جمعہ، 10 اپریل، 2015

تصوف (لیکچرز- 7تا 9)

تصوف (لیکچرز- 7تا 9)

 تصوف – 7—(An Important Lecture)

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

ہر چند کہ یہ ایک Conceptual لیکچر ہے، مگر نئےطلباء کیلئے بھی یکساں مفید ہوگا۔۔ ایکسکیوز می، مس لاسٹ بینچ،، ابھی لیکچر شروع نہیں ہوا اور آپ نے اونگھنا شروع کر دیا۔۔ جائیں اور منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر آناً فاناً واپس آئیں۔۔جب تک میں باقی طلباء سے گپ شپ کرلوں۔۔ پیارے دوستو، یہ تو آپکو معلوم ہو گیا کہ انسانی جسم کے دو حصے ہیں۔۔ بدن اور روح۔۔ بدن چونکہ کثیف ہے، اسلئے اسکے پارٹس کو دیکھا اور چھوا جا سکتا ہے۔۔ روح لطیف ہے، اسلئے اسکے پارٹس کو ظاہری آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی یہ Touchable ہیں۔۔ بدن کے اعضاء کی ترکیب اور علاج کا علم اس شعبے کے ماہرین کو ہے اور ہم انکی تحقیق اور علاج پر بھروسہ کرتے ہیں۔۔اس طرح روح کے اجزاء کی ترکیب اور علاج کا علم روح کے ماہرین کو ہے اور ہم انکی تحقیق پر مطمئن ہیں۔۔ ہاں، اگر آپکو اللہ کریم قلبی نگاہ نصیب کرے تو آپ بھی اپنی تسلی کر سکتے ہیں۔۔' مے آئی کم اِن سر'۔۔ یس پلیز، امید ہے نیند اُڑ گئی ہو گی۔۔!اس سے پہلے کہ میں آپ سے کوئی سنجیدہ سوال کروں، میرے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ عقلمند ہیں، بالغ ہیں، باشعور ہیں اور سوال کابالکل درست جواب دے سکتے ہیں۔۔دوسری صورت میں مجھے آپ سے کوئی اہم بات نہیں پوچھنی چاہئے۔۔ کیا آپ ایگری ہیں؟ 'یس سر'۔۔ اچھا اب اپنی ذات کو اپنے مکمل شعور کیساتھ پیچھے لے جائیں، بہت بعید ماضی میں، ذرا اور دور۔۔ حتیٰ کہ آپ وہاں پہنچ جائیں جہاں آپکی روح سے پوچھا گیا تھا، 'الست بربکم' پوچھنے والی ذات اللہ کریم کی تھی کہ بتاؤ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آپکی طرف سے جواب آیا: 'بلیٰ'۔۔ بالکل ہیں،، صرف یہی نہیں بلکہ، 'شھدنا'۔۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔۔معلوم ہوا کہ ہماری روح عاقل ہے، بالغ ہے، باشعور ہے اور خلافتِ الہٰی کی ذمہ داری اپنی مکمل ہوش و حواس میں قبول کی تھی۔۔اب ہوا یوں، کہ موجودہ عالمِ امتحان میں روح کو بدن کے ماتحت کیا گیا۔۔ یعنی روح کو سوار اور بدن کو میٹرو بس بنا دیا۔۔ غور کریں کہ یہ کیسی عجیب کمپوزیشن بن گئی کہ بدن کوتو اِرتقائی منازل سے گزر کر بچپن، لڑکپن، جوانی اور بڑھانے کی دہلیز تک آنا تھا،، جب کہ روح پیدائشی طور پر صحت مند اور سمجھدار تھی۔۔آپکو پتہ ہے کہ جو با عقل ہو، اسکی خصلت ہوتی ہے کہ وہ حق پر رہے۔۔ اور آپکو یہ بھی علم ہے کہ سب سے بڑا حق کیا ہے؟ ۔'اسلام'۔۔ جی ہاں، اسلام ہی حق ہے،، اسلئے ہربچہ جسمانی طور پر پیدا ہوتے ہی فطرتِ اسلام پر ہوتا ہے،، کیونکہ فطرت کا تعلق روح سے ہے، بدن سے نہیں۔۔یہاں تک جس کو سمجھ نہیں آئی وہ برائے مہربانی دوبارہ اوپر والی لائنز پڑھ لے ،پھر ہم آگے چلتے ہیں۔۔ اوہو، شور نہ کریں، دل میں پڑھیں۔۔!توجہ رکھیں،، جس طرح بدن کےکچھ اعضائے رئیسہ ہیں،، مثلاً دل، گردہ، پھیپھڑا، جگر، آنکھ، دماغ وغیرہ،، اسی طرح روح کے پارٹس کو لطائف کہا جاتا ہے۔۔ علماء ربانیین کا اجماع ہے کہ پانچ بنیادی لطائف ہیں، جنکے نام یہ ہیں۔۔ قلب، روح، سری، خفی، اخفاء۔۔ اسکے علاوہ ایک لطیفۂ نفس ہے اور ایک سلطان الاذکار۔۔ سکون اور ٹینشن کا تعلق قلب سے ہے، قلب پریشان ہو تو دماغ کو بھی وختہ پڑا ہوتا ہے۔۔قلوب کے اطمینان کیلئے قرآن پاک نے جو نسخہ بتایا ہے وہ ہے، اللہ کی یاد۔۔جتنا جتنا اللہ کےذکر میں کھوتے جاؤ گے،، اتنا ہی دنیاوی مصیبتیں بھی آپکو مزہ دیں گی۔۔ اچھا، کسی نے کلام باھوؒ پڑھا ہو تو اس میں انہوں نے یوں فرمایا ہے،،جنہاں عشق حقیقی پایا ،مونہوں نہ کجھ اَلاون ھو --ذکر فکر وچ رہن ہمیشہ ،د م نوں قید لگاون ھو -- قلبی روحی سری خفی اخفا لطائف کماون ھو--قربان انہاں توں باہو جہیڑے عکس نگاہ جگاون ھو۔۔۔اسی طرح مجدد الف ثانیؒ ، شاہ عبد القادر جیلانیؒ،شیخ علی ہجویریؒ ، مولانا اللہ یار خانؒ، اور دیگر صوفیاء کی کتب میں لطائف کی وضاحت اور انکے فنکشنز پر سیر حاصل بحث موجود ہے۔۔ان کا حاصل، جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح ہم بدن کے ہر عضو کی نگہداشت کرتے ہیں، ڈاکٹر کو چیک اپ کرواتے رہتے ہیں، وہ بیماری کی نوعیت کے مطابق دوا تجویز کرتا ہے، تو متعلقہ حصہ اپنا کام ٹھیک سے کرنے لگتا ہے۔۔اسی طرح روح کے اعضاء (لطائف) میں بیماری یا فالج کی صورت میں انکا منفی اثر انسانی نفس ، ضمیر اور مزاج پر پڑتا ہے۔۔ مثلاً نفس رشوت لینے کا عادی ہے، بد نگاہی میں مبتلا ہے، غیبت میں مزہ آتا ہے، عریانیت کو فیشن سمجھتا ہے ، وغیرہ،، تو اس سے مزاج بے دین ہو جاتا ہے، نیکی میں دل نہیں لگتا، اور ضمیر صاحب کی موت واقع ہو جاتی ہے، وغیرہ۔۔نگاہوں کے سامنے چونکہ دنیا کی راحتیں زیادہ ضروری ہوتی ہیں اور نفس بھی حرام کھا کر ہٹا کٹا ہو گیا ہوتا ہے، تو یہ روحانی اوصاف پر غالب آ جاتا ہے۔۔اب روح تو بیمار ہو کر بسترِ مرگ پر پڑی ہے، اور نفس صاحب گانے سن کر مزے لے رہے ہیں، جھوم رہے ہیں۔۔ اور پتہ ہے اس نفسانی لطف کے بارے میں یار لوگ کیا کہتے ہیں؟ ۔'واقعی بھئی موسیقی توروح کی غذا ہے،، دیکھو کیسی چس آتی ہے جب لتا اور نصرت فتح کے سُر کانوں میں رس گھولتے ہیں'۔۔ نادانوں کو یہ نہیں پتہ کہ نفس کی خوشی اور روح کی تازگی میں کیا فرق ہے۔۔ روح کی غذا تو اللہ کا ذکر ہے۔۔نفس مضبوط ہو جائے تو وہ اللہ کے ذکر والی غذا کو بھی بد ہضمی بنا دیتا ہے اور پھر آپ کہتے ہیں کہ ہمیں نماز میں مزہ نہیں آتا۔۔۔۔!اب ان تمام بیماریوں کے علاج کی فکر لے کر جب ہم کسی روحانی فزیشن کی خانقاہ پر جاتے ہیں تو وہ تشخیص کرتا ہے، اور علاج تجویز کرتا ہے۔۔ یہاں بطور علاج ہی اسکی قلبی توجہ بھی انتہائی اثر رکھتی ہے۔۔ 'سر میرا ایک کوئسچن ہے یہاں، کہ یہ قلبی توجہ کیا ہوتی ہے؟'۔۔ عمدہ سوال کیا آپ نے۔۔ یہ وہی کیفیات، برکات اور انوارات ہیں جو اس قلب سپیشلسٹ نے سینہ بہ سینہ نبی کریم ﷺ سے حاصل کئے ہیں، اور اب آپکے دل میں انڈیل رہا ہے۔۔ یہ دل کی سیاہی کیلئے انک ریموور کا کام کرتے ہیں۔۔اور نتیجے میں آپکا نفس کمزور ہوتا ہے، ، عبادت کرنا خوشی بن جاتا ہے، جب لطائف پر اللہ کے ذکر کا اسپرے کیا جاتا ہے تو ان میں موجود امریکی سنڈیاں اور انڈین جڑی بوٹیاں مرجھا جاتی ہیں۔۔ اور ایمان کی مضبوطی، دین پر استقامت، گناہ سے نفرت اور اطاعتِ الہیٰ کی محبت کے نایاب پھول ناصرف آپکے چمن کو مہکاتے ہیں بلکہ آپکے اردگرد کے ماحول میں بھی خوشبو پھیلا تے ہیں۔۔یہی تصوف ہے، اور اسی کو تزکیہ کہتے ہیں۔۔!!۔۔اگلی کلاس میں ہم دیکھیں گے کہ القاء، الہام، کشف، وجد، وجدان، استدراج، دھمال وغیرہ کیا ہیں اور ان کا تصوف ِ اسلام میں کیا مقام ہے۔۔ہو گئی چھٹی،، نعرے لاؤ ۔۔ دا اللہ پا امان۔۔!!

تصوف -  7-1--(الجھن سے سلجھن تک)

 ::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

:1۔  بنتِ انصاف پوچھتی ہیں : آپ نے کہا:" حتیٰ کہ آپ وہاں پہنچ جائیں جہاں آپکی روح سے پوچھا گیا تھا، 'الست بربکم' پوچھنے والی ذات اللہ کریم کی تھی کہ بتاؤ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ آپکی طرف سے جواب آیا: 'بلیٰ'۔۔ بالکل ہیں،، صرف یہی نہیں بلکہ، 'شھدنا'۔۔ ہم گواہی دیتے ہیں۔"۔۔۔ سر مجھے یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔۔مجھے یاد بھی تو نہیں ہے ناں۔۔ پھر اس پہ کیسے ایمان لے آؤں؟جواب: دو طریقے ہیں ایمان لانے کے.. 1. جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قرآن آپکو دیا ہے ان پر من و عن یقین رکھیں کہ ضرور ایسا ہی ہے، چاہے سمجھ آئے یا نہ آئے... 2.. کسی اللہ والے کی صحبت میں اپنی روح کو  شفاف آئینہ بنا لیں.. پھر اللہ کریم سے دعا کریں کہ وہ آپکو ماضی کا وہ لمحہ دکھا دے.. اسکی مرضی ہو گی تو دکھا دے گا..یوم الست کو ایک سبق دیا گیا تھا انسان کو... ضروری نہیں ہوتا کہ کمرہ امتحان میں ہمیں وہ سبق من و عن یاد بھی رہے.. امتحان ختم ہو گا تو کتاب کھول کر تسلی کر لیجئے گا..دوبارہ سوال ہوا: کیا آپکو یاد ہے وہ لمحہ؟ اگر آپ نے دیکھ لیا ہے تو میں بھی کوشش کروں پھر؟جواب: میں پہلے طریقے پر راضی ہوں اور مطمئن ہوں.. اس مقصد کیلئے کوشش کرنا غیراللہ کی طرف کوشش کرنا ہے.. تصوف صرف رضائے الہی کی راہ ہے ..وہ اس راہ میں کیا انعام دیتا ہے، کیا نہیں دیتا، یہ اسکی مرضی..مگر انعام کیلئے جدوجہد کرنا ذات کی طرف سفر کرنے سے بھٹکا دیتا ہے..!2۔ خواجہ طاہر محمود صاحب جاننا چاہتے ہیں کہ کیا روح کی بھی بلوغت ہوتی ہے؟ روح بچپن میں کیسی ہوتی ہے اور بڑھاپے میں کیسی؟ بدن چھوڑنے کے بعد روح کا ٹھکانہ کیا ہوتا ہے؟ کیا اہل اللہ کی روحیں متعلقین سے رابطے میں رہتی ہیں؟جواب: روح پیدائشی طور پر بالغ ہے اور ہمیشہ کیلئے بالغ ہے.. بدن کو یہ عارضی طور پر چھوڑتی ہے پھر لوٹائی جاتی ہے.. بنیادی طور پر یہ سمجھ لیں کہ اسکے ٹھکانے کو یا تو علیین میں ڈھال دیا جاتا ہے یا سجیین میں.. یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کسی اہل اللہ کی روح کو وہ کسی سے رابطے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں.. بالفرض اگر دیتا بھی ہے تو اسکے متعلقین میں روحانی قوت ہونی چاہئیے۔۔!3۔ ناصر شاہ پوچھ رہے ہیں: اھل تصوف حضرات سے مدد مانگنا وہ بھی ان کی غیر موجودگی میں اور پھر مدد کا ملنا... ہو سکتا ہے؟؟جواب: آپ اپنے بھائی کو کہیں کہ میرا فلاں کام فلاں دفتر میں اٹکا ہوا ہے، تم نکلوا دو۔۔ کیا اسے آپ غیر اللہ سے مدد مانگنا کہہ سکتے ہیں؟؟روحانی تربیت کے بعد کسی شخص کی روح میں منجانب اللہ یہ قوت آ جائے کہ آپ دور بیٹھے بندے سے کچھ ڈسکس کر لیں، تو یہ ممکن ہے۔۔ روح ایک باشعور جنس ہے اور یومِ الست کو اسی نے ہی خلافت کو قبول کرنے کا اقرار کیا تھا۔۔ یہ ایک اضافی اور ذیلی چیز ہے جو راہِ تصوف میں حاصل ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔۔ لیکن یہ تصوف کا حاصل، نتیجہ یا مقصد نہیں ہے۔۔ مقصد خلوصِ نیت سے شریعتِ محمدی ﷺ کو اپنا کر اللہ پاک کی رضا حاصل کرنا ہے۔۔ اب یہ اللہ کی مرضی کہ وہ اپنے بندے کو دنیا میں کچھ دے دے یہ دکھا دے۔۔ ان کمالات پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہنا یا انکی جستجو کرنا تصوف نہیں ہے۔۔!4۔ اےبی اعوان کہتے ہیں: سر اسی دل کا ایک فنکشن ھے تجلیاتی لہریں پیدا کرنا جن میں خیالات بدلنے کی اور اپنی سوچ کو ھزاروں میل دور بیٹھے شخص کو بغیر بات چیت کے پہنچانا. فرض کریں ھمارا جسم لطیف کام کرنا چھوڑ چکا ھے اور جسد خاکی بھی کسی کام کا نہیں رھا لیکن باوجود اسکے پھر بھی تجلیاتی لہریں کام کر رھی ھیں ان لہروں کے ایفکٹس ایک ایسے شخص پر کام کر رھے ھیں جسے ھم جانتے تک نہیں. یہ کیسے ممکن ھے؟جواب: خیالات بدلنا تصوف کا نہیں مسمرزم اور ہیپناٹزم کا فنکشن ہے. جسمِ لطیف کام نہیں چھوڑتا.. اسکی موت سے مراد ظلمت اور سیاہی کا انتہا درجے میں پیدا ہونا ہے اور زندگی سے مراد نورانیت کی وافر مقدار کا ہونا ہے.. نور ہو یا ظلمت، ماحول کو کسی حد تک متاثر ضرور کرتی ہے.. کبوتر بازوں کے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیں تو چند دن بعد آپکو بھی کبوتر بازی کی لت لگ جائیگی.. اللہ والوں کی محفل میں بیٹھیں تو دل اللہ کی طرف مائل ہو گا۔۔!

 تصوف - 8

:::::::::::::

'سر روزانہ آپ ہم سے سوال کرتے ہیں، آج ہماری باری ہے'۔۔ جی کیوں نہیں، ضرور پوچھنا چاہئے۔۔ 'سر ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ یہ جو ہم روزانہ قرآن حکیم، احادیث مبارکہ، علماء حق کے مواعظ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں، جب ان پر عمل کا وقت آتا ہے تو ہمیں سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے؟ ہمارا کردار اسلام کے مطابق کیوں نہیں رہتا؟ ان ساری باتوں کو جاننے کے باوجود ہم برائی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، ایسا کیوں ہوتا ہے کہ یہ باتیں ہمارے سر سے گزر جاتی ہیں ، دل میں کیوں نہیں اترتیں؟'۔۔بہت اچھا کوئسچن ہے آپکا، اب تسلی سے جواب سمجھیں: ایسا اسلئے ہے کہ گناہ کر کر کے ہمارے دل سیاہ ہو چکے ہیں اور نصیحت قبول کرنے سے عاجز ہیں۔۔' کلا بل ران علی قلوبھم ما کانو یکسبون '(سورۃ المطففین) ۔۔ انکے قلب انکے اعمال کی وجہ سے زنگ خوردہ ہو گئے ہیں۔۔ قلب روح کا ایسا پارٹ (لطیفہ) ہے جسمیں سوچنے، سمجھنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت ہے۔۔ زنگ کی کثرت کی وجہ سے دل کی یہ صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور قرآن کے مطابق دل اندھے، بہرے، ناسمجھ وغیرہ ہو جاتے ہیں۔۔ یعنی بیمار پڑ جاتے ہیں۔۔اسکا علاج اللہ والوں کی صحبت اور کثرتِ ذکر ہے۔۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 'لکل شیی صقالۃ و صقالۃ القلوب ذکر اللہ'۔۔ جس طرح ہر چیز کی صفائی کیلئے پالش ہوتی ہے ، اسی طرح دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے۔۔کسی ولی اللہ کی سرپرستی اور توجہ میں ذکرُ اللہ کرتے کرتےایک سٹیج ایسی آتی ہے کہ قلب و روح چمک جاتے ہیں، روشن ہو جاتے ہیں۔۔ تب دل اچھی بات کو قبول بھی کرتا ہے، اور آپ سے بخوشی عمل بھی کراتا ہے۔۔ یہاں تک آپکی بات کا جواب ہو گیا، اب میں اسی بات کو جاری رکھتے ہوتے آج کے ٹاپک سے جوڑ تا ہوں۔۔ قلب کو اللہ اللہ کراتے کراتے ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب قلب و روح اتنے منوراور پاکیزہ ہوجاتے ہیں کہ بندے کو اس نور میں کئی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جو بدن کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔۔ اس قلبی نگاہ کے کھلنے کو کشف کہتے ہیں۔۔ یعنی منکشف ہونا، Disclose ہونا۔۔ان میں دنیا کی اشیاء کی حقیقت بھی نظر آ سکتی ہے اور عالمِ بالا کی اشیاء کی بھی۔۔ لیکن اسکے لئے لازم ہے کہ روح کی اپروچ وہاں تک ہو۔۔روح ایک لافانی، عقلمند مخلوق ہے، سن سکتی ہے، سُنا سکتی ہے۔۔ روح میں قوت ہو تو یہ دوسرے کی روح سے گفتگو بھی کر سکتی ہے۔۔ اور بھی کئی محیر العقول (beyond the common sense of mind) کام ہیں جنکا یہاں اظہار کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ باتیں بتانے سے آپکے ذہن میں کئی سوالات جنم لیں گے جنکا جواب الفاظ میں نہیں دیا جا سکتا۔۔ البتہ عملی طور پر سکھایا جا سکتا ہے، پھر خود ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیاصحیح ہے اور کیا غلط۔۔ بہرحال، ہم نے سابقہ کلاس میں تفصیلاً یہ جانا تھا کہ بدن کا تعلق عالمِ خلق سے ہے، اورروح کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔۔ عالمِ اَمر روح کادوسرا گھر ہے۔۔ لاغر اور کمزور ارواح بدن میں ہی قید رہتی ہیں۔۔ جس روح کو اللہ کے ذکر کی خوراک اور شیخِ کامل کے قلب سے برکاتِ نبوت ملتی رہیں، تو روح کے ساتوں لطائف (پارٹس) روشن ہو جائیں، وہ تگڑی ہو جاتی ہے ، اس میں انرجی آجاتی ہے، اور یہ بدن سے تعلق رکھتے ہوئےاپنے گھر کی طرف جانے میں راحت محسوس کرتی ہے۔۔ اس سفر میں کچھ اسٹیشنز آتے ہیں جن پر یہ تجلیاتِ الہٰی کو جذب کرتی ہے۔۔ اسے پیٹرول یا فیول سمجھ لیں جسکے بعد یہ اگلے اسٹیشن کیلئے قوت حاصل کرتی ہے۔۔ ان اسٹیشنز کو تصوف کی زبان میں 'مقام' کہتے ہیں۔۔ سب سے پہلامقام 'مقامِ احدیت' ہے۔۔ یہ زمین سے پچاس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔۔ کسی کو ہزار زندگیاں نصیب ہوں اور وہ خود سے سفر شروع کرے تو اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔۔ شیخِ کامل اللہ کی مرضی اور اپنی قلبی توجہ سے یہ فاصلہ آنِ واحد میں طے کرا سکتا ہے، بشرطیکہ بندے میں استعداد اور خلوص سے طلب ہو۔۔ ہر مقام کی مخصوص کیفیات، تجلیات اور قرآنی تسبیحات ہیں۔۔ اگلے مقامات معیّت، اقربیّت، دوائرِمحبت وغیرہ سے ہوتے ہوئے عالمِ امر تک پہنچتے ہیں۔۔ یہاں سے آگے اللہ کے قرب کی منازل کی ابتداء ہوتی ہے۔۔ عالمِ اَمر تصوف کی ابجد ہے، ترقی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔۔یہ جو باتیں میں آپکو بتا رہا ہوں انکا تعلق کتابی علم سے نہیں ہے،، یہ مشاہداتی علم ہے،، جس کی میں آپکو کوئی لفظی دلیل اور ثبوت نہیں دے سکتا۔۔ اسلئے اعتراض کرنے والوں سے معذرت۔۔ بس اتنا کہوں گا کہ آپ نے دنیا میں کئی کاموں کو آزمایا ہو گا،، یہ بھی آزما سکتے ہیں۔۔ وقت کا ضیاع سمجھیں تو چھوڑ دیجئے گا اور دوسروں کو بھی بتائیے گا کہ جناب یہ سب ڈرامہ ہے، حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں،، مگر آپ اس فیلڈ کو خود سے جانیں بھی نہ اور فتوے بھی جھاڑیں تو محترم یہ بڑی زیادتی کرتے ہیں آپ۔۔چلیں چھوڑیں، آگے سنیں۔۔ کشف یہ ہے کہ کسی کو کوئی چیز روحانی طور پر نظر آجائے، یا کوئی بات سمجھائی جائے۔۔ اسمیں شیطان گڑبڑ کر سکتا ہے اور اپنی طرف سے کچھ روشنیاں وغیرہ دکھا کر بات کو غلط interpret کرا سکتا ہے۔۔ اسلئے کشف غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔۔ کسوٹی یہ ہے کہ کشف میں کہی یا بتائی یا دکھائی جانے والی شے اگر شریعتِ نبویﷺ کے متصادم یا خلاف ہے، یا شرعی احکام کے علاوہ کوئی حکم ہے، تو کشف باطل ہے۔۔نبی کا کشف اور خواب دونوں حق ہوتے ہیں، اور امتیوں کیلئے ان پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے۔۔ ولی کا کشف اسکی اپنی ذات کیلئے ہوتا ہے، دوسروں پر دھونس جمانے کیلئے نہیں ہوتا۔۔ کشف سے بھی مضبوط تر ایک چیز ہوتی ہے جسے 'وجدان' کہتے ہیں۔۔ اسکی کیفیت کچھ یوں ہوتی ہے کہ نظر تو کچھ نہیں آتا لیکن انتہائی قسم کا قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے، بات دل میں جما اور بٹھا دی جاتی ہے اللہ کریم کی طرف سے۔۔ اس میں شیطان مداخلت نہیں کر سکتا۔۔ تین باتیں سمجھیں۔۔ 1۔ شیخ کی توجہ مضبوط نہ ہو، 2۔ یا شیخ بلند منازل کا حامل نہ ہو، 3۔ یا بندہ خود سے ذکرِ قلبی شروع کرکے روحانی سفر شروع کر دے اور روح کی رفتار کو کنٹرول کرنے والا ڈرائیور (شیخ) میسر نہ ہو،، تو روح مقاماتِ قرب میں ادھر اُدھر بھٹک جاتی ہے۔۔پھر تجلیاتِ الہی کو برداشت اور جذب نہیں کر سکتی۔۔ اس جذب نہ کرنے والی کیفیت کو مجذوبیت اور بندے کو مجذوب کہتے ہیں۔۔ ایسا بندہ ہمہ وقت دنیا سے بے نیاز اللہ کی ذات کو پانے کے چکر میں کھویا رہتا ہے۔۔ دنیا کے کسی کام کے قابل نہیں رہتا ،تو آپ اسے مجنوں یا مجذوب کہتے ہیں۔۔ آج کی معلوم دنیا میں شاید کوئی دس بارہ مجذوب ہی ہوں، باقی سب فراڈئیے ہیں جن کا کام بیوقوف عوام کو ٹھگنا ہے۔۔انواراتِ الہٰی کو جذب نہ کر سکنا، یا مجذوب ہو جانا ایک روحانی نقص ہے، کوئی کمال نہیں ہے۔۔ اگر یہ کمال ہوتا تو ضرور کوئی صحابی بھی مجذوب ہوتا۔۔ ! اس ٹاپک سے متعلق چند اہم باتیں سمجھنا بہت ضروری ہے۔۔ آپ کسی آفس میں کام کرتے ہیں اور کمپنی کا مالک تنخواہ کے علاوہ اپنی مرضی سے آپکو کبھی کوئی بونس دے دیتا ہے۔۔اب اگر آپ تنخواہ کو چھوڑ کر بونس کے چکر میں پڑ جائیں ، جو کہ مالک کی مرضی پر ہے کہ دے یا نہ دے، تو آپکو کوئی سمجھدار نہیں کہے گا۔۔ تصوف کا اصل مقصد رضائے الہٰی،ظاہری باطنی پاکیزگی (تزکیہ) اور انتہائی خلوص سے شریعت پر عمل کرنا ہے۔۔ اس سفر میں کشف یا وجدان بطور بونس ہے، جو مل بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔۔ جو لوگ صرف کشف یا ماوراءالعقل کاموں کیلئے اس گھاٹی کا رُخ کرتے ہیں وہ ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے غیراللہ کی طلب میں ساری محنت کی، جو کسی فائدے کی نہیں، بلکہ ایمان کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔۔ تصوف میں اسے شرک کہا جاتا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور شے کی جستجو میں لگ جانا۔۔کشف اسلئے نہیں ہوتا کہ فلاں کی گائے چوری ہوگئی، فلاں کا بیٹا لاپتہ ہو گیا، فلاں کا کاروبار چلے گا یا نہیں، فلاں کا بیٹا پیدا ہو گا یا بیٹی۔۔ یہ سب چیزیں پیشہ وروں اور نجومیوں کی دلچسپی کی ہیں، تصوف کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔۔ کشف یا وجدان گناہ اور حرام سے بچنے کیلئے اللہ کا ایک انعام ہے،، کہ اعمال کی ظلمت اور نورانیت نظر آجاتی ہے اور بندہ چوکنا ہو جاتا ہے۔۔جو لوگ باطنی طور پر کمزور ہوتے ہیں انہیں اللہ کریم یہ کھلونے بہلانے کیلئے دیتے ہیں، کہ چلو لگا رہے گااور میرا نام لینا نہیں چھوڑے گا ۔۔ جو لوگ روحانی یا باطنی طور پر Strong ہوتے ہیں ، اور ایمان میں انتہائی مضبوط ہوتے ہیں، انہیں یہ مشاہدات کم ہوتے ہیں۔۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام میں مکاشفات Rare تھے، کیونکہ وہ تعمیرِ فطرت اور عملی زندگی پر زیادہ زور دیتے تھے اور نگاہِ نبوتﷺ کی برکت تھی کہ انکے ایمانی و یقینی لیول کی بلندی کسی مشاہدے کی محتاج نہ تھی۔۔کافی باتیں لیکچر کی طوالت کے خوف سے رہ گئی ہیں جنکو آئندہ نشست میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔۔ تب تک کیلئے اجازت۔۔ اللہ دی امان۔۔!!

تصوف – 9

:::::::::::::

آپ نے کئی حیاتی پیروں کے سامنے یامماتی پیروں کے درباروں پر لوگوں کو تڑپتا، ناچتا، مست ہوتا دیکھا ہو گا۔۔کسی کو کوئی خبر ہے کہ یہ سب کیا ہے؟۔۔'سر مجھے تو یہ بہت عجیب لگتا ہے، کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا صحابہ کرام کے زمانے میں یا نبی کریم ﷺ کی بابرکت محفل میں کسی کو اس طرح تڑپنے کی جرات ہوتی ہو گی؟'۔۔ ہوں، کوئی اور اس بات کا جواب دے گا؟۔۔' سر، میرا بھی یہی خیال ہے، بلکہ میں نے تو سنا ہے کہ آنحضور ﷺ کی مجلس میں صحابہ یوں دم بخود موجود ہوتے کہ پرندے انکے سر پر بیٹھ جاتے تھے'۔۔کسی اور کے مائینڈ میں کوئی جواب ہوکہ تصوف سے اسکا کیا تعلق ہے؟۔۔ 'سر، آپ ہی اسکی مزید وضاحت کردیں پلیز'۔۔چلیں میں بتائے دیتا ہوں۔۔اس میں تین قسم کے گروہ ہیں۔۔ایک وہ جو شراب وغیرہ پی کر مخمور ہوئے ہوتے ہیں، میلے کچیلے کپڑے اور گندے سندے بال بنائے رکھتے ہیں۔۔یہ عموماً کاروباری لوگ ہوتے ہیں، جو منشیات کا دھندہ کرتے ہیں، درباروں کو اپنی آماجگاہ بناتے ہیں، اور بیوقوف لوگ انہیں مجذوب سمجھتے ہیں۔۔مجذوب کی تفصیل میں نے آپکو سابقہ لیکچر میں بتائی تھی۔۔منتھلی نہ دینے پر پولیس کا چھاپہ پڑ جائے تو یہ خود ساختہ مجذوب رن وے پر جہاز سے زیادہ تیز دوڑتے ہیں۔۔ دوسرے وہ ہوتے ہیں جنہوں نے ہپنا ٹزم اور مسمرزم کا فن سیکھا رکھا ہوتا ہے۔۔ یہ اپنی قوتِ متخیلہ سے لوگوں کے ذہنوں کو ٹریپ کرتے ہیں اور پھر ان سے اپنی مرضی کا کام کراتے ہیں۔۔تیسرے وہ ہیں جن کے قلوب و اذہان کمزور ہوتے ہیں،، ایسے لوگوں کے دل یا دماغ پر اگر کوئی قلبی توجہ کرنے والا توجہ ڈالے تو یہ برداشت نہیں کرپاتے اور یوں پھڑپھرانےلگتے ہیں جیسے کسی نے انہیں کرنٹ مارا ہو۔۔اس کرنٹ کا اثر مضبوط اعصاب والے شخص پر نہیں ہوتا تو یہ پریشان ہو جاتے ہیں۔۔اصل میں اس Shock لگانے کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آنے والے کو اپنی اہمیت کا احساس دلا کر متاثر کیا جائے، اور اپنی جماعت کی طرف راغب کیا جائے تاکہ یہ کسی نہ کسی حد تک دین سے جُڑا رہے۔۔یہ تینوں طرح کے لوگ اس تھرتھرانے اور دیوانہ وار ناچنے کو 'وجد' یا 'دھمال' کا نام دیتے ہیں۔۔وجد ایک کیفیت ہے جو بے خودی اور سرور کا احساس دیتی ہے۔۔ جسکے نتیجے میں بندہ دھمال ڈالتا ہے۔۔پہلی دو کیٹگریز کو چھوڑ دیں کیونکہ اس سے زیادہ تر جہلاء منسلک ہیں،، تیسری کے بارے میں ' میں آپکو سمجھاتا ہوں کہ یہ کیوں طاری ہوتی ہے۔۔اسکی تین وجوہات ہیں۔۔1۔ شیخ کی توجہ اس حد تک مضبوط نہ ہو کہ وہ مرید کو کنٹرول کر سکے،، 2۔ یا شیخ بلند منازل کا حامل نہ ہو،، 3۔مرید کیفیات کو جذب کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو۔۔۔یہ تینوں چیزیں تصوف میں کمزوری سمجھی جاتی ہیں۔۔ اب آگے سنیں۔۔انسانی روح جب عالمِ امر کی طرف یا اس سے اوپر سفر کرتی ہے تو لازم ہے کہ شیخ انتہائی مضبوط کیفیات اور روحانی قوت کا حامل ہو،، ورنہ یہ ڈرائیور کی سیٹ کسی اپنے سے بلند مرتبہ ڈرائیور کو سونپ دے جو مرید کی صحیح تربیت کر سکے۔۔یہاں چند باتیں غور طلب ہیں۔۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے سب سے بڑے شیخِ کامل ہیں، حتیٰ کہ امام الانبیاء ہیں۔۔کسی بھی اُمت کو برکاتِ نبوت اُس اُمت کے نبی کے راستے بطفیل سرکارِ دوعالم ﷺ نصیب ہوتی ہیں۔۔اگر یہ وجد یا دھمال کامل ہونے کی علامت ہوتا تو ضرورکسی نبی علی السلام کو بھی وجد پڑتا۔۔اسی طرح جن اصحاب کرام کی نبی کریم ﷺ نے تربیت فرمائی، ان میں بھی یہ وجد والا نقص نہیں تھا۔۔انبیاء علیہم السلام تو ہمہ وقت کیفیتِ ذکر میں رہتے ہیں۔۔صحبتِ نبی ﷺ کی برکت سے صحابہ کرام کے قلوب سے لیکر انکی جلدیں (Skins) تک ذاکرہوتی ہیں،، اس کے باوجود وہ دنیا کے سارے جائز امور اپنے مکمل ہوش و حواس میں سرانجام دیتے ہیں،، مگروجد میں تو بندہ کسی کام کا نہیں رہتا۔۔آج بھی جو صوفیاء حضرات صحیح تصوفِ اسلامی پر قائم ہیں ،انکی محفلوں اور صحبت میں آنے والے مریدین تعظیم اور احترام سے انکے قلوب سے فیض پاتے ہیں،، کسی کو نہ وجد پڑتا ہے، نہ کوئی دھمال ڈالتا ہے۔۔بلکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ کم ظرف کا دامن بھی وسیع کردیاجاتا ہے۔۔جن لوگوں کو وجد یا دھمال کی کمزوری ہو، انکو میرا مشورہ ہے کہ اپنے گھر کی چار اِنچی دیوار یا کسی کنویں کے کنارے بیٹھ کر ذکر کیا کریں،، لگ پتہ جائیگا کہ وجد ہوتا ہے یا نہیں۔۔اور یہ سارنگی طبلے کی سرسراہٹ پر رقص کرنا یا گھومنا بھی تصوفِ اسلامی کا حصہ نہیں ہے۔۔ تو دوستو،، آج کے لیکچر کاحاصل یہ ہے کہ وجد ایک روحانی خرابی یا نقص ہے جو کیفیات کو برداشت نہ کرسکنے پر وارد ہوتا ہے، یا آپکا شیخ اونچے مرتبے کا حامل نہیں ہے، کاملین کو وجد نہیں ہوتا۔۔نیکسٹ ٹاپک ہو گا کہ فیض کسے کہتے ہیں، پھر ہم وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود، قلندر جیسے اہم نظریات کو ڈسکس کریں گے۔۔ رب راکھا۔۔!!

(تحریر: محمد نعمان بخاری)


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔