کہ پیدل چلا جائے راستے میں اُس کی ملاقات اپنے ایک کزن سے ہو گئی جو وہاں قریب ہی کسی جگہ ملازمت کے لیے انٹرویو دینے آیا۔ اُس نے اپنے کزن سے کہا "میں کسی کام سے جا رہا ہوں میرے ساتھ چلو پھر واپسی پے گھر اکھٹے چلے جائیں گے۔ کوئی پیسے ہیں جیب میں۔؟ میرے سگریٹ ختم ہونے والے ہیں اور میرے پاس صرف دو روپے ہیں۔" اُس کا کزن بھی اُسی کی طرح تھا جس کی جیب میں صرف واپسی کا کرایہ تھا۔ اُس نے بات کرتے کرتے اپنے کزن سے پوچھا "تمھیں پتا ہے ہم سب نے سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے ہاتھ پے بیعت کر لی ہے۔؟" اُس کے کزن نے اُس سے کہا "ہاں پتا ہے, ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اللّٰہ والوں کی صحبت کیوں ضروری ہے؟ ایسا کیا ہوتا ہے اولیاء کی نظر میں کہ اُن کے پاس جا کر لوگوں کے دل کا نظارہ بدل جاتا ہے۔؟"
اُس نے غور سے اپنے کزن کی طرف دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کا کزن پیری مُریدی کو کافی اچھی طرح سمجھتا تھا, شاید وہ اُس کا امتحان لینا چاہ رہا تھا اِس لیے اُس سے اِس قسم کا سوال پوچھ رہا تھا۔ اُس نے کہا "میں اکثر بہت پریشان ہو جاتا ہوں تو دل میں مُرشد پاک کی آواز سُنائی دیتی "پُتر اللّٰہ پاک خیر کَرسی" ۔ اِس ایک جملے میں نہ جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ میرے دل کو قرار آ جاتا تھا۔ اور میں پھر سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں جو انسان اللّٰہ کی ذات میں جتنا ڈوبتا جاتا ہے اُتنا ہی اُس کا نور وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اولیاء کرام نے تصورِ یار کی بات کی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ہماری نظر مناظر کو توڑنے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ جیسے کوئی شخص مسجد میں جاتا ہے تو بُرا خیال رد کرتا ہے اور بُرائی میں محو ہو تو اللّٰہ کے خیال سے نظر چُراتا ہے, اذان کی آواز آتی ہے تو گانا کی آواز کم یا بند کر دی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو انسان کو عجیب لگتا ہے۔؟ یہ دو منظروں کا ٹکراؤ ہے جسے انسان اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ انسان کی زندگی انہی مناظر کا کھیل ہے کہ باہر دکھائی دینے والا منظر انسان کے اندر کون سا نظارہ تحریر کرتا ہے۔ یہ تحریر انسان خود لکھتا ہے اُس کی مرضی ہے وہ جو جی چاہے اپنے اندر تحریر کرے۔ دنیا میں لوگ اپنے اندر بہت سے منظر لیے گھومتے رہتے ہیں ہر شخص کے اندر ایک الگ دنیا آباد ہوتی ہے جس میں اُس کے پاس دنیا کی ہر چیز کی تصویر ہوتی ہے۔ ان میں کچھ تصویریں ایسی ہوتی ہیں جن کا اشارہ اللّٰہ کی جانب ہوتا ہے۔ اشارہ اِس لیے کیونکہ وہ اللّٰہ کی ذات سے نہیں بلکہ اللّٰہ کی کسی صفت سے سوال کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی رزق کے لیے پریشان ہے تو وہ رازق کو پُکار رہا ہے تاکہ اُس کے رزق کی تنگی دور ہو جائے لوگ اُس کی صفات کو پُکارتے ہیں, اُس کی ذات کو نہیں, انسان جیسا گمان رکھے گا ویسے روپ میں اللّٰہ اُسے ملے گا اور انسان اپنی غرض کے حساب سے اللّٰہ کا گُمان کرتا ہے, لوگ بہت سا رزق دینے والے اور بہت سی دنیا عطا کرنے والے خُداؤں کی تلاش میں رہتے ہیں, بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اللّٰہ کے طالب ہوتے ہیں بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر کے منظر میں اللّٰہ کی تصویر ہوتی ہے ورنہ لوگ تو اللّٰہ کو سوچتے ہی نہیں۔ مُرشد کیونکہ اللّٰہ کے ساتھ خالص ہوتا ہے اِس لیے اُس کے اندر کے منظر میں اللّٰہ کے جلوے کثیر تعداد میں ہوتے ہیں تو جب وہ کسی شخص کو دیکھتا ہے تو اپنے اندر کے منظر سے اُسے جوڑ دیتا ہے۔ یہی وہ احسان ہے جو ایک مُرشد اپنے مُرید پر کرتا ہے۔ جس طرح حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ "احسان کیا ہے" تو آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "احسان یہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ اللّٰہ کو دیکھ رہا ہے۔" مُرشد ایسا شخص ہوتا ہے جو ہر وقت اللّٰہ کی یاد میں محو رہتا ہے جب ایسا شخص لوگوں سے گُھلتا ملتا ہے, انہیں دیکھتا ہے تو یہ حقیقی احسان ہے کسی بھی انسان پر کہ کوئی اللّٰہ والا اُس پے نظر کرے۔ تمام جہانوں کا سارا علم انسان کے اپنے اندر موجود ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہوتی ہے کہ اُس علم کو اپنے اندر تلاش کیا جائے۔ جس طرح عقلمندوں, جاہلوں, امیروں, غریبوں, اور نیک یا بد لوگوں کی صحبت کا انسان کی سوچ پر کچھ اثر ہوتا ہے اُسی طرح اللّٰہ والوں کی صحبت بھی کچھ اثر رکھتی ہے۔ عقلمند سے عقل اور جاہل سے جہالت کی ترغیب ملتی ہے۔ عاقل یا جاہل دونوں میں سے کوئی بھی انسان پر کوئی تعویز یا کوئی جادو نہیں کرتا بلکہ اُن کے ساتھ رہنے سے اُن کی بات سُننے سے انسان کے خیالات متاثر ہوتے ہیں۔ اللّٰہ والے کیونکہ اللّٰہ سے لو لگائے ہوتے ہیں اِس لیے اُن کی صحبت سے انسان کے دل کی گرہ کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ مُرشد ایک ایک مُرید کے کان میں کہہ کے نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا بلکہ اُس کے پاس بیٹھنے سے, اُس کی بات سُننے سے, اُس کی نظر میں رہنے سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے اور اُسے تصدیقِ قلب کے ساتھ بات سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کی آنکھ اُس کے باطن کو ظاہر سے جوڑتی ہے, بہت سی باتیں جو زبان سے بیاں نہ ہو رہی ہوں وہ بھی نظر سے عیاں ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں اُن کی ہوس, لالچ, غصہ, پیار سب دکھائی دیتا ہے کیونکہ آنکھ وہ مقام ہے جہاں انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو جو شخص اپنے باطن میں اللّٰہ کی یاد رکھتا ہو اُس کی نظر کا عالم۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
کوئی انداذہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ باضُو کا۔؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
اُس کی بات سُن کے اُس کے کزن نے کہا "تیری باتیں سُن کر بہت اچھا لگا مجھے خوشی ہے کہ اللّٰہ نے تجھے اتنی جلدی اتنی ساری سمجھ دی لیکن میں تیرے مُرشد پاک کا مُرید نہیں بن سکتا, تجھے پتا ہے کہ میرے والد کسی اور سلسلے سے بیعت ہیں اور مجھے بھی اُسی سلسلے میں بیعت کرنی ہو گی" اُس نے اپنے کزن سے کہا "کوئی بات نہیں یار بیعت تو نصیب سے ہوتی ہے, جس کا جہاں نصیب ہو گا وہ وہیں مُرید ہو گا, اچھا میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں اُس دوکان سے سگریٹ خرید لوں" اُس کے کزن نے کہا "پیسے کہاں ہیں تیرے پاس۔؟" تو اُس نے کہا "دو روپے ہیں نا, ایک روپے کا ایک سگریٹ لوں گا اور ایک روپے کے دو سگریٹ بعد میں لے لوں گا" یہ کہتے کہتے وہ دوکان میں داخل ہو گئے اور اُس نے دوکاندار کو ایک روپیہ دیتے ہوئے ایک سگریٹ دینے کو کہا, جتنی دیر میں دوکاندار نے سگریٹ نکال کے کاؤنٹر پے رکھا اُتنی دیر میں اُس نے دوسرا روپیہ جیب سے نکالتے ہوئے ایک اور سگریٹ کا نام لیا جس کی قیمت دو روپے تھی اور کہا کہ وہ سگریٹ دے دو۔ دوکاندار نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے دوسرا سگریٹ نکال کر دیا جو اُس نے فوراً سُلگا لیا اور دوکان سے باہر آ گیا۔ اُس کا کزن اُسے غور سے دیکھ رہا تھا, اُس نے پوچھا کیا بات ہے تو کزن نے کہا "بھائی تُو اتنی دیر سے سگریٹ اور پیسوں کی فکر میں تھا اور اب بے فکر ہو کر ایک روپیہ خرچ کرتے کرتے دو کے دو روپے خرچ کر دیے, ایسا کیا خیال آیا تھا جس نے سارے پیسے خرچ کروا کر بھی تمہیں سکون عطا کیا۔؟" اُس نے کہا "جب میں نے ایک روپیہ بچایا تو میرے دل نے مجھے ملامت کی کہ تجھے ایک روپے پے بھروسا ہے, لیکن ایک اللّٰہ پر بھروسا نہیں ہے, یہ سوچ کر میں نے دوسرا روپیہ بھی خرچ کر دیا اور سارے پیسے خرچ کر کے مجھے سکون ہے کہ میں نے ایک روپے کی جگہ ایک اللّٰہ پے بھروسا کیا" اُس کے کزن نے کہا "واہ کیا بھروسہ ہے, اب اللّٰہ تعالیٰ سے لوگ سگریٹ بھی مانگا کریں گے, تجھے پتہ ہے نا کہ میں تجھے بچپن سے جانتا ہوں۔؟ میں تجھ پے یقین نہیں کر پاتا, تیرا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب تُو کیا کر جائے, کبھی الگ الگ مسجدوں میں نمازیں پڑھتا ہے کبھی کبھی چرچ بھی چلا جاتا ہے کچھ وقت پہلے تُو شیعہ ہو گیا تھا اور اَب تُو مُرید ہو گیا ہے کل کو کیا پتہ کچھ اور ہو جائے, اور تیری یہ سوچ کہ اللّٰہ پے بھروسا کرو تو سگریٹ بھی مِل جائیں گے, اللّٰہ تعالیٰ کیوں دیں گے تجھے سگریٹ۔؟" اُس نے اپنے کزن کے سوال کا کچھ جواب نہ دیا, تھوڑی دیر میں وہ دونوں گھر پہنچے تو اندر داخل ہوتے ساتھ اُس کے چھوٹے بھائی نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر اُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا "ویسے تو آپ کی یہ عادت بہت بُری ہے لیکن پتا نہیں کیوں آج مارکیٹ سے گُزرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ مہینے کی آخری تاریخیں ہیں آپ کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو آپ نے مجھی سے کہنا ہے تو چلو آج بھائی کے کہے بغیر ہی سگریٹ لے جاتا ہوں" اُس نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کزن کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کزن نے اُس سے کہا "تم مجھے بھی وہ نقش دکھاؤ جس کا تم ذکر کرتے ہو" اُس نے اسمِ اللّٰہ کا نقش اپنے کزن کو دکھایا۔ اُس نے نقش دیکھا اور چلا گیا۔ رات کو قریب گیارہ بجے اُس کزن نے آ کر اُس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور التجاء بھرے لہجے میں کہا "میں بہت دیر سے بس اسٹاپ پے کھڑا اپنے گھر کو جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن میرا گھر جانے کو دل نہیں کر رہا مجھے لگتا ہے کہ میری منزل بھی سُلطان محمد اصغر علی (رح) ہی ہیں میں کسی اور کا مُرید نہیں ہو سکتا پلیز مجھے اُن کے پاس لے چلو, میں اُن کا مُرید ہونا چاہتا ہوں" اُس اپنے کزن کو گلے سے لگا کر تسلی دی اور اگلی صبح اُسے بیعت کرنے کے لیے اپنے مُرشد پاک کے پاس لے گیا۔
اپنے کزن والے واقعے سے اُسے سمجھ آیا کہ جس نے بات سمجھنی ہوتی ہے اُسے تمہیدوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور جس نے بات نہیں سمجھنی اُسے کسی بھی دلیل سے بات سمجھائی نہیں جا سکتی۔
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 17)
----------------
اُس کے کزن کے مُرید ہونے سے اُس کے خاندان میں کافی ہلچل مچ گئی تھی کیونکہ اُس کے کزن کے والد اپنے بیٹے کو اپنے سلسلے سے مُرید کروانا چاہتے تھے انہوں نے اُسے کافی سخت باتیں کہیں اور جواب میں اُس نے ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ "بیعت نصیب سے ہوتی ہے, اِس کے نصیب میں سُلطان محمد اصغر علی (رح) کا دستِ بیعت تھامنا لکھا تھا" اُس کے کزن کے والد نے اپنے بیٹے کو بیعت توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اُس کا کزن بھی سُلطان صاحب کو سچّے دل سے اپنا مُرشد مان چُکا تھا اور کچھ عرصے بعد اُس کا کزن سب کچھ چھوڑ کر سُلطان صاحب کی خدمت میں تربیت کے لیے حاضر ہو گیا۔ اِس دوران بھی اُسے اپنے کزن کے والدین کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا رہا لیکن وہ ثابت قدم رہا۔ اُس کے کزن کے والدین کا خیال تھا کہ شاید اُن کا بیٹا کسی جہادی تنظیم کا حصّہ بن گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ اُس نے انہیں سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے مُرشد پاک کی ایک دن کی صحبت میں انسان وہ کچھ سیکھ جاتا ہے جو اُن سے دور رہ کر برسوں میں بھی نہیں سیکھ سکتا۔ تو اُس سے پوچھا گیا اگر ایسا ہے تو تم خود کیوں نہیں گئے تربیت کے لیے۔؟ اپنے چھوٹے بھائی کو بھیجا ہمارے بیٹے کو بھیجا اور نا جانے کس کس کو تم نے اِس تربیت کے لیے بھیجا لیکن تم خود کیوں نہیں جاتے تربیت کے لیے۔؟ تو اُس نے کہا کہ "میرا بُلاوا نہیں آیا ابھی تک, جس دن بُلاوا آیا تو میں بھی جانے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔" لیکن اُس پے مُرشد کی مہربانی اِس قدر تھی کہ وہ گھر بیٹھے بھی ہر پل اپنے مُرشد سے فیضیاب ہو رہا تھا۔ شاید اُس کے مُرشد نے اُس کی تربیت کے لیے اُس کی حقیقی زندگی کے اسباق کا چُناؤ کیا تھا۔
اُس کی عادت تھی کہ وہ سب کے لیے دعا کرتا تھا اور جو بھی اُس سے ملتا یا بات کرتا اُن سب کو بھی دُعا دیتا تھا۔ اکثر دعائیں جو وہ لوگوں کے لیے کرتا تھا پوری ہو جاتی تھیں اِس وجہ سے لوگوں نے اُسے کوئی پیر سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنی شادی کے کچھ عرصہ بعد اُس نے داڑھی رکھ لی, اللّٰہ نے اُسے ایک بیٹی سے نوازا۔ اُس کے پیر ساب بننے میں بس ایک داڑھی کی کمی تھی سو وہ بھی پوری ہو گئی۔ اپنے مُرشد پاک کی نقل کرتے ہوئے وہ بھی لوگوں کو یہی کہتا کہ اللّٰہ پاک خیر کرے گا۔ اور جب اُن کی مُرادیں پوری ہوتیں تو وہ اُس سے اور ذیادہ عقیدت رکھنا شروع کر دیتے۔ اگرچہ وہ چند گھرانے تھے جو اُسے اِس حیثیت سے جانتے تھے لیکن اُسے سبق سکھانے کے لیے اتنے لوگ بھی کافی تھے۔ اُس نے دیکھا کہ لوگوں کو اللّٰہ سے کوئی سروکار نہیں ہے لوگ بس اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں۔ کوئی اللّٰہ کا طالب نہیں ہے کسی نے اُس سے اللّٰہ کے قُرب و وصال کا سوال نہیں کیا, سب کو صرف اپنی دنیا سُدھارنے کی فکر تھی۔ لوگ اُس کے پیچھے بھاگتے اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔ اُس نے تنگ آ کر لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی کسی غلطی کے باعث اپنے مقام سے گِر چُکا ہے اِس لیے اب اُس کی دعا میں وہ اثر نہیں رہا لیکن لوگ پھر بھی اُس کا پیچھا نہ چھوڑتے اور کیسے چھوڑتے جبکہ اُن کی دُعائیں بدستور پوری ہو رہی تھیں۔ اُس نے اللّٰہ کے حضور دُعا کی کہ میری یہ دُعائیں قبول نا ہوا کریں تاکہ لوگ مجھ سے دور رہیں لیکن ایسا نا ہوا۔ اُس کی نماز میں حلاوت اِس قدر بڑھ چُکی تھی کہ مغرب کی نماز کے صرف فرض پڑھنے میں اُسے تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا, اُن دنوں وہ شام کو ایک کلینک پر پارٹ ٹائم ریسیپشنسٹ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب اُسے لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کلینک کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ جب وہ کسی مسجد میں جاتا تو اکثر لوگ اُسے اِس طرح ڈوب کر نماز ادا کرتے دیکھتے, تو دیکھتے رہ جاتے, اکثر ایک مجمع سا لگ جاتا اور لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے کہ کتنی اچھی نماز پڑھ رہا ہے یہ لڑکا, اکثر لوگ نماز کے بعد اُس سے آ کر پوچھتے کہ اِس کا راز کیا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مُرشد کا نام لیتا, اکثر لوگ یہ جان کر کہ وہ کسی کا مُرید ہے, اُسے جاہل سمجھتے اور اُس کی نماز کی حلاوت کو محض دکھاوا سمجھ کر بھاگ جاتے اور کچھ لوگ اُسے کوئی اللّٰہ والا سمجھ کر اُس سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتے۔ وہ اِن سب چیزوں سے تنگ آ جاتا تھا, اکثر لوگوں کی عقیدت اُس کے نفس کو بہت تقویت دیتی تھیں اور وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو لوگوں کی تعریفوں پے خوش ہونے پر ملامت کرتا رہتا تھا۔
[4/5, 11:16 AM] Mohsin Sultani: اُس نے مسجد میں نماز پڑھنا کم کر دی, اگر جاتا بھی تو مسجد کے کسی ایسے کونے میں چھُپ کے نماز ادا کرتا جہاں وہ کم سے کم لوگوں کی نظر میں آئے۔ اُس نے لوگوں کی جھوٹی عقیدت سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سُود آخرکار جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اُس نے اپنے چہرے سے داڑھی صاف کروا دی۔ اُس کا یہ عمل دیکھ کر سب نے اُسے لعن طعن کی عقیدت مندوں نے کہا کہ یہ کیسا پیر ہے جس نے داڑھی صاف کر دی, دوستوں نے کہا یار آج کے دور میں داڑھی رکھنا بہت مشکل کام ہے, کچھ اور خیر خواہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب اچھے لگ رہے ہو اتنی سی عمر میں داڑھی رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اِس عمل کو سُنت کا قتل گردانا اور اُسے بہت سی سخت باتیں کہیں۔ اُس نے سب کی باتیں خندہ پیشانی سے سُنی مگر کچھ نہ کہا ایک صاحب جو اُسی کے دفتر میں کام کرتے تھے انہوں نے اُس کی اِس حرکت کی وجہ سے اُس سے ایک مسلسل نفرت پال لی اور جب موقع ملتا تو وہ اُسے کچھ نہ کچھ ضرور کہتے۔ اُن صاحب نے بڑی بڑی موچھیں رکھی ہوئی تھیں ایک روز اُسے کہنے لگے کہ "تم نے داڑھی صاف کروا کے شدید گناہ کا ارتکاب کیا ہے اِس سے تو اچھا تھا کہ تم داڑھی رکھتے ہی نہیں" اُس نے اُن صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب اُنہوں نے بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگا دی تو اُس نے اُن سے کہا "سر داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟" انہوں نے اُس کے سوال پر اُسے گھور کے دیکھا اور کہا "تمہیں نہیں پتہ داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟ وہ جو تم نے صاف کروا دی اُسے داڑھی کہا جاتا ہے۔" اُس نے کہا "اچھا داڑھی اور سُنتِ رسول میں کیا فرق ہے۔؟" تو اُن صاحب نے اُلجھ کر کہا "سُنتیں تو بہت سی ہی اور داڑھی رکھنا بھی ایک سُنت ہے" اُس نے مسکرا کے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "چہرے پے اُگنے والے بال بڑھا لینے سے آپ اُسے داڑھی کہہ سکتے ہیں لیکن اُسے سُنتِ رسول تب تک نہیں کہا جا سکتا جب تک کے داڑھی رکھنے والے کی نظر میں حیا نہ ہو, اور دل میں حُب رسول نہ ہو۔ تقریباً ہر مذہب کے پیروکار داڑھی رکھتے ہیں اب کیا کسی غیر مسلم کی داڑھی کو آپ سُنتِ رسول کہیں گے۔؟" انہوں نے اُس کا جواب سُن کر کہا "میں مسلمان کی بات کر رہا ہوں کہ جو بھی مسلم شخص داڑھی صاف کرتا ہے وہ سُنتِ رسول کا قتل کرتا ہے" اُس نے کہا "اگر اس طرح دیکھا جائے تو پھر تو جو لوگ شیو کرتے ہیں وہ تو روز سُنتِ رسول کا قتل کرتے ہوں گے اور موچھیں رکھنے والے تو پھر مذہب کی نظر میں باغی کہلائیں گے کیوں کہ وہ داڑھی گھٹاتے ہیں جسے بڑھانے کا حُکم ہے اور موچھیں جنہیں گھٹانے کو کہا گیا ہے اسے بڑھاتے رہتے ہیں۔" اُن صاحب کو جب بات اپنی جانب آتی نظر آئی تو انہوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا "سزا جزا سب اللّٰہ کے ہاتھ ہے ہمارا کام تھا آپ کو سمجھانا تو ہم نے سمجھا دیا باقی اب تمہاری مرضی ہے جو جی چاہے کرو" اُس نے کہا "جی سر صحیح کہا آپ نے کہ سزا جزا اللّٰہ ہی کے ہاتھ میں ہے, بات تب خراب ہوتی ہے جب ہم خود ایک دوسرے کے لیے سزا و جزا کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں, اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو ایسے بہت سے داڑھی والے نظر آئیں گے جو بے حیا ہیں اور داڑھی کے تقدس کو اپنی حرکتوں سے پامال کرتے ہیں میرے خیال میں سَنتِ رسول کے اصل قاتل وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں جیسا حُلیہ بنانا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں مگر اُس کی روح کو اپنانے کا گمان بھی اُن سے کوسوں دور رہتا ہے۔" اتنا کہہ کر اُس نے بات ختم کر دی لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ دین کے نام پر کیا کر رہے ہیں ہم لوگ۔؟ سب دین کے ظاہر کو اپنانے پر زور دیتے ہیں لیکن اِس کے باطن کا خیال ہی نہیں آتا ہمیں, شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین اللّٰہ کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے تو اپنی باتوں سے ہر ایک پے ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ نمازی ہے, "اذان کتنے بجے ہو گی, میں نماز پڑھ کے آ رہا تھا, یا نماز پڑھنے جانا ہے," یہ وہ فقرے ہیں جو ہم عام طور پر نمازی حضرات کے منہ سے سُنتے رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ اِس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں وہ اپنی نماز کا رعب جھاڑنے کے لیے ایک ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی کہ نہیں, خاص کر جُمعے کے روز ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ سارا ہفتہ مسجد سے دور رہنے کے بعد جب ہم جمعے کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ کے اُن گناہگاروں سے افضل ہو جاتے ہیں جنہیں جُمعے کے دن بھی مسجد جانا نصیب نہیں ہوتا۔ اِس لیے جُمعے کے روز ہمارا ہر ایک سے یہ سوال کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ اُس نے نمازِ جُمعہ ادا کی ہے یا نہیں۔ اکثر جب وہ کسی سے اپنا باطن سُدھارنے کی بات کرتا یا کسی کو مُرشد کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کرتا تو لوگ کہتے کہ اللّٰہ کا دین بہت آسان ہے نماز روضے کی پابندی کرو سب سے بھلائی کا سلوک کرو اور بس اس سے ذیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سوچتا کہ اگر دین محض نماز روزہ ہی ہے تو سارے نمازی مومن کیوں نہیں بن جاتے۔؟ ہر مسجد کے مولوی صاحب ولی اللّٰہ کیوں نہیں ہوتے۔؟ کیا اللّٰہ نے تزکیہ نفس کا حُکم نہیں دیا۔؟ کیا تصفیہِ قلب کے بغیر کوئی انسان حق کو جاننے کے لائق بن سکتا ہے۔؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر سارا زور شریعت پوری کرنے پے کیوں دیا جاتا ہے۔؟ اُس کے اندر سوالات کا ایک ہجوم مچا جا رہا تھا۔
اُس کی عادت تھی کہ وہ سب کے لیے دعا کرتا تھا اور جو بھی اُس سے ملتا یا بات کرتا اُن سب کو بھی دُعا دیتا تھا۔ اکثر دعائیں جو وہ لوگوں کے لیے کرتا تھا پوری ہو جاتی تھیں اِس وجہ سے لوگوں نے اُسے کوئی پیر سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنی شادی کے کچھ عرصہ بعد اُس نے داڑھی رکھ لی, اللّٰہ نے اُسے ایک بیٹی سے نوازا۔ اُس کے پیر ساب بننے میں بس ایک داڑھی کی کمی تھی سو وہ بھی پوری ہو گئی۔ اپنے مُرشد پاک کی نقل کرتے ہوئے وہ بھی لوگوں کو یہی کہتا کہ اللّٰہ پاک خیر کرے گا۔ اور جب اُن کی مُرادیں پوری ہوتیں تو وہ اُس سے اور ذیادہ عقیدت رکھنا شروع کر دیتے۔ اگرچہ وہ چند گھرانے تھے جو اُسے اِس حیثیت سے جانتے تھے لیکن اُسے سبق سکھانے کے لیے اتنے لوگ بھی کافی تھے۔ اُس نے دیکھا کہ لوگوں کو اللّٰہ سے کوئی سروکار نہیں ہے لوگ بس اپنا کام نکالنا چاہتے ہیں۔ کوئی اللّٰہ کا طالب نہیں ہے کسی نے اُس سے اللّٰہ کے قُرب و وصال کا سوال نہیں کیا, سب کو صرف اپنی دنیا سُدھارنے کی فکر تھی۔ لوگ اُس کے پیچھے بھاگتے اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔ اُس نے تنگ آ کر لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی کسی غلطی کے باعث اپنے مقام سے گِر چُکا ہے اِس لیے اب اُس کی دعا میں وہ اثر نہیں رہا لیکن لوگ پھر بھی اُس کا پیچھا نہ چھوڑتے اور کیسے چھوڑتے جبکہ اُن کی دُعائیں بدستور پوری ہو رہی تھیں۔ اُس نے اللّٰہ کے حضور دُعا کی کہ میری یہ دُعائیں قبول نا ہوا کریں تاکہ لوگ مجھ سے دور رہیں لیکن ایسا نا ہوا۔ اُس کی نماز میں حلاوت اِس قدر بڑھ چُکی تھی کہ مغرب کی نماز کے صرف فرض پڑھنے میں اُسے تقریباً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا, اُن دنوں وہ شام کو ایک کلینک پر پارٹ ٹائم ریسیپشنسٹ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب اُسے لمبی لمبی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کلینک کی ملازمت سے نکال دیا گیا۔ جب وہ کسی مسجد میں جاتا تو اکثر لوگ اُسے اِس طرح ڈوب کر نماز ادا کرتے دیکھتے, تو دیکھتے رہ جاتے, اکثر ایک مجمع سا لگ جاتا اور لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے کہ کتنی اچھی نماز پڑھ رہا ہے یہ لڑکا, اکثر لوگ نماز کے بعد اُس سے آ کر پوچھتے کہ اِس کا راز کیا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مُرشد کا نام لیتا, اکثر لوگ یہ جان کر کہ وہ کسی کا مُرید ہے, اُسے جاہل سمجھتے اور اُس کی نماز کی حلاوت کو محض دکھاوا سمجھ کر بھاگ جاتے اور کچھ لوگ اُسے کوئی اللّٰہ والا سمجھ کر اُس سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتے۔ وہ اِن سب چیزوں سے تنگ آ جاتا تھا, اکثر لوگوں کی عقیدت اُس کے نفس کو بہت تقویت دیتی تھیں اور وہ اندر ہی اندر اپنے آپ کو لوگوں کی تعریفوں پے خوش ہونے پر ملامت کرتا رہتا تھا۔
[4/5, 11:16 AM] Mohsin Sultani: اُس نے مسجد میں نماز پڑھنا کم کر دی, اگر جاتا بھی تو مسجد کے کسی ایسے کونے میں چھُپ کے نماز ادا کرتا جہاں وہ کم سے کم لوگوں کی نظر میں آئے۔ اُس نے لوگوں کی جھوٹی عقیدت سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سُود آخرکار جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اُس نے اپنے چہرے سے داڑھی صاف کروا دی۔ اُس کا یہ عمل دیکھ کر سب نے اُسے لعن طعن کی عقیدت مندوں نے کہا کہ یہ کیسا پیر ہے جس نے داڑھی صاف کر دی, دوستوں نے کہا یار آج کے دور میں داڑھی رکھنا بہت مشکل کام ہے, کچھ اور خیر خواہوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب اچھے لگ رہے ہو اتنی سی عمر میں داڑھی رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اِس عمل کو سُنت کا قتل گردانا اور اُسے بہت سی سخت باتیں کہیں۔ اُس نے سب کی باتیں خندہ پیشانی سے سُنی مگر کچھ نہ کہا ایک صاحب جو اُسی کے دفتر میں کام کرتے تھے انہوں نے اُس کی اِس حرکت کی وجہ سے اُس سے ایک مسلسل نفرت پال لی اور جب موقع ملتا تو وہ اُسے کچھ نہ کچھ ضرور کہتے۔ اُن صاحب نے بڑی بڑی موچھیں رکھی ہوئی تھیں ایک روز اُسے کہنے لگے کہ "تم نے داڑھی صاف کروا کے شدید گناہ کا ارتکاب کیا ہے اِس سے تو اچھا تھا کہ تم داڑھی رکھتے ہی نہیں" اُس نے اُن صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب اُنہوں نے بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگا دی تو اُس نے اُن سے کہا "سر داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟" انہوں نے اُس کے سوال پر اُسے گھور کے دیکھا اور کہا "تمہیں نہیں پتہ داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟ وہ جو تم نے صاف کروا دی اُسے داڑھی کہا جاتا ہے۔" اُس نے کہا "اچھا داڑھی اور سُنتِ رسول میں کیا فرق ہے۔؟" تو اُن صاحب نے اُلجھ کر کہا "سُنتیں تو بہت سی ہی اور داڑھی رکھنا بھی ایک سُنت ہے" اُس نے مسکرا کے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "چہرے پے اُگنے والے بال بڑھا لینے سے آپ اُسے داڑھی کہہ سکتے ہیں لیکن اُسے سُنتِ رسول تب تک نہیں کہا جا سکتا جب تک کے داڑھی رکھنے والے کی نظر میں حیا نہ ہو, اور دل میں حُب رسول نہ ہو۔ تقریباً ہر مذہب کے پیروکار داڑھی رکھتے ہیں اب کیا کسی غیر مسلم کی داڑھی کو آپ سُنتِ رسول کہیں گے۔؟" انہوں نے اُس کا جواب سُن کر کہا "میں مسلمان کی بات کر رہا ہوں کہ جو بھی مسلم شخص داڑھی صاف کرتا ہے وہ سُنتِ رسول کا قتل کرتا ہے" اُس نے کہا "اگر اس طرح دیکھا جائے تو پھر تو جو لوگ شیو کرتے ہیں وہ تو روز سُنتِ رسول کا قتل کرتے ہوں گے اور موچھیں رکھنے والے تو پھر مذہب کی نظر میں باغی کہلائیں گے کیوں کہ وہ داڑھی گھٹاتے ہیں جسے بڑھانے کا حُکم ہے اور موچھیں جنہیں گھٹانے کو کہا گیا ہے اسے بڑھاتے رہتے ہیں۔" اُن صاحب کو جب بات اپنی جانب آتی نظر آئی تو انہوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا "سزا جزا سب اللّٰہ کے ہاتھ ہے ہمارا کام تھا آپ کو سمجھانا تو ہم نے سمجھا دیا باقی اب تمہاری مرضی ہے جو جی چاہے کرو" اُس نے کہا "جی سر صحیح کہا آپ نے کہ سزا جزا اللّٰہ ہی کے ہاتھ میں ہے, بات تب خراب ہوتی ہے جب ہم خود ایک دوسرے کے لیے سزا و جزا کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں, اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو ایسے بہت سے داڑھی والے نظر آئیں گے جو بے حیا ہیں اور داڑھی کے تقدس کو اپنی حرکتوں سے پامال کرتے ہیں میرے خیال میں سَنتِ رسول کے اصل قاتل وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں جیسا حُلیہ بنانا اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں مگر اُس کی روح کو اپنانے کا گمان بھی اُن سے کوسوں دور رہتا ہے۔" اتنا کہہ کر اُس نے بات ختم کر دی لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ دین کے نام پر کیا کر رہے ہیں ہم لوگ۔؟ سب دین کے ظاہر کو اپنانے پر زور دیتے ہیں لیکن اِس کے باطن کا خیال ہی نہیں آتا ہمیں, شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین اللّٰہ کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے تو اپنی باتوں سے ہر ایک پے ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ نمازی ہے, "اذان کتنے بجے ہو گی, میں نماز پڑھ کے آ رہا تھا, یا نماز پڑھنے جانا ہے," یہ وہ فقرے ہیں جو ہم عام طور پر نمازی حضرات کے منہ سے سُنتے رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ اِس سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں وہ اپنی نماز کا رعب جھاڑنے کے لیے ایک ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی کہ نہیں, خاص کر جُمعے کے روز ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ سارا ہفتہ مسجد سے دور رہنے کے بعد جب ہم جمعے کی نماز پڑھ لیتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ کے اُن گناہگاروں سے افضل ہو جاتے ہیں جنہیں جُمعے کے دن بھی مسجد جانا نصیب نہیں ہوتا۔ اِس لیے جُمعے کے روز ہمارا ہر ایک سے یہ سوال کرنا بہت ضروری ہوتا ہے کہ اُس نے نمازِ جُمعہ ادا کی ہے یا نہیں۔ اکثر جب وہ کسی سے اپنا باطن سُدھارنے کی بات کرتا یا کسی کو مُرشد کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کرتا تو لوگ کہتے کہ اللّٰہ کا دین بہت آسان ہے نماز روضے کی پابندی کرو سب سے بھلائی کا سلوک کرو اور بس اس سے ذیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سوچتا کہ اگر دین محض نماز روزہ ہی ہے تو سارے نمازی مومن کیوں نہیں بن جاتے۔؟ ہر مسجد کے مولوی صاحب ولی اللّٰہ کیوں نہیں ہوتے۔؟ کیا اللّٰہ نے تزکیہ نفس کا حُکم نہیں دیا۔؟ کیا تصفیہِ قلب کے بغیر کوئی انسان حق کو جاننے کے لائق بن سکتا ہے۔؟ ہر گز نہیں۔ تو پھر سارا زور شریعت پوری کرنے پے کیوں دیا جاتا ہے۔؟ اُس کے اندر سوالات کا ایک ہجوم مچا جا رہا تھا۔
(جاری
محمد اسماعیل: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 18)
----------------
محمد اسماعیل: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 18)
----------------
اُس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ایک روز اُس کے کزن نے اُس سے پوچھا "تیرے خیال میں شریعت پوری کرنا کس حد تک ضروری ہے اور طریقت کو سمجھنا اور جاننا کہاں تک ضروری ہے۔؟" اُس نے غور سے اپنے کزن کی جانب دیکھا اور پوچھا "اِس سوال کی کوئی خاص وجہ۔؟" اُس کے کزن نے شوخ لہجے میں کہا "ہاں جناب خاص وجہ آپ خود ہیں, آپ ہی وہ ہستی ہیں جو ہم سب کے مُرید ہونے کا باعث بنے اور اب آپ ہی ایسی چال چلیں گے تو ہمارا کیا ہو گا" اُس نے مسکرا کر اپنے کزن کی جانب دیکھا اور کہا "میرا کام راہ بتانا تھا راہ چلانا نہیں, مُرشد تک پہنچ گئے تو مُرشد کو دیکھ کر چلو مجھے کیوں دیکھتے ہو" اُس کا کزن عمر میں اُس سے صرف چھ ماہ بڑا تھا اِس لیے دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اور بیعت کے بعد یہ دوستی اور گہری ہو گئی تھی۔ اُس کے کزن نے کہا "مُرشد پاک کو ہی دیکھ کر چل رہا ہوں, لیکن تیری فکر رہتی ہے, اِس لیے پوچھ رہا ہوں کہ شریعت اور طریقت کی ظاہری زندگی میں ضرورت, اطلاق اور امتزاج کس تناسب سے ہونا چاہیے۔؟ کیا شریعت بلکل چھوڑ دینی چاہیے اور صرف طریقت تھام کے چلتے رہنا چاہیے۔؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جو لوگ شریعت کے پُختہ ہیں وہ طریقت بُھلا دیتے ہیں اور جو طریقت کی راہ میں آتے ہیں وہ شریعت سے دور ہو جاتے ہیں۔؟" اُس کے کزن نے تفصیل سے اپنا سوال بیان کرتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں دیکھا تو اُس نے کہا "دیکھو شریعت زمین ہے, شریعت آپ کو بتاتی ہے کہ زمین پے کس طرح رہنا ہے۔ کیسے وُضو کرنا ہے, کس رُخ پے نماز پڑھنی ہے, لوگوں میں کیسے گُھلنا ملنا ہے, اور زندگی کے باقی معاملات کس طرح پورے کرنے ہیں یہ سب ہمیں شریعت بتاتی ہے۔ طریقت آسمان ہے۔ تو جسے آسمان مل جائے اُس کے قدم زمین پر نہیں رہتے, بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اتنے قدآور ہوتے ہیں کہ زمین اور آسمان ایک ساتھ تھام کے چلتے ہیں۔ اِس لیے شریعت والے شریعت ہی کے ہو کے رہ جاتے ہیں اور طریقت والے طریقت میں ہی ڈوبے رہتے ہیں, لیکن اہلِ طریقت, اہلِ شریعت سے بہتر ہیں اگر وہ پرہیزگار ہوں تو۔" وہ کہتے کہتے رُکا تو اُس کے کزن نے کہا "اب پرہیزگاری کہا سے آ گئی۔؟ جب اہلِ طریقت نے شریعت ہی چھوڑ دی تو کس بات کی پرہیزگاری۔؟" اُس نے اپنے کزن کا سوال سُن کر کہا "پرہیزگاری ہی تو وہ شے ہے جو اہلِ شریعت اور اہلِ طریقت کو شریعت یا طریقت کا اہل بناتی ہے۔ اگر پرہیزگاری نہیں ہے تو شریعت, طریقت سب بے سُود ہے۔ پرہیزگاری یہ ہے کہ گناہ سے دور رہے, اپنے نفس پر قابو رکھے, لوگوں سے احسان کا رویہ اختیار کرے اور ہر حال میں اللّٰہ کے حُکم کی تعمیل کرے, اگر کسی میں یہ خصوصیات ہیں تو وہ پرہیزگار کہلانے کے لائق ہے" اُس کے کزن نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن یہ سب عمل تو شریعت کا حصّہ ہیں۔" اُس نے کہا "ہاں کیونکہ انسان کتنا ہی بُلند کیوں نہ ہو جائے اُسے رہنا زمین پے ہی پڑتا ہے۔ اسی زمین پر زندگی گُزار کر شریعت, طریقت, معارفت اور حقیقت کی سیڑھیاں چڑھی جاتی ہیں۔ جہاں تک بات ہے کہ دونوں میں سے کیا چیز زیادہ ضروری ہے تو میں کہوں گا کہ باطن ذیادہ ضروری ہے۔ میں نے حضرت علی کا ایک فرمان سُنا تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ تمہاری نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو لیکن لوگ تمہیں تمہارے دکھاوے سے پہچانتے ہیں اور تمہارا دکھاوا کتنا ہی عالی شان کیوں نہ ہو اللّٰہ تمہیں تمہاری نیت سے پہچانتا ہے۔" تو میں نے دکھاوا چھوڑ دیا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے کچھ سمجھنا شروع ہو جائیں, تُو سوچ سکتا ہے کہ اُس وقت کیا حالت ہوتی ہے جب لوگ آپ کو کوئی اللّٰہ والا سمجھ کر آپ سے دُعا کرنے کو کہیں اور آپ کو اپنا آپ خالی دکھائی دے, میں ڈر جاتا ہوں, اور جس اللّٰہ والے کو میں جانتا ہوں اُسے یاد کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں "اللّٰہ پاک خیر کرسی" تو میں بھی کہہ دیتا ہوں "اللّٰہ خیر کرے گا" جب میں کہہ دیتا ہوں تو مجھے پھر سے خوف آتا ہے کہ اگر اِس کی دُعا قبول نہ ہوئی تو اِس کا آج کے اللّٰہ والوں پر یقین اور گھٹنے کا خدشہ ہے اور اگر دُعا قبول ہو گئی تو مجھ پے یقین بڑھنے کا خدشہ ہے, تو اللّٰہ نے اگر اُن کی دُعا قبول کرنی ہے تو میرے کہے بغیر بھی پوری کر دے گا میں کیوں اللّٰہ اور بندے کے بیچ دُعائیں قبول کروانے والا بن کے بیٹھوں۔؟ میں نے کسی سے نہیں کہا کہ میں کچھ ہوں۔" کہتے کہتے اُس کی آواز بھَرّا سی گئی۔ "میں کوئی نہیں ہوں, جو ہیں وہ میرے مُرشد پاک ہیں۔ یہ بات میں نے لوگوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ اصل ذات میرے مُرشد پاک کی ہے, میں نے سب کو اسمِ اللّٰہ ذات کی دعوت دی لوگوں نے ذکر بھی لیا لیکن سب کو اپنی دنیا پیاری ہے, میں نے اللّٰہ میاں سے بھی کہا کہ آپ کیوں پوری کر دیتے ہیں ہر بات۔؟ اگر وہ میری ہر بات کو پورا نہ کریں تو بھی اِن لوگوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تو میں نے یہ راہ اختیار کی۔ اور الحمد للّٰہ سکون ہے مجھے۔ میں لوگوں کو صوفی ساب بن کے دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ابھی تو بہت کچّا ہوں میں۔ جس دن مجھے لگا کہ پک گیا ہوں اُس دن میں خود لوگوں کو آواز دے کر بلاؤں گا لیکن ابھی مجھے میرے حال پے چھوڑ دو اُس کے کزن نے مسکراتے ہوئے کہا "اچھا چلو چھوڑ دیا آپ کو آپ کے حال پے لیکن شریعت اور طریقت میں سے کیا اہم ہے یہ تو بتاؤ" تو اُس نے کہا "شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن ہے۔ ہم لوگ باطن سنوارے بغیر ہی ظاہر سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں اِس لیے سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت باطن کا حصّہ ہے ہم دین ایک دوسرے پر اور خود پر بھی تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈنڈے کے زور پر اعمال کی ادائیگی سے ہم جسم کو تو عادی بنا لیتے ہیں لیکن دل۔؟ دل نہیں راضی ہوتا, دل تب تک نہیں مانتا جب تک کہ وہ خود سے نہ جان لے۔ اسی لیے اولیاء کرام لوگوں کے دلوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اکثر پہاڑ جیسے اعمال پے انسان کو وہ مقام حاصل نہیں ہو پاتا جو ایک چھوٹی سی نیت پے مل جاتا ہے۔ تو میں یہ کہوں گا کہ شریعت اور طریقت کی ضرورت اور حقیقت میں بھی اُتنا ہی فرق ہے جتنا کہ عمل اور نیت میں ہے۔ عمل, نیت کے بغیر ادھورا ہے لیکن نیت, عمل کے بغیر بھی کچھ مقام رکھتی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض نیت کی جائے اور عمل ترک کر دیا جائے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نیت کو اِس قدر خالص کیا جائے کہ وہ خود بہ خود عمل سے ظاہر ہو۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر حال میں نماز قائم رکھنے کا حُکم دیا ہے, کسی بھی حال میں نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے, لیکن پھر بھی ہم عام لوگوں سے نماز چھُوٹ ہی جاتی ہے اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا, کیوں کہ ہم نماز اس لیے نہیں پڑھتے تاکہ نماز قائم کر سکیں بلکہ اِس لیے پڑھتے ہیں کیونکہ یہ فرض کی گئی ہے۔ جب ہم اِسے محض فرض سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو نماز کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو کہتے سُنا ہے کہ ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن یہ ہمیں گناہوں سے نہیں روکتی۔ نماز کا اصل مقصد اللّٰہ کی یاد قائم کرنا ہے۔ جب ہم نماز شروع کرتے ہیں تو پہلا خیال ہم یہ کرتے ہیں کہ ہم اللّٰہ کے سامنے موجود ہیں, وہ ہمیں دیکھ اور سُن رہا ہے, پھر تمام بُرے خیالوں سے بچتے ہوئے باقی کی نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نماز ختم ہونے پر ہم بھول جاتے ہیں کہ اللّٰہ ہمیں دیکھ اور سُن رہا ہے۔ بزرگانِ دین نے ظاہری نماز اِس لیے ترک نہیں کی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو عام لوگ اِس کی مثال بنا لیتے اور نماز ترک کرنا شروع کر دیتے اور اِس طرح ایک عام انسان کے گمراہ ہونے کا احتمال تھا اِس لیے کامل بُزرگانِ دین نے نماز کی سخت سے سخت پابندی کی اور لوگوں کو بھی یہی حکم دیا۔ نماز فرض ادا کرنے کی نہیں ہے بلکہ قائم کرنے کی چیز ہے۔ کیا کوئی شخص اللّٰہ کے حضور اپنا فرض پورا کر سکتا ہے۔؟ اس ٹوٹی پھوٹی عبادت سے تو کیا, ہم اپنی جان دے کر بھی بندگی کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو انسان کو چاہیے کہ جتنی شریعت اپنانا اُس کے بس میں ہو, اپنائے اور اُسے بڑھانے کی کوشش کرتا رہے اور اپنے اعمال کے پیچھے موجود اپنی نیت کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا رہے, مُرشد مُرید کی نیت ہی کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ مُرید کے عمل سے ظاہر ہو سکے, جب نیت سُدھرتی ہے تو عمل خود با خود درست ہو جاتا ہے, اب وہ عمل لوگوں کو نظر آتا ہے یا نہیں اِس چیز کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ لیکن جو شخص لوگوں کو دعوت دے رہا ہے اُس کے لیے اِس چیز کا دھیان رکھنا بھی واجب ہے کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں کیونکہ وہ لوگوں تک ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہے اگر وہ شریعت کی پابندی نہیں کرے گا اور راہ سے بھٹکے گا تو اپنے ساتھ باقی لوگوں کا بھی نقصان کرے گا, اِس لیے ایسا شخص سُلطان باہو رح کی تعلیمات کے مطابق مُرشد کہلانے کے لائق نہیں ہے, لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو شریعت پے پوری طرح کاربند نہ ہو وہ مُرید کہلانے کے لائق بھی نہیں ہے۔ مُرید کو چاہیے کہ طریقت کے ساتھ ساتھ شریعت پر بھی دھیان دے تاکہ کاملیت کی جانب سفر کر سکے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر پاتا تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ طریقت سے بھی نابلد رہے گا۔" اُس کے کزن نے کہا "تیری بات مجھے ہضم ہو رہی ہے لیکن پھر بھی کچھ کسر ہے ابھی بھی" اُس نے مسکرا کر کہا "ہاں تھوڑی سی کسر رہ جانی چاہیے کیوں کہ یہی کسر انسان میں آگے بڑھنے کی چاہ کو بڑھاوا دیتی ہے۔"
(جاری ہے)
محمد کامران احمد
محمد کامران احمد
1 تبصرے:
بہیت زبردست اور سبق آموز تحریر ہے ، جزاک اللہ
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔