منگل، 21 اپریل، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) ٢١ تا ٢٥ محمّد کامران احمد

٢١ فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی)
----------------
اُس کی شادی کے پہلے دو سالوں میں اللّٰہ نے اُسے ایک بیٹی اور ایک بیٹے سے نوازا۔ اُس کی بہت خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کا نام اپنے مُرشد پاک سے پوچھ کے رکھے لیکن جب بھی اُن کے سامنے جاتا تو سب بھول جاتا کہ کیا سوال کرنا تھا۔ سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے لیے صرف اُسی کی نہیں بلکہ تقریباً ہر مُرید کی یہی کیفیات تھیں۔ لوگ ٹِکٹِکی باندھے اُنہیں دیکھا کرتے اور دیکھتے ہی رہ جاتے۔
ایک قلیل آمدنی کے باعث اُس کے معاشی حالات مسلسل خراب ہی رہتے لیکن وہ کبھی مایوس یا بہت ذیادہ پریشان نہیں ہو پاتا اور وہ پریشان ہوتا بھی کیوں۔؟ اُس نے ہمیشہ سے یہی دیکھا کہ ہر مُشکل شروع شروع میں مُشکل لگتی ہے اور بعد میں آسان ہو جاتی ہے۔
ایک روز اُس کی بیوی نے اُس سے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کیا تو اُس نے حسب معمول مطمئن لہجے میں کہا "اللّٰہ خیر کرے گا" تو اُس کی بیوی نے پوچھا "آپ ہمیشہ اتنے مُطمئن کیسے رہتے ہیں, کیا آپ کو کسی مسئلے سے پریشانی نہیں ہوتی۔؟" تو اُس نے مُسکرا کر کہا "پریشان ہو کر ہم مسائل کو اپنے اوپر سوار کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے, اگر پریشان ہونے سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو بتاؤ, دونوں مل کے پریشان ہوتے ہیں, اور اگر پریشان ہونے سے حل نہیں ملنے والا تو کیوں نہ اللّٰہ سے پُر امید رہتے ہوئے مطمئن رہ کے کوشش کرتے ہوئے اللّٰہ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔؟ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور وقت آنے پے ظاہر ہو جاتا ہے۔ اُس حل تک پہنچنے کا سفر استقامت اور اضطراب دونوں سے طے کیا جا سکتا ہے یہی استقامت اور اضطراب ہماری اپنی نظر میں ہمارے ایمان کا فیصلہ کرتا ہے جو ہماری روح کے سکون یا پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اللّٰہ کو ہمیں آزمانے کی حاجت نہیں ہے, یہ آزمائش تو اِس لیے ہوتی ہے تاکہ ہم خود اپنا آپ پہچان سکیں, ہم سب خود ہی اپنے اچھے بُرے عمل کے گواہ ہوتے ہیں, اپنے ایمان, استقامت, عجز, عشق, راہ یا گُمراہی پے ہم خود ہی دال ہوتے ہیں۔ دل کا سکون اللّٰہ کی امان ہے اور مایوسی اور پریشانی شیطان کا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اللّٰہ سے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بدگمان کر کے اُن کا ایمان کمزور کرتا ہے۔
"مطلب, آپ پریشان نہیں ہوتے۔؟" اُس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا۔ اُس نے کہا "ہو جاتا ہوں, اکثر ایسی سوچ آتی ہے کہ کچھ غلط ہو جائے گا لیکن پھر دل میں مُرشد پاک کی آواز گونجتی ہے "اللّٰہ پاک خیر کَرسی" اور دل کو یقین ہو جاتا ہے کہ خیر ہی ہو گی اور میں چاہ کر بھی پریشان نہیں ہو پاتا۔ میرا فہم مجھے سمجھاتا ہے کہ جو ہوتا ہے اللّٰہ کی رضا سے ہوتا ہے, سوچو وہ ذات جس کی مرضی کے بنا ایک پتّا بھی نہیں ہلتا, اُس کی رضا کے بغیر ہماری زندگی میں بدلاؤ کیسے آ سکتا ہے۔؟ تو جو بھی اچھا یا بُرا ہو گا وہ یقیناً اللّٰہ کی رحمت ہی ہو گی., سکون.., اللّٰہ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگنے میں نہیں بلکہ اللّٰہ سے اللّٰہ کو مانگنے میں ہے, جب ہم اُس سے سب کچھ مانگتے ہیں مگر اُس کی ذات نہیں مانگتے تو ہم اپنے اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔
اُس کی بیوی نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "اگر سب اللّٰہ کی مرضی سے ہوتا ہے تو یہ جو ظلم و بربریت کا بازار لگا ہوا ہے کیا یہ سب بھی اللّٰہ کی رضا ہے۔؟" تو اُس نے کہا کہ "جو ہوتا ہے اللہ کی منشا اور اُس کی حکمت سے ہی ہوتا ہے، اللہ نے ایک نظام ترتیب دیا ہے جس کی بنیاد لوگوں کے دل ہیں۔ جب کسی قوم کے لوگ بُرائی کو اپنے دلوں میں بسا لیتے ہیں تو برائی اُن میں عام ہو جاتی ہے۔ انسان جس شے کی جستجو کرتا ہے وہی پاتا ہے۔ غور سے اپنے ارد گرد دیکھو یہ تمام بُرائیاں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہیں ہم سب ان برائیوں کے خواہشمند ہیں۔ ہم اپنے گُمان کو شر سے سجائے رکھتے ہیں۔ آنکھوں سے زنا کی لزت لیتے ہیں, شر میں ڈوبی باتوں کو کہنا سُننا پسند کرتے ہیں۔ گناہ تک رسائی ہو یا نا ہو لیکن ارادہ ضرور رکھتے ہیں۔ گناہ اور اُس کا ارادہ ہماری سوچ میں اس قدر جڑ پکڑ چُکا ہے کے ہم اکثر برملا کہتے ہیں کے آج کے دور میں پارسا وہ ہے جسے گناہ کا موقع نہیں ملا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کے ہم سب کے سب گناہگار ہیں۔ جسے موقع ملا وہ بھی اور جسے موقع نہیں ملا وہ بھی۔ اللہ کے گناہگار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے، انسانیت کے گناہگار۔ کیونکہ اپنی سوچ کو آلودہ کر کے ہم اپنے وقت کے لوگوں کی سوچ میں اپنا ووٹ کاسٹ کر دیتے ہیں۔ نسلِ انسانی کی سوچ اُس کا آنے والا کل طے کرتی ہے اگر اکثریت کی سوچ مثبت ہو گی تو لوگ خوشحال ہوں گے اور اگر اکثریت کی سوچ منفی ہو گی تو معاشرے میں انتشار پیدا ہو گا۔ اللہ نے کبھی لوگوں کو برباد نہ کیا بلکہ ہمیشہ لوگوں نے خود اپنے ایمان خراب کر کے خود کو برباد کیا۔
جو ہمیں ملنا ہوتا ہے وہ ہمیں ہر حال میں مل کر رہتا ہے اور جو نہیں مِلنا وہ کتنی ہی فریاد کرو, وہ نہیں ملنے والا کیونکہ اکثر ہم دوسرے شخص کا نصیب مانگ رہے ہوتے ہیں, تو اللّٰہ کسی اور کا نصیب کسی اور کو نہیں دیتا, پھر انہی خواہشات کے ادھورے پن کے پیچھے بھاگتے ہوئے لوگ اللّٰہ سے دور ہو جاتے ہیں, جبکہ اللّٰہ نے خواہشات کو اِس لیے ہمارے اردگرد بِکھیرا تاکہ ہم خود اپنے لیے فیصلہ کر سکیں کہ ہمیں کیا چاہیے.. دنیا, آخرت یا اللّٰہ کی ذات میں سے کسی ایک کو, انسان کو خود ہی چُننا ہوتا ہے, جو اللّٰہ سے اللّٰہ کو طلب کرتا ہے اُس کے لیے اللّٰہ کے سِوا ہر شے کی طلب ہوِس بن جاتی ہے۔ اللّٰہ کو طلب کرنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری زندگی کے سب کام کاج چھوڑ کے عبادت میں محو ہو جائے بلکہ اللّٰہ کی طلب یہ ہے کہ انسان اپنی ہر طلب کا رُخ اللّٰہ کی جانب موڑ دے.. کھانا, پینا, جاگنا, سونا سب اللّٰہ کے لیے, اپنا جینا, مرنا اللّٰہ کی طلب میں ڈھالنے کے لیے اپنے جینے کی وجہ اللّٰہ کی ذات کو ماننا پڑتا ہے, میں تم سے یہ سوچ کر بھی محبت کر سکتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور یہ بھی سوچ سکتا ہوں کہ تم وہ ہو جسے اللّٰہ نے میرے لیے بنایا۔ اگر انسان اپنی ہر محبت کو یہ سوچ کے نبھائے کہ یہ رشتہ اللّٰہ نے اُس کے لیے بنایا ہے تو ظاہری زندگی میں, رشتوں میں ایک دوسرے کی قدر بھی ہو گی اور باطن میں بھی سُدھار پیدا ہو گا۔ کیونکہ انسان کی خواہش جس قدر خالص ہو گی اُتنا ہی وہ اللّٰہ کے قریب ہوتا جائے گا اور خواہش کا خالص ہونا یہی ہے کہ ہر خواہش اللّٰہ کے لیے خاص ہو جائے۔ ثواب و عذاب کا مطلب اللّٰہ کا قُرب یا اُس سے دوری ہونا چاہیے۔ ہم نماز میں زبان سے بہت سی آیات پڑھتے ہیں اور اُن آیات کے پیچھے اپنے دل میں ایک معنی رکھ لیتے ہیں۔ جب میں چھوٹا تھا تو اکثر نماز میں اللّٰہ سے خود کو صِراطِ مستقیم دکھانے کا یا سیدھی راہ چلانے کا سوال کرتے ہوئے ساتھ ہی دل میں اُس راہ کی حدیں مقرر کر لیتا تھا کہ اللّٰہ مجھے سیدھی راہ چلانا لیکن میں مولوی صاحب کی طرح داڑھی نہیں رکھوں گا اور فلمیں دیکھنا بھی میں نہیں چھوڑ سکتا اور اِس کے علاوہ جو جو چیزیں مجھے اچھی لگتی تھیں, سب سوچ لیتا تھا کہ فلاں فلاں کام میں نہیں چھوڑوں گا لیکن پھر بھی مجھے سیدھی راہ چلانا۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا عجیب سوچ تھی کہ راہ چلانے کا سوال بھی اور اپنی مرضی کے وبال بھی۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی زبان سے کہے جانے والے الفاظ کا اپنے دل میں کچھ اور مفہوم ضرور رکھتے ہیں اور ہماری زندگی کی کتاب میں وہی مفہوم درج کیا جاتا ہے۔ میں نے سُلطان باہو رح کی کتاب رسالہ روحی شریف میں پڑھا کہ اہل اللّٰہ اس دعا سے کہ .... رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ .... یہ مُراد لیتے ہیں کہ اے اللّٰہ مجھے دنیا میں بھی اپنا قُرب عطا فرما, آخرت میں بھی اپنا قُرب عطا فرما اور مجھے اپنے ہجر کی آگ سے محفوظ فرما, کہ طالب اللّٰہ کے لیے تمام تر بھلائی اللّٰہ کے قُرب میں ہے اور اللّٰہ سے دوری کی آگ کسی بھی نارِ جہنم سے شدید ہے۔ ہم الفاظ کے تلفظ میں اِس قدر دھیان دیتے ہیں کہ معنی سوچنا ہی بھول جاتے ہیں۔ ضرورت اصل میں معنی میں ڈوبنے کی ہوتی ہے اگر ہمارے معنی درست ہو جائیں تو الفاظ کا غلط تلفظ بھی درست مطلب پیش کرے گا اور اگر معنی ہی درست نہ ہوئے تو زیر زبر کی درستگی بے معنی ہے۔" اُس کی بیوی نے کہا "لیکن قرآن صحیح تلفظ سے پڑھنا افضل ہے, الفاظ کی درستگی ضروری ہے, وہ اُس بُت پرست کا واقع, جو بُت کے سامنے یاصنم کہتے کہتے یاصمد کہہ بیٹھا تھا, تو اللّٰہ نے اُسے اپنا بندہ مان کر جواب دیا تھا, اگر وہ پہلے ہی یاصمد کہہ کے پُکار لیتا تو اُسے پہلے ہی جواب مِل جاتا, اِس کا مطلب معنی کے ساتھ الفاظ کی درستگی بھی ضروری ہے۔" اُس نے غور سے اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا "الفاظ کی درستگی تبھی قابلِ قبول ہوتی ہے جب معنی درست ہوں, اپنے رب کو یاصنم کہتے کہتے یاصمد کہہ کر پُکارنے والے کے دل میں کچھ محبت بھی رہی ہو گی جس نے اُس کی پُکار کو عرش تک پہنچایا۔
ایک روز میں شام سات آٹھ بجے کے قریب گھر آیا تو بارش میں ایک لڑکے کو گھر کے باہر کھڑے دیکھا, وہ لڑکا سامنے مارکیٹ میں غبارے بیچا کرتا تھا کسی دِن گُزارے لائق بھی پیسے نہ ملتے تو میرے پاس آ جاتا تھا میں اُس کی زیادہ مدد تو نہ کر پاتا لیکن کھانے کے لیے اُسے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتا تھا, اکثر ایسا ہوتا کہ گھر میں اتنا ہی کھانا ہوتا جو صرف میرے لیے ہوتا تو وہ کھانا میں اُسے دے کر خود بھوکا سو جاتا تھا, اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ اُسے کھانا دینے کے بعد محلے میں کسی کے گھر سے کوئی کھانے کی چیز آ جاتی تھی۔ اُس روز وہ لڑکا گھر کے باہر کھڑا میرے آنے کا انتظار کر رہا تھا, میں آیا تو اُسے دیکھ کے میں سمجھ گیا کہ آج بارش کی وجہ سے اُس کی کچھ آمدنی نہیں ہو سکی, میں نے اُس سے کہا "آپ یہاں بارش میں کیوں کھڑے ہیں, دروازہ بجا کر کھانا مانگ لیتے" تو اُس نے کہا "میں نے مانگا تھا کھانا لیکن آپ کے دادا نے مجھے ڈانٹ دیا, اِس لیے میں آپ کا انتظار کر رہا تھا" اُس کی بات سُن کے مجھے دُکھ کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی محسوس ہوئی, میں نے فوراً اپنے کمرے کا دروازہ کھول کے اُسے اندر بُلایا, سوچا کے اپنا کوئی پُرانا لباس اُسے دے دیتا ہوں لیکن دل نے ملامت کی کہ اللّٰہ کی راہ میں دینے کی بات ہوتی ہے تو پُرانی چیزوں کا ہی خیال کیوں آتا ہے۔؟ اِس خیال کے آتے ہی میں نے بکسے سے اپنا نیا شلوار قمیض نکالا جو صرف عید کے دن ہی پہنا تھا, وہ میرا پسندیدہ ترین جوڑا تھا, میں نے بہت شوق سے سِلوایا تھا, میں اُسے کوئی دوسرا نیا جوڑا بھی دے سکتا تھا, میرے پاس کافی جوڑے تھے لیکن خود کو پُرانا لباس دینے والی سوچ پر سزا دینے کے لیے میں نے اُسے وہ والا جوڑا دیا اور اُسے جوڑا تبدیل کرنے کے لیے دے کر میں کھانا گرم کرنے چلا گیا اور کھانا لا کر اُسی کے ساتھ کھانے بیٹھ گیا۔ میرا اُس کے ساتھ بیٹھ کے کھانا شاید اُسے بہت عجیب لگ رہا تھا اور میں کھانا کم ہونے کی وجہ سے رُک رُک کر کھا رہا تھا تاکہ وہ زیادہ کھا سکے۔ اُس نے شاید کھانے کے معاملے میں میری سُستی کو کچھ اور سمجھا اور مجھے تسلی دینے کے لیے کہا "بھائی آپ پریشان نا ہوں ہم بھی مسلمان ہیں آپ میرے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں" میں نے کہا "یہ بات نہیں ہے بھائی میں نے شام کو کھانا دیر سے کھایا تھا اِس لیے ابھی بھوک نہیں ہے مجھے, اور میرے لیے کسی بھی مذہب, رنگ یا نسل سے بڑھ کر  آپ کا انسان ہونا معنی رکھتا ہے, مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مسلمان ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہے, انسان اپنی انسانیت سے بُلند یا پست ہوتا ہے, بس اِس کے علاوہ انسانوں میں اور کسی بنیاد  پے فرق نہیں کرنا چاہیے," مجھے لگا کہ میں شاید اُس کے فہم سے بُلند بات کر رہا ہوں لیکن میں بولتا رہا تاکہ وہ سارا کھانا کھا سکے اور بولنے کے بہانے مجھے کھانے سے ہاتھ روکنے کا بہانا مل جائے, بیچ بیچ میں, میں اُس کا ساتھ دینے کے لیے چھوٹے چھوٹے نوالے کھاتا رہا تاکہ اُسے میرے رُکنے کا احساس کم سے کم ہو, پھر میں نے سگریٹ جلا لیا تو اُس نے کھانا کھاتے کھاتے پھر سے بات شروع کی اور کہا "سَر جی ہم بس نام کے مسلمان ہیں, نالوں کے کنارے جُگیوں میں رہتے ہیں, اکثر ہماری بستیاں بارش یا میونسپالٹی کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں, ہم سبھی لوگ صبح نکلتے ہیں سارا دن کوئی بھیک مانگتا ہے, کوئی میری طرح گھوم پھر کے کچھ بیچتا ہے ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کر کے دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں, اور میں نے دیکھا کہ اللّٰہ بھوکا اُٹھاتا ضرور ہے مگر بھوکا سُلاتا نہیں, شروع شروع میں جب کام شروع کیا تو کبھی کبھی گھبراتا تھا کہ بھوک ہوئی اور روٹی نہ ملی تو کیا ہو گا لیکن جلدی یا دیر سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے, آج بھی ایسا ہی کچھ ڈر تھا لیکن پھر آپ آ گئے اور کھانے کے ساتھ ساتھ اتنے اچھے کپڑے بھی مِل گئے" میں نے کہا "اِس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے ہر انسان کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔" ساتھ ساتھ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اُسے کم فہم سمجھنا میری اپنی کم فہمی تھی۔
(جاری ہے)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 22)
----------------
مجھے خاموش دیکھ کر اُس نے کہا "سَر جی آپ سے ایک سوال پوچھوں۔؟" میں نے کہا "ہاں پوچھو, مجھے جتنی سمجھ ہوئی, اُتنا ضرور بتاؤں گا, نہیں پتا ہوا تو کہہ دوں گا کہ نہیں معلوم," تو اُس نے دوبارہ اپنی بات وہیں سے شروع کی اور کہا "ہم لوگ جُگیوں میں رہتے ہیں, ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم مُسلمان ہیں, لیکن ہماری بستی میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں کلمہ بھی صحیح سے نہیں آتا, نماز اور قرآن تو بہت دور کی بات ہے, ہمارے کپڑے نالوں کے پانی سے دُھلتے ہیں, جس کی وجہ سے ہر وقت ہمارے جسم سے اور کپڑوں سے بدبو آتی رہتی ہے, اکثر ہمارے ہاں نکاح بھی ایسے ہی پڑھاتے ہیں کہ سب اکھٹے ہو کر بس دونوں میاں بیوی سے قبول قبول کہلا دیتے ہیں, ہمیں چھ کلمے پڑھانے والے بہت مشکل سے ملتے ہیں, کیونکہ ہماری بستی میں آنے سے یا ہمارے ساتھ بیٹھنے سے اکثر لوگوں کا دین, مذہب خراب ہو جاتا ہے" میں نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن ڈھونڈا جائے تو کوئی نہ کوئی مِل ہی جاتا ہے" اُس نے کہا "ہاں مِل جاتا ہے لیکن ہماری بستی کے بہت سے لوگ کئی بار اِس چکر میں ذلیل ہو چُکے ہیں۔ میرا بھی ارادہ ہے کہ میں مسجد میں نکاح کروں گا, ورنہ شادی ہی نہیں کروں گا, ہمیں لوگ مسجد میں نہیں آنے دیتے۔ میری بستی کے کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہو چُکا ہے کہ اُنہیں ہاتھ سے پکڑ کر ڈانٹ کر مسجد سے نِکالا گیا, میرے ساتھ بھی ایسا ہوا کئی بار, اور ہم مسجد جائیں تو ہمارے اپنے دوست وغیرہ مذاق اُڑاتے ہیں کہ تیرے کپڑے ہی پاک نہیں ہیں اور تو نماز پڑھتا ہے, لیکن اکثر میرا بہت دل کرتا ہے نماز پڑھنے کا تو میں کچھ بیچنے کے بہانے مسجد کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور جب نماز شروع ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو مجھے مسجد سے نِکاتے ہیں وہ اپنی نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں تو کچھ دیر بعد میں اپنا سامان مسجد کے باہر ہی چھوڑ کر چُپکے سے مسجد کے اندر چلا جاتا ہوں اور کسی کونے میں چُھپ کے کھڑا ہو جاتا ہوں اور نمازیوں کی طرح جُھکتا ہوں اور سلام پھیرتے ہی بھاگ کے مسجد سے باہر آ جاتا ہوں کیونکہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو اگلی دفعہ سے مسجد کے باہر کچھ بیچنے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے, تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا میری نماز قبول ہوتی ہو گی۔؟"
اپنی بیوی کو یہ واقع بتاتے بتاتے اُس کی آواز بھرّا سی گئی تھی اُس نے کہا "میرا بس نہیں چلا کہ میں عقیدت سے اُس لڑکے کے ہاتھ چومتا اور ایسی نماز پڑھنے پر اُسے مُبارکباد دیتا" اور ایک پل رُک کر اُس نے شرارت سے کہا "ویسے کافی فلمی سا سین ہو جاتا نا, اگر میں سچ میں اُس کے ہاتھ چوم لیتا تو۔؟" اُس کی بیوی نے مُسکرا کر کہا "ہاں لیکن آپ نے اُسے جواب کیا دیا۔؟" تو اُس نے کہا "میں نے اُسے کہا کہ آپ کی نماز قبول ہی نہیں مقبول ہے کیونکہ اُس میں کچھ نا ہونے کے باوجود سب کچھ ہے, اللّٰہ کو اپنے بندے کے لباس, انداز یا آیات کے تلفظ سے غرض نہیں ہے, یہ سب تو نماز کا ادب ہے, نماز تو اللّٰہ کے حضور خلوص سے حاضر ہونے کا نام ہے, ہو سکتا ہے کہ اُس پوری جماعت کی نماز ایک تمہاری نماز کے باعث قبول ہو جاتی ہو, اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اُس جماعت میں موجود پاک کپڑوں اور صحیح تلفظ سے نماز پڑھنے والوں میں سے کسی کی نماز قبول نہ ہو, لیکن آپ کی نماز ضرور قبول ہوتی ہے, اگر آپ کو کلمہ وغیرہ نہیں آتا تو میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں, لیکن نماز اور کلمے کے الفاظ و تلفظ میں اتنا مت کھو جانا کہ تم سے اللّٰہ کے لیے یہ خلوص کھو جائے, اللّٰہ تمہیں جب بھی یاد آئے تم اُسے پُکار سکتے ہو, اللّٰہ تک وہ الفاظ پہنچتے جو ہم اپنے دل سے ادا کرتے ہیں, زبان و جسم اُس سے بات کرنے کا ادب ہے لیکن اُس کے حضور حاضری دل کی ہوتی ہے, دل حاضر تو جسم و زبان قبول ہے اور دل حاضر نہیں ہے تو نہ جسم قبول نہ زبان," میری بات سُن کر اُسے یقیناً سکون مِلا ہو گا لیکن اُس کی باتوں سے میرے اندر ایک ہیجان پیدا ہو چُکا تھا" اُس نے کمزور سے لہجے میں اپنی بیوی سے کہا "اسی جسم و زبان کے طریق و تلفظ میں کھو کر تو ہم فرقہ واریت کی جنگ چھیڑے بیٹھے ہیں, میرا بہت دل کرتا ہے کہ جیسے شیطان نے اپنی چالوں سے ہم لوگوں کو ٹُکڑے ٹُکڑے کیا ہے ویسے ہی کوئی ایسا شخص اللّٰہ کی جانب سے آئے جو کچھ ایسی چال چلے جو ان سب فرقوں کو, اُن کی اپنی جگہ رکھتے ہوئے, ایک کر سکے۔" اُس کی بیوی نے اُسے ایسے دیکھا جیسے اُس کی دماغی حالت پے شک ہو رہا ہو اور کہا "یہ کیسے ممکن ہے کہ سب لوگ اپنی جگہ پے رہتے ہوئے ایک ہو جائیں۔؟"
تو اُس نے جواباً کہا کہ "اِس فرقہ واریت کی بنیاد یہ ہے کہ ہر مسلک و مذہب کے لوگ اپنا آپ بُلند کرنے کی جگہ دوسرے کو پست ثابت کر کے اپنی بُلندی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں, ہمارا طریقہ, ہمارا مسلک, تمہارے طریقے اور تمہارے مسلک سے افضل ہے, یہ بات ثابت کرنے کے لیے جس دن ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے نام اور وضو, نماز کے طریقوں کی جگہ اپنا کردار اور اپنا تقویٰ پیش کرنا شروع کر دیا اُس روز یہ فرقہ واریت کی آگ خود با خود بُجھ جائے گی۔" اُس کی بیوی نے کہا "آپ کی سوچ اچھی ہے, اللّٰہ کامیاب کرے آپ کو, لیکن آپ نے یہ کیوں کہا کہ کوئی شخص چال چلے۔؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ کوئی معجزہ ہو جائے۔؟" تو اُس نے کہا "شیطان کو اُسی کے کھیل میں رہتے ہوئے ہرانا ہے, تو کچھ تو چال چلنی پڑے گی اور اللّٰہ والوں سے بہتر چال کون چل سکتا ہے, چال کا لفظ میں نے اِس لیے استمعال کیا کیونکہ اِس بازی کو پلٹنے کے لیے کوئی بڑی چال چلنی ہو گی, ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہیں, ہمیں اس خود کشی سے اللّٰہ ہی بچا سکتا ہے, اِس لیے دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ کوئی ایسا شخص ہم میں بھیجے جو ہم انسانوں کو شیطان کے چُنگل سے چھُڑا سکے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے مُرشد پاک کی چلائی ہوئی تحریک ایک نہ ایک دن حضرتِ انسان کو اُس کے مقام سے آشنا کر کے شیطان کے چُنگل سے چھُڑانے کا باعث ضرور بنے گی۔ کاش کے میں بھی لوگوں کے لیے کچھ کر سکتا" اُس نے حسرت بھرے لہجے میں کہا تو اُس کی بیوی نے کہا "انشاءاللّٰہ ایسا ضرور ہو گا, بلکہ ہمارے مُرشد پاک تو بہت پہلے سے یہی کام کر رہے ہیں, ہماری سوچ سے بھی پہلے سے اُن کا یہی مشن ہے کہ انسان کو اُس کے اصل مقام سے آشنا کر کے اُسے شیطان کی قید سے آزادی دِلائی جائے, ہم سب مُریدین اِس بات کے گواہ ہیں, میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں مُرشد پاک کی سکھائی گئی تربیت حاصل کروں اور خواتین کو اِس جانب آنے کی دعوت دوں, لیکن آپ کے بچّے میری جان چھوڑیں تو میں کوئی اور کام کروں نا" اُس نے مسکرا کر کہا "جب اللّٰہ نے کسی کام کے لیے چُن لیا نا, تو خود با خود وقت نکل آئے گا بس دعا کرو کے لوگوں تک اللّٰہ کا پیغام پہنچانے کے کام میں کسی جگہ ہمارا بھی کچھ مصرف ہو, ورنہ زندگی بے کار جائے گی۔"
"ہاں یہ تو ہے," اُس کی بیوی نے تائید کرتے ہوئے اُس سے کہا "اچھا مجھے 'آزمائش' ذرا وضاحت سے سمجھائیں۔" اُس نے کہا "سمجھاتا ہوں, لیکن پہلے وہ یاصنم اور یاصمد والی بات مکمل کر دوں کہ شریعت کی ایک حد ہے, اگرچے کہ تمام مقامات شریعت میں رہ کر طے کیے جاتے ہیں لیکن شریعت کی ایک حد ہے۔ مطلب یہ کہ آپ ظاہری نماز کی حالت میں ایک حد تک اپنا لہجہ سنوار سکتے ہیں, ایک حد تک جسمانی پاکیزگی اپنا سکتے ہیں, نہ تو آپ ہر وقت تلاوت کر سکتے ہیں اور نہ ہی مسلسل جسمانی طور پر ظاہری حالت میں وضو میں رہ سکتے ہیں, اِس کا مطلب یہ ہے کہ جسم و زبان سے نماز پڑھی تو جا سکتی ہے لیکن اُسے قائم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جو چیز قائم ہو جائے وہ ٹوٹا نہیں کرتی تو یقیناً نماز قائم کرنے کا طریقہ انسان کے دل سے جُڑا ہو گا, کیونکہ یہ دل ہی ہے جو سانسوں کے ساتھ ساتھ حرکت میں رہتا ہے, اللّٰہ کو پُکارنے کے لیے دل ہی کی ضرورت پڑتی ہے, اللّٰہ تک اُس کی آواز یاصنم کہتے ہوئے بھی پہنچ رہی تھی کیونکہ وہ اُسے محبت بھرے دل سے پُکار رہا تھا اِس لیے اللّٰہ نے اُس کی ذبان پھیری اور اُسے جواب دیا, اگر بات محض کسی خاص نام سے پُکارنے کی ہوتی تو ہر اُس شخص کو اللّٰہ کی طرف سے جواب ملا کرتا جو اُسے یاصمد کہہ کر پُکارتا, اللّٰہ لامحدود ہے سو اُس کی چاہت بھی لامحدود ہے اِس لیے اُسے چاہنے کے لیے محدود کی حد سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جیسے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ محبوب کو الودع کہنے کا وقت تو اُن پے آتا ہے جو محبوب سے آنکھوں دیکھی محبت کرتے ہیں, کیونکہ جو محبوب کو دل اور روح سے چاہتے ہیں وہ محبوب سے کبھی جُدا ہی نہیں ہوتے۔" وہ خاموش ہوا تو اُس کی بیوی نے کہا "ٹھیک ہے مجھے بات سمجھ آ گئی کہ تلفظ و طریقے کی درستگی سے ذیادہ ضروری دل کی سوچ کا درست ہونا معنی رکھتا ہے۔ اب آپ کو نیند آ رہی تو سو جائیں" اُس نے کہا "جب اِس طرح کی بات چیت ہو رہی ہو تو نیند کہاں آتی ہے, تمھیں نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ" اُس کی بیوی نے کہا "نہیں مجھے بھی نیند نہیں آ رہی, چلیں اب آزمائش کی وضاحت کریں کہ آزمائش کیا ہوتی ہے, کیوں ہوتی ہے, اور کیا ایک دفعہ آزمائے جانے کے بعد دوبارہ اُسی راہ سے بھی آزمائش ہو سکتی ہے کیا۔؟ یا ایک راہ سے آزمائے جانے کے بعد دوبارہ اُس راہ سے آزمائش نہیں ہوتی۔؟

(جاری ہے)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 23)
----------------
اُس نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا "اِس کا مطلب آج تمھارا سونے کا ارادہ نہیں ہے۔ خیر, تم نے کبھی شطرنج کھیلی ہے۔؟اُس کی بیوی نے نفی میں سر ہلایا تو اُس نے کہا "شطرنج میں تین طرح کے مُہرے ہوتے ہیں, ہر مُہرے کی کچھ نہ کچھ چال ہوتی ہے, اول درجے کے مہرے, بادشاہ اور وزیر کسی بھی جانب حرکت کر سکتے ہیں, لیکن یہ مہرے بس ایک ایک ہی ہوں گے, دوسرے درجے کے مُہرے دو, دو ہوتے ہیں فیلہ, گھوڑا اور رُخ, اِن کی الگ الگ مگر خاص چال ہوتی ہے اور یہ کسی خاص جانب ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ اور اِس کے بعد آٹھ پیادے جو صرف سیدھے ہی چل سکتے ہیں لیکن پیادہ کسی کو مار دے تو اُس کی راہ بدل جاتی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ تمہیں شطرنج سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن شطرنج سے میں تمہیں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں, اِس لیے بتا رہا ہوں, دنیا میں انسانوں کو بھی شطرنج کے مُہروں کی طرح زندگی گُزارنی پڑتی ہے, یہاں بھی تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ, خاص لوگ, اور خاص الخاص لوگ۔ شطرنج میں پیادہ سب سے چھوٹا ہوتا ہے لیکن پیادہ اگر پوری بساط پار کر جائے تو وہ رُخ, فیلہ, گھوڑا یا وزیر میں سے کچھ بھی بن سکتا ہے, اگرچے کہ پیادہ سب سے چھوٹا ہے لیکن اُس میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اگر کامیاب ہو جائے تو بادشاہ کے علاوہ کچھ بھی بن سکتا ہے۔ عام انسان کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اگر وہ آزمائش کی بساط پار کر جائے تو عام سے خاص بلکہ خاص الخاص بھی بن سکتا ہے۔ یہ جو مُہروں کی چال ہوتی ہے درحقیقت یہی آزمائش ہوتی ہے۔ جس مُہرے کی جیسی بھی چال ہے اُسے ویسی ہی چال چلنی پڑے گی, مطلب گھوڑا, پیادے کی چال نہیں چل سکتا اور پیادہ گھوڑے کی طرح ڈھائی چال نہیں چل سکتا, اِسی طرح ظاہری دنیا میں عام, خاص اور خاص الخاص لوگوں کا فرق قائم رہتا ہے لیکن یہ دنیا ہے, شطرنج کی بساط جیسی ہے لیکن اُس سے بہت بُلند ہے, اِس لیے یہاں لوگ خاص سے عام اور عام سے خاص ہوتے ہی رہتے ہیں, اپنی چال میں رہتے ہوئے, شیطان کی چال سے بچ جانا ہی انسان کی آزمائش ہے۔
اس زمین پر ہر انسان اپنی آزمائش سے بُلند یا پست ہوتا ہے۔ کبھی سوچا کہ کوئی شے گناہ کیوں ہوتی ہے اور کسی چیز کو ثواب کیوں کہا جاتا ہے۔؟ اصل میں ہم سب کو ایک نور عطا کیا گیا ہے۔ اِس نور کو اچھے اعمال سے بڑھایا جا سکتا ہے اور بُرے اعمال سے یہ نور ماند پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے کوئی عمل گناہ اور کوئی عمل ثواب کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص شراب پیے, زنا کرے, یا کسی اور گناہ کا ارتکاب کرے تو اللّٰہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا, لیکن کیونکہ یہ شئے خود اُس انسان کے لیے اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے اس لیے اسے گناہ قرار دیا گیا۔
زمین پے موجود چیزوں کی دو طرح کی تقسیم ہے نوری اور ناری۔ دونوں طرح کی چیزوں میں ایک توازن قائم ہے, جتنی چیزیں نوری ہوں گی اُتنی ہی تعداد میں ناری چیزیں بھی قدرتی طور پر موجود رہتی ہیں, مطلب یہ کہ قدرت کی جانب سے میزان برابر رکھا جاتا ہے لیکن یہ میزان, وقت میں موجود لوگوں کی سوچ کے باعث کسی ایک جانب جُھک جاتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت میں نور کم ہو جاتا ہے یا آگ زیادہ ہو جاتی ہے, بلکہ یوں ہوتا ہے کہ نور یا نار کی راہ پر چلنے والوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جس سے وقت میں نور و نار کا توازن بدلتا رہتا ہے۔ تم نے پوچھا کہ آزمائش کیا ہے, تو آزمائش ہر پل کی سوچ کا نام ہے۔ انسان کسی بھی پل جو کچھ بھی سوچتا ہے, وہ اُس کی آزمائش ہوتی ہے۔ اللّٰہ نے انسان کو کوئی بھی چیز بیکار میں نہیں دی, ہر عطا کا کچھ نہ کچھ کام ہے, اللّٰہ نے انسان کو سوچ سمجھ کے ساتھ ساتھ گُمان کی دولت سے بھی نوازا, ہم اپنے گمان کی طاقت سے بہت سا کام لیتے ہیں, پہلے سے دیکھی ہوئی چیزوں کو یاد کرتے ہیں, اکثر کسی سے جھگڑا کر کے اپنے گمان میں اُسے مار پِیٹ کر ہم اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں, اپنے گمان میں ہم آنے والا کل سوچ کر اگلے دنوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو دنیا ہم اپنے باہر دیکھتے ہیں ویسی ہی ایک دنیا ہمارے اندر بسی ہوتی ہے۔ اپنے باہر کی دنیا میں ہم کچھ ہوں یا نہ ہوں لیکن اپنے اندر کی دنیا کے سب کچھ ہم خود ہی ہوتے ہیں,
انسان اپنے باہر کی دنیا سے متاثر ہو کر اپنے اندر کیسی دنیا بناتا ہے یہی اُس کی آزمائش ہےاہلِ دنیا اپنے گمان میں دنیا بھرے رکھتے ہیں اب وہ کوئی بادشاہ ہو یا کوئی بھکاری دونوں کے گمان کی اوقات ایک سی ہے, اہلِ عُقبا اپنے گمان کو اجر و عزاب کے خیال سے آباد کرتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ظاہر میں کسی بھی مذہب و مسلک کے کیوں نہ ہوں اُن سب کے گُمان کی قیمت ایک سی ہےلیکن اہلِ اللّٰہ اپنے گمان کو اللّٰہ کی یاد سے سجائے رکھتے ہیں اِس لیے اُن کے گمان کی اُن کے مقام کے حساب سے الگ الگ قیمت ہوتی ہے, جو اپنے گُمان کو اللّٰہ کی ذات میں جس قدر ڈبوئے گا وہ اُتنا ہی بُلند ہو گا۔ اکثر ایسا سُنے میں آتا ہے کہ کسی بُزرگ ہستی نے بہتے دریا کو حکم دیا کہ رُک جا تو وہ رُک جاتا ہے, یہ اِس لیے ہوتا ہے کیونکہ اُن کے گمان میں اللّٰہ کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا, جب یہی بات کسی عام شخص کی زبان سے نکلتی ہے تو اُس کے پیچھے دنیا و عُقبا کی اغراض چھُپی ہوتی ہیں اِس لیے بات بے اثر رہتی ہے۔ انسان کا جینا, مرنا, کھانا, پینا سب پہلے سے طے ہوتا ہے, لیکن اُس کا گُمان زندگی بھر اُس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور ہر پل بدلتا رہتا ہے, انسان سو جاتا ہے لیکن یہ گمان پھر بھی حرکت میں رہتا ہے۔ انسان کے گناہ ثواب کا ذیادہ تر حصّہ اِسی گمان سے جُڑا ہوتا ہے۔ شیطان یہی کرتا ہے کہ لوگوں کے گُمان پے حملہ کر کے اُس میں دنیا اور نفس کی خواہشات بھرتا رہتا ہے تاکہ انسان کے گُمان کو اللّٰہ کو سوچنے سے دور رکھا جا سکے۔
اللّٰہ کی یاد سے اپنے گمان کو سجانا یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے انسان اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو اللّٰہ کا انعام, اللّٰہ کی رضا مان کر اُس کا شُکر گزار رہے, اصل آزمائش, اسی دنیا میں رہتے ہوئے, اِس کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے, اللّٰہ کی جانب مائل رہنا ہے۔ کسی نامحرم کو دیکھ کر نظر جھُکانا, اپنے آپ کو بُرے خیالات سے بچانا, تھوڑا بہکنا, تھوڑا سنبھلنا, اللّٰہ کو ذیادہ عزیز ہے بنسبت اس کے کہ کوئی شخص گھر بار چھوڑ کر جنگل میں جا بیٹھے جہاں اُسے پریشان کرنے کے لیے نہ تو دنیا ہو اور نہ ہی شیطان۔ ہم سب کو جو زندگی دی گئی ہے اُسی میں رہتے ہوئے اللّٰہ سے راضی یا ناراض ہونے کی آزمائش کا نام زندگی ہے, اسی آزمائش کے باعث زندگی آگے بڑھتی ہے یہ آزمائش نہ ہو تو زندگی گُزرنے کا احساس ہی نہ ہو۔ اور جہاں تک بات ہے بار بار آزمائے جانے کی تو یہ آزمانے والے کی مرضی ہے۔ لوگ ایک ہی راستے سے کئی کئی بار بھی آزمائے جاتے ہیں کیونکہ اکثر ہمیں بات سمجھ نہیں آ رہی ہوتی اِس لیے بار بار سمجھایا جاتا ہے۔" اُس کی بیوی نے پوچھا "کیا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہُوا کبھی۔؟" تو اُس نے کہا "ہاں کئی دفعہ, میری عادت ہے کہ جوتے مسجد کے باہر اُتار کر جاتا ہوں, اِس عادت کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ جب میں اللّٰہ کے گھر آیا ہوں تو مجھے اُس پے بھروسا رکھنا چاہیے اور اپنی چپّلوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے, نماز میں اکثر میں اپنے آپ سے لڑتا رہتا اور اپنا دھیان اپنی چپّل سے ہٹانے کی کوشش کرتا جب روز مجھے میری چپّل مل جایا کرتی تو آہستہ آہستہ مجھے تسلی ہونا شروع ہو گئی اور ایک دن جب میں مسجد سے باہر آیا تو میری چپّل غائب تھی۔ میرے ساتھ ساتھ میرے دوستوں نے بھی مل کے تلاش کی مگر چپّل نہیں ملی لیکن اگلی ہی نماز میں, میں پھر سے چپّل باہر چھوڑ کر گیا۔ اُس کے بعد بھی ایک دو دفعہ ایسا ہُوا لیکن میں نے اپنی عادت نہیں بدلی, شادی سے چند ماہ پہلے بھی ایسا ایک واقع ہوا, میرے پاس تین جوڑے جوتے تھے اور میں انہیں بدل بدل کر پہنا کرتا تھا۔ ظہر کی نماز میں اکثر اپنے دفتر کے پاس والی مسجد میں پڑھا کرتا تھا۔ اور حسبِ معمول جوتے باہر ہی اُتار کر جاتا تھا۔ ایک دن مسجد سے باہر نکلا تو جوتے غائب تھے, میں نے جوتے ڈھونڈھنے کی جگہ فوراً الحمدللّٰہ کہا اور سوچا کہ یقیناً کوئی شخص سخت مجبور ہو گا اِسی لیے اللّٰہ نے میرے جوتے اُسے دے دیے, اور جوتے چوری ہو جانے پر اللّٰہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ننگے پیر اپنے دفتر جا پہنچا, اگلے روز دوسرے جوتے پہن کے دفتر گیا اور ظہر کی نماز مسجد میں ادا کی اور جب مسجد سے باہر آیا تو جوتے پھر سے غائب تھے, میں نے گزشتہ روز کی طرح پھر سے اللّٰہ کا شُکر ادا کیا اور دفتر پہنچا تو میرے دفتر میں کام کرنے والے ایک عمر رسیدہ صاحب نے مجھے دوبارہ ننگے پیر دفتر آتے دیکھ کر جوتے چُرانے والے کو سخت بددعائیں دیں تو میں نے اُن سے کہا کہ میں نے اُس شخص کو معاف کر دیا ہے, آپ کچھ مت کہیں اُسے لیکن انہوں نے بد دعائیں دینا نہیں چھوڑا تو میرے دل میں عجیب سا ڈر پیدا ہوا کہ کہیں اُن کی بددعا لگ ہی نہ جائے,
اِس لیے میں نے اُسی وقت دو رکعت نماز پڑھی اور اللّٰہ سے دعا کی کہ اُس شخص کو معاف کر دیا جائے, اگلے روز میں اپنے جوتوں کا آخری جوڑا پہن کر دفتر گیا, میں مسجد کے فرسٹ فلور پے ایک کونے میں اکیلا نماز پڑھتا تھا, نماز پڑھ کر جب میں سیڑھیاں اُتر رہا تھا تو دور سے میری نظر اُس جگہ پڑی جہاں میں نے اپنے جوتے اُتارے تھے اور حسب معمول تیسرے روز بھی میرے جوتے غائب تھے۔ یہ دیکھ کر میں واپس اُسی جگہ جا کے بیٹھا جہاں میں نے نماز پڑھی تھی اور کہا "اللّٰہ میاں اب اور جوتے نہیں ہیں میرے پاس, اور ابھی پہلی تاریخ دور ہے, ورنہ میں نئے جوتے خرید لیتا لیکن ابھی میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ نیا جوتا خرید سکوں, اِس لیے پلیز میرے جوتے واپس کر دیجیے, اتنا کہہ کر میں خاموشی سے دل میں کسی جواب کے آنے کا انتظار کرنے لگا, مجھے دو چار منٹ گُزرے جب کوئی جواب نہ آیا تو میں نے کہا اللّٰہ میاں میں آج جوتے لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا, اور آپ کو پتا ہے آج دفتر میں کتنا کام ہے, جتنا دیر سے جاؤں گا اتنی باتیں سُنی پڑیں گی مجھے, اِس لیے پلیز مجھے میرے جوتے دے دیجیے, اس طرح تقریباً پندرہ منٹ تک کوئی جواب نہ آیا, میری عادت ہے کہ میں اپنی دعا بار بار دہراتا نہیں رہتا اس لیے زبان بند کیے خاموش دل سے اُس کا جواب سُننے کا منتظر تھا کہ دل میں آواز آئی کہ " اُٹھو۔" اِس ایک لفظ میں اتنا اثر تھا کہ میں بے اختیار سا اُٹھ کے کھڑا ہو گیا, اور سیڑھیاں اُترنے لگا, جب آخری سیڑھی اُترنے لگا تو دل سے آواز آئی کے مسجد کے ہال میں دائیں جانب تیسرے ریک میں تمھارے جوتے ہیں, میں نے جا کر دیکھا تو سچ مُچ اُس ریک میں میرے جوتے تھے اور اِس سے بھی ذیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جو جوتے ریک میں رکھے ہوئے تھے وہ اُس دن والے نہیں بلکہ اُس سے ایک دن پہلے والے تھے۔ میں نے جوتے نکالے اور الحمدللّٰہ پڑھتے ہوئے مسجد سے نکل آیا" اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوا تو اُس کی بیوی نے کہا "اِس کا مطلب کہ ہم ایک ہی راہ سے بار بار بھی آزمائے جا سکتے ہیں, یعنی جب انسان کو کسی سبق کو دہرانے کی ضرورت ہو تو اللّٰہ کی رحمت سے اُسے وہ سبق دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اب ٹھیک سے بات سمجھ آ گئی۔ اب سو جائیں صبح دفتر جانا ہے آپ نے۔" اُس نے کہا "ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا, سو جاؤ, شب بخیر"
وہ اپنی زندگی کے سخت سے سخت حالات پر بھی بہت مطمئن رہتا تھا, اکثر بہت چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے اُسے لوگوں سے پیسے اُدھار مانگنے کی ضرورت پڑ جاتی اور کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اُس کے چہرے سے نمایاں ہو جاتی تھی, اسی وجہ سے وہ اکثر کسی کے پاس پیسے مانگنے جاتا تو اُس سے کہہ نہ پاتا اور ایسے ہی واپس آ جاتا, پھر وہ سوچتا کہ اللّٰہ نے یہی سبب مقرر فرمایا ہو گا میرے لیے۔ وہ بہت ذمہ داری سے مقررہ وقت پر لوگوں کا اُدھار واپس کر دیا کرتا تھا لیکن مجبور ہو کر کسی سے پیسے مانگنا اُسے اندر سے توڑ دیا کرتا تھا۔

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 24)
----------------
اکثر شیطان اُسے توڑنے کی کوشش کرتا اور کہتا کہ اگر تُو اللّٰہ کو اتنا ہی پیارا ہے تو تیری غریبی کیوں دور نہیں ہو جاتی, تُو گناہوں سے پوری طرح پاک کیوں نہیں ہو جاتا۔ تو وہ شیطان کو کہتا کہ یہ میرے اور میرے اللّٰہ کے بیچ کی بات ہے, اُس نے مجھے جو دیا اور جو نہیں دیا میں اُس سب پر اُس سے راضی رہنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے اعمال کی کمی بیشی کے باوجود مجھ سے راضی رہتا ہو گا, کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ میرے جسم پے لگے داغ نہیں دیکھتا بلکہ میرا دل دیکھتا ہے۔ اے شیطان میں جانتا ہوں کہ تُو مجھے میرے گناہ یاد دِلا کر مجھے توڑنا چاہتا ہے, جس طرح تُو لوگوں کو ایک نماز چھوڑ دینے کا گناہ یاد کرا کر دوسری نماز سے بھی روک دیتا ہے, لوگ تین جمعے چھوڑ کر نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں کہ اب تو ہمارے دل پے مہر لگ ہی چُکی ہے تو نماز پڑھنے کا کیا فائدہ, میں خوب جانتا ہوں تجھے اور تیرے ہتھکنڈوں کو, جا کوئی نئی بات سوچ کے آ, مجھے معلوم ہے کہ میرا رب توبہ قبول کرتا ہے اور بار بار توبہ قبول کرتا ہے, میں مانتا ہوں کہ گناہگار ہوں میں لیکن میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس کے بعد بندہ اللّٰہ کی جانب واپس نہ جا سکتا ہو۔ اکثر وہ کسی سوال پے اُلجھ جاتا تو اُس کے دل میں اُس کے مُرشد پاک کی طرف سے جواب آ جاتا جسے سُن کے اُس کے دل کو اطمینان ملتا اور شیطان دفعہ ہو جاتا۔ ایک روز وہ اِس سوال میں اُلجھا تھا کہ یہ کیسے پتا چلے گا کہ کون سی آواز شیطان کی ہے اور کون سی رحمان کی۔؟ تو اُس کے مُرشد پاک  نے اُسے سمجھایا کہ شیطان ہر ایک کے پیچھے نہیں بھاگتا, اُس نے بہت سے پھندے تیار کر رکھے ہیں لوگ انہی پھندوں میں اُلجھے رہتے ہیں, شیطان اپنی بات سے پہچانا جاتا ہے۔ اگر اندر سے آنے والی آواز آپ کو کسی کے خلاف ورغلا رہی ہے, کسی بُرائی پر اُکسا رہی ہے تو یقیناً وہ آواز شیطان کی ہے, اپنے اوپر بیتنے والے کسی دُکھ کا تزکرہ کر کر کے اداس ہونا بھی شیطان کی ہی چال ہے اِس افسوس کے ذریعے وہ لوگوں کو اللّٰہ کی ذات سے مایوس کرتا ہے۔ اولاد کا غم, مال کی فکر, لوگوں کی نظر میں اچھا, بُرا یا طاقتور دکھائی دینے کی چاہ, کسی کو نیچا دکھانے کی خواہش, اور کسی کو نیچ سمجھنے کی سوچ, سب شیطان کی آوازیں ہیں جو وہ انسان کو اُس کے نفس کی زبانی سُنا سُنا کر اُسے یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تیرے دل کی آواز ہے۔ اور لوگ اِن آوازوں کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ یقین کر بیٹھتے ہیں کہ یہی اُن کے دل کی چاہت ہے۔ ظلم کرنے والے ظلم کرنے کو اپنا شوق جانتے ہیں اور  ظلم سہنے والا اُس ظلم کو اپنا نصیب سمجھتا ہے, ایسے ظالم اور مظلوم دونوں گمراہ ہیں, دونوں شیطان کی قید میں ہیں, شیطان اِسی طرح لوگوں کے ذہنوں کو غلام کر کے اُن پے حکومت کرتا ہے, جو شخص خود سے لڑنے کی کوشش نہیں کرتا وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔ ایسے لوگوں پر شیطان توجہ نہیں دیتا, کیونکہ وہ لوگ اپنی ہی گمراہی میں محو ہیں, کچھ لوگ دنیا و نفس کی لزتوں کو اپنے سُکھ کا سامان سمجھتے ہیں اور اِسی کو جینے کا مقصد بنا لیتے ہیں, اِس طرح کے لوگوں کو بہکانے کے لیے شیطان کی ضرورت نہیں پڑتی, اُن کا نفس ہی اُن کی گمراہی کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا اور نفس کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتے بلکہ دین کو بھی اپنی زندگی کا حصّہ سمجھتے ہیں, اُن کے نزدیک نفس کی ہوس اور دنیا کی حرص کے ساتھ ساتھ جنّت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اِس لیے ایسے لوگ ظاہری عبادات کا خاص اہتمام رکھتے ہیں, لیکن ایسے لوگوں کی عبادات محض دنیاوی اغراض کے لیے ہوتی ہیں اِس لیے یہ لوگ بھی شیطان کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں, اِس کے بعد وہ لوگ ہیں جو دنیا اور نفس سے بچ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عبادات میں دھیان دیتے ہیں, اِن میں سے اکثر اِس سوچ میں اُلجھ جاتے ہیں کہ میرا طریقہ, تلفظ اور طہارت مشکوک ہے, اور جو اِس شک سے پیچھا چھُڑا پاتے ہیں اُن میں سے اکثر حور و قصور کو اپنی منزل مان لیتے ہیں, اِن لوگوں پر بھی شیطان توجہ نہیں دیتا کیونکہ یہ بھی اپنے آپ کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
اِن سب سوچوں سے بچ کر جو شخص اللّٰہ کی طلب میں آگے بڑھتا ہے, شیطان اُس کے راستے میں آتا ہے۔ اگر کسی راہ پر جانے سے شیطان تمہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے تو جان لو کہ وہ راستہ اللّٰہ کا راستہ ہے۔ شیطان عام لوگوں کے سامنے حرص, ہوس, غرور, مایوسی, اور پریشانیوں کے بُت رکھ کر اُنہیں چھوڑ دیتا ہے, اور سب پر نظر رکھتا ہے کہ کہیں کوئی اللّٰہ کی جانب مائل تو نہیں ہو رہا۔ جب لوگ اللّٰہ کی جانب بڑھتے ہیں تو وہ اُنہیں فرقہ واریت کی باتوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کون سا فرقہ صحیح ہے, کون سا غلط ہے, نماز روزے کا صحیح طریقہ کس طرح سیکھا جائے۔ کون سی کتاب کون سے عالم سے سے مشورہ لینا درست ہے اور کون سے عالم سے مشورہ کرنا غلط ہے۔ لوگ انہی باتوں میں ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں, بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اللّٰہ کو اپنے دل میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں, شیطان اُنہیں اپنے سوالات میں اُلجھانے کی کوشش کرتا ہے, انہیں اُن کی زندگیوں کے حالات و واقعات سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ تُو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لائق ہی نہیں ہے, شیطان لوگوں کے سامنے انبیاء اولیاء اور صالحین کی مثالیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ نیک لوگ تھے اور تُو بدکار ہے اِس لیے تیری اوقات ہی نہیں ہے کہ تُو اللّٰہ سے اُس کا قُرب طلب کر سکے اور لوگ اِسے اپنی عاجزی سمجھ کر اللّٰہ کی طلب سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اِس لیے ہر وہ خیال جو تمہیں اللّٰہ سے, اللّٰہ والوں سے یا اللّٰہ کی مخلوق سے دور کرتا ہے شیطانی خیال ہے۔ ہر وہ بات جو تمھیں اللّٰہ کی راہ سے رُک جانے پے مجبور کرے وہ شیطان ہے جو عاجزی و انکساری کے لباس میں تمھیں دھوکہ دینے کی کوشش میں ہے۔ تو جو بات محبت اور انسانیت کے خلاف ہو اُس پے خواہ کسی بھی نبی ولی یا صحابی کا نام لکھا ہو اُسے ہرگز تسلیم نہیں کرنا۔ اللّٰہ کی آواز انسان کو حوصلہ دیتی ہے, اُمید دیتی ہے, ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھاتی ہے, بُرائی سے روکتی اور بھلائی پر مائل کرتی ہے۔ ہر انسان اپنے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے, اسی طرح رحمانی یا شیطانی  خیال کی پرکھ بھی ہوتی ہے۔ پیغام سے پہچان ہوتی ہے۔
اپنے مُرشد سے اپنے سوالوں کے جواب حاصل کر کے اُس کا دل حُبِ مُرشد سے سرشار ہو جاتا تھا۔ اور وہ اپنے مُرشد سے ملنے کو بیتاب ہو جاتا تھا۔ اُس کے مُرشد پاک اکثر اُس کے شہر تشریف لاتے اور تقریباً ہر دفعہ ہی اُس کو اُن سے ملاقات کا شرف نصیب ہوتا۔ جس روز سُلطان محمد اصغر علی (رح) سے اُس کی آخری  ملاقات ہوئی اُس دن شدید رش کے باعث وہ اُن کے قریب نہ جا سکا۔ جب آپ (رح) گاڑی میں بیٹھ کر واپس جانے لگے تو بہت سے لوگ آپ (رح) کی گاڑی کے پاس اکھٹے ہو گئے اور اُسے پھر سے قریب جانے کا موقع نہ مِل سکا تو وہ گیٹ سے تھوڑے فاصلے پے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سب سے ملنے کے بعد جب گاڑی آگے بڑھی تو اُس کے سامنے سے گُزرتے ہوئے اُس کے مُرشد پاک نے گاڑی رُکوائی اور وہ گاڑی رُکتا دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے مُرشد پاک کا ہاتھ تھام کر ہاتھ پے بوسہ دیا اور اِسی دوران گاڑی چل پڑی اور اُس کے ہاتھ سے اُن کا ہاتھ چھُوٹ گیا۔ اُس اِس بات پے ایک عجیب سا احساس ہوا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ مُرشد پاک کسی سے مل رہے ہوں اور اُن کے ڈرائیور گاڑی چلا دیں, اُس نے اپنے مُرشد پاک کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے دور جا رہی تھی اور دل زبانی اپنے مُرشد پاک سے کہا  "اِس بات کا کچھ مطلب ہے کیا۔؟ میں سمجھا نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔" تو اُس کے دل میں اُس کے مُرشد پاک کی آواز آئی کہ "اب مُلاقات نہیں ہو گی"۔ ایک پل کے لیے اُس پر جیسے سکتا سا طاری ہو گیا۔ یہ سوچ کر کہ اب میں اُن سے دوبارہ نہ مل سکوں گا, اُسے اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
اپنے مُرشد کے دیدار سے محروم ہونے کا خیال ہی اُس کے لیے جان لیوا تھا۔ جن دِنوں وہ پیر ساب ہوتا تھا اُس وقت ایک بار اُس کا اپنے دفتری ملنے والوں میں سے کسی کے توسط سے انگلینڈ کی کسی بہت امیر فیملی کے کچھ لوگوں سے رابطہ ہوا جن کے انگلینڈ میں کسی ہوسپٹل کی انسپیکنشن چل رہی تھی اور وہ اِس سلسلے میں کافی پریشان تھے انہوں نے اُس کے سامنے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو جواب میں اُس نے جو جو بھی کہا سب درست ثابت ہوا اور اُس کے بتائے وقت پر اُن کے ہوسپٹل کو کلیرینس بھی مل گئی۔ تو انہوں نے اُسے پیغام بھیجا کہ ہم آپ کو اور آپ کی فیملی کو سب کو انگلینڈ لے کے جانا چاہتے ہیں آپ بس ہمارے ساتھ رہیں وہاں پر, آپ کو کسی قسم کا کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر چاہیں تو کوئی کام کر بھی سکتے ہیں, ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔" اُس نے اُن کی آفر سُن کر کہا تھا کہ "آپ کی آفر اتنی شاندار ہے کہ اِسے کوئی بیوقوف ہی رد کرے گا, اور بات یہ ہے کہ میں وہ بیوقوف ہوں, انہوں نے جو کچھ دیکھا سُنا وہ سب میں نہیں بلکہ میرے مُرشد کی ذات ہے, ابھی میری بات صحیح ثابت ہو رہی ہے تو وہ مجھے ساتھ رکھنا چاہ رہے ہیں, کل کو اگر میری باتیں پوری ہونا بند ہو گئیں تو کیا واپس بھیج دیں گے مجھے۔؟ مجھ میں جو کچھ اچھا ہے سب میرے مُرشد کا ہے, انہیں دیکھے بنا مجھے چین نہیں آتا, اور صرف میں نہیں اُن کے اور مریدین کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ میں یہاں اسلام آباد میں ہوں اور ہر مہینے کم از کم ایک دو بار جھنگ ضرور جاتا ہوں, ایک جانب سے قریب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ ہم رات کو نکلتے ہیں, صبح پہنچ کر اکثر کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں کہ مُرشد پاک کو ایک نظر دیکھ سکیں, اُن کی آواز سُن سکیں, اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ میں دے سکیں۔ اور اِس طویل سفر میں چند پل کی ملاقات دل کو وہ سکون بخشتی ہے جو ساری تھکن اُتار دیتی ہے, میں یہاں رہتے ہوئے اُن سے ملاقات کے لیے تڑپتا رہتا ہوں, انگلینڈ چلا گیا تو مَر ہی نہ جاؤں کہیں۔ ویسے بھی میں پاکستان سے باہر کسی جگہ نہیں جانا چاہتا میرا انگلینڈ میرا اپنا مُلک ہے۔ یہاں کی خالی جیب مجھے انگلینڈ کے پونڈز سے ذیادہ پیاری ہے۔ اگر وہ مجھے میری وجہ سے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تو شاید میں سوچتا بھی اِس بات پر لیکن پیر ساب بن کے جانے کا شوق نہیں ہے مجھے,
میں جو نہیں ہوں وہ بن کر میں لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے زندگی نہیں گُزارنا چاہتا۔" اُس روز اُسے یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ میں اپنے مُرشد کو دیکھے بنا جیئوں گا کیسے۔؟ اپنے وصال سے کچھ وقت قبل ہی سُلطان محمد اصغر علی (رح) اپنے بڑے بیٹے سُلطان محمد علی صاحب کو اپنا جانشین ظاہر کرتے ہوئے دولتِ فقر کا امین بنایا اور تمام مُریدین کو اُن کی پیروی کرنے کو کہا۔ اِس واقعے سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ اللّٰہ والا, اللّٰہ کے پاس جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ سُلطان محمد اصغر علی (رح) نے اپنے آخری ایام کا بیشتر حصّہ اسلام آباد میں ہی گُزارا۔ آپ (رح) 14 اگست 1947 کو پیدا ہوئے اور 26 دسمبر 2003 کو جہانِ فانی سے کُوچ فرمایا۔ اُس روز صبح اُس کی آنکھ اپنے بھائی کے فون سے کھُلی جس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے اُسے سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے پردہ فرمانے کی خبر سُنائی۔ اُس کی ذبان سے ایک لفظ نہ نکل سکا اور اُس کے بھائی نے اُسے بتایا کہ وہ آپ (رح) کے جنازے میں شرکت کے لیے جھنگ جا رہا ہے۔ ایک پل کو اُس کا دل پسیج کر رہ گیا کیونکہ اُس کی جیب خالی تھی اور وہ بہت شدت سے چاہتا تھا کا آخری بار اپنے مُرشد پاک کا دیدار کر سکے لیکن حالات نے اجازت نہ دی۔ بوجھل دل سے وہ دفتر گیا اور شام کو جب وہ اپنے کزن سے ملا تو بے اختیار اُس کے گلے لگ کر رونا شروع ہو گیا, اُس کے کزن کے والد نے اُسے سمجھایا کہ اللّٰہ والے دنیا سے جانے کے بعد مُریدین کے اور ذیادہ قریب ہو جاتے ہیں, بُری بات ہے اللّٰہ والوں کو رویا نہیں کرتے۔ لیکن وہ اپنے آنسو نہ روک سکا۔ وہ اپنے کزن کو ساتھ لے کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ بازار سے گُزرتے ہوئے نہ جانے اُس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اپنے کزن کے ساتھ ایک پی۔سی۔او میں چلا گیا اور فون بوتھ میں جا کر جھنگ فون ملانے لگا, اُس کے کزن نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا "اِس وقت کوئی تمہارا فون نہیں اُٹھائے گا سب مُرشد پاک کے جنازے میں مصروف ہوں گے" تو اُس نے کہا "کیا پتہ ہمیں فون پر ہی جنازے میں شرکت کا موقع مِل جائے" اور ایسا ہی ہوا, فون اٹھانے والے کو اسلام و علیکم کہتے ہوئے, تلاوت کی آواز سُن کر اُس نے پوچھا "کیا جنازہ پڑھا جا رہا ہے وہاں۔؟" اور ہاں میں جواب سُن کر اُس نے کہا "آپ تھوڑی دیر کے لیے فون کا ریسیور سائڈ پر رکھ دیجیے اور ہمیں جنازہ سُننے دیجیئے" انہوں نے اُس کی گُزارش قبول کی اور ریسیور سائڈ پے رکھ دیا اِس طرح اُس نے اور اُس کے کزن نے فون پر اپنے مُرشد پاک کے جنازے میں شرکت کر کے اپنے دل کی تسلی کا سامان کیا۔

(جاری ہے)



مکمل تحریر >>

ہفتہ، 18 اپریل، 2015





وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي                                                                              
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي           
ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ 
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي 
اسي کشمکش ميں گزريں مري زندگي کي راتيں 
کبھي سوزو ساز رومي ، کبھي پيچ و تاب رازي 
وہ فريب خوردہ شاہيں کہ پلا ہو کرگسوں ميں 
اسے کيا خبر کہ کيا ہے رہ و رسم شاہبازي 
نہ زباں کوئي 
غزل  نہ زباں سے باخبر ميں 
کوئي دلکشا صدا ہو ، عجمي ہو يا کہ تازي 
نہيں فقر و سلطنت ميں کوئي امتياز ايسا 
يہ سپہ کي تيغ بازي ، وہ نگہ کي تيغ بازي 
کوئي کارواں سے ٹوٹا ، کوئي بدگماں حرم سے 
کہ امير کارواں ميں نہيں خوئے دل نوازي
وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي                                                                                      
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي                                                                                         
- قادر مطلق الله سے خطاب کرتے ھوے اقبال کہتے ہیں کے اتنا بڑا تخلیق کار ہونے کے باوجود میں اب بھی اسی طرح کم نصیب ہوں جس  طرح اے الله آپ ہر معملے سے  بے نیاز ہے آپ کی ذات بہت نوازنیں والی ہے لیکن یہ میری کم نصیبی ہے .اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کے شعر گوئی میں میں نو جو کمال حاصل کیا تھا وہ عمل میں بیکار ثابت ہوا
(اگر کوئی انسان چاہے کتنا ہی بڑا مدبر،عالم، مفکر بن جائے اگر وہ  عمل میں نہیں تو وہ تمام علم، مہارت اور کمال بیکار ہے اوریہی اس کی کم نصیبی ہے )

ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي
اے الله آپ یہ تو بتایں کے میں کس مکام پر ہوں اور آپ کس مقام پر ہیں جس جگا میرا قیام ہے وہ مکان ہے کے لامکاں. الله کی ذات ہر مکان اورزمان کی  قید  سے ماورا ہے ،لا مکان کو عالم بالابھی تصور کیا جا سکتا ہے کیوں کے مکان ایک مخصوص شکل ماہیت رکھتا ہے، یہ حقیقت بھی ابھی  ایک راز سرپستہ معلوم ہوتی ہے . یہ عالم امکان مرے اپنے خیال کا پیدا کردہ ہے یا اسے آپ کی کرشمہ سازی نے تخلیق کیا ہے اس کو آپ نے تخلیق کیا یا میرے تخیل  کا نتیجہ ہے ، اس کا مطلب یہی ہے کے  اقبال بھی یہ سمجھانا  چاھتے ہے کے انسان کوابھی تک  حقیقت ابدی کا سراغ نہیں مل سکا اور وہ ابھی اس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکا .
اسي کشمکش ميں گزريں مري زندگي کي راتيں
کبھي سوزو ساز رومي ، کبھي پيچ و تاب رازي
،میری زندگی کی بیشتر راتیں اسی تذبذب ور ذہنی کشمکش کا شکار رہی یہی باتیں مجھے پریشان کے رکھی کے  کبھی مولانا رومی (جو کے علامہ اقبال کے روحانی پیشوا بھی ما نے جاتے ہیں .اقبال کی شاعری کا بیشتر کلام میں ان کا رنگ جھلکتا ہے ) کے سوزو ساز سے دل ہم آہنگ ہوا کبھی مجھ میں ووہی کیفیت رہی جو کے مولانا رومی کی تھی حقیقت کی تلاش والی اور  کبھی امام راضی(جو کے ایک فلسفی  تھے ) کی فلسفیانہ کیفیت مسلط رہی
وہ فريب خوردہ شاہيں کہ پلا ہو کرگسوں ميں
اسے کيا خبر کہ کيا ہے رہ و رسم شاہبازي
اس شاعری میں علامہ نے شاہین اورکرگس کی علامتوں کے ذریعے  سے قوم کے نونہالوں اورنوجوانوں کی جانب اشارہ کیا ہے علامہ کی بیشتر اشعار میں شاہین کا ذکر ہے .شاہیں جو بلند پروازی کی وجہ سے مشور منا جاتا ہے جب ک کرگس گدھ کو کہا جاتا ہے جو مردار کھاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کے ہماری امّت کے نونہال جس بزدلانہ اور منافقانہ ماحول میں پرورش پا رہے ہیں ان سے جرات مندی اور انقلاب پسندی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے اس کی توجیح کچھ یوں بھی ہوتی ہے کے جس قوم کے نوجوان ور نونہال انگریز کی غلامی ور ان کے اسلاف کو  تقلید کا  ہی شرف قبولیت دے چکے ہوں ان سے ایسے نظام اور اقتدار سے بغاوت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ان کے قردار افکار میں  شاہین جیسی بلندی اورجوان مردی عبس ہے . وہ تو اس حقیقت سے بھی باخبر نہیں  کے ایک آزاد اور  حوصلہ مند نوجوان کی فطرت کیا ہونی چاہیے.


نہ زباں کوئی غزل کی نہ زبان سے  باخبر ميں 
کوئي دلکشا صدا ہو ، عجمي ہو يا کہ تازي !
اس غزل کے بیشتر اشعار میں اقبال اپنے عہد  کے مسلمانوں  کے انتشار کی ترجمانی سے دوچار نظر اتے ہیں تاہم کہیں کہیں ایسی توقعات کی جانب اشارہ بھی کر جاتے ہیں جو رجایت کی آئینہ دار ہیں.اس شاعری میں انہوں نے اس دور کے عہد کے تخلیکی عمل کو بے معنی قرار دیتے ہویے یہ خیال ظاہر کیا ہے کے اس میں اثر ناپید ہے یعنی امت میں اب تخلیکی صلاحیت  ختم ہوتی جا رہی ہے اور کسی بھی میدان میں نوجوان وہ کچھ تخلیق نی کر پا رہے ور ساتھ ہی یہ امید بھی ہے. اس کے علاوہ اس تمثیل  کو شاعری میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کے شائد کوئی نغمہ پرلطف اور دل کشا زبان میں ملے  ، خوا وہ فارسی  زبان میں ہو یا عربی میں ہو اس کے لئے زبان کی کوئی قید نہیں .تخلیقی عمل کو شاعری میں بھی لیا جا سکتا ہے کے اب وہ کلام  سنے کو ملے جو دل کشا ہو،
نہيں فقر و سلطنت ميں کوئي امتياز ايسا 
يہ سپہ کي تيغ بازي ، وہ نگہ کي تيغ بازي
یہ مصرع پورے کلام کا حاصل ہے .فقر در حقیقت درویشی  کا خاصا ہے اور سپاہ سالاری بادشاہی کا خاصہ ہے .
درویش اپنے افکار خیال اور نگاہ سے جو کام کرتا ہے اور بادشاہ تلوار کے ذریعے سے لوگوں پر حکومت کرتا ہے عمل میں دونوں ایک ہی ہیں اور دونوں کا قردار یکساں ہے  .اقبال اپنی شاعری میں جہاں ایک جگہ  فرماتے ہیں ک نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں..... .صوفیا اور درویش کی صحبت انسان کے اندر ایک نی  دنیا اور معرفت الہی پیدا کرتی ہے .(محمود غزنوی  نے جب سومنات کے مندر  پر حملہ کیا تو وہاں کے پجاریوں نے اس کو  مال و زر کا لالچ دیا کے ان بتوں کو کچھ نہ کہو لیکن محمود غزنوی نے یہی کہا کے میں بت فروش ہونے سے بت شکن  ہونا بہتر سمجھتا ہوں اور  انہوں نے تلوار کے ایک ہی وار سے تمام بتوں کو پاش پاش کر ک شرک کا خاتمہ کیا .) کچھ ایسی ہی کیفیات ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں جو درویش ور صوفیا کی صحبت اختیار کرتے ہے کے ان کے اندر سے  دنیوی کثافتوں ،لالچ،  خودنمائی، کینہ، خودغرضی ،کے چھوٹے چھوٹے  بت پاش پاش ہوجاتے ہیں اور  ان کا سینہ معرفت الہی سے منور ہوجاتا ہے جہاں شرک کا دور تک بھی شبہ بھی نہیں ہوتا
کوئي کارواں سے ٹوٹا ، کوئي بدگماں حرم سے
کہ امير کارواں ميں نہيں خوئے دل نوازي
یہ مصرعہ ہر چند کے چھ سات دہائی قبل کا کہا گیا اس کے باوجود مسلمانان عالم  میں کم و بیش جو صورتحال رہی ہے یہ اس کی غمازی کرتا ہے .اقبال کہتے ہیں کیفیات یہ ہے کے ہر شخص بے یقینی اور انتشار شکار ہو کر اپنا اپنا الگ راگ الاپ رہا ہے .فرقہ واریت بغاوت جسے ناسور قوم کا خاصا بن گئے ہے ہر کوئی خود کو حق پرست مان کر اپنی مسجد میں بیٹھا ہے .کسی کو اجتمائی مفاد سے واسطہ ہی نہیں ہے .اس کی قطعی وجہ یہی ہے کے جن لوگوں کے ہاتھ میں اقدار ہے اور جس کو قافلہ سالاری کے فرائض انجام دینا چاہیے ووہی اپنی بے عملی ور ذاتی مفاد کے سبب قوم کی رہنمائی کا حامل نہیں ہے .ایسے  شخص کا قوال و فعال و کردار دوسروں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے جو ذاتی مفادات  سے بالا تر ہو کر سوچنے کا تصور ہی نی کرتا اور ہماری قوم میں اقتدار والوں میں  وہ  اخوت نہیں .یہ مصرع آج کی صورت حال کی پوری تصور کشی کرتا ہے
الله پاک اس امت  مسلمان کو حضرت عمر ر ض جیسا سپہ سالار عطا کرے .....امین
ممبرز آپ کے لئے یہ تشریح پیش کی گئے امید ہے ک آپ اس پر اپنے کومنٹ سے مجھ کو نوازے گے  شکریہ
مکمل تحریر >>

پیر، 13 اپریل، 2015

تصوف لیکچرز 13 تا 15

محمد نعمان بخاری‎ ‎تصوف (لیکچرز- 13 تا 15)‎.

تصوف -13
یہ بتائیں کہ کبھی آپ نے اپنے خالق سے گپ شپ کی ہے؟۔۔'گپ شپ، اور خالق سے، یہ کیسے ہو سکتی ہے سر؟'۔۔ اسکا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے دل و دماغ میں کوئی سوال اُٹھائیں ، اور پھر اسے اپنے خالق کے دئیے ہوئے 'یوزر مینول' پر پیش کردیں۔۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خالق سے کمیونیکیشن کیلئے اپنے قلب کی فریکونسی ایڈجسٹمنٹ کریں تاکہ سگنلز وصول ہو سکیں۔۔فی الحال ہم پہلا طریقہ آزماتے ہیں۔۔آپ کو یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہئے کہ آپ اپنے خالق سے کوئی سوال کریں اور وہ اسکا جواب نہ دے۔۔ کیونکہ جس نے آپکو تخلیق کیا ہے وہ آپکی ہرسوچ سے واقف ہے، آپکی مکمل نفسیات جانتا ہے۔۔ مثلاًمیں نے قرآن کی ایک آیت پڑھی۔۔ پھر بے تکلف ہو کرسوال پر سوال کرتا چلا گیا۔۔ دیکھئے کہ میرے مالک نے کس طرح مجھےتسلی بخش جوابات عنایت فرمائے۔۔ میرے رب نے فرمایا: فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ (البقرہ : 152) "پس تم میرا ذکر کرو، میں تمہارا ذکر کروں گا"۔پوچھا: یا اللہ آپکا کتنا ذکر کروں ؟۔فرمایا: يٰا يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا (الاحزاب : 41) "اے اہل ایمان، اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو"۔پوچھا: یا اللہ کتنی کثرت سے؟ دن رات میں ہزار بار؟ دس ہزار بار؟ یا دس لاکھ بار؟؟۔فرمایا: وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا (الاحزاب : 42) "اور میری تسبیح کرو صبح شام (یعنی ہروقت)"۔پوچھا: یا اللہ کن الفاظ سے یاد کروں ؟۔فرمایا: وَاذْكُرِاسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا (المزمل : 8 ) "اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اورہر طرف سے کٹ کر اسکی طرف متوجہ ہو جاؤ "۔پوچھا: یا اللہ دنیا کے اتنے زیادہ بکھیڑوں میں پھنسا ہوا ہوں، کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کو اتنی کثرت سے یاد کروں ؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے نام کی اتنی زیادہ تکرار کروں کہ دنیا سے ہی کٹ جاؤں ؟۔فرمایا: لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ : 286) "اللہ تعالی کسی شخص کو اسکی وسعت (حیثیت) سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتے"۔پوچھا: یا اللہ آپکا یہ حکم صرف مجھ کمزور کے لیے ہے یا پہلے بھی کسی نے آپ کا اتنی کثرت سے ذکرکیا ہے کہ ہَمہ وقت آپکی یاد میں مشغول رہا ہو ؟۔فرمایا: ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ (زمر : 23) "پس ان (صحابہ کرام رض) کی جِلدیں اور قلوب ذکراللہ کرنے لگے"۔پوچھا: یا اللہ میری زبان میں اتنی طاقت کہاں کہ میں آپکا ذکر اتنی شدت سے کر سکوں کہ وہ جِلد اور قلب تک کو ذکر کرا دے۔ کوئی طریقہ ارشاد فرمائیے ۔فرمایا: وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (الاعراف : 205) "اور اپنے رب کا ذکر اپنے دل ہی دل میں کرو، عاجزی اورخوف سے اوراونچی آواز کے بغیر،صبح وشام (ہمہ وقت) اور غافلوں میں سے نہ ہونا"صَاحبانِ دانش ۔۔!! ذراسوچئے ، کہ اللہ پاک کا ہر حکم ماننا انسان پر فرض ہے تو اللہ کے اس حکم کی تعمیل کیسے ممکن ہے ؟یقیناً اللہ کریم کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں جس پر عمل ممکن نہ ہو، اور اللہ اپنے حکم پر عمل کے لئے ذرائع بھی مہیا فرما دیتے ہیں، لیکن صرف اس شخص کو، جس کے دل میں حکمِ الٰہی پر عمل کرنے کی خالص طلب پیدا ہو۔۔ کیونکہ عموماً اللہ بے طلب کو ہدایت نہیں دیا کرتے۔ ۔آپ فٹ بال کھیلتے ہوئے اپنے پاؤں کو ایسی تربیت کرتے ہیں کہ وہ گیند کی حرکت کیساتھ مربوط ہو جاتے ہیں،، جبکہ ہمارا قلب (دل) دیکھتا ہے ، سنتا ہے اور شعوربھی رکھتا ہے تو کیا اسے اللہ کا پاک نام پڑھنے کی تربیت نہیں دی جا سکتی؟؟الحمد للہ ضرور دی جا سکتی ہے ۔۔ذکرِ قلبی کے حصول کے بعد انسان کی کیفیت کچھ یوں بن جاتی ہے کہ دِل ہر لمحے اللہ کا مبارک نام دہراتا رہتا ہے اور اس قدر دُہراتا ہے کہ واقعتاً گنتی کم پڑ جاتی ہے۔۔یاد رکھیں،، عقلمند وہ نہیں جو ہماری ناقص رائے میں عقلمند ہو ۔۔ بلکہ قرآن مجید کے مطابق عقلمندوں کی نشانی ملاحظہ کیجئے ۔۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (آل عمران : 191) "وہ جواللہ کا ذکر کرتے ہيں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (یعنی ہرحال میں) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں"۔۔یہ اور اس طرح کی 700 سے زائد آیات قرآن پاک میں موجود ہیں جن میں بالواسطہ اور براہِ راست ذکرِ کثیر کا حکم دیا گیا ہے۔۔کثرتِ ذکر کے اس قدر واضح حکم کے باوجود بھی اگر ہم کسی وقت یادِ الٰہی سے غافل رہیں تو اللہ پاک کی تنبیہ پہ غور کریں۔۔وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا وَّنَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى (طٰہ - 124) "اور جو میرے ذکر(یاد) سے منہ پھیرے گا اس کی (دنیاوی) زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے "۔۔تو دوستو ! آپ بھی کسی صاحبِ دل، ولئ کامل کی صحبت میں پہنچ کر اپنے دل کو اللہ اللہ سکھائیے قبل ازیں اس کی یہ دھڑکن خاموش ہو جائے۔۔'ان شاء اللہ اگلے لیکچر میں بیعت پر بات ہو گی۔۔دا اللہ پا امان۔۔!!
تصوف - 14
'Sir، مجھے یہ پوچھنا ہے کہ آخر ہم کسی سے بیعت کیوں کریں؟ ضرورت کیا ہے اسکی؟'۔۔ویل، کیا آپکو یہ پتہ ہے کہ بیعت کا کیا مطلب ہے اور اسکی کتنی اقسام ہیں؟۔۔'یس سر، بیعت 'بیع' سے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے بیچنا، یعنی اپنی رائے کو کسی دوسرے انسان کی رائے پر بیچ دینا، اپنی سوچ ختم کردینا، دوسرے کی مان لینا، مگر مجھے بیعت کی ٹائپس کا علم نہیں'۔۔رائٹ، پہلے آپ بیعت کی اقسام مختصراًجان لیں، پھر آپکو معلوم ہو گا کہ بیعت کی کیا ضرورت اور فائدہ ہے۔۔ 1: بیعتِ جہاد (حالتِ جہاد میں وقت کے حاکم/امیر سے کیجاتی ہےکہ مر جائیں گے، پیچھے نہیں ہٹیں گے)۔۔2:بیعتِ اصلاح (کسی بھی متبعِ شریعت سے کیجاتی ہے جو روزمرہ کے شرعی مسائل میں راہنمائی کرسکے)۔۔ 3: بیعتِ خلافت (حاکمِ وقت سے اسکی اطاعت کیلئے،، موجودہ جمہوریت میں یہ ووٹ کی شکل میں ہوتی ہے)۔۔4: بیعتِ تصوف (قربِ الہٰی کی منازل طے کرنے کیلئے کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر جو سالک کو کم از کم فنافی الرسول کرانے کی اہلیت رکھتا ہو)۔۔ہمارا موضوع بیعتِ تصوف ہے، وہی تصوف جس کے آپ اب تک تیرہ لیکچرز اٹینڈ کرچکے ہیں۔۔جس طرح کسی بھی شعبے کا علم سیکھنے کیلئے اسکے ادارے میں داخلہ لینا لازم ہے، اسی طرح علمِ تصوف کے ادارے کا نام خانقاہ ہے، یہ کوئی حجرہ یا غارنما شے نہیں بلکہ اچھی خاصی مسجد ہوتی ہے جہاں طالبینِ حق دور دراز سے سمندرِ محبت کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔۔ہر شعبےکے علم میں کمال حاصل کرنے کیلئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، تصوف کے استاد کو شیخ یا پیر کہا جاتا ہے۔۔یہ کوئی غیر انسانی مخلوق نہیں، بلکہ آپ ہی طرح کا بندہ ہوتا ہے جسے اللہ پاک نے محنت مجاہدہ اور اپنے شیخ کی جوتیوں میں بیٹھنے کے طفیل بطور انعام یہ قوت نصیب فرمائی ہوتی ہے کہ وہ اپنی قلبی توجہ اور ذکر اذکار کے ذریعے آنے والوں کا تزکیہ کرسکے۔۔ انکے دلوں کی زمین کونفسانی خواہشات سے پاک کرکے طلبِ الہٰی کی گوڈی کر سکے۔۔ارضِ قلب کی تمام بیماریوں کا علاج کرسکے، اس پر عقیدتِ اسلام کی کھاد ڈال سکے۔۔دل میں محبتِ رسول ﷺ اور اطاعتِ ربانی کےایسے بوٹے لگا سکے جن پر اخلاص، دیانت ، عاجزی اور اصلاحِ اعمال کے نایاب پھول اُگیں۔۔ انکی خوشبو سے باطن مہک اُٹھے ، ظاہر سرسبز ہوجائے۔۔اور بندہ اپنی مرضی اور خوشی سے احکاماتِ الہٰی پر فدا ہوتا چلا جائے۔۔جس طرح عالمِ اسباب میں اللہ کی جانب سے بادل کی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ برسے، لہذا وہ برستا ہے اور اسے یہ فرق کرنے کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کھیتی پر برس رہا ہے یا کوڑے کے ڈھیر پر، وہ صحراؤں کی پیاس بجھا رہا ہے یا دریا کو جل تھل کررہا ہے۔۔ اسی طرح شیخ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ آنے والے پر برکاتِ نبوت کی بارش برسا دے۔۔نتائج پیدا کرنا اللہ کی مرضی اور آنے والے کے خلوصِ طلب پر منحصر ہوتا ہے۔۔اگر زمین زرخیر ہوگی تو اسمیں ہل چلایا جائے گا۔۔کسی نے باغ لگایا ہوگا تو پھل پھول آجائیں گے۔۔کوئی کوڑے کا ڈھیر ہوگا تو مزید تعفن اور بدبو پیدا ہوگی۔۔انسانیت کا خیرخواہ اور محسن ﷺ تو اپنی مکمل روشنیاں ہرسو بکھیر رہا تھا،اور ہے۔۔ کسی کا دلی ارادہ اسے کتابِ تقدیر میں رضی اللہ عنہ بنا جاتا تھا تو کسی کو ملعون۔۔اپنے اپنے ظرف کی بات ہے اور اپنے اپنے نصیب ہیں۔۔'ایکسکیوز می سر، آپ تو ہمیں الفاظ کی بے ساختہ روانی میں بہائے لے جارہے ہیں، یہ بتائیں، ہمیں پتا کیسے چلے گا کہ کون سچا پیر ہے اور کون جعلی شیخ، اور بیعت ہونے کیلئے بھی کوئی اصول و ضوابط ہیں یا بس جسکو دیکھیں پیر بنا بیٹھا ہے، جاکر فوراً اسکی قدم بوسی شروع کردیں؟'۔۔بہت عمدہ بات کی طرف دھیان دلایا آپ نے،، شیخِ کامل کے اوصاف تو میں آپکو اگلے لیکچر میں بتاؤں گا، کیونکہ اب آپکے ساتھ والے دوست کو جمائیاں آنے لگی ہیں،، اسلئے مختصر سمجھ لیں کہ بیعت کرنے کیلئے چھان بین کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ آپ کسی ٹھگ کے ہتھے بھی چڑھ سکتے ہیں، جسکی نگاہ کا اثر آپکے دل پر پہنچنے سے پہلے آپکی جیب شریف پر اٹک جائے گا۔۔سب سے پہلے اسکے ساتھ رہنے والےلوگوں اور دیگر مریدین کو دیکھیں۔۔اگر انکی زندگی حدودِ شرعی میں آچکی ہے یا آرہی ہے۔۔ پہلے دن میں بیس گناہ کرتے تھے، بیعت کے بعد بتدریج دس پہ آگئے ہیں۔۔اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت و اطاعت کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔۔تو سمجھیں کہ پیر ٹھیک ہے۔۔ اگر دونمبر ہوتا تو لوگ پیرصاحب سے صرف دنیاوی فائدہ حاصل کرنے تک مقید رہتے۔۔ ایسے پیروں کا کام کاروبار میں ترقی دلانے، پسند کی شادی کرانے اور بچے پیدا کرانے تک محدود ہوتا ہے۔۔بہرحال، سچا پیر مل جائے تو آپکے ذہن میں اسکی ذات اورافکارسے متعلق جتنے سوالات ہیں، سب کی تسلی کر لیں۔۔ یاد رکھیں بیعت کے بعد اعتراض کی گنجائش نہیں رہے گی کیونکہ آپ خود کو بیچ چکے ہونگے۔۔ بیعت کے بعد بندہ اعتراضات کی کھوج لگاتا پھرے تو گویا اس نے بیعت توڑ دی۔۔'سر، میرا ایک سوال ہے، جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ کرام ہمارے پاس موجودہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟ ہم خود بھی تو عمل کر سکتے ہیں ناں'۔۔ گڈ کوئسچن۔۔ اسکا جواب انشاء اگلے لیکچر میں۔۔ تب تک آپ پچھلے ڈیسک پر بیٹھی محوِ خواب طالبہ کے خراٹے انجوائے کریں۔۔ سونہڑے رب دے حوالے۔۔!!
تصوف - 15
کیا آپ کتابیں پڑھ کرکوالیفائیڈ ڈاکٹر بن سکتے ہیں، جبکہ کسی ادارے میں استاد کی شاگردی اختیار نہ کرلیں؟ ۔۔'نو سر، البتہ عطائی ڈاکٹر ضرور بن سکتے ہیں جو دوسروں کیلئے خطرۂ جان ہوتا ہے'۔۔رائٹ، کیا آپ کسی سینئر وکیل کی سرپرستی کے بغیر وکالت سیکھ سکتے ہیں؟۔۔اور یونیورسٹی میں چار سالہ انجینئرنگ کے بغیر آپکو کون بیوقوف آپکوانجینئر مانے گا؟۔۔ یہ تو سب دنیاوی ڈگریاں وتجربات ہیں، جنہیں آپ ٹیچر کے بغیر نہیں جان سکتے۔۔ ہمارا موضوع تصوف ہے، جس میں برکاتِ نبوت کا حصول ایک مشن ہوتا ہے۔۔جس سے تعلیمات پر عمل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔۔ برکاتِ نبوت کو آپ ایک Pushing Force سمجھ لیں جو آپکو آپکی خوشی سے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا کراتی ہیں۔۔ یہ عبادات میں وہ کیفیات اورخلوص پیدا کرتی ہیں جسکے بارے میں اللہ کے حبیب ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے:'اللہ کی عبادت یوں کرو گویا تم اللہ کو اپنے سامنےدیکھ رہے ہو، اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو کم از کم اتنا تو یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے'۔۔ اس کیفیت کا حصول تصوف ہے، جو تزکیہ قلب کے بغیر ممکن نہیں۔۔اس تزکیہ کیلئے مزّکی /استادکی ضرورت ہے جو روح کا اسپیشلسٹ ہوتا ہے۔۔ سب سے عظیم اور کامل مزّکی ہیں حضرت محمد ﷺ۔۔ آپکی شاگردی/صحبت میں آنے والے صحابہ کہلائے۔۔ حصولِ تزکیہ کیلئے صحبت/حاضری شرطِ اوّل ہے، ورنہ حضرت اویس قرنیؒ آپ ﷺ کے ہم زمانہ ہونے کے باوجود صحابی نہ بن سکے۔۔ تصوف میں یہ اصول اب تک جاری ہے کہ کسی ایسے شیخ کی محفل میں حاضری دی جائے جس نے سینہ بہ سینہ برکاتِ نبوت حاصل کی ہوں اور طالب کے دل میں انڈیل سکے، اور اسے منور کردے۔۔اب آپکا یہ سوال کہ،' جب قرآن و احادیث، سنتِ رسول ﷺ اور سنت صحابہ کرام ہمارے پاس موجودہیں تو پھر کیا ضرورت ہے کہ کسی اور کی پیروی کی جائے؟'۔۔تو جناب، یہ پیروی ہوتی ہی قرآن و سنت کی اقتداء اور اس پر عمل کرنے کیلئے ہے۔۔شیخِ کامل خود سے کوئی نیا اسلام نہیں گھڑتا، بلکہ اسی دین کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے دنیا میں اُتارا۔۔ جہاں سےقرآن و سنت سے دامن چھوٹا اور روگردانی ہوئی، وہاں سےدو نمبر پیری مریدی شروع ہوجاتی ہے۔۔ تصوف وہ محبت بیدار کرتا ہے جو فرائض تو کیا سنت اور نوافل بھی نہیں چھوٹنے دیتا۔۔ ورنہ پتہ تو سب کو ہے کہ نماز روزہ فرض ہے، لیکن کرنے سے قاصر ہیں۔۔جانتے ہیں، مگر عمل نہیں ہوپاتا۔۔ کیا چیز مِسنگ ہے اور کہاں سے ملے گی؟۔۔کسی اللہ والے کی محفل سے ملے گی۔۔'سر، یہ بتائیں کہ شیخِ کامل کی پہچان کیا ہے؟'۔۔ ویل' ایک پہچان تو وہ ہے جو میں نے کل آپکو بتائی تھی۔۔ اسکے علاوہ کچھ لوازمات ہیں، جنہیں میں وائٹ بورڈ پر لکھ رہا ہوں، آپ نوٹ کر تے جائیں پلیز۔۔1: عالمِ ربانی ہو، کیونکہ جاہل کی بیعت کرنا حرام ہے۔۔ 2: صحیح العقیدہ ہو، کیونکہ غلط عقیدہ اور تصوف ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔۔ 3: شرک و بدعت کے قریب بھی نہ جائے، کیونکہ شرک ظلم اور بدعت گمراہی ہے،، شیخ نہ ظالم ہوتا ہے نہ گمراہ۔۔ 4: متبع سنتِ رسول ﷺ ہو، کیونکہ سارے کمالات پیروی سنت سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔۔ 5: دنیا میں رہتے ہوئے بھی دل دنیا کی محبت سے خالی ہو، کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہ سکتیں، یا اللہ کی محبت ہو گی یا دنیا کی۔۔یاد رکھیں، دنیا کا مال و اسباب ہونا منع نہیں، کئی صحابہ کرام بہت مالدار تھے، مگر حلال ذرائع سے رزق حاصل کرتے تھے، اور جائز مصرف پہ خرچ کرتے تھے۔۔ مال و متاع میں کھو کر اللہ کو بھول جانا دنیا ہے۔۔6: علمِ تصوف و سلوک میں کامل ہو، کیونکہ جس راہ سے واقف نہ ہو اس پر دوسروں کو کیسے گامزن کر سکتا ہے۔۔ 7: شاگردوں کی تربیتِ باطنی کے فن سے واقف ہو، اور کسی ماہرِ فن کا شاگرد ہو۔۔ 8: حضور پاک ﷺ سے روحانی تعلق قائم کردے ،جو اللہ اور بندے کے درمیان واحد واسطہ ہیں۔۔یہ آٹھ نشانیاں اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، تاکہ آپکو کوئی ڈی ٹریک نہ کر سکے۔۔'سر، شیخ کا تو ہمیں اب معلوم ہو گیا، مگر یہ غوث، قطب، ابدال، قلندر وغیرہ کیا ہوتے ہیں؟ تصوف میں انکی کیا حیثیت ہے؟'۔۔ آئی ایم سوری ڈئیر، آپ کا سوال عموماً اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کلاس کا ٹائم ختم ہو چکا ہوتا ہے، اور سارے اسٹوڈنٹس بھاگنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔۔ سو، اسے اگلے لیکچر پہ چھوڑتے ہیں۔۔ فی امان اللہ۔۔!!
(تحریر: محمد نعمان بخاری)

مکمل تحریر >>