ہفتہ، 18 اپریل، 2015





وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي                                                                              
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي           
ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ 
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي 
اسي کشمکش ميں گزريں مري زندگي کي راتيں 
کبھي سوزو ساز رومي ، کبھي پيچ و تاب رازي 
وہ فريب خوردہ شاہيں کہ پلا ہو کرگسوں ميں 
اسے کيا خبر کہ کيا ہے رہ و رسم شاہبازي 
نہ زباں کوئي 
غزل  نہ زباں سے باخبر ميں 
کوئي دلکشا صدا ہو ، عجمي ہو يا کہ تازي 
نہيں فقر و سلطنت ميں کوئي امتياز ايسا 
يہ سپہ کي تيغ بازي ، وہ نگہ کي تيغ بازي 
کوئي کارواں سے ٹوٹا ، کوئي بدگماں حرم سے 
کہ امير کارواں ميں نہيں خوئے دل نوازي
وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي                                                                                      
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي                                                                                         
- قادر مطلق الله سے خطاب کرتے ھوے اقبال کہتے ہیں کے اتنا بڑا تخلیق کار ہونے کے باوجود میں اب بھی اسی طرح کم نصیب ہوں جس  طرح اے الله آپ ہر معملے سے  بے نیاز ہے آپ کی ذات بہت نوازنیں والی ہے لیکن یہ میری کم نصیبی ہے .اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کے شعر گوئی میں میں نو جو کمال حاصل کیا تھا وہ عمل میں بیکار ثابت ہوا
(اگر کوئی انسان چاہے کتنا ہی بڑا مدبر،عالم، مفکر بن جائے اگر وہ  عمل میں نہیں تو وہ تمام علم، مہارت اور کمال بیکار ہے اوریہی اس کی کم نصیبی ہے )

ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي
اے الله آپ یہ تو بتایں کے میں کس مکام پر ہوں اور آپ کس مقام پر ہیں جس جگا میرا قیام ہے وہ مکان ہے کے لامکاں. الله کی ذات ہر مکان اورزمان کی  قید  سے ماورا ہے ،لا مکان کو عالم بالابھی تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کے مکان ایک مخصوص شکل ماہیت رکھتا ہے، یہ حقیقت بھی ابھی  ایک راز سرپستہ معلوم ہوتی ہے . یہ عالم امکان مرے اپنے خیال کا پیدا کردہ ہے یا اسے آپ کی کرشمہ سازی نے تخلیق کیا ہے اس کو آپ نے تخلیق کیا یا میرے تخیل  کا نتیجہ ہے ، اس کا مطلب یہی ہے کے  اقبال بھی یہ سمجھانا  چاھتے ہے کے انسان کوابھی تک  حقیقت ابدی کا سراغ نہیں مل سکا اور وہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکا .
اسي کشمکش ميں گزريں مري زندگي کي راتيں
کبھي سوزو ساز رومي ، کبھي پيچ و تاب رازي
،میری زندگی کی بیشتر راتیں اسی تذبذب ور ذہنی کشمکش کا شکار رہی یہی باتیں مجھے پریشان کے رکھی کے  کبھی مولانا رومی (جو کے علامہ اقبال کے روحانی پیشوا بھی ما نے جاتے ہیں .اقبال کی شاعری کا بیشتر کلام میں ان کا رنگ جھلکتا ہے ) کے سوزو ساز سے دل ہم آہنگ ہوا کبھی مجھ میں ووہی کیفیت رہی جو کے مولانا رومی کی تھی حقیقت کی تلاش والی اور  کبھی امام راضی(جو کے ایک فلسفی  تھے ) کی فلسفیانہ کیفیت مسلط رہی
وہ فريب خوردہ شاہيں کہ پلا ہو کرگسوں ميں
اسے کيا خبر کہ کيا ہے رہ و رسم شاہبازي
اس شاعری میں علامہ نے شاہین اورکرگس کی علامتوں کے ذریعے  سے قوم کے نونہالوں اورنوجوانوں کی جانب اشارہ کیا ہے علامہ کی بیشتر اشعار میں شاہین کا ذکر ہے .شاہیں جو بلند پروازی کی وجہ سے مشور منا جاتا ہے جب ک کرگس گدھ کو کہا جاتا ہے جو مردار کھاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کے ہماری امّت کے نونہال جس بزدلانہ اور منافقانہ ماحول میں پرورش پا رہے ہیں ان سے جرات مندی اور انقلاب پسندی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے اس کی توجیح کچھ یوں بھی ہوتی ہے کے جس قوم کے نوجوان ور نونہال انگریز کی غلامی ور ان کے اسلاف کو  تقلید کا  ہی شرف قبولیت دے چکے ہوں ان سے ایسے نظام اور اقتدار سے بغاوت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ان کے قردار افکار میں  شاہین جیسی بلندی اورجوان مردی عبس ہے . وہ تو اس حقیقت سے بھی باخبر نہیں  کے ایک آزاد اور  حوصلہ مند نوجوان کی فطرت کیا ہونی چاہیے.


نہ زباں کوئی غزل کی نہ زبان سے  باخبر ميں 
کوئي دلکشا صدا ہو ، عجمي ہو يا کہ تازي !
اس غزل کے بیشتر اشعار میں اقبال اپنے عہد  کے مسلمانوں  کے انتشار کی ترجمانی سے دوچار نظر اتے ہیں تاہم کہیں کہیں ایسی توقعات کی جانب اشارہ بھی کر جاتے ہیں جو رجایت کی آئینہ دار ہیں.اس شاعری میں انہوں نے اس دور کے عہد کے تخلیکی عمل کو بے معنی قرار دیتے ہویے یہ خیال ظاہر کیا ہے کے اس میں اثر ناپید ہے یعنی امت میں اب تخلیکی صلاحیت  ختم ہوتی جا رہی ہے اور کسی بھی میدان میں نوجوان وہ کچھ تخلیق نی کر پا رہے ور ساتھ ہی یہ امید بھی ہے. اس کے علاوہ اس تمثیل  کو شاعری میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کے شائد کوئی نغمہ پرلطف اور دل کشا زبان میں ملے  ، خوا وہ فارسی  زبان میں ہو یا عربی میں ہو اس کے لئے زبان کی کوئی قید نہیں .تخلیقی عمل کو شاعری میں بھی لیا جا سکتا ہے کے اب وہ کلام  سنے کو ملے جو دل کشا ہو،
نہيں فقر و سلطنت ميں کوئي امتياز ايسا 
يہ سپہ کي تيغ بازي ، وہ نگہ کي تيغ بازي
یہ مصرع پورے کلام کا حاصل ہے .فقر در حقیقت درویشی  کا خاصا ہے اور سپاہ سالاری بادشاہی کا خاصہ ہے .
درویش اپنے افکار خیال اور نگاہ سے جو کام کرتا ہے اور بادشاہ تلوار کے ذریعے سے لوگوں پر حکومت کرتا ہے عمل میں دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں کا قردار یکساں ہے  .اقبال اپنی شاعری میں جہاں ایک جگہ  فرماتے ہیں ک نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں..... .صوفیا اور درویش کی صحبت انسان کے اندر ایک نی  دنیا اور معرفت الہی پیدا کرتی ہے .(محمود غزنوی  نے جب سومنات کے مندر  پر حملہ کیا تو وہاں کے پجاریوں نے اس کو  مال و زر کا لالچ دیا کے ان بتوں کو کچھ نہ کہو لیکن محمود غزنوی نے یہی کہا کے میں بت فروش ہونے سے بت شکن  ہونا بہتر سمجھتا ہوں اور  انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار سے تمام بتوں کو پاش پاش کر ک شرک کا خاتمہ کیا .) کچھ ایسی ہی کیفیات ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں جو درویش ور صوفیا کی صحبت اختیار کرتے ہے کے ان کے اندر سے  دنیوی کثافتوں ،لالچ،  خودنمائی، کینہ، خودغرضی ،کے چھوٹے چھوٹے  بت پاش پاش ہوجاتے ہیں اور  ان کا سینہ معرفت الہی سے منور ہوجاتا ہے جہاں شرک کا دور تک بھی شبہ بھی نہیں ہوتا
کوئي کارواں سے ٹوٹا ، کوئي بدگماں حرم سے
کہ امير کارواں ميں نہيں خوئے دل نوازي
یہ مصرعہ ہر چند کے چھ سات دہائی قبل کا کہا گیا اس کے باوجود مسلمانان عالم  میں کم و بیش جو صورتحال رہی ہے یہ اس کی غمازی کرتا ہے .اقبال کہتے ہیں کیفیات یہ ہے کے ہر شخص بے یقینی اور انتشار شکار ہو کر اپنا اپنا الگ راگ الاپ رہا ہے .فرقہ واریت بغاوت جسے ناسور قوم کا خاصا بن گئے ہے ہر کوئی خود کو حق پرست مان کر اپنی مسجد میں بیٹھا ہے .کسی کو اجتمائی مفاد سے واسطہ ہی نہیں ہے .اس کی قطعی وجہ یہی ہے کے جن لوگوں کے ہاتھ میں اقدار ہے اور جس کو قافلہ سالاری کے فرائض انجام دینا چاہیے ووہی اپنی بے عملی ور ذاتی مفاد کے سبب قوم کی رہنمائی کا حامل نہیں ہے .ایسے  شخص کا قوال و فعال و کردار دوسروں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے جو ذاتی مفادات  سے بالا تر ہو کر سوچنے کا تصور ہی نی کرتا اور ہماری قوم میں اقتدار والوں میں  وہ  اخوت نہیں .یہ مصرع آج کی صورت حال کی پوری تصور کشی کرتا ہے
الله پاک اس امت  مسلمان کو حضرت عمر ر ض جیسا سپہ سالار عطا کرے .....امین
ممبرز آپ کے لئے یہ تشریح پیش کی گئے امید ہے ک آپ اس پر اپنے کومنٹ سے مجھ کو نوازے گے  شکریہ

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔