بدھ، 8 اپریل، 2015

حصہ 1 تا حصہ 3). تلاش حق کی سچی کہانی محمد کامران احمد (


                    مجھ کو بھی میرے درد کا درمان چاہیے۔
                    میں بُت کدہ ہوں اور مجھے بھگوان چاہیے۔
                     خالی ہے کچھ سَمے سے میری روح کا قالب۔
                      فردوس و لامکاں نہیں, پہچان چاہیے۔
                      دل کی الگ تلاش ہے, دل کا الگ اصول۔
                           گر چاہیے, تو خالقِ جہان چاہیے۔
                       تھکے نہیں ابھی ہم, تقسیم کے سفر سے۔
                             فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے۔
(کلام: محمد کامران احمد)
یہ تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی ہے جس کے اکثر اہم کردار ابھی حیات ہیں۔ اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کہانی کے مرکزی کردار کو کوئی خاص شخصیت سمجھ کر اُس کی کھوج میں لگ جائیں کیونکہ وہ بھی ہم سب کی طرح گناہگار و خطاکار, اور ہر برائی سے آشنا انسان ہے لیکن ایک خاصیت ہے اُس میں کہ وہ سچ کہے یا جھوٹ, کہتا دل سے ہے۔ اُس کی کہانی بیان کرنے کا مقصد فرقہ واریت سے جنم لینے والی اُلجھنوں پر روشنی ڈالنا اور اُن اُلجھنوں کا ایسا حل تلاش کرنا ہے جس میں ہر شخص اپنے اپنے مذہبی دائرے میں پُرسکون ہو کر رہ سکے۔ اس وقت میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا فیصلہ اللّٰہ نے کرنا ہے ہم سب ایک دوسرے کے لیے وہی فیصلے کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ کون جنت میں جائے گا کون دوزخ میں, کون مومن ہے کون کافر, کس کو آباد رہنا چاہیے اور کون برباد ہو جانا چاہیے یہ سب فیصلے ایک دوسرے کے لیے ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم اِس فرقہ واریت کی آگ کو بجھا نہیں لیتے تب تک ہم اُمتِ مسلمہ کہلانے کے لائق ہی نہیں بن سکتے۔ یہ آگ ایک دوسرے کے خون سے نہیں بجھ سکتی لیکن ایک دوسرے کو ایک اللّٰہ کے نام پر گلے لگانے سے, ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھنے سے, ایک دوسرے کے لیے دُعا کرنے سے, ہم اِس آگ کو ضرور بجھا سکتے ہیں۔ ''فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے'' اسی آگ کو بجھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ اور یہ کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی اِس لیے اِس کہانی کی مختلف اقساط جیسے جیسے لکھتا گیا ویسے ویسے انشاءاللّٰہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو بھلائی عطا فرمائے اور سبھی کو ایک اللّٰہ کے نام پر ایک ہونا نصیب فرمائے۔
------------------------
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ اوّل)
----------------
عجیب بات ہے کے اُس سات سال کے بچے کو اللہ کی تلاش تھی۔ اکثر یہ سوال اُسے پریشان کرتا تھا کے اگر میرا مسلک، میرا مذہب، جو مجھے میرے ماں باپ سے مِلا ہے اگر یہ سچا مذہب نا ہُوا تو میرا کیا بنے گا، میرے ماں، باپ میرے بہن، بھائی میرے دوست احباب کا کیا بنے گا، پھر وہ سوچتا کے کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ کی راہ مذہب و مسلک کی بحث سے بُلند ہو، پھر اُسے مولوی صاحب کی بات یاد آ جاتی کے ہمارے اس مسلک کے سوا سب لوگ گمراہ ہیں.. حضرت محمد صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمایا کے 72، 73 فرقوں میں سے ایک جننتی ہو گا اور وہ ایک ہم ہیں.. وہ سوچتا مولوی صاحب نمازی، پرہیزگار ہیں، اتنا علم رکھتے ہیں، وہ یقیناً بہتر جانتے ہوں گے، لیکن وہ اس یقین پر خود کو کبھی مطمئن نہیں کر پاتا کیوں کے اُسے اچھی طرح معلوم تھا کے اس طرح کے مولوی صاحب ہر مسلک، بلکہ ہر مذہب میں موجود ہوں گے.. آخر یہی تو وہ لوگ ہیں جو کسی مذہب یا مسلک کی پہچان ہوتے ہیں، پھر ایک دن اُس نے اپنی والدہ کو کہتے سُنا وہ اُس کی خالہ سے حضرت بری امام کے مزار پر جانے کی بات کر رہی تھیں.. اُسے تجسس ہوا کے مزار پر جانے سے کیا ہوتا ہے یا مزار پر کوئی کیوں جاتا ہے یہ سوال لے کر وہ ایک بار پھر مولوی صاحب تک جا پہنچا.. اس بار اُسے بتایا گیا کے مزاروں پر شرک ہوتا ہے اور یہ سخت گناہ ہے.. اُسے مزید بتایا گیا کے ہر گناہ کی معافی ہے لیکن شرک جیسے گناہ کی تو کوئی معافی بھی نہیں ہے۔ اس بار وہ کچھ زیادہ ہی ڈر گیا تھا اُس نے اپنی امی کو بھی سمجھانے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے اُس کی بات پر توجہ نہیں دی۔ اُس رات وہ بہت پریشان تھا اُس نے اللہ سے کہا "اللہ میاں آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں آپ پلیز میری امی کو اس شدید گناہ سے بچا لیجیے اور اگر وہ یہ گناہ پہلے بھی کر چُکی ہیں اور انہیں معاف نہیں کیا جا سکتا تو اُن کی جگہ مجھے سزا دے دیجیے گا"
ہر روز وہ محلے کے بچوں کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا اور قاری صاحب سب بچوں کو عصر اور مغرب کی نماز کے لیے ساتھ لے کر جاتے تھے وہ کیونکہ چھوٹا تھا اس لیے اُس پر نماز کے معاملے میں زیادہ سختی نہ تھی وہ اکثر مسجد تو جاتا تھا لیکن کسی کونے میں بیٹھا اپنی سوچ کی زبانی اللہ سے محوِ گفتگو رہتا۔ اُسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی کے اللہ کی طرف سے جواب آئے گا یا نہیں۔ اُس نے اللہ سے پہلی دفعہ بات شروع کرتے ہوئے ہی کہہ دیا تھا "اللہ میاں مجھے پتہ ہے کے آپ سب سے بڑے ہیں اور بڑے، بچوں کی باتوں کا کم ہی جواب دیتے ہیں جیسے میرے ابو اور دادا کرتے ہیں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ بڑوں سے زیادہ باتیں کرو تو وہ ڈانٹ دیتے ہیں، اللہ میاں آپ پلیز مجھے ڈانٹیے گا نہیں میں پرومس کرتا ہوں آپ کو زیادہ تنگ نہیں کروں گا۔
ایک روز بچوں نے قاری صاحب سے اس کی شکایت کر دی کے یہ مسجد جاتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا قاری صاحب کے سامنے پیش ہونے پر اس نے شاید اپنے اندر کی تمام ہمت اکھٹی کی اور ان سے کہا "قاری صاحب آپ اگر مجھے سزا دینا چاھتے ہیں تو دے لیجیے لیکن میں دوسرے بچوں کی طرح آپ کے ڈر سے نماز نہیں پڑھوں گا" قاری صاحب نے غصے سے پوچھا "کیا مطلب ہے تمھارا؟" تو اس نے کہا "سب لڑکے آپ کے ڈر سے نماز پڑھنے جاتے ہیں کہ اگر یہ نماز نہ پڑھیں تو آپ انہیں ماریں گے لیکن میں ایسی نماز نہیں پڑھنا چاہتا" قاری صاحب نے پوچھا "تو کیسی نماز پڑھنا چاہتے ہو؟" ان کے غصے میں اب تھوڑی سی حیرت بھی شامل ہو چکی تھی۔ آس نے کہا "ایسی نماز جو اللہ سے ڈر کر پڑھی جائے، ویسے مجھے یہ بات بھی عجیب لگتی ہے کہ اللہ سے ڈرا جائے جب وہ ہم سے اتنا پیار کرتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس کی محبت میں نماز ادا کریں۔" قاری صاحب نے کہا "اس بچے سے کفر کی بو آتی ہے اسے لے جاؤ یہاں سے اور آئندہ یہ لڑکا میرے مدرسے میں نظر نہ آئے۔                                                                                       
 (حصّہ دوئم)
----------------
قاری صاحب سے گستاخی کے واقعہ پر جب اُس کی والدہ اور دادا نے سرزنش کی تو اُس نے انھیں بھی وہی جواب دیا کہ "میں قاری صاحب کے ڈر سے نماز نہیں پڑھوں گا" اور ساتھ ساتھ دادا سے 73 فرقوں والی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی پوچھ لیا کہ "آپ کے پاس کیا ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ جس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں وہی اصل جنّتی فرقہ ہے" تو دادا نے پُر اعتماد لہجے میں بلند آواز سے کہا "ہم جدی پُشتی سُنی ہیں, ہمیں یقین ہے کہ ہم صحیح ہیں"۔ تو اُس نے کہا "ایسا یقین تو ہندو کو بھی ہو گا, یہودی بھی یہی یقین رکھتا ہو گا کہ میرا مزہب درست ہے, یقین تو سب کو ہوتا ہے لیکن آپ کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ صحیح مزہب یا صحیح فرقے کے ماننے والے ہیں؟؟" دادا جان نے چَپّل پھینک کے ماری اور کہا "کل کا بچہ, تُو ہم سے ہمارے مسلک کا ثبوت مانگتا ہے۔؟"
دادا جان کی چَپّل سے بچ کر وہ گھر سے باہر چلا گیا جہاں اُس کی نظر اپنے ہم عمر دوست پر پڑی اُس نے سوچا مجھے اپنے دوست سے اور اُس کے بڑے بھائی سے (جو عمر میں اُس سے صرف ایک سال بڑا تھا) بات کرنی چاہیے اسی دوران سامنے والی گلی کا ایک اور بچہ بھی آ گیا جو اُسی کی طرح دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ اُس نے اپنے تینوں دوستوں سے کہا کیا تم لوگوں نے یہ حدیث سنی کہ 73 فرقے ہوں گے اور ایک جنّتی ہو گا۔؟ تو تینوں دوستوں نے کہا ہاں ہم نے سُنا ہے۔ تو اُس نے کہا کہ "ہمارے بڑے یہ بات جانتے ہیں لیکن سب بِنا تصدیق کے اپنے بڑوں کا فرقہ اپنائے بیٹھے ہیں۔ میں نے ایک اور حدیث بھی سُنی ہے کہ جس چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے اُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے اُسے ترک کر دو۔" تینوں دوستوں نے کہا کہ ہاں یہ حدیث بھی ہم نے بھی سنی ہے۔ اُس نے کہا کہ "یہ حدیث مجھے صحیح سے سمجھ نہیں آئی کیونکہ عقل, سمجھ تو دماغ میں ہوتی ہے پھر حق کا فیصلہ دل کو کیوں دیا گیا۔؟ لیکن اس حدیث سے ایک بات سمجھ آتی ہے کہ شاید انسان کا دل اللّٰہ کی موجودگی کو محسوس کر سکتا ہو۔ ویسے تو اللّٰہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے لیکن وہ کون سے فرقے کے ساتھ ہے یہ پتہ چلانے کے لیے ہم الگ الگ فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھا کریں گے اور جس مسجد میں دل کو کچھ محسوس ہوا اُس مسجد کے فرقے کو اپنا لیں گے۔" تینوں دوستوں نے اُس کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور اِس طرح چار بچّوں نے سات آٹھ سال کی عمر میں اللّٰہ کی تلاش میں الگ الگ فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔
وہ چاروں اپنے ہم عمر بچّوں کی طرح ہی نادان اور شرارتی تھے لیکن سال میں ایک دو بار چند دنوں کے لیے وہ تلاش جاگ جاتی تھی لیکن کچھ محسوس نہ ہونے کی بِنا پر چاروں دوست واپس اپنے کھیل کود میں مگن ہو جاتے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ چاروں دوسری تیسری جماعت سے چھٹی ساتویں جماعت تک پہنچ گئے۔ اب تک وہ کافی حد تک اردو پڑھنا اور سمجھنا سیکھ گئے تھے۔اور ایک دن دو دوستوں نے (جو آپس میں بھائی تھے) کہا کہ ہم نے اپنا مسلک چُن لیا ہے۔ اُس نے حیرت سے پوچھا "کیا تمہیں اللّٰہ کی موجودگی کا احساس مِل گیا۔؟" تو انہوں نے کہا کہ "ہم نے اس فرقے کی کتابیں پڑھی ہیں اور ہمارے دل کو یقین آ گیا ہے کہ یہی صحیح فرقہ ہے۔ لیکن تم جو ہمیں اس راہ پہ لے کر آئے ہم نے دیکھا ہے کہ تم کسی فرقے کی کوئی کتاب نہیں پڑھتے بلکہ اکثر تم ہمارے ساتھ نماز بھی نہیں پڑھتے اور کبھی کبھی تو تم مسجد میں بھی نہیں جاتے باہر ہی بیٹھے رہتے ہو۔ تو تم اللّٰہ کو کیسے تلاش کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔؟" جس وقت اُس کا دوست اُس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا اُس وقت دو اور لوگ پاس بیٹھے اُن دونوں کی بات سن رہے تھے۔ اُس نے اپنے دوست سے کہا کہ "میں یہ کتابیں اس لیے نہیں پڑھتا کیونکہ ایسی کتابیں ہر فرقے کے پاس موجود ہوں گی اور ہر فرقے نے قرآن اور حدیث سے اپنے فرقے کو جنّتی ثابت کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ اگر ان لوگوں کی کتابوں میں حق ہوتا تو یہ لوگ کسی ایک فرقے پے متفق ہو گئے ہوتے۔ یہ کتابیں صرف اور صرف اپنے فرقے کے لوگوں کو تسلی دینے کے لیے ہیں تاکہ لوگ اپنے اپنے فرقے سے جُڑے رہیں۔ اگر یہ کتابیں باعثِ ہدایت ہوتیں تو یہ لوگ اس طرح فرقوں میں نہ بٹّے ہوئے ہوتے۔ کیوں کہ ہدایت یافتہ لوگ, لوگوں کو ایک کرتے ہیں, جبکہ یہ کتابیں لوگوں کو فرقہ واریت کی تقسیم پہ راضی رہنا سکھاتی ہیں۔ دیکھو..! ہمارے پاس کچھ لوگ ہماری بات سُن رہے ہیں لیکن ان کے پاس بھی میری بات کا جواب نہیں ہے۔ کیوں انکل..! کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ اِن فرقوں میں سے کون سا فرقہ درست ہے۔؟ (اُس نے دوست سے بات کرتے کرتے پاس بیٹھے لوگوں سے سوال کر ڈالا) انہوں نے مذاقیہ لہجے میں کہا "بیٹا ہم نے تو کبھی تلاش ہی نہیں کیا۔ آپ ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو۔" اُس نے پُر اعتماد لہجے میں کہا انشاء اللّٰہ مجھے وہ ضرور ملے گا اور اگر میں کامیاب نہ بھی ہوا تو بھی جب میں آپ کی عمر کا ہوں گا تو اپنی عمر کے کسی بچّے کو یہ جواب نہیں دوں گا جو جواب آپ مجھے دے رہے ہیں۔"
وہ دونوں لوگ اُس کے اِس انداز کو دیکھ کر وہاں سے چلے گئے اور اُسے افسوس ہوا کہ شاید اُس نے اُن لوگوں کا دل دُکھایا۔ خیر ان کے جانے کے بعد اُس نے اپنے دوست سے کہا کہ مجھے اس بات پہ کوئی اعتراز نہیں ہے کہ تم نے ایک فرقے کو چُن لیا تمہارا دل یہاں راضی ہے تو یہیں رہو لیکن میرا سفر ابھی جاری ہے۔ اُس نے چوتھے دوست سے پوچھا کہ اُس کا کیا ارادہ ہے۔؟ تو اُس نے جواب دیا کہ میں اس سب سے الگ ہوں میں جو ہوں بس وہی ٹھیک ہے میرے لیے۔ لیکن میں تم پر نظر رکھوں گا کے تم کہاں رُکتے ہو۔ وہ دن چاروں دوستوں کی مشترکہ تلاش کا آخری دن تھا۔ لیکن وہ مطمئن تھا, اگرچہ وہ جانتا تھا کہ اللّٰہ کی تلاش کرنے والوں کی فہرست میں اُس کی تلاش, تلاش کہلانے کے لائق بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی اُسے یقین تھا اپنی تلاش پر نہیں بلکہ اللّٰہ کی ذات پہ کہ وہ اُسے ضرور اپنی راہ عطا کرے گا۔  

 (حصّہ سوئم)
----------------
اُس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا جب ایک رات اُس نے کہا "اللّٰہ میاں آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ کس طرح لوگ پریشان ہیں, ساری دنیا میں مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں, ہم سب نے آپ کی رسّی کو چھوڑ دیا ہے اور تفرقے میں پڑ چُکے ہیں, ہماری غلطی ہے, میں سب کی طرف سے sorry کرتا ہوں آپ سے, پلیز ہمیں معاف کر دیں, ہمیں ایک کر دیں, ہم سب شیعہ, سُنّی, ہندؤ, عیسائی بن بن کر تیرا ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں, لیکن آج نہ ہم تیرے بن پا رہے ہیں نہ اپنے۔ ہمیں ہمارے دشمن (شیطان) نے بہکا دیا اور ہم نے اُس کے بہکاوے میں آ کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی ٹُکڑے کر لیے۔ لیکن یہ ہمارے بڑوں کی غلطی تھی, ہم پے اِس کا بوجھ مت ڈال اور ہمیں آزاد کر دے اس فتنے سے۔" وہ اپنے بستر میں منہ چھپائے رو رہا تھا اور دل کی زبانی محوِ فریاد تھا "اللّٰہ میاں مجھے بتائیں حق کیا ہے, میں سب کو بتا دوں گا, پھر ہم سب ایک ہو جائیں گے, اللّٰہ میاں پلیز ہمیں بچا لیجیئے ہم سے غلطی ہوئی, ہم نے شیطان کی پیروی کی اور گمراہ ہوئے اور اب ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ ہم آپ سے بہت دور آ گئے ہیں لیکن اب ہم واپس آنا چاہتے ہیں, پلیز ہمیں واپس بُلا لیجیے" ایسے ہی روتے روتے کب اُسے نیند آئی اُسے کچھ پتا نہ چلا۔  صبح سو کر اُٹھا تو ایک ہی سوال سر پے سوار تھا کہ اللّٰہ کیوں ہم میں ایسے لوگ نہیں بھیجتا جو ہمیں ایک کر سکیں, شاید  لوگوں میں طلب ہی نہیں رہی ایسے لوگوں کی, اُسے لوگوں پے 
غصّہ آ رہا تھا, خاص کر اپنے بڑوں پر جنہیں صرف اپنی پڑی تھی
۔  اس غصے کی ایک وجہ شاید وہ انکل بھی تھے جن سے کل پبلک ٹرانسپورٹ میں اسکول جاتے ہوئے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر سے انہیں اوبزروو (مشاہده ) کر رہا تھا۔ وہ انکل اُسے تھوڑے خبطی سے لگ رہے تھے جو اُسی کے اسکول کے چوتھی, پانچویں جماعت کے کچھ بچّوں سے بات کر رہے تھے "بچّوں تم قوم کا مستقبل ہو, پاکستان کا آنے والا کل ہو, کیا کر رہے ہو تم لوگ, کہاں   ہیں تمهاری جنریشن کے ہیروز, کہاں ہیں تماری جنریشن کے اقبال اور سر سید۔؟ ایسی جنریشن سے ہم کیا اُمید کر سکتے ہیں جس کے بچّے صبح اسکول جاتے ہوئے بس کا کرایہ ادا کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں, کیسا پاکستان بناؤ گے تم لوگ, کہاں ہیں تمہاری        generation 
کے 
genius ?
اُس کا بس سٹاپ قریب تھا وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور بس کے دروازے کی طرف بڑھا, وہ انکل دروازے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھے تھے اُس کے دماغ میں نہ جانے کیا آیا کہ اُس نے اُن انکل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا "اسلام و علیکم سر, کیسے ہیں آپ؟" وہ انکل کسی اور ہی خیال میں گم تھے انہوں نے کھوئے کھوئے انداز میں اپنا پُرانا فقرہ کہا "بیٹا کہاں ہیں آپ کی generation کے genius ؟ کیا بنے گا اِس مُلک کا" اُس نے کہا "انکل۔۔ ! میں ہوں اپنی generation کا genius ۔آپ بے فکر رہیں انشاءاللّٰہ پاکستان کا بھلا ہو گا, سب اچھا ہو گا" اُنہیں تسلی دیتے ہوئے, اُسے اپنے دل میں بہت سکون محسوس ہو رہا تھا۔
لیکن شاید اُن انکل کو اُس کا خلوص دکھائی نہیں دیا اور انہوں نے اُس کے پُرانے uniform پر نظر جمائے ہوئے اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا "اچھا تو تم ہو اپنی generation کے genius ؟ کیا کرو گے تم بڑے ہو کر؟"  "انکل آپ یہ چھوڑیں کہ میں کیا کروں گا, اور یہ بتائیں کہ آپ نے کیا کِیا ہے؟ جو سوال آپ میری generation سے کر رہے تھے کہ آپ کے genius کہاں ہیں وہی سوال میں آپ سے کرتا ہوں, آپ کے اقبال اور سرسید کہاں ہیں؟ ملک و قوم کا بیڑا غرق آپ کی generation نے کیا ہے, ہم تو ابھی بچّے ہیں۔ خیر ہم جو بھی کریں گے لیکن آپ کی طرح next generation پر اپنی غلطیوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے" اتنا کہتے کہتے اُس نے سٹاپ کے قریب slow ہوتی ہوئی بس سے چھلانگ لگائی اور اسکول کی جانب بڑھنے لگا۔ سارا دن وہ انکل اور اُن کی باتیں اُس کے دماغ پر ہتھوڑے برساتی رہیں شام کو وہ یونہی سڑک کنارے چلتے, مسجد کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں اللّٰہ سے ہم کلام تھا "اللّٰہ میاں میں تنگ آ گیا ہوں۔ یہ لوگ جنّت اور دوزخ کے فیصلے کو دین بنائے بیٹھے ہیں۔ اور آپ تو میرے دل کی بات جانتے ہیں اس لیے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے اُس جنّت میں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہوتی جس کا تزکرہ ان مساجد میں ہوتا ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ مجھے اُس دوزخ سے بھی ڈر نہیں لگتا ہے جس سے یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اللّٰہ کی چاہ اور اللّٰہ کی راہ, جنّت دوزخ سے ہٹ کر کچھ شئے ہے۔ اللّٰہ میاں پلیز, اگر ایسا کچھ ہے جو جنّت سے بھی بڑھ کر ہے, تو پلیز مجھے ضرور بتانا۔" بات کرتے کرتے وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ گیا تو اُس کا دل چاہا کے مسجد کے اندر جا کر اللّٰہ سے بات کرے۔ وہ جوتے اتار کر مسجد کے صحن میں کھڑا ہوا اور مسجد کے گنبد سے کچھ اوپر فضا میں دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنے لگا کے فضا میں اللّٰہ اپنے تخت پے بیٹھا اُسے سُن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔ اُس نے بند ہونٹوں سے اپنی بساط مطابق گِڑگِڑا کر اللّٰہ سے کہا "اللّٰہ میاں میں تھک چُکا ہو, مجھے نہیں سمجھ آتی کہ میں کس طرح تجھے تلاش کروں اور یہ دنیا مجھے بہت اچھی لگتی ہے اِس کی لزتوں کی خواہش ہوتی ہے مجھے۔ سو آج میں آپ سے یہ کہنے آیا ہوں کہ میں دنیا میں جا رہا ہوں۔ یہاں سے جانے کے بعد میں جس قدر دنیا دار یا گناہگار ہو سکا ضرور ہوں گا۔ مگر آپ یاد رکھنا کہ میں نے آپ کو تلاش کیا تھا تو اگر کبھی آپ کو لگے کہ اسے بُلا لینا چاہیے تو مجھے بُلا لیجیے گا میں اچھا بُرا جیسا بھی ہوں گا, آپ کی طرف واپس آ جاؤں گا۔ اور پلیز پلیز پلیز مجھے ضرور واپس بُلا لیجیے گا۔ کیونکہ جیسا بھی ہوں آپ کا ہوں۔" اتنا کہہ کر اُس نے اُسی جگہ سجدہ کیا اور مسجد سے چلا گیا۔
(جاری ہے)
                                            

2 تبصرے:

Unknown نے لکھا ہے کہ
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
Unknown نے لکھا ہے کہ

اللہ کا بندہ وہی ہے جو آپ کو اللہ سے پیار کرنا سیکھائے اللہ کہ مخلوق سے محبت سیکھائے اور خدمت خلق کی تاکید کرے۔دین میں جبر نہیں اور یہ ہمارے رہبر حقیقی صلے اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں کہ اللہ کی نظر میں سب ایک ہیں ۔رنگ و نسل و نصب کوئی حثییت نہیں رکھتے جب تک انسان میں خوف خدا اور تقویٰ نہ ہو اور اچھا انسان وہ ہے جو تقویٰ میں افضل ہے۔مسلمان کو اگر اللہ کی قربت کی جستجو ہے تو سب سے پہلے دل میں یہ بات ڈال لے کہ اللہ کی قربت اطاعت محمدی میں پوشیدہ ہے۔ حضور دنیا میں جو بھی پاکیزگی،انسانیت دوستی، انصاف،عدل اورمساوات اور خدمت خلق پائی جاتی ہیں انکی معراج ہیں بلکہ اس سے بھی ذیادہ ہیں۔ حضور صلم کا یہ نقش دل میں رکھ کر اللہ کی راہ میں جستجو کریں،غلامی حضور صلم کی کریں اور اس غلامی کا کسی مسلک سے تعلق نہیں۔اللہ اور اسکی مقدس کتاب قرآن کریم سے ہے اور حضورصلم قرآن کی عملی تصویر ہیں۔ مسلمان کے لیے اللہ کے رسول ہی کافی ہیں کیونکہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس نے حضور صلم کی اطاعت کی میرے اطاعت کی،جس نے حضورصلم سے محبت کی مجھ سے محبت کی۔مسلمان کو کبھی بھی یہ کفر نہیں کرنا چاہیے کہ قرآن کے فرمان کو بحث میں لائے۔ جو اللہ نے کہا ہے چوں چرا بغیر تسلیم کرے۔اسلام کا اصل مطلب یہی ہے کہ اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم کرنا ۔ اور اے انسان اللہ نے حکم دیا ہے کہ میرے رسول صلم کی اطاعت کرو۔ اس فرمان کی مخالفت کرنا ایمان کو دھوکے میں ڈالنا اور گناہ کبیرہ کا موجب ہونا ہے
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں کیا چیز ہے لو وقلم تیرے ہیں

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔