: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ گیارہ)
----------------
اُس عالم لڑکے سے بات کرنے کے بعد وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا کہ کس طرح کے لوگ عالم, یا مُفتی بن رہے ہیں۔ وہ شخص جو کسی کی نفرت میں بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہنے کو تیار ہے کل کو وہ چند کتابوں کا کورس مکمل کر لینے کے بعد فتویٰ دینے کے لائق بن جائے گا اور لوگ اُس سے دین کی سمجھ حاصل کریں گے کیا کتابیں رٹ لینے سے اُس کا دِل بدل جائے گا۔؟ وہ اِنہی سوچوں میں دل سے محوِ گفتگو تھا کہ دل نے اُسے کہا "آج تو تُو نے بہت پتے کی باتیں کی اُن لڑکوں سے, دیکھ آج تجھے تیرے سوالوں کے جواب تیری ہی زبانی مِل رہے ہیں" ۔۔۔ "ہاں میں نے دیکھا وہ گفتگو میری نہیں تھی, کوئی اور تھا, جو مجھ میں بول رہا تھا, میں بھی اُن باتوں کو کہتے ہوئے ہی سمجھ رہا تھا" ویسے بہت دل کش شخصیت ہے سلطان محمد اصغر علی (رح) کی۔ " اُس نے دل سے کہا اور دِل نے اُس کی تائید کی۔
وقت گُزرتا گیا۔ اُس کی کیفیات دن بہ دن بدلتی جا رہی تھیں اکثر وہ کسی سمجھدار شخص سے اپنی کیفیات شیئر بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن اُسے کسی نے کہا کہ اِب تمھاری کیفیات اُس حد کو پہنچ چُکی ہیں کہ جس سے آگے تم مُرشد کے بغیر چلو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے" اُن کی یہ بات جیسے اُس کے دل میں بیٹھ گئی اور اُس کا مسئلہ یہ نہیں تھا کہ بیعت کرنی ہے یا نہیں, بلکہ اُس کا مسئلہ یہ تھا کہ بیعت کس کے ہاتھ پے کروں کیونکہ وہ کہتا تھا کہ"بیعت اُس کے ہاتھ پے کروں گا جس کو دل مانے گا, اور ابھی تو میں نے مُرشد کامل کی تلاش ہی شروع نہیں کی, میں صرف ایک بزرگ سے مِلا ہوں جنہوں نے مجھے اسمِ اللّٰہ ذات دیا اور سچ میں بہت اثر ہے اُن کی نظر میں لیکن میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ انہی سوچوں میں مگن وہ مغرب کی نماز پڑھنے چلا گیا نماز کے بعد جب وہ مسجد سے نکلا تو اُس وقت بھی مُرشد کی خواہش اُس کے ذہن و دل پے سوار تھی, وہ سوچ رہا تھا کہ اصل میں تو مُرشد کامل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور ہر وقت میں اولیاء کرام اُن کے نائب کی حیثیت سے موجود رہتے ہیں جن کا کام لوگوں کی راہنمائی ہوتا ہے۔ سوچتے, سوچتے اُسے اسمِ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال آیا تو اُس نے تصور کی آنکھ سے اسمِ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھتے ہوئے فریاد کی کہ "میں جیسا بھی ہوں آپ کا اُمتی ہوں اور اپنے وقت میں آپ کے مقرر کردہ نائب کی تلاش میں ہوں, میں مُرشد کامل کا متلاشی ہوں, پلیز میری مدد کیجیئے"۔
اُس روز اُسے بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ مجھے مُرشد کی ضرورت ہے اور اگر مُرشد نہ ملا تو شاید میں پاگل, دیوانہ ہو جاؤں اور اپنے رب کی راہ سے بھٹک جاؤں۔ اُس کے لیے بھٹک جانے کا خیال ہی جان لیوا تھا۔ اللّٰہ میاں میں تلاشِ مُرشد میں کہیں بھی جانے کو تیار ہوں۔ لیکن پلیز مجھے گمراہ مت کیجیئے گا میں آپ سے دور نہیں ہونا چاہتا۔ اُس رات جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو بنا مُرشد گمراہ ہو جانے کے ڈر سے بہت رویا۔ آنکھیں بند کیے وہ ابھی جاگ ہی رہا تھا کہ اُسے ایک آواز سُنائی دی "اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالو" اُس نے اِس آواز کو اپنا گمان سمجھا لیکن پھر بھی اپنے رب سے خیر کی امید رکھتے ہوئے اُس نے آنکھ بند کیے ہوئے ہاتھ باہر نکالا تو اُسے صاف محسوس ہوا کے کسی نے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہو۔ اُس نے چونک کر آنکھیں کھولیں لیکن اُسے ایک مدھم سی روشنی کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا اُس نے آنکھیں بند کیں لیکن وہ روشنی بند آنکھوں سے بھی دکھائی دے رہی تھی اور اُس کا ہاتھ ابھی بھی کسی اندیکھے ہاتھ میں تھا۔ آواز آئی "منہ تے ذبان بند جی, جو کج کینا اے, دل نال کینا اے" (منہ اور ذبان بند کر لو اور جو کچھ کہنا ہے دل سے کہنا ہے) وہ اُن کی آواز اور اُن کا انداز پہچان چُکا تھا۔ انہوں نے اُسے کلمہ پڑھایا اور ہر گناہ سے توبہ کرنے کو کہا۔ جیسے, جیسے وہ بولتے گئے ویسے, ویسے وہ کہتا گیا اور اِسی حالت میں اُسے کب نیند آ گئی اُسے پتہ نہ چلا۔
اگلی صبح اٹھتے ساتھ ظاہری طور پے سلطان محمد اصغر علی (رح) کے ہاتھ پے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور پتہ کرنے کی کوشش کی کہ جلد از جلد میری اُن سے ملاقات ہو جائے۔ اُسے پتہ چلا کہ آپ دو دن بعد اٹک شہر کے آس پاس کسی جگہ تشریف لا رہے ہیں۔ لیکن آپ سفر میں ہیں اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آپ اٹک میں کسی کو بیعت کریں گے یا نہیں, اس لیے کچھ دن انتظار کر لو اور اُن کے سفر سے واپسی پر جھنگ یا شور کوٹ جا کے بیعت کر لینا۔ لیکن اُسے چین ہی نہیں آ رہا تھا وہ جلد از جلد بیعت کرنا چاہ رہا تھا اِس لیے اُس نے اٹک شہر جا کے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس کے ساتھ اور لوگ بھی بیعت کرنے جانا چاہ رہے تھے۔ اور اِس طرح اُن سب نے اگلے روز وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اپنے دفتر پہنچا تو اُس نے اپنے افسر سے چُھٹی کی مانگ کی اور کہا کہ وہ بیعت کرنا چاہتا ہے اِس لیے اُسے دو دن کی چُھٹی درکار ہے۔ اُس کے افسر نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے کہا "اِس مقصد کے لیے چُھٹی نہیں مل سکتی, یہاں بہت کام ہے تم بیعت کسی چُھٹی والے دن جا کے کر لینا, ایسے کاموں کے لیے گورنمنٹ چُھٹی نہیں دیتی" اُس نے افسر کا جواب سُن کر کہا "سر بیعت کرنے تو میں نے کل ہی جانا ہے, جو چیز آپ کو عام اور بےجا لگ رہی ہے وہ میرے لیے اپنی نوکری اور اپنی زندگی سے ذیادہ معنی رکھتی ہے۔" اُس کے افسر نے اُسے گھور کے دیکھا اور کہا "اگر آپ کو نوکری کی پرواہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے کل چلے جانا" اُس نے کہا "سر رزق اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے, جب تک کہ اللّٰہ نہ چاہے آپ یا کوئی اور مجھ سے میرا رزق نہیں چھین سکتا, ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ خود ہی اپنے ماتحتوں کو جھوٹ بولنے پے مجبور کرتے ہیں اور جب کسی کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو حیران ہو کر کہتے ہیں کہ مجھے تم سے یہ اُمید نہیں تھی کہ تم مجھ سے جھوٹ بولو گے" اُس کے افسر نے کہا "اِس بات سے کیا مُراد ہے تمہاری۔؟ کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں تمہیں جھوٹ بولنے پے مائل کر رہا ہوں۔؟" اُس نے کہا "جی سر میں کچھ ایسی ہی بات کر رہا ہوں, ہمیں بچپن سے سچ بولنے کو کہا جاتا ہے لیکن ہم میں سے سچ سننا کوئی پسند نہیں کرتا, اگر میں آپ سے کہتا کہ کسی کی وفات ہو گئی ہے, یا مجھے کوئی اور گھریلو کام ہے, یا میں کل اٹک شہر جاتے ہوئے آپ کو فون پر بتا دیتا کہ میں بیمار ہوں آج دفتر نہیں آ سکتا, تو بہت آرام سے مجھے چُھٹی مل جاتی, ایک طرف تو ہم سب اِس بات کی دُہائی دیتے ہیں کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے جھوٹے اور فریبی ہو چُکے ہیں اور دوسری جانب ہم خود ایک ایسا نظام ترتیب دے رہے ہیں جو لوگوں کو سچ سے ہٹا کر جھوٹ کی پیروی کرنا سکھاتا ہے, اسکول میں ہمیں جو ٹیچر سچائی کا درس دیتا ہے وہی ٹیچر ہمارے سچ بولنے پر ہماری پٹائی بھی کر دیتا ہے, طالب علم کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اُستاد سے یہ کہے گا کہ سر میرے پیٹ میں درد تھا یا مجھے بخار تھا اِس لیے میں نے کام نہیں کیا تو اُستاد یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ طالب علم جھوٹ بول رہا ہے اُسے معاف کر دے گا لیکن کوئی طالبِ علم اگر یہ کہہ دے کے میں بھول گیا تھا یا کرکٹ میچ میں مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے وقت نہ مل سکا اسکول کا کام کرنے کا تو اُستاد کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ طالبِ علم کی سچائی کو سراہا جائے بلکہ اِس سچ کو وہ اپنی تضحیک مانتے ہوئے طالب علم کو سخت سے سخت سزا دے گا, مانا کہ طالب علم کو اگر ہر بار سچ بولنے پے معاف کیا جانے لگے تو وہ لاپرواہ ہو جائے گا لیکن کیا سزا کا اصل حقدار وہ طالب علم نہیں جو اُستاد سے جھوٹ بول رہا ہے, جب ہم بچپن سے یہی دیکھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والا بچ جاتا ہے اور سچ بولنے والا پھنس جاتا ہے تو ہم خود ہی جھوٹ اپنانے پے مجبور ہو جاتے ہیں۔ اِس میں جھوٹ بولنے والے سے ذیادہ قصوروار وہ شخص ہے جو سچ سُننا ہی نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔۔ تو سر ۔۔ میں نے سچ بول کر بچپن سے آج تک بہت مار کھائی ہے لیکن کبھی جھوٹ بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش نہیں کی, اِس لیے محض اِس نوکری کی وجہ سے میں سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کو نہیں اپناؤں گا, جو سچ تھا وہ میں نے آپ کو بتا دیا, اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ چُھٹی دیں یا نہیں لیکن میں نے کل جانا ہے تو آپ کا جو بھی فیصلہ ہو میری واپسی پر مجھے بتا دیجیئے گا"۔
(جاری ہے)
محمد کامران احمد
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ بارہ)
----------------
اگلے دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹک شہر پہنچا وہاں اُس کے ساتھیوں کے کسی عزیز کا گھر تھا جہاں جا کر اُس نے کچھ دیر آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ اُس مقام کا رُخ کیا جہاں سُلطان محمد اصغر علی (رح) نے تشریف لانا تھا وہاں پہنچ کر انتظار شروع ہُوا تو کبھی خبر ملتی کہ آپ (رح) راستے میں ہیں تو کبھی یہ پتا چلتا کہ آپ (رح) نے اِس جگہ آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے پھر سننے میں آتا کہ یہاں موجود لوگوں کی طرف سے اُن سے درخواست کی گئی ہے کہ آپ یہاں ضرور تشریف لائیں تو ہو سکتا ہے آپ (رح) آ ہی جائیں۔ اُسی کی طرح وہاں قریب 40 لوگ تھے جو سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے مُرید ہونا چاہتے تھے۔ اُن سے ملاقات کے خواہشمند اُن 40 کے علاوہ تھے جو شاید وہیں آس پاس رہتے تھے اور بار بار اُن کی آمد کا پوچھ رہے تھے, لوگوں کا اشتیاق دیکھ کر اُس نے سوچا لوگ کتنی محبت کرتے ہیں سُلطان صاحب سے, نہ جانے کتنے مُرید ہوں گے اُن کے جو اُن سے کتنی شدید عقیدت رکھتے ہوں گے اور میں۔؟ میں تو بس ایک بار ملا ہوں اُن سے, مجھے تو شاید پرسوں رات سے پہلے اُن کی نظر میں ہونے کا احساس بھی نہیں تھا۔ اور کیا پتہ یہ بیعت والی بات بھی محض میرا گُمان ہی ہو, میں کون ہوں۔؟ دنیا کے گناہوں میں لِتھڑا ایک غلیظ انسان جس نے کبھی مسجد کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ ایک دن ایسے ہی امام بارگاہ پہنچ گیا اور وہاں اُس بچّے کی فریاد سُن کر اُسے خیال آ جاتا ہے کہ مجھے بھی حق کی تلاش ہے۔؟ واہ کیا کہانی ہے آپ کی۔؟ کیوں اپنا مُرید بنائیں گے وہ تمھیں۔؟ ایسا کیا ہے تم میں۔؟ تم کل بھی گناہگار تھے اور آج بھی خطا ہی تمہارا اصول ہے۔ بس..., دل ہی تو بدلا ہے تمہارا, باقی تو آج بھی تم وہی ہو جو گناہ کو بھی ثواب کی طرح کماتا تھا۔ خود کو ملامت کرتے وہ اپنے خیالوں میں بہت دور نکل گیا۔ رات ہو چُکی تھی اور ابھی تک سُلطان صاحب کی آمد کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہاں کے منتظمین نے آس پاس کے گھروں اور مسجد میں لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا, اُسے بھی جا کے سونے کا کہا گیا لیکن نیند اُس کی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ آخری اطلاع اُسے یہ ملی کے سُلطان صاحب ابھی ایبٹ آباد جا رہے ہیں, ایبٹ آباد سے واپسی پر ہو سکتا ہے وہ یہاں تشریف لائیں۔ یہ سُن کر وہ دل, دل میں رو پڑا۔ اُس نے سوچا کہ شاید اِس سب کی وجہ اُس کی موجودگی ہے۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتا تو باقی لوگوں کو اتنی زحمت نہ اُٹھانی پڑتی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ جیسے گناہگار شخص کی موجودگی اِن سب لوگوں کے لیے باعثِ زحمت بن رہی ہے, مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے صبح فجر کی نماز تک وہ جاگتا رہا اور نماز کے بعد کچھ دیر کو سو گیا نیند کے عالم میں بھی اُسے یہی فکر تھی کہ اُس کی وجہ سے اتنے سارے لوگ خوار ہوئے کاش کہ وہ یہاں نہ آیا ہوتا۔ سوتے ہوئے وہ بار بار یہی دیکھ رہا تھا کہ سُلطان محمد اصغر علی (رح) ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں اور گاڑی کی کھڑکی کے ساتھ وہ خود کھڑا ہے, سلطان صاحب نے گاڑی کی کھڑکی سے اپنا ہاتھ باہر نکالا ہوا ہے اور اُس نے دونوں ہاتھوں سے اُن کا ہاتھ تھاما ہوا ہے کہ اچانک گاڑی چل پڑتی ہے اور اُن کا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ وہ اِسی خواب میں محو تھا کہ اچانک سُلطان محمد اصغر علی (رح) کی آمد کا شور اُٹھا وہ تیزی سے اُٹھا اور اُس سڑک کی جانب بھاگا جہاں سے آپ نے آنا تھا وہ بھاگتے بھاگتے جب سڑک تک پہنچا تو اُس نے اپنے خواب کی مانند سُلطان صاحب کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا اور تھوڑی دیر میں اُن کی گاڑی اُس کے پاس سے گُزرتی ہوئی آگے چلی گئی اور وہ وہیں کھڑا اُن کی دید کے سحر میں کھویا اُن کی گاڑی کو جاتے دیکھتا رہ گیا۔ اتنے میں سامنے سے اُس کے ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک لڑکا اُس کی جوتیاں اُٹھائے آتا نظر آیا, اُس نے آتے ساتھ اُس کی جوتیاں اُس کے حوالے کرتے ہوئے اُس سے کہا "بھائی آپ اپنی جوتی تو پہن لیتے۔" اُس نے کہا "میری آنکھ سُلطان صاحب کی آمد کی اطلاع سے کھلی تھی, خوشی خوشی میں دھیان ہی نہیں رہا۔" آخر ایک طویل انتظار کے بعد وہ پل آ ہی گیا جب وہ سُلطان محمد اصغر علی (رح) کا دستِ بیعت تھام کر اُن کا مُرید ہو گیا۔ ایک سفید کپڑے کی لمبی سی رسّی جس کا ایک سِرا سُلطان صاحب کے ہاتھ میں تھا اور بیعت کرنے والے سبھی لوگ اُس رسّی کو دونوں ہاتھوں سے تھامے بیٹھے تھے۔ بیعت کرتے ہوئے اُسے اپنا دل اپنے ہاتھوں کے بیچ دھڑکتا محسوس ہو رہا تھا۔ سُلطان صاحب نے بیعت کے کلمات پڑھے اور سب مُریدین نے اُن الفاظ کو دل سے دہرایا۔ بیعت کے بعد اُسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اُس نے دوبارہ جنم لیا ہو۔
بیعت کرنے کے بعد واپس آ کر جب وہ دوبارہ دفتر گیا تو اُس کے افسر نے اُس سے چُھٹی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ ابھی کچھ ہی دن گُزرے تھے کہ اُس کے دفتر میں اُسی ادارے کے ایک اور افسر کسی دفتری کام سے آئے۔ اُن کے چہرے پے داڑھی اور ماتھے پے بڑی سی محراب تھی, ساتھ ہی ساتھ وہ کافی اچھی دینی گفتگو بھی کرنا جانتے تھے وہ کافی دیر اپنی سیٹ پے بیٹھا اُن کی بات سُنتا رہا۔ کہ اچانک انہوں نے بات کرتے کرتے کہا "شیطان بڑا طاقتور ہے, اِس کے وار سے بچنا ناممکن ہے, ہم کچھ بھی کر لیں یہ ہمیں بہکا کر ورغلا کر ہم سے گناہ کروا ہی لیتا ہے اور ہم لاکھ کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے۔ شیطان بڑا طاقتور ہے" ۔۔۔۔
"ویسے سر اگر شیطان کو اللّٰہ نے طاقت دی ہے تو انسان کو اُس سے بچاؤ کا طریقہ بھی بتایا ہے۔" اُس نے پہلی بار گفتگو میں حصّہ لیتے ہوئے کہا "اگر انسان اُس طریقے کے ذریعے شیطان سے اپنا بچاؤ نہیں کرتا تو یہ شیطان کی طاقت نہیں بلکہ ہماری کمزوری کی نشانی ہے" انہوں نے اُس کے سُوٹ اور کلین شیو چہرے پر نظر جماتے ہوئے کہا "بیٹا میں ساٹھ سال کا ہونے والا ہوں دفتر کے بعد میرا سارا وقت مسجد میں اپنے جیسے بابوں میں گُزرتا ہے۔ لیکن مجھ سے اپنی نگاہ پر قابو نہیں ہوتا, لڑکی ہو یا کوئی عورت, میں اُسے دیکھنے سے, خود کو روک نہیں پاتا۔ یہ مسئلہ میں نے کئی جگہوں پے لوگوں کے سامنے رکھا ہے لیکن ہر شخص نے یہی جواب دیا کہ میں بھی اِس معاملے میں بے بس ہوں۔ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ لینے سے انسان کی نگاہ میں پردہ آ جاتا ہے, مگر میں نے مسجدوں کے پیش امام دیکھے ہیں جو لوگوں کو پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں, اور لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے کے باوجود وہ لوگ عورت کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں نے اللّٰہ کے بتائے ہوئے بچاؤ کے سارے طریقے اپنائے ہوئے ہیں, پھر بھی میں ناکام ہوں, تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ شیطان مجھ سے ذیادہ طاقتور ہے" انہوں نے مایوسی سے اپنا مسئلہ تفصیلاً بیان کر دیا۔
اُس نے اُن کی بات توجہ سے سُنی اور کہا "سر بات یہ ہے کہ ہم اکثر سُنت کا ظاہر اپنا کر اُس کے باطنی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب اندر سے کچھ نہیں بدلا تو باہر بدل لینا بے سُود ہے۔ داڑھی رکھ لینا مطلب آپ نے اپنے چہرے کا پردہ کر لیا لیکن نگاہ کا پردہ حیا ہے, اللّٰہ سے حیا کرنے سے نگاہ میں پردہ آتا ہے۔ جن لوگوں سے آپ پوچھتے رہے ہیں کیا انہوں نے کبھی نہیں سُنا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نظر جُھکا کر چلا کرتے تھے۔ میں نے شاید دوسری, تیسری جماعت میں اردو کی کتاب میں اُس بُڑھیا کا قصّہ پڑھا تھا جو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ اُس سبق میں ایک لائن یہ تھی کہ وہ بڑھیا اپنے گھر کی چھت پے کُوڑا رکھے انتظار کر رہی تھی کہ "ابھی وہ آئیں گے نظریں جھکائے.. آہستہ آہستہ چلتے ہوئے" ۔ میں نے اُس سبق سے یہ بات سیکھی تھی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نظر جُھکا کر چلتے تھے۔ میں تب سے کوشش کرتا ہوں کہ نظر جُھکا کے چلا کروں۔ اکثر میری نظر بھی بہک جاتی ہے لیکن میں پھر سے نظر جُھکا کے چلنا شروع کر دیتا ہوں" انہوں نے اُسے حیرت سے دیکھا شاید اُس کا حُلیہ دیکھتے ہوئے اُن کے لیے اُس کی بات کا یقین کرنا مُشکل ہو رہا تھا "انہوں نے کہا "اچھا تو آپ اِتنی سی عُمر میں اپنی نظر کی حفاظت کرنا جانتے ہیں تو یہ بتائیں کہ عورت کی خوشبو سے کیسے بچاتے ہیں خود کو۔؟" اُس نے کہا کہ "میری کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی کے پاس سے نہ گُزروں, اِس مقصد سے میں اکثر اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہوں اور اگر پاس سے گُزرنا پڑ ہی جائے تو میں نظر کے ساتھ ساتھ سر بھی جُھکا لیتا ہوں اور کچھ دیر کو سانس بھی روک لیتا ہوں تاکہ اُس کی خوشبو سے بھی خود کو بچا سکوں, میرے چہرے پے داڑھی نہیں ہے لیکن الحمد للّٰہ میری نگاہ میں پردہ ہے, میں شیطان کو خود پے حاوی نہیں محسوس کرتا, وہ ہمارا اُس وقت تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک کہ ہم خود اُس کے سامنے گُھٹنے نہیں ٹیک دیتے۔" انہوں نے کہا "بیٹا آپ ٹھیک کہتے ہیں میں نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم محض ظاہر اپنانے پے زور دیتے ہیں اور باطن کا خیال بھی ہمارے گُمان سے غائب رہتا ہے, ویسے آج کل عورتیں بہت بے حجاب ہو گئی ہیں, اِس لیے بھی ہم مَردوں کا گناہوں سے بچ کر چلنا ذیادہ مشکل ہو گیا ہے۔" انہوں نے اپنے نقطہِ نظر سے اُسے آگاہ کرتے ہوئے اُس سے اُس کی رائے مانگنے والے انداز میں کہا۔ وہ شاید اُسے اور سُننا چاہ رہے تھے۔
(حصّہ13)
----------------
اُس کے بیعت کرنے کے بعد اُس کے سارے بہن بھائی بھی سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے مُرید ہو گئے۔ اب اُس نے اپنا مقصد یہ بنایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسمِ اللّٰہ ذات کی روشنی پہنچا سکے, اِس مقصد سے وہ ہر ملنے والے سے مقدور بھر بات کرنے کی کوشش کرتا تھا, اکثر لوگ یہی سُن کر اُسے رد کر دیتے تھے کہ وہ کسی کا مُرید ہے۔ کیونکہ لوگ, اولیاء اللّٰہ کے سلسلوں کے گدی نشینوں سے سخت نالاں نظر آتے ہیں۔ اِس بات کا صحیح اندازہ اُسے تب ہُوا جب اُس کے ایک دوست نے اُس سے طرح طرح کے سوال پوچھے۔ مثلاً آپ کے مُرشد کے پاس گاڑیاں کتنی ہیں۔؟ گھر کتنا بڑا ہے اُن کا۔؟ ٹیلی وژن, ڈش اینٹینا ہے اُن کے گھر۔؟ یہ سب ایسے سوال تھے جنہیں سوچنے کا اُسے کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔ اِن سب سوالوں کے پوچھنے سے اُس کے دوست کا مقصد شاید یہ تھا کہ آپ کسی جعلی پیر کے مُرید تو نہیں ہو گئے جو لوگوں کو بیوقوف بنا کر پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔ اُس نے اپنے دوست سے کہا "یار یہ سب جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی مجھے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ اولیاء کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اُن کے گدی نشینوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ میں جب سُلطان صاحب سے ملنے گیا تھا تو میرے دل میں اللّٰہ کے سوا کوئی سوال نہیں تھا سو میں نے اُن سے اللّٰہ کے سوا کچھ طلب نہ کیا اور انہوں نے مجھے سیدھی راہ دکھائی۔
مجھے معلوم ہے کہ جعلی پیروں کے قِصّوں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے وہی حاصل کرتا ہے جن لوگوں کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے, کیا وہ اللّٰہ کی طلب میں جاتے ہیں۔؟ ہرگز نہیں۔ لوگ اللّٰہ کے ولی سے یہی اُمید کرتے ہیں کہ وہ اُن کی دنیا سنوار دے گا, اچھی نوکری, من پسند بیوی, فرمابردار شوہر, ساس نندوں کا سلوک, وغیرہ وغیرہ, یہی چاہیے ہوتا ہے لوگوں کو اللّٰہ والوں سے, شاید لاکھوں میں ایک دو لوگ ہوں گے جو اللّٰہ کی طلب میں اللّٰہ والے کو تلاش کرتے ہیں۔ طالبِ دنیا کو دنیا دار ہی ملتے ہیں۔ جب آپ میں سچی راہ کی طلب ہی نہیں تو جھوٹے راہبر سے ملاقات ہونے پے شکوہ کیسا۔؟ رہی بات اُن کی گاڑی اُن کے گھر وغیرہ کی تو میں یہ کہوں گا کہ مریض کو اپنے علاج سے غرض رکھنی چاہیے ڈاکٹر کی گاڑی اُس کا گھر دیکھ کر اُس کی قابلیت کا اندازہ لگانے کی جگہ اُس کی دوا سے ملنے والی شفا سے اُس کی قابلیت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے ہوٹلوں کو, بڑی بڑی دکانوں کو خوب سجایا جاتا ہے۔ اِس سجاوٹ سے کیا ہوتا ہے کبھی اِس بات کو سوچا ہے۔؟ اُس کے دوست نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اُس کی جانب دیکھا تو اُس نے کہا "اِس سجاوٹ کو دیکھ کر لوگوں کو اپنی جیب اور دکان یا ہوٹل کی مہنگائی کے بیچ کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ جو شخص کچھ خریدنے کی حیثیت رکھتا ہے وہی دکان میں داخل ہوتا ہے باقی لوگ دور سے دیکھ کر ہی بھاگ جاتے ہیں۔" اُس کے دوست نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ہاں یہ تو مجھے بھی پتا ہے لیکن اِس بات کا پیروں, فقیروں سے کیا تعلق ہے۔؟" اُس نے کہا "دنیا دار اللّٰہ والوں سے پردہ کرتے ہیں اور اللّٰہ والے دنیا داروں کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں, جب کوئی بدمعاش یا کوئی سیاست دان لوگوں کا خون چوس کر اکھٹی کی ہوئی دولت پر عیش کر رہا ہوتا ہے تو لوگ حیران نہیں ہوتے, اگر سیاست دان بڑی گاڑی میں گھوم رہا ہے تو کہا جاتا ہے کہ سیاست دان ہونے کی وجہ سے وہ اِس ٹھاٹ کے لائق ہے, لیکن کوئی ولی, بزرگ, اگر ٹھاٹ سے رہ رہا ہو تو لوگ اُس پے اُنگلی اُٹھانے میں دیر نہیں کرتے۔ کیا کوئی دنیاوی چیز اللّٰہ والے کے شایانِ شان ہو سکتی ہے۔؟ ہرگز نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ بہت سے سلسلوں کے گدی نشین اپنے بزرگوں کے نام پے عیش کر رہے ہیں, اُن کے سلسلے فیض سے خالی ہو چُکے ہیں اور وہ اپنے خاندانی مُریدین کی عقیدت کے سہارے صرف اپنا خاندانی وقار برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر سلسلے کا یہی حال ہے۔
اللّٰہ والوں کے دم سے ہی اِس دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کیا خیال ہے تمھارا کہ ہم اتنے سارے گناہگاروں سے بھری دنیا ایسے ہی چل رہی ہے۔؟ اگر تمام لوگ گناہگار ہی ہیں تو پھر تو وقت کی کتاب میں درج ہو گا کہ باطل غالب آ گیا اور حق مغلوب ہو گیا, لیکن حق تو کبھی مغلوب نہیں ہوتا, حق تو ہمیشہ غالب رہتا ہے, ہم اپنے ارد گرد کی دنیا دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آج دنیا میں حق ہے ہی کہاں۔؟ تو بات یہ ہے کہ یہ زمین حق کے دم پر ہی ٹکی ہے, وقت میں نیکی, ہمیشہ بدی سے افضل رہتی ہے اور اِس معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اللّٰہ وقت میں ایسے لوگ اُتارتا ہے جن کی ایک پل کی سوچ کی اچھائی بھی تمام لوگوں کے شب و روز کی بُرائی پر بھاری ہوتی ہے۔ وقت میں گناہ اور گناہگاروں کی تعداد جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ہی وقت میں نیکی اور نیکوکار بھی بلند سے بلند درجے سے نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیں, تاکہ وقت میں اچھائی اور بُرائی کا تناسب برقرار رہ سکے۔ ایسے سچّے اولیاء اگر عام لوگوں پر ظاہر ہو جائیں تو لوگ اُن کے سامنے دنیا کی ضد کر کر کے اُن کا جینا مشکل کر دیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ لوگ نیک مقامات کا رُخ کرنے والوں کو کس طرح اپنی اپنی دعائیں لکھواتے ہیں۔؟ کسی مُقدس مقام کا رُخ کرنے والے لوگ ہمی میں سے ایک ہوتے ہیں لیکن کیونکہ وہ کسی اچھی جگہ جا رہے ہوتے ہیں اِس لیے لوگ اپنی اپنی مُراد پوری ہونے کی دعا کرنے کو کہتے ہیں اور بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دنیا سے ہٹ کر کچھ طلب کرتے ہیں۔
سچے درویش, فقیر, ولی اللّٰہ, دنیا و آخرت کے طالبوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ صرف اللّٰہ کے طالب ہی سچّے درویش کو پہچان سکتے ہیں۔ جو شخص دنیا کا طالب ہو وہ فقیر کی گاڑی, اُس کا ٹھاٹ دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں اور جو آخرت کے طالب ہوں وہ فقیر کی شریعت سے گھبرا کر لوٹ جاتے ہیں, صرف وہ شخص فقیر کے ساتھ چل سکتا ہے جو خالص اللّٰہ کی طلب رکھتا ہو۔ مگر میں نے دیکھا کہ سلطان محمد اصغر علی (رح) اتنے سخی بزرگ ہیں کے ہر شخص خواہ وہ طالب دنیا ہی کیوں نہ ہو آپ (رح) اُسے اپنے سائے میں جگہ دیتے ہیں اور اُسے طالبِ دنیا سے طالب مولا بننے کا درس دیتے ہیں۔" اُس کے دوست نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا "یہ دنیا دار والی بات تو ٹھیک ہے لیکن آخرت والی بات سمجھ نہیں آئی, جو شخص اپنی آخرت کی فکر کر رہا ہے اُس سے کیوں دور رہنا چاہتے ہیں اولیاء.. اور کیا فکرِ آخرت اور اللّٰہ کی چاہت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔؟" اُس نے اپنے دوست کے سوال سُن کر کہا "دیکھو فکرِ آخرت جنت حاصل کرنے یا دوزخ سے بچ جانے کی کوشش کا نام ہے لیکن اللّٰہ کا طالب, اللّٰہ سے اللّٰہ ہی کو مانگتا ہے۔ اللّٰہ کا قُرب و دیدار ہی اُس کی جنت ہوتا ہے اور اللّٰہ کے قُرب و دیدار سے محرومی اُس کے لیے مقامِ دوزخ کے مُترادف ہے۔ دنیا سے بچ کے چلنے کی کوشش کرنے والے بہت ہیں لیکن اُن میں اللّٰہ کا طلبگار کوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ اور اللّٰہ والے کسی سے دور نہیں رہنا چاہتے, وہ تو چاہتے ہیں کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک حق پہنچ سکے لیکن لوگوں کی اپنی خواہشات اُنہیں اولیاء اللّٰہ کے قُرب سے دور کر دیتی ہیں۔ جو دنیا کا طالب ہو گا وہ ولی کی دنیا دیکھ کر اُس کی کاملیت پہچانے کی کوشش کرے گا, جو آخرت کا طالب ہو گا وہ ولی کے ظاہری اعمال کی کھوج میں لگا رہے گا, اور اُس کی شریعت کی پیمائش کے ذریعے ولی کی کاملیت کا اندازہ کرنے کی کوشش کرے گا, لیکن جو خالص اللّٰہ کا طالب ہوتا ہے وہ مُرشد کو اپنا آپ سونپ کر, اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی سے مُرشد کی کاملیت کی شناخت کرتا ہے۔ اللّٰہ والے کسی کو یہ نہیں کہتے کہ چلے جاؤ تم دنیا دار ہو۔ لوگ اپنی سوچ کے ذاویے سے یہ فیصلہ خود اپنے لیے طے کرتے ہیں کہ انہوں نے ولی کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔
یہ اللّٰہ کا بنایا نظام ہے کہ جب لوگوں کی اکثریت گناہ پر آمادہ ہو جائے تو اُن پے جہالت چھا جاتی ہے اور حق اُن کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اولیاء کے گدی نشینوں کے ٹھاٹ کسی بڑے ہسپتال کی آرائش کی طرح ہیں جو اُن کی طرف آنے والے لوگوں کو فِلٹر کرتی رہتی ہے تاکہ جو سچ میں بیمار ہے اور شفا حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی فیس ادا کرنے کو تیار ہے وہی مریض ہسپتال میں داخل ہو۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سچا مُرید, جھوٹے مُرشد سے بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے مگر جھوٹا مُرید, سچّے مُرشد سے بھی کُچھ نہیں سیکھ پاتا۔
(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 14)
----------------
وہ خاموش ہوا تو اُس کے دوست نے کہا "اچھا چلو مان لیا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے لیکن اولیاء کے درباروں پر جو شرک ہوتا ہے اُس کے بارے میں کیا کہو گے تم۔؟ یہ جو لوگ جا کے اولیاء کے مزاروں پے سجدے کرتے ہیں یا مُرشد کے ہاتھ, پاؤں چومنے کے بارے میں کیا رائے ہے تمھاری۔؟" اُس نے اپنے دوست کے سوال پر ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے کہا "میں اسی سوال کے انتظار میں تھا, خیر سجدہ صرف اللّٰہ کی ذات کو کیا جاتا ہے, سجدے کی بنیاد سجدہ کرنے والے کی نیت پر ہے اگر وہ سجدے کی نیت رکھتا ہے تو کسی بھی جگہ جُھکنا سجدہ کہلائے گا لیکن اگر وہ سجدے کی نیت نہیں رکھتا تو کسی بھی جگہ جُھکنا سجدہ نہیں کہلائے گا۔ دوسرا یہ کہ سجدہ سامنے موجود چیز کو نہیں بلکہ دل میں موجود ذات کو ہوتا ہے۔ کسی مزار پے جا کے سر جُھکانے سے سجدہ نہیں ہو جاتا, جو والدین انسان کو اِس دنیا میں لے کر آتے ہیں اُن کی زندگی میں, اُن کی تعظیم میں, اُن کے ہاتھ پاؤں چومنا یا اپنی اولاد کو محبت سے بوسہ دینا سمجھ میں آتا ہے, اُن کے مر جانے پر اُن کی قبر سے لپٹ کر رونا یا اُسے چومنا بھی سمجھ آتا ہے, لیکن اللّٰہ کی محبت میں اللّٰہ کی راہ دکھانے والے کے ہاتھ, پیر چومنا لوگوں کو شرک محسوس ہوتا ہے۔ والدین یا اولاد کے ساتھ محبت کا رشتہ اپنے لیے ہوتا ہے اِس لیے اُنہیں بوسہ دینے میں شرک نہیں ہوتا لیکن مُرشد کیونکہ اللّٰہ سے ملانے والا ہے اور اُس سے محبت بھی اللّٰہ کی خاطر کی جا رہی ہے تو وہی عمل یہاں آ کر شرک بن جاتا ہے۔؟ عام طور پے شرک اللّٰہ کی ذات یا صفات کو کسی اور سے ملانے کو کہا جاتا ہے۔ وہ عمل جس کے لائق صرف اللّٰہ کی ذات ہے وہی خیال یا وہی مقام کسی اور کو دینا شرک کہلاتا ہے۔ لیکن اِس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون شرک کر رہا ہے اور کون نہیں۔؟ اور یہ کہ شرک صرف عبادت میں ہوتا ہے یا زندگی کے باقی اعمال بھی شرک بن سکتے ہیں۔؟ ہم دوسرے مذاہب کے لوگوں کو مشرک کہتے ہیں کہ وہ اللّٰہ کے سوا اور کسی اور کی عبادت کرتے ہیں لیکن اپنا شرک ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم مال پے, دوستی پے اور دنیاوی پہنچ پے بھروسا کرتے ہیں, جب کوئی تکلیف آتی ہے تو ڈاکٹر اور دوا پے بھروسا کرتے ہیں, مرد و عورت ایک دوسرے کی محبت میں اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ اگر وہ نہ مل سکے تو اپنی پوری زندگی اُس کے غم میں گُزار دیتے ہیں یا پھر زندگی ہی ختم کر لینے کا سوچتے رہتے ہیں۔ ہم محبت میں, بھروسے میں, اعتماد کرنے اور اُمید رکھنے میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اللّٰہ سے ذیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟ ایک عورت یا مرد کی نارسائی کے غم کو عمر بھر دل سے لگا کر جیتے رہیں گے لیکن اِس نارسائی کو اللّٰہ کی رضا مانتے ہوئے خوشی خوشی زندگی گُزارنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اصل شرک تو یہ ہوا کہ اللّٰہ سے ذیادہ کوئی شخص آپ کی زندگی میں ضروری ہے۔
کسی کے دل میں کس کے لیے کتنی محبت ہے یہ یا تو وہ خود جانتا ہے یا پھر اللّٰہ ۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو عام طور پر ممنوع ہیں لیکن کسی خاص حال میں اُن کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اللّٰہ نے اُسے پسند بھی فرمایا۔ جیسے اپنے آپ کو اذیت دینا منع ہے لیکن جب حضرت اویس قرنی رض نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک کا سُن کر اپنے سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کی محبت کو پسند فرمایا۔ صحابہ کرام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ اُن کے وضو کا پانی زمین پے گرنے نہ دیتے بلکہ اُس پانی کو پی لیا کرتے تھے, آپ کے ناخن مبارک یا بال مبارک بھی سنبھال کے رکھ لیا کرتے تھے۔ آخر کیوں وہ اتنی محبت کرتے تھے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے۔؟ یقیناً اِس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم وہ ہستی ہیں جنہوں نے صحابہ کو اللّٰہ کی پہچان عطا کی اور انہیں طالبِ مولا بنایا۔ صحابہ کرام نے کون سی حدیثوں کی کتابیں پڑھی تھیں جو اُن کے دل کُھل گئے تھے۔؟ کیا یہ سب صحبتِ رسول کا اثر نہیں تھا۔ بیشک رسولِ خدا کی صحبت میں بیٹھنے سے اُن کے دل کُشادہ ہوئے اور اُنہوں نے اللّٰہ کی راہ پائی۔ اور اللّٰہ والوں کے قُرب سے ہی اللّٰہ کی راہ ملتی ہے۔
جو شخص اللّٰہ کی راہ سکھائے اُس انسان سے سیکھنے والوں کو خود بہ خود والہانہ محبت ہو جاتی ہے۔ ایک شخص اپنے سکھانے والے سے سیکھ کر اللّہ کی محبت میں جتنا ڈوبے گا اتنی ہی محبت اُسے اپنے سکھانے والے سے ہوتی جائے گی, اِسی لیے لوگ اللّٰہ کی راہ سکھانے والوں کا قُرب کھوجتے ہیں تاکہ لوگ اللّٰہ کے قریب ہو سکیں.
کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اللّٰہ والوں کے جتنا زیادہ قریب ہوتے جائیں گے اُتنا ہی وہ اللّٰہ کے قریب ہو جائیں گے۔ اگر کوئی شخص قسمت سے کسی مومن صفت انسان سے ملتا ہے اور اُس سے اللّٰہ کے قُرب کی راہ حاصل کرتا ہے تو وہ اُس کے ہاتھ, پاؤں کیا, اُس کی جوتیوں تلوے بھی مل جائیں تو وہ اُسے بھی عقیدت سے چومے گا۔ اپنی محبت تو سب کو سمجھ آتی ہے لیکن دوسرے کی محبت۔؟" اُس نے طویل تقریر کرتے کرتے ایک پل رُک کر کہا۔ "دوسرے شخص کی محبت سمجھنا آپ کا کام نہیں ہے, اور نا ہی دوسرے کی محبت آپ کی سمجھ میں آئے گی کیونکہ محبت سمجھنے کی چیز نہیں ہے۔ افسوس کہ ہم سب اپنی اپنی محبت میں ڈوبنے کی جگہ دوسرے کی محبت پے تنقید کرنے میں محو رہتے ہیں۔ اللّٰہ اگر انسان کے دل میں ہے تو اُس کا سجدہ کسی بُت کے سامنے بھی مقبول ہے اور اگر اللّٰہ دل میں نہیں ہے تو کعبے میں بھی سجدہ بے سُود ہے۔ مومن کے دل کو اللّٰہ نے اپنا عرش کہا ہے اور فرمایا کہ نہیں سماتا میں زمین و آسمان میں اور سماتا ہوں اپنے مومن بندے کے دل میں۔ اگر کسی کو کوئی مومن بندہ مل جائے تو اُس پے اُس مومن کی تعظیم واجب ہو گی کہ نہیں۔؟ چلو تعظیم کے حوالے سے ایک اور بات کہتا ہوں کہ اللّٰہ نے موسیٌٰ کو ایک جھاڑی میں سے آواز دی اور کہا "اے موسیٰ میں تیرا رب ہوں" تو حضرت موسیٌٰ نے اُس جگہ اپنے رب کو سجدہ کیا۔ اب سوچو کہ اُس جھاڑی پے اللّٰہ نے ایک تجلّی فرمائی تھی تو اللّٰہ کے نبی نے وہاں سجدہ کیا تھا, جب اللّٰہ کی ذات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے ایک جھاڑی کو یہ مقام حاصل ہے کہ اللّٰہ کا نبی اُس کے سامنے سجدہ کرے تو سوچو کہ جس شخص کے دل کو اللّٰہ نے اپنا عرش کہا ہو اُس مومن بندے کو کیا مقام حاصل ہو گا اور اُس کی ظاہری زندگی میں اور وفات کے بعد اُس کی کس قدر تعظیم کرنا لوگوں پے فرض ہو گا, کیا کوئی سوچ سکتا ہے۔؟" اُس نے اپنے دوست کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی طرف سے شاید اولیاء کے ادب میں واضح ترین دلیل پیش کی اور خاموش ہو گیا۔ اُس کے دوست نے کہا "اِس کا مطلب تم اولیاء کے مزاروں پے سجدہ کرنے کے حق میں ہو۔؟" اُس نے کہا "میں صرف اِس بات کے حق میں ہوں کہ کسی کی عبادت, عقیدت یا عقیدے کی وجہ سے اُس کو کافر, مشرک یا کچھ اور کہنے کی رِیت ختم کی جائے, میں صرف اِس بات کے حق میں ہوں کے ہم سب مل کے اپنے اندر کی تقسیم کو ختم کریں, میں نہیں کہتا کہ سب لوگوں کو اولیاء کے درباروں پے ماتھا ٹیکنا شروع کر دیں میں صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی کے عقیدے کی وجہ سے اپنے اندر اُس کے لیے بدگمانی پیدا مت کیجیے, جن چیزوں پے اللّٰہ فیصل ہے اُن چیزوں کا فیصلہ اللّٰہ ہی کو کرنے دیجیئے۔ کسی شخص کے لیے دل میں نفرت رکھ کر, کسی کے بارے میں بُرا سوچ کر ہم صرف اپنا وقت برباد کرتے ہیں, اگر کوئی اتنا ہی بُرا ہے تو اُس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟ وہی وقت کچھ اچھا سوچنے میں صرف کیجیئے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ "اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح شفاف رکھو کیونکہ سوچ سے ایمان بنتا ہے۔" لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے مذہب و مسلک کے نام پر, رنگ و نسل یا مُلک و قوم وغیرہ کے نام پر, نفرت پیدا کرنا شیطان اور اُس کے چیلوں کا کام ہے, اسی ذریعے سے وہ لوگوں کی سوچ کو ایک دوسرے کے لیے آلودہ کر کے اُن کا ایمان کمزور کرتا ہے۔"
اُس دن اپنے دوست کو سمجھاتے ہوئے اُسے خود بہت ساری باتیں سمجھ آ گئی تھیں۔ ملنے والے ہر شخص نے اُس سے اپنی اپنی سمجھ کی بات کہی اور اُس نے اپنی سمجھ شیئر کرنے میں کبھی کنجوسی نہیں کی۔ جس کا جہاں تک دل مانا اُس نے وہاں تک اُس کی بات مانی, کوئی ساتھ چلا اور کوئی دور ہوا لیکن اُس نے کبھی آنے جانے والوں کی ذیادہ پرواہ نہیں کی کیونکہ وہ اکیلا چلا تھا اور ابھی تک اُس میں اکیلے چلنے کا حوصلہ باقی تھا, اور اُس کا سفر ابھی جاری تھا۔
محمد کامران احمد
(جاری ہے)
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔