پیر، 13 اپریل، 2015

تصوف لیکچرز 13 تا 15

محمد نعمان بخاری‎ ‎تصوف (لیکچرز- 13 تا 15)‎.

تصوف -13
یہ بتائیں کہ کبھی آپ نے اپنے خالق سے گپ شپ کی ہے؟۔۔'گپ شپ، اور خالق سے، یہ کیسے ہو سکتی ہے سر؟'۔۔ اسکا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ میں کوئی سوال اُٹھائیں ، اور پھر اسے اپنے خالق کے دئیے ہوئے 'یوزر مینول' پر پیش کردیں۔۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خالق سے کمیونیکیشن کیلئے اپنے قلب کی فریکونسی ایڈجسٹمنٹ کریں تاکہ سگنلز وصول ہو سکیں۔۔فی الحال ہم پہلا طریقہ آزماتے ہیں۔۔آپ کو یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ آپ اپنے خالق سے کوئی سوال کریں اور وہ اسکا جواب نہ دے۔۔ کیونکہ جس نے آپکو تخلیق کیا ہے وہ آپکی ہرسوچ سے واقف ہے، آپکی مکمل نفسیات جانتا ہے۔۔ مثلاًمیں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی۔۔ پھر بے تکلف ہو کرسوال پر سوال کرتا چلا گیا۔۔ دیکھئے کہ میرے مالک نے کس طرح مجھےتسلی بخش جوابات عنایت فرمائے۔۔ میرے رب نے فرمایا: فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرہ : 152) "پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا"۔پوچھا: یا اللہ آپکا کتنا ذکر کروں ؟۔فرمایا: يٰا يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا (الاحزاب : 41) "اے اہل ایمان، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو"۔پوچھا: یا اللہ کتنی کثرت سے؟ دن رات میں ہزار بار؟ دس ہزار بار؟ یا دس لاکھ بار؟؟۔فرمایا: وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب : 42) "اور میری تسبیح کرو صبح شام (یعنی ہروقت)"۔پوچھا: یا اللہ کن الفاظ سے یاد کروں ؟۔فرمایا: وَاذْكُرِاسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزمل : 8 ) "اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اورہر طرف سے کٹ کر اسکی طرف متوجہ ہو جاؤ "۔پوچھا: یا اللہ دنیا کے اتنے زیادہ بکھیڑوں میں پھنسا ہوا ہوں، کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو اتنی کثرت سے یاد کروں ؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے نام کی اتنی زیادہ تکرار کروں کہ دنیا سے ہی کٹ جاؤں ؟۔فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ : 286) "اللہ تعالی کسی شخص کو اسکی وسعت (حیثیت) سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے"۔پوچھا: یا اللہ آپکا یہ حکم صرف مجھ کمزور کے لیے ہے یا پہلے بھی کسی نے آپ کا اتنی کثرت سے ذکرکیا ہے کہ ہَمہ وقت آپکی یاد میں مشغول رہا ہو ؟۔فرمایا: ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ (زمر : 23) "پس ان (صحابہ کرام رض) کی جِلدیں اور قلوب ذکراللہ کرنے لگے"۔پوچھا: یا اللہ میری زبان میں اتنی طاقت کہاں کہ میں آپکا ذکر اتنی شدت سے کر سکوں کہ وہ جِلد اور قلب تک کو ذکر کرا دے۔ کوئی طریقہ ارشاد فرمائیے ۔فرمایا: وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (الاعراف : 205) "اور اپنے رب کا ذکر اپنے دل ہی دل میں کرو، عاجزی اورخوف سے اوراونچی آواز کے بغیر،صبح وشام (ہمہ وقت) اور غافلوں میں سے نہ ہونا"صَاحبانِ دانش ۔۔!! ذراسوچئے ، کہ اللہ پاک کا ہر حکم ماننا انسان پر فرض ہے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کیسے ممکن ہے ؟یقیناً اللہ کریم کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں جس پر عمل ممکن نہ ہو، اور اللہ اپنے حکم پر عمل کے لئے ذرائع بھی مہیا فرما دیتے ہیں، لیکن صرف اس شخص کو، جس کے دل میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنے کی خالص طلب پیدا ہو۔۔ کیونکہ عموماً اللہ بے طلب کو ہدایت نہیں دیا کرتے۔ ۔آپ فٹ بال کھیلتے ہوئے اپنے پاؤں کو ایسی تربیت کرتے ہیں کہ وہ گیند کی حرکت کیساتھ مربوط ہو جاتے ہیں،، جبکہ ہمارا قلب (دل) دیکھتا ہے ، سنتا ہے اور شعوربھی رکھتا ہے تو کیا اسے اللہ کا پاک نام پڑھنے کی تربیت نہیں دی جا سکتی؟؟الحمد للہ ضرور دی جا سکتی ہے ۔۔ذکرِ قلبی کے حصول کے بعد انسان کی کیفیت کچھ یوں بن جاتی ہے کہ دِل ہر لمحے اللہ کا مبارک نام دہراتا رہتا ہے اور اس قدر دُہراتا ہے کہ واقعتاً گنتی کم پڑ جاتی ہے۔۔یاد رکھیں،، عقلمند وہ نہیں جو ہماری ناقص رائے میں عقلمند ہو ۔۔ بلکہ قرآن مجید کے مطابق عقلمندوں کی نشانی ملاحظہ کیجئے ۔۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (آل عمران : 191) "وہ جواللہ کا ذکر کرتے ہيں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (یعنی ہرحال میں) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں"۔۔یہ اور اس طرح کی 700 سے زائد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں جن میں بالواسطہ اور براہِ راست ذکرِ کثیر کا حکم دیا گیا ہے۔۔کثرتِ ذکر کے اس قدر واضح حکم کے باوجود بھی اگر ہم کسی وقت یادِ الٰہی سے غافل رہیں تو اللہ پاک کی تنبیہ پہ غور کریں۔۔وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى (طٰہ - 124) "اور جو میرے ذکر(یاد) سے منہ پھیرے گا اس کی (دنیاوی) زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے "۔۔تو دوستو ! آپ بھی کسی صاحبِ دل، ولئ کامل کی صحبت میں پہنچ کر اپنے دل کو اللہ اللہ سکھائیے قبل ازیں اس کی یہ دھڑکن خاموش ہو جائے۔۔'ان شاء اللہ اگلے لیکچر میں بیعت پر بات ہو گی۔۔دا اللہ پا امان۔۔!!
تصوف - 14
'Sir، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آخر ہم کسی سے بیعت کیوں کریں؟ ضرورت کیا ہے اسکی؟'۔۔ویل، کیا آپکو یہ پتہ ہے کہ بیعت کا کیا مطلب ہے اور اسکی کتنی اقسام ہیں؟۔۔'یس سر، بیعت 'بیع' سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے بیچنا، یعنی اپنی رائے کو کسی دوسرے انسان کی رائے پر بیچ دینا، اپنی سوچ ختم کردینا، دوسرے کی مان لینا، مگر مجھے بیعت کی ٹائپس کا علم نہیں'۔۔رائٹ، پہلے آپ بیعت کی اقسام مختصراًجان لیں، پھر آپکو معلوم ہو گا کہ بیعت کی کیا ضرورت اور فائدہ ہے۔۔ 1: بیعتِ جہاد (حالتِ جہاد میں وقت کے حاکم/امیر سے کیجاتی ہےکہ مر جائیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے)۔۔2:بیعتِ اصلاح (کسی بھی متبعِ شریعت سے کیجاتی ہے جو روزمرہ کے شرعی مسائل میں راہنمائی کرسکے)۔۔ 3: بیعتِ خلافت (حاکمِ وقت سے اسکی اطاعت کیلئے،، موجودہ جمہوریت میں یہ ووٹ کی شکل میں ہوتی ہے)۔۔4: بیعتِ تصوف (قربِ الہٰی کی منازل طے کرنے کیلئے کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر جو سالک کو کم از کم فنافی الرسول کرانے کی اہلیت رکھتا ہو)۔۔ہمارا موضوع بیعتِ تصوف ہے، وہی تصوف جس کے آپ اب تک تیرہ لیکچرز اٹینڈ کرچکے ہیں۔۔جس طرح کسی بھی شعبے کا علم سیکھنے کیلئے اسکے ادارے میں داخلہ لینا لازم ہے، اسی طرح علمِ تصوف کے ادارے کا نام خانقاہ ہے، یہ کوئی حجرہ یا غارنما شے نہیں بلکہ اچھی خاصی مسجد ہوتی ہے جہاں طالبینِ حق دور دراز سے سمندرِ محبت کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔۔ہر شعبےکے علم میں کمال حاصل کرنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تصوف کے استاد کو شیخ یا پیر کہا جاتا ہے۔۔یہ کوئی غیر انسانی مخلوق نہیں، بلکہ آپ ہی طرح کا بندہ ہوتا ہے جسے اللہ پاک نے محنت مجاہدہ اور اپنے شیخ کی جوتیوں میں بیٹھنے کے طفیل بطور انعام یہ قوت نصیب فرمائی ہوتی ہے کہ وہ اپنی قلبی توجہ اور ذکر اذکار کے ذریعے آنے والوں کا تزکیہ کرسکے۔۔ انکے دلوں کی زمین کونفسانی خواہشات سے پاک کرکے طلبِ الہٰی کی گوڈی کر سکے۔۔ارضِ قلب کی تمام بیماریوں کا علاج کرسکے، اس پر عقیدتِ اسلام کی کھاد ڈال سکے۔۔دل میں محبتِ رسول ﷺ اور اطاعتِ ربانی کےایسے بوٹے لگا سکے جن پر اخلاص، دیانت ، عاجزی اور اصلاحِ اعمال کے نایاب پھول اُگیں۔۔ انکی خوشبو سے باطن مہک اُٹھے ، ظاہر سرسبز ہوجائے۔۔اور بندہ اپنی مرضی اور خوشی سے احکاماتِ الہٰی پر فدا ہوتا چلا جائے۔۔جس طرح عالمِ اسباب میں اللہ کی جانب سے بادل کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ برسے، لہذا وہ برستا ہے اور اسے یہ فرق کرنے کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کھیتی پر برس رہا ہے یا کوڑے کے ڈھیر پر، وہ صحراؤں کی پیاس بجھا رہا ہے یا دریا کو جل تھل کررہا ہے۔۔ اسی طرح شیخ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آنے والے پر برکاتِ نبوت کی بارش برسا دے۔۔نتائج پیدا کرنا اللہ کی مرضی اور آنے والے کے خلوصِ طلب پر منحصر ہوتا ہے۔۔اگر زمین زرخیر ہوگی تو اسمیں ہل چلایا جائے گا۔۔کسی نے باغ لگایا ہوگا تو پھل پھول آجائیں گے۔۔کوئی کوڑے کا ڈھیر ہوگا تو مزید تعفن اور بدبو پیدا ہوگی۔۔انسانیت کا خیرخواہ اور محسن ﷺ تو اپنی مکمل روشنیاں ہرسو بکھیر رہا تھا،اور ہے۔۔ کسی کا دلی ارادہ اسے کتابِ تقدیر میں رضی اللہ عنہ بنا جاتا تھا تو کسی کو ملعون۔۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے اور اپنے اپنے نصیب ہیں۔۔'ایکسکیوز می سر، آپ تو ہمیں الفاظ کی بے ساختہ روانی میں بہائے لے جارہے ہیں، یہ بتائیں، ہمیں پتا کیسے چلے گا کہ کون سچا پیر ہے اور کون جعلی شیخ، اور بیعت ہونے کیلئے بھی کوئی اصول و ضوابط ہیں یا بس جسکو دیکھیں پیر بنا بیٹھا ہے، جاکر فوراً اسکی قدم بوسی شروع کردیں؟'۔۔بہت عمدہ بات کی طرف دھیان دلایا آپ نے،، شیخِ کامل کے اوصاف تو میں آپکو اگلے لیکچر میں بتاؤں گا، کیونکہ اب آپکے ساتھ والے دوست کو جمائیاں آنے لگی ہیں،، اسلئے مختصر سمجھ لیں کہ بیعت کرنے کیلئے چھان بین کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ آپ کسی ٹھگ کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں، جسکی نگاہ کا اثر آپکے دل پر پہنچنے سے پہلے آپکی جیب شریف پر اٹک جائے گا۔۔سب سے پہلے اسکے ساتھ رہنے والےلوگوں اور دیگر مریدین کو دیکھیں۔۔اگر انکی زندگی حدودِ شرعی میں آچکی ہے یا آرہی ہے۔۔ پہلے دن میں بیس گناہ کرتے تھے، بیعت کے بعد بتدریج دس پہ آگئے ہیں۔۔اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت و اطاعت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔۔تو سمجھیں کہ پیر ٹھیک ہے۔۔ اگر دونمبر ہوتا تو لوگ پیرصاحب سے صرف دنیاوی فائدہ حاصل کرنے تک مقید رہتے۔۔ ایسے پیروں کا کام کاروبار میں ترقی دلانے، پسند کی شادی کرانے اور بچے پیدا کرانے تک محدود ہوتا ہے۔۔بہرحال، سچا پیر مل جائے تو آپکے ذہن میں اسکی ذات اورافکارسے متعلق جتنے سوالات ہیں، سب کی تسلی کر لیں۔۔ یاد رکھیں بیعت کے بعد اعتراض کی گنجائش نہیں رہے گی کیونکہ آپ خود کو بیچ چکے ہونگے۔۔ بیعت کے بعد بندہ اعتراضات کی کھوج لگاتا پھرے تو گویا اس نے بیعت توڑ دی۔۔'سر، میرا ایک سوال ہے، جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ کرام ہمارے پاس موجودہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟ ہم خود بھی تو عمل کر سکتے ہیں ناں'۔۔ گڈ کوئسچن۔۔ اسکا جواب انشاء اگلے لیکچر میں۔۔ تب تک آپ پچھلے ڈیسک پر بیٹھی محوِ خواب طالبہ کے خراٹے انجوائے کریں۔۔ سونہڑے رب دے حوالے۔۔!!
تصوف - 15
کیا آپ کتابیں پڑھ کرکوالیفائیڈ ڈاکٹر بن سکتے ہیں، جبکہ کسی ادارے میں استاد کی شاگردی اختیار نہ کرلیں؟ ۔۔'نو سر، البتہ عطائی ڈاکٹر ضرور بن سکتے ہیں جو دوسروں کیلئے خطرۂ جان ہوتا ہے'۔۔رائٹ، کیا آپ کسی سینئر وکیل کی سرپرستی کے بغیر وکالت سیکھ سکتے ہیں؟۔۔اور یونیورسٹی میں چار سالہ انجینئرنگ کے بغیر آپکو کون بیوقوف آپکوانجینئر مانے گا؟۔۔ یہ تو سب دنیاوی ڈگریاں وتجربات ہیں، جنہیں آپ ٹیچر کے بغیر نہیں جان سکتے۔۔ ہمارا موضوع تصوف ہے، جس میں برکاتِ نبوت کا حصول ایک مشن ہوتا ہے۔۔جس سے تعلیمات پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔۔ برکاتِ نبوت کو آپ ایک Pushing Force سمجھ لیں جو آپکو آپکی خوشی سے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا کراتی ہیں۔۔ یہ عبادات میں وہ کیفیات اورخلوص پیدا کرتی ہیں جسکے بارے میں اللہ کے حبیب ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے:'اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اللہ کو اپنے سامنےدیکھ رہے ہو، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا تو یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے'۔۔ اس کیفیت کا حصول تصوف ہے، جو تزکیہ قلب کے بغیر ممکن نہیں۔۔اس تزکیہ کیلئے مزّکی /استادکی ضرورت ہے جو روح کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے۔۔ سب سے عظیم اور کامل مزّکی ہیں حضرت محمد ﷺ۔۔ آپکی شاگردی/صحبت میں آنے والے صحابہ کہلائے۔۔ حصولِ تزکیہ کیلئے صحبت/حاضری شرطِ اوّل ہے، ورنہ حضرت اویس قرنیؒ آپ ﷺ کے ہم زمانہ ہونے کے باوجود صحابی نہ بن سکے۔۔ تصوف میں یہ اصول اب تک جاری ہے کہ کسی ایسے شیخ کی محفل میں حاضری دی جائے جس نے سینہ بہ سینہ برکاتِ نبوت حاصل کی ہوں اور طالب کے دل میں انڈیل سکے، اور اسے منور کردے۔۔اب آپکا یہ سوال کہ،' جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ کرام ہمارے پاس موجودہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟'۔۔تو جناب، یہ پیروی ہوتی ہی قرآن و سنت کی اقتداء اور اس پر عمل کرنے کیلئے ہے۔۔شیخِ کامل خود سے کوئی نیا اسلام نہیں گھڑتا، بلکہ اسی دین کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے دنیا میں اُتارا۔۔ جہاں سےقرآن و سنت سے دامن چھوٹا اور روگردانی ہوئی، وہاں سےدو نمبر پیری مریدی شروع ہوجاتی ہے۔۔ تصوف وہ محبت بیدار کرتا ہے جو فرائض تو کیا سنت اور نوافل بھی نہیں چھوٹنے دیتا۔۔ ورنہ پتہ تو سب کو ہے کہ نماز روزہ فرض ہے، لیکن کرنے سے قاصر ہیں۔۔جانتے ہیں، مگر عمل نہیں ہوپاتا۔۔ کیا چیز مِسنگ ہے اور کہاں سے ملے گی؟۔۔کسی اللہ والے کی محفل سے ملے گی۔۔'سر، یہ بتائیں کہ شیخِ کامل کی پہچان کیا ہے؟'۔۔ ویل' ایک پہچان تو وہ ہے جو میں نے کل آپکو بتائی تھی۔۔ اسکے علاوہ کچھ لوازمات ہیں، جنہیں میں وائٹ بورڈ پر لکھ رہا ہوں، آپ نوٹ کر تے جائیں پلیز۔۔1: عالمِ ربانی ہو، کیونکہ جاہل کی بیعت کرنا حرام ہے۔۔ 2: صحیح العقیدہ ہو، کیونکہ غلط عقیدہ اور تصوف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔۔ 3: شرک و بدعت کے قریب بھی نہ جائے، کیونکہ شرک ظلم اور بدعت گمراہی ہے،، شیخ نہ ظالم ہوتا ہے نہ گمراہ۔۔ 4: متبع سنتِ رسول ﷺ ہو، کیونکہ سارے کمالات پیروی سنت سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔۔ 5: دنیا میں رہتے ہوئے بھی دل دنیا کی محبت سے خالی ہو، کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہ سکتیں، یا اللہ کی محبت ہو گی یا دنیا کی۔۔یاد رکھیں، دنیا کا مال و اسباب ہونا منع نہیں، کئی صحابہ کرام بہت مالدار تھے، مگر حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتے تھے، اور جائز مصرف پہ خرچ کرتے تھے۔۔ مال و متاع میں کھو کر اللہ کو بھول جانا دنیا ہے۔۔6: علمِ تصوف و سلوک میں کامل ہو، کیونکہ جس راہ سے واقف نہ ہو اس پر دوسروں کو کیسے گامزن کر سکتا ہے۔۔ 7: شاگردوں کی تربیتِ باطنی کے فن سے واقف ہو، اور کسی ماہرِ فن کا شاگرد ہو۔۔ 8: حضور پاک ﷺ سے روحانی تعلق قائم کردے ،جو اللہ اور بندے کے درمیان واحد واسطہ ہیں۔۔یہ آٹھ نشانیاں اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، تاکہ آپکو کوئی ڈی ٹریک نہ کر سکے۔۔'سر، شیخ کا تو ہمیں اب معلوم ہو گیا، مگر یہ غوث، قطب، ابدال، قلندر وغیرہ کیا ہوتے ہیں؟ تصوف میں انکی کیا حیثیت ہے؟'۔۔ آئی ایم سوری ڈئیر، آپ کا سوال عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کلاس کا ٹائم ختم ہو چکا ہوتا ہے، اور سارے اسٹوڈنٹس بھاگنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔۔ سو، اسے اگلے لیکچر پہ چھوڑتے ہیں۔۔ فی امان اللہ۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔