بدھ، 6 مئی، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) حصّہ ٣٤ تا ٣٦


فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 34)
----------------

جب اُس کے والد کا جنازہ اُٹھایا گیا تو وہ دور بیٹھا دیکھ رہا تھا۔ اُسے یاد آیا کہ اپنے ایک مسیحی دوست کی والدہ اور والد کے جنازوں کو جب اٹھانے کا وقت آیا تو اُس کے اہل خانہ کے ساتھ مل کر اُس نے جنازہ اُٹھایا تھا۔ شاید مرنے والے کو اپنے قریبی لوگوں کے کندھوں کی آرزو ہوتی ہو گی۔ لیکن آج وہ اپنی جسمانی حالت کے باعث اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینے کے قابل بھی نہیں تھا۔ بھیڑ میں کسی سے ٹکرانے کے باعث وہ گر سکتا تھا اِس لیے بھی اُسے جنازے سے دور رہنا پڑا۔ نمازِ جنازہ کے بعد قبرستان پہنچ کر اُس نے گُزارش کی کہ کچھ دیر اُسے جنازے کے ساتھ چلنے دیا جائے اور اِس دوران اُس نے کچھ دیر جنازے پے ہاتھ رکھ کر چار قدم چل کر خود کو تسلی دی کہ میں نے بھی اپنے والد کے جنازے کو کندھا دے لیا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے باعث اُس کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی لیکن اپنی جسمانی حالت کے باعث وہ اب کوئی ذمہ داری نبھانے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اُس کے دادا دادی بھی اُس کے ساتھ ہی رہتے تھے اِس لیے بھی اُسے تسلی رہتی تھی۔ عجیب سوچ تھی اُس کی, اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات اُس کی سوچ پر گہرا اثر چھوڑتے اور اپنی خود کی زندگی میں ہونے والے واقعات کا احساس چاہ کر بھی اُس کی سوچ کا محور نہیں بن پاتے تھے۔ اِس باعث گھر کی تمام ذمہ داری اُس کی والدہ, بیوی اور بھائی پر آ گئی۔ اُس کے چھوٹے بھائی نے بڑے بیٹے کے فرائض سنبھالے, اُس کی والدہ نے والد کی جگہ لی, اور اُس کی بیوی نے اُس کے بچّوں کے لیے ماں اور باپ دونوں کے فرائض سرانجام دیے۔ اُس نے اپنے آپ کو دفتر کے کام کاج میں اِس قدر مصروف کر لیا کہ اکثر رات گئے گھر جاتا۔ دیر سے گھر جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب وہ خود سے چل کر گھر سے دفتر نہیں جا پاتا تھا۔ جو راستہ پیدل دس سے پندرہ منٹ میں آسانی سے طے کیا جا سکتا تھا اُس کے لیے اُسے کسی سواری کی ضرورت پڑتی۔ قلیل آمدنی کے باعث روز روز وہ ٹیکسی پر آنا جانا نہیں کر سکتا تھا۔ جب بھی کسی جگہ جانا ہوتا تو کسی سے کہنا پڑتا۔ اگرچہ اُس کا بھائی اور دوست وغیرہ ہمیشہ اُس کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن پھر بھی اکثر اُس کے دل میں یہ بات آتی کہ وہ لوگوں کا محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ یہ محتاجی اُس کے جسم تک ہی محدود تھی۔ اپنے دفتری کام کاج کے حوالے سے سب اُسے بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتے اور اُس کی ذہانت کی داد دیتے تھے۔ اِس ذہانت نے اُسے اپنے ڈیپارٹمینٹ میں بہت سی عزت اور شہرت دی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ دفتر کی بہت سی ذمہ داری اُس کے سر آ گئی تھی اور یہ ذمہ داری اُس کے پاس ایک بہترین جواز تھا اپنی ذمہ داریوں سے دور بھاگنے کا۔ اُس کے گھر والوں نے اُس کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ اللّٰہ نے اُسے بہت سی صلاحیت دی تھی لیکن اُس نے اپنی صلاحیت کا کبھی کچھ خاص استمعال نہیں کیا۔ Touchstone Communications نامی ایک معروف کال سینٹر جہاں کام کرنے کے لیے انگریزی زبان اہل ذبان کی طرح بولنی پڑتی تھی وہاں اُس نے قریب ایک سال کام کیا۔ جہاں سے امریکہ کی مختلف اسٹیٹیس میں پاکستانی لڑکے لڑکیاں مختلف امریکن بینکس کی طرف سے کالز کیا کرتے تھے۔ اپنے مالی حالات کے پیشِ نظر اور اپنی بیوی اور کزن کے پُر زور اسرار پر اُسے کال سینٹر میں کام کرنا پڑا۔ اکثر لوگ اُسے حیرت سے دیکھتے کہ اِس کی تعلمی قابلیت صرف انٹرمیڈیٹ ہے اور وہ کبھی پاکستان سے باہر کسی مُلک نہیں گیا۔ اکثر لوگوں سے آمنے سامنے انگریزی زبان میں بات کرتے وہ جھجھک سا جاتا تھا لیکن کال پر امریکی عوام سے بات چیت کرتے اُس کا اعتماد قابلِ دید ہوتا تھا۔ جس سرکاری محکمے میں وہ کام کرتا تھا وہاں اُسے آڈٹ اور اکاونٹس کے بارے میں معلومات کے حوالے سے ایک ایکسپرٹ کی حیثیت سے دیکھا جاتا۔ اُس کے ہاتھ کے لکھے سرکاری خطوط کی انگریزی پڑھ کر اکثر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ لیکن اِن تمام صلاحیتوں کے باوجود وہ اپنے گھر بار کے لیے گُزارے لائق آمدنی بھی اکھٹی نہیں کر پاتا تھا۔ کیونکہ کہ سرکاری محکموں میں عام طور پر کام کرنے اور کام نہ کرنے کی ایک سی تنخواہ ملتی ہے۔ اور زیادہ کام کرنے والے کو اُس کی ایمانداری پر شاباشی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ تو کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا اُسے بھی تھا لیکن اللّٰہ نے کبھی اُسے مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ اپنی شُکر گُزاری پے معمور رکھا۔ کم آمدنی اور سخت حالات کے باوجود وہ اور اُس کے گھر کے باقی لوگ خوش رہنا جانتے تھے۔ اپنے گھریلو حالات سے زیادہ اُسے لوگوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔ جو شخص اپنے والد کی اچانک موت پر ایک آنسو نہ رویا وہ مُلک میں کسی جگہ ہونے والے بم دھماکے میں مرنے والے لوگوں کا سُن کر گھنٹوں رویا کرتا تھا۔
جولائی 2007 میں جب لال مسجد کا واقعہ پیش آیا تو وہ اندر سے بہت زیادہ ٹوٹ گیا۔ اُس کا دفتر لال مسجد کے سامنے والی عمارت میں تھا اور گھر بھی پاس ہی تھا اِس لیے اِس واقعے سے پہلے اور بعد کے بہت سے حالات اُس کی نظروں سے گُزرے۔ اِس واقعے کے دوارن ایک روز اُس کے بیٹے نے ایک ڈرائنگ بنا کر اُسے دکھائی۔ تو اُس نے ڈرائنگ دیکھ کر اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا بنایا ہے۔ تو اُس نے تصویر پر اُگلی رکھتے ہوئے کہا یہ مسجد ہے اور یہ سب مولویوں کی لاشیں ہیں۔ اُس نے چونک کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو اُس وقت پہلی جماعت میں پڑھتا تھا اور اُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر اُس کا ماتھا چوما اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو کیا کہے, بہرحال اُس نے اپنے الفاظ اکھٹے کرتے ہوئے کہا "بیٹا ایسی ڈرائنگ نہیں بناتے, بُری بات ہے" تو اُس کے بیٹے نے کہا "بابا مولوی دہشتگرد ہوتے ہیں, وہ سب کو مار دیتے ہیں۔ بابا یہ دہشتگرد مسلمان ہوتے ہیں۔؟" اُس نے بےبسی کے عالم میں اپنے بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور کہا "بیٹا دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اور کوئی مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا۔" کرفیو کے دوران جب کچھ دیر کو لوگوں کو خریداری کے لیے گھروں سے نکلنے کی اجازت ملی تو وہ بھی گھر سے باہر نکل کر کھڑا ہوا اُس کا بیٹا بھی ساتھ تھا, گھر کے سامنے مارکیٹ میں کھُلی دُکان دیکھ کر اُس کے بیٹے نے کسی چیز کی فرمائش کی تو اُس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں پیسے دے کر کہا کہ جاؤ لے آؤ چیز, میں آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ اُس کے بیٹے نے اُس کے ہاتھ سے پیسے لیے اور بااعتماد انداز میں مارکیٹ کی جانب بڑھا اُس روز اُس نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اکیلے بازار بھیجا تھا وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یقین بھی عجیب چیز ہے جو کام انسان اپنی تمام تر طاقت اور حوصلے سے نہیں کر پاتا وہ کام اکثر یقین سے ہو جاتا ہے, جب اُس نے اپنے بیٹے کو خود بازار جانے کو کہا تو اُس کا بیٹا ایک پل کو سہم سا گیا لیکن جب اُس نے کہا کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں تو اس بات سے کہ اُس کا باپ اُسے دیکھ رہا ہے اُس کے اندر ایک اعتماد جاگ اُٹھا, اُس نے سوچا کہ اللّٰہ بھی اپنے بندے سے یہی کہتا ہے میں تجھے دیکھ رہا ہوں مگر ہم اس بات پر یقین نہیں کر پاتے۔ اتنی دیر میں اُس کا بیٹا اپنی مطلوبہ چیز لے کر پلٹ رہا تھا اور اُس کے اعتماد میں کوئی فرق نہ تھا کہ اچانک اُس کی نظر ایک پولیس والے پر پڑی اور وہ سہم سا گیا اور بھاگ کے اُس کے پاس آ کر کہنے لگا "بابا بھاگیں ورنہ پولیس ہمیں گولی مار دے گی" اُس کا بیٹا بات کرتے کرتے اپنے باپ کے پیچھے چھُپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے فوراً اپنے بیٹے سے کہا "نہیں بیٹا وہ آپ کو نہیں ماریں گے, دوست ہیں وہ آپ کے, دیکھو وہ دیکھ رہے ہیں آپ کو۔" کرفیو کے باعث علاقہ سُنسان تھا اس لیے اُس کی اور اُس کے بیٹے کی تمام گفتگو واضح طور پر پولیس والے کے کان تک پہنچ رہی تھی اور جس طرح وہ سہم کر بھاگا تھا اُس سے بھی پولیس والا اُس کی جانب متوجہ تھا اُس نے اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خود سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا کیا اور کہا "دیکھو کسی نے آپ کو گولی نہیں ماری, وہ دوست ہیں آپ کے جاؤ اُن سے ہاتھ مِلا کر آؤ" اُس کا بیٹا تھوڑا سا جھجھکا مگر پولیس والے کو مسکراتے ہوئے اپنی جانب دیکھتے ہوئے اُس نے اُس کی جانب بڑھنا شروع کیا اور جا کر اُس سے ہاتھ ملایا۔ پولیس والے نے بہت شفقت سے اُس سے ہاتھ ملایا اور اُس کے سر پے ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس سے اُس کا نام پوچھا اور اُس کا بیٹا اپنا نام بتا کر واپس لوٹ آیا۔ اِس تمام عرصے میں اُس نے اور اُس پولیس والے نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ اور دونوں کی آنکھوں میں ایک سی اُلجھن تھی کہ کیا آنے والی نسل کو سِسٹم پے یقین کرنے کا درس دینا چاہیے یا نہیں, ایک پل کو اُس سپاہی نے اُس کی حُب الوطنی کو بھی سراہا لیکن مُلک و قوم کے کل کی ایک مایوسی دونوں کی آنکھ میں موجود تھی جس کے باوجود اُن دونوں نے شاید ایک پُرامید پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی۔ کرفیو کا وقفہ ختم ہونے کو تھا اِس لیے وہ اپنے بیٹے کو لیے گھر واپس آ گیا۔ مگر اُس کے اندر ایک جنگ سی چل رہی تھی۔ ایک پانچ سال کے بچّہ اتنا اثر لے رہا ہے حالات کا کہ اُسے ہر مولوی دہشتگرد نظر آ رہا ہے, اور اپنی قوم کے سپاہیوں پر سے بھی اُس کا اعتماد اُٹھ رہا ہے۔ ایک ہی دن میں اُس نے اپنے بیٹے کی دو غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ اُس نے صحیح کیا یا غلط۔ آنے والے کل میں اُس کا بیٹا کیا کہے گا کہ اُس کے باپ نے اُسے صحیح سبق دیا تھا یا غلط۔ اِس کا فیصلہ آنے والے کل نے کرنا تھا جو فی الحال اُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ 

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 35)
----------------

اُس کی شادی کی سالگرہ جولائی کے مہینے میں ہی ہوتی تھی, اُس کی بیوی نے اُسے یاد دِلایا تو اُس نے غمگین لہجے میں کہا "اب شاید ہم شادی کی سالگرہ کبھی نہ منائیں۔" اُس کی بیوی نے اُس کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہا "ہاں بہت سا خون ناحق بہہ رہا ہے" اُس نے کہا "خونِ ناحق تو آج ساری دُنیا میں مسلمانوں کا ہی بہایا جا رہا ہے, افسوس اِس بات کا ہے کہ ہم پر یہ وقت آ گیا ہے کہ دونوں جانب ہم ہی ہیں, دونوں جانب انسان ہیں, دونوں جانب سے نعرہ تکبیر بُلند ہو رہا ہے, دونوں جانب سے ہم ہی قتل ہو رہے ہیں دونوں جانب سے پاکستان ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ میں دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوں۔ میری فکر یہ ہے کہ حالات یہاں تک پہنچے تو کیوں پہنچے کہ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہم سب اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ روز اس قبر میں ہم اپنے والدین, اولاد, دوست وغیرہ سب کو دفنا رہے ہیں لیکن جاگنے کو تیار نہیں ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی خامی درست کرنے کا خواہاں نہیں ہے سب یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ سُدھر جائیں۔ خود شناسی کسے کہتے ہیں, خود بینی کس شئے کا نام ہے, اِن باتوں کا تو جیسے درس ہی اٹھا لیا گیا ہے زمین سے۔" اُس کی بیوی نے پوچھا "آپ کس کے ساتھ ہیں۔؟ حکومت کے یا لال مسجد والوں کے۔؟" تو اُس نے کہا "میں دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوں, دونوں کا مطالبہ درست مگر طریقہِ کار غلط ہے۔ اگر اسلام نافذ کرنا ہے تو لوگوں کے دل بدلنے کی کوشش کیجیئے اُن میں سلامتی کی سوچ بھرنے کی کوشش کیجیئے اسلام خود بہ خود نافذ ہو جائے گا۔ زنا کی خواہشمند قوم کو زور زبردستی سے حجاب کروا کے اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہوتا۔ جب اُس کے اندر اسلام نہیں ہے تو اُس کے باہر اسلام پھیلا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے, زبردستی کر کے آپ اُسے غلام کر سکتے ہیں مسلمان نہیں۔ اکثر لوگ جو اپنے ماں باپ کے ڈر سے داڑھی رکھتے ہیں یا حجاب کرتے ہیں وہ روک ٹوک کرنے والے ماں باپ سے دور ہوتے ساتھ ایسے حجاب کو ترک کرتے ہیں جیسے کسی عذاب میں مبتلا تھے۔ کیا فائدہ ایسے حجاب کا جس میں رہتے ہوئے بھی انسان بےحیا ہو۔؟" اُس کی بیوی نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن اگر سب لوگ با پردہ ہو کر پھرنا شروع کر دیں تو معاشرے میں کچھ تو سُدھار پیدا ہو گا, لوگ دین کی طرف مائل ہوں گے۔ گناہ کے مواقع کم ہوں گے تو گناہ بھی کم ہو گا, کسی جانب سے معاشرے میں سُدھار کا سلسلہ شروع ہو گا, تو ایسی سختی میں فائدہ بھی تو ہو سکتا ہے۔"

اُس نے مسکرا کر اپنی بیوی کی جانب دیکھا اور کہا "جب تک دل نہ بدلے تب تک کچھ نہیں بدلتا, ایسے بہت سے مُلک ہیں جہاں لوگ حجاب کرتے ہیں لیکن اُن کا معاشرہ بھی گمراہیوں میں ڈوبا ہے اور ہر طرح کا گناہ موجود ہے۔ اور پردے کی وجہ قانون ہے, اللّٰہ نہیں۔ جب اُس کا عمل اللّٰہ کے لیے نہیں ہے تو ایسا عمل بِگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے آہستہ آہستہ دین کو لوگوں کی زندگی میں داخل کیا, ایک معاشرے کی حیثیت سے ہم لوگ کسی بھی طرح دورِ جاہلیت کے اُن لوگوں سے کم نہیں ہیں۔ ہم لوگ کسی بھی زاویے سے مسلمان نہیں ہیں۔ مسلمان ہونا محض مسلم نام رکھ لینا یا نماز روزہ ادا کر لینا نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی مذہب کا پیروکار ہونا, محض اُن جیسا نام رکھنا, اُن جیسا حُلیہ بنانا اور اُن کے طریقے سے عبادت کرنا, نہیں ہے۔
دین و مذہب تو اللّٰہ سے دل جوڑنے کا نام ہے دین تو لوگوں میں سلامتی بانٹنے کا نام ہے۔ جس نبی نے پتھر کھا کر بھی لوگوں کو بددُعا نہیں دی اُس نبی کے نام لیوا لوگ جب اُسی کے نام پر یہ طرزِ عمل اپنا لیں کہ تم نے ہمارے اتنے لوگ مارے تھے اِس لیے اب ہم تمھارے اتنے لوگ مار رہے ہیں۔ تو اُس قوم کو برباد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اِن لوگوں کو اگر بدلنا ہے تو اِن کے دل بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے, یہ ایسی قوم ہے کہ اگر ان کے دل بدل جائیں تو یہ دنیا بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہم سب دل بدلنے کی جگہ جسمانی تبدیلیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ انقلاب ضرور آئے گا لیکن اُس کے لیے ہمیں اپنی سوچ میں انقلاب لانا پڑے گا۔ جب تک ہماری سوچ نہیں بدلے گی تب تک کچھ نہیں بدلنے والا۔"

لال مسجد کے واقعے کے بعد اُس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ چُکا تھا آئے دن مُلک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر رو رو کر اِب اُس کے اندر آنسو خُشک ہو چُکے تھے۔ اُس کی بیوی بھی سُلطان محمد اصغر علی رح کی مُرید تھی اور ایک تربیت یافتہ اور باعمل عورت تھی۔ اُس کے مُرشد پاک نے لوگوں تک اولیاء کا پیغام پہنچانے کے لیے جو جماعت قائم کی تھی, اسلام آباد میں اُس جماعت کی ایک شاخ خواتین کے لیے بنانے کا کام اُس کی بیوی کے سُپرد کیا گیا۔ جب لوگوں کو اپنے گھر درس پے بُلانے کا مرحلہ آیا تو اُس کی بیوی نے اُس سے کہا "آپ مجھے بتائیں کہ محلے میں کس کس گھر میں دعوت دوں اور کس گھر میں نہیں۔" تو اُس نے کہا "ہر گھر میں ۔۔, شیعہ, سُنّی, مسیحی, ہماری گلی میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں اور سب کے گھر دعوت دینی ہے۔ کیونکہ ہم کسی مسلک مذہب کی نہیں بلکہ اللّٰہ کی دعوت دے رہے ہیں اور اس دعوت پے سب کا حق ہے" اُس کی بیوی نے کہا "لیکن ہر کوئی تو نہیں آئے گا نا, میں نے سوچا تھا کہ سب کے گھر جا کر خواتین کو میلاد اور درس کی دعوت دوں گی, لیکن اکثر لوگ تو میلاد وغیرہ مانتے ہی نہیں ہیں تو ایسے لوگوں کو دعوت دینے کا کیا فائدہ۔؟ اور غیر مذہب کے لوگ کیوں آئیں گے۔؟ بلکہ وہ تو دعوت دینے پر بھی بُرا مان جائیں گے۔" اُس نے کہا "نہیں ایسا نہیں ہو گا, تم صرف یہ پیغام دو گی کہ ہم مذہب و مسلک سے ہٹ کر صرف حُبِ الہٰی کا درس دیں گے اِس لیے آپ سب تشریف لائیے گا, جب تم شروع میں ہی وضاحت کر دو گی کہ فرقہ پرستی سے ہٹ کر بات کی جائے گی تو لوگ کم سے کم ایک دفعہ تمھیں سُننا ضرور چاہیں گے, اور جب انہیں نظر آئے گا کہ تم سچ میں فرقہ واریت سے پاک صرف اور صرف حُبِ الہٰی کی بات کر رہی ہو تو وہ بار بار تمھیں سُننے کی خواہش کریں گے۔ تمھارا کام پیغام پہنچانا ہے, لوگوں کو کھینچ کر لانا نہیں, دعوت سب کو دو, پھر جو آئے نہ آئے اُس کی مرضی ہے" اُس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور اللّٰہ کی مہربانی سے اُس درس میں شیعہ, سُنی, صوفی کے ساتھ مسیحی خواتین نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 36)
----------------

باپ بیٹی کا رشتہ بہت انمول رشتہ ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بیٹیاں ماں سے ذیادہ باپ کے قریب ہوتی ہیں۔ اُس کی بیوی بھی اپنے والد کے بہت قریب تھی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اِس لیے بھی اپنے والد کا سارا پیار اُسے ہی مِلا۔ اُس کے والد بھی اپنے اندر جُستجو حق رکھتے تھے اِس لیے وہ مُرشد کامل کی تلاش میں الگ الگ بزرگوں کے پاس جاتے اور ہر بزرگ سے اللّٰہ کی پہچان طلب کرتے اور جہاں بات نہ بنتی وہاں جانا چھوڑ دیتے, کیونکہ اُن کی طلب سچّی تھی اِس لیے ذیادہ تر اُن کا رابطہ اچھے اور سچّے بزرگوں سے ہُوا۔ سچّے بُزرگ حضرات کو مریدین کی تعداد بڑھانے کا شوق نہیں ہوتا اِس لیے وہ سچّے طالبوں کو اُن کی طلب کے مطابق آگے بھیج دیتے ہیں۔ ایک بزرگ سے جتنا فیض جس کے نصیب میں ہوتا, مُرید کی کیفیت کے مطابق, بزرگانِ دین اُتنا فیض اُسے سونپ کر اُسے اُس بُزرگ کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے پاس مُرید کا باقی کا فیض ہوتا ہے۔ اِسی ترتیب پر چلتے ہوئے وہ حاجی رحمت اللّٰہ المعروف پیر دھنکہ شریف تک پہنچے, اور کئی بار اُن کے پاس حاضری دینے اور مسلسل اللّٰہ کی پہچان اور اُس کے قُرب کی التجاء کرنے کے بعد ایک دن بابا دھنکہ شریف نے اُنھیں دُعا دیتے ہوئے کہا "جا خضر علیہ السلام تیری مدد کریں گے۔"
وہ اپنی تمام کیفیات اپنی بیٹی سے شیئر کرتے اور اُن کی بیٹی بھی اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے والد کی مدد کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ دونوں باپ بیٹی عبادات میں ایک دوسرے پے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔ ایک دن میں ہزاروں بار درود شریف پڑھتے اور اللّٰہ سے اللّٰہ کے قرب کا سوال کرتے۔ اور ایک دن اُس کے والد کی ملاقات سُلطان محمد اصغر علی رح کی قائم کردہ اصلاحی جماعت کے کارکُنان سے ہوئی اور پہلی ہی مُلاقات میں وہ اُن کارکُنان کی گفتگو سے شدید متاثر ہوئے پھر سُلطان محمد اصغر علی رح سے شرفِ ملاقات حاصل کیا اور اُن کے مُرید ہوئے۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو حُب الہٰی کی دولت سے آراستہ کرتے ہوئے پروان چڑھایا تھا اور بیٹی نے بھی اپنے والد کی محنت ضائع نہیں ہونے دی۔ اُسے نماز اور درود پڑھتے رہنے میں سکون ملتا تھا۔ جس عمر میں لڑکیاں فیشن وغیرہ کی باتیں کرتی ہیں اُس عُمر میں اُسے باپردہ رہنے کی فکر رہتی۔ جب دوسری لڑکیاں اپنی کلاسز چھوڑ کر کالج میں اپنی سہلیوں کے ساتھ گھوما کرتی تھیں تب وہ کلاس چھوڑ کر کالج میں موجود مسجد میں بیٹھی عبادت میں مصروف رہتی تھی۔ اُس کی ٹیچرز نے اُسے کئی بار تنبیہ کی کہ کلاسز چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھا کرے لیکن وہ باز نہ آئی تو ایک دن اُسے کہا گیا کہ اگر اُس نے مسجد میں بیٹھنا ترک نہ کیا تو کالج کی مسجد بند کرا دی جائے گی۔ تو اُس نے جواباً کہا کہ آپ مسجد بند مت کیجیئے میں آپ کا کالج ہی چھوڑ دیتی ہوں۔ اور اِس طرح اُس نے پڑھائی چھوڑ دی, اُس کا دل اللّٰہ سے جُڑ گیا تھا اِس لیے دنیاوی علم سے اُس کا جی اُچاٹ ہو چُکا تھا۔
ایک لڑکی جس نے اپنے والد کی تربیت سے حُب الہٰی کا درس حاصل کیا اور اُسے اپنے جینے کا مقصد بنانے کی کوشش کی۔ ایک باپ جس نے اپنی بیٹی کو حُبِ الہٰی کی راہ پر ڈال کر تربیت کا حق ادا کر دیا۔ انہی کی بدولت اُسے بھی سُلطان محمد اصغر علی رح تک پہنچنا نصیب ہوا تھا۔ اُس کے سُسر ہی وہ شخص تھے جنہوں نے اُس کے دل میں اللّٰہ کی طلب محسوس کی اور اُسے اپنے مُرشد پاک سے متعارف کروایا۔ اُس کے سُسر شریعت کے سخت پابند انسان تھے۔ جب وہ پہلی بار اُن کے ساتھ سُلطان محمد اصغر علی رح سے ملنے گیا تھا تو اُن کی بیٹی بھی ساتھ تھی اور سارا راستہ اُس نے دیکھا کہ دونوں باپ بیٹی کو صرف یہی فکر تھی کہ وہ وقت پے نماز ادا کر لیں۔ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ دونوں نفلی نمازوں کے بھی سخت پابند تھے۔ جب وہ لوگ اسلام آباد سے جھنگ کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو اُس نے سوچا کہ یہ لڑکی اتنا طویل سفر کیسے کرے گی۔؟ اور اُسے یہ احساس بھی ہو رہا تھا کہ اِس کی موجودگی کی وجہ سے شاید سفر اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ لیکن اُس لڑکی نے تمام راستہ اپنا حجاب اور اپنا آپ ایسے سنبھالا کہ اُس کی نظر میں اُس لڑکی کے لیے بہت سا احترام پیدا ہو گیا۔ سُلطان محمد اصغر علی رح سے شور کوٹ میں ملاقات کے بعد واپسی پر وہ لوگ غلطی سے کسی اور جانب چلے گئے اور  یہ بات انھیں تب سمجھ آئی جب گاڑی والا اُنھیں ایک دریا کے کنارے اُتار کر واپس چلا گیا۔ اُسے پتہ چلا کہ دریا کے اُس پار سُلطان باہو رح کا دربار ہے اور اُس لڑکی کا کہنا ہے کہ ہم اگر راستہ بھٹک کر یہاں تک پہنچے ہیں, تو اب یہ بات جانتے ہوئے کہ ہم گھر کی جانب نہیں بلکہ سُلطان باہو رح کے دربار کی جانب سفر کر رہے تھے, ہمیں اپنا سفر اُن کے دربار کی جانب جاری رکھنا چاہیے اور دربار پے حاضری دیے بغیر واپس نہیں جانا چاہیے۔ جب کہ اُس کی سوچ یہ تھی کہ جلد از جلد اسلام آباد واپسی کا انتظام کیا جائے کیوں کہ شام ہونے کو ہے اور ایسے دور دراز علاقوں میں شام کے بعد کسی سواری کا ملنا مُشکل ہو جاتا ہے۔ اُس نے اپنے سُسر سے اپنے خدشے کا اظہار کیا اور اپنی بیٹی کو سمجھانے کو کہا تو انھوں نے کہا کہ "میں کوشش کر چُکا ہوں, آپ خود بات کر لیجیے, شاید آپ کی بات سمجھ جائے۔"
اُن کے کہنے پے وہ اُس لڑکی کی جانب بڑھا جو سب سے الگ تھلگ دریا کنارے نماز ادا کرنے کے بعد دُعا میں مشغول تھی۔ اُسے اپنے پاس کھڑا دیکھ کر وہ اُس کی جانب متوجہ ہوئی تو اُس نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا "میرے خیال میں ہمیں واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ شام ہونے کو ہے" تو اُس لڑکی نے اُس کی بات سمجھتے ہوئے اطمینان سے کہا "اِس کائنات میں ہر کام کا ایک مقررہ وقت ہے اور وہ اللّٰہ کی رضا سے اُسی وقت پر ہو گا, نہ ایک پل پہلے نہ ایک پل بعد, ہم انسان بِلاوجہ آنے والے وقت کو سوچ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں, جب کسی راستے پے جاتے ہوئے منزل سے ایک قدم پہلے اللّٰہ آپ کو روک کر بتا دے کہ یہ راستہ فلاں جانب جاتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ آخری قدم آپ اپنی مرضی سے اُٹھائیں۔ تو اب ہماری مرضی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو اور اپنے دنیاوی آرام کو سوچتے ہوئے اِس راستے سے پلٹ جائیں یا پھر اُس کی رضا سمجھتے ہوئے آخری قدم بھی اُسی جانب اُٹھائیں جس جانب وہ ہمیں لے جا رہا تھا" زندگی میں شاید پہلی بار کسی نے اُسے لاجواب کر دیا تھا۔ اُس نے کہا "جی آپ بلکل صحیح کہہ رہی ہیں" اور اتنا کہہ کر وہ فوراً وہاں سے دور آ گیا۔ اُسی وقت واپسی کی سواری کا انتظام ہوگیا اور وہ لوگ دریا کے سفر کی جگہ کسی اور راستے سے سُلطان باہو رح کے دربار تک پہنچے۔ گُزرتے گُزرتے دور سے ہیر رانجھا کا مزار بھی دیکھ اور سُلطان باہو رح کے دربار پر حاضری دینے کے بعد اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئے۔
اُس کی بیوی بہت اخلاص و استقامت سے اپنے مُرشد پاک کا پیغام عام کرنے کی کوشش کر رہی تھی, جس کا ثمر یہ تھا کہ یہ پیغام چند ماہ میں ہی بہت سے لوگوں کو متاثر کر گیا اور خواتین تیزی سے اِس جماعت کا حصّہ بننا شروع ہو گئیں۔ اُس نے دن رات ایک کر کے لوگوں تک پیغام پہنچایا اور اسی دوران اکتوبر 2007 میں اللّٰہ نے اُسے ایک اور بیٹا دیا۔ اپنے بڑے بیٹے کی پیدائش پے اُس کی بہت خواہش تھی کہ اپنے مُرشد پاک سے پوچھ کر اپنے بیٹے کا نام رکھے لیکن وہ مُرشد کے سامنے زبان نہ کھول سکا۔ اِس بیٹے کی پیدائش پے اُس نے سوچا کہ نام پوچھنے کی مجال تو ہو گی نہیں میری, اس لیے خود ہی نام رکھ دیتا ہوں۔ لیکن اس بار اُس کی خواہش پوری ہوئی اور اُس کی بیوی سے کہا گیا کہ اِس بچّے کے نام کے آخر میں 'باہو' نام لگا دو۔ دونوں میاں بیوی اکثر رات گئے تک بیٹھ کر احادیث, یا اولیاء کی تعلیمات پر ایک دوسرے سے بات کرتے۔ اُس کی بیوی اپنے والد کے بعد اُسے اپنے اُستادوں میں شمار کرتی تھی۔ وہ اپنے مُرشد کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خود تو کچھ نہ کر سکا لیکن اِس کام میں اپنی بیوی کی مدد کے لیے وہ جو کچھ کر سکتا تھا اُس نے کیا۔ اُس کی والدہ نے بھی اپنی بہو کا ساتھ دیا۔ ایک ہی دن میں کئی جگہ جا کر خواتین کو حُبِ الہٰی کا درس دینا اُس کی بیوی کے لیے عام بات تھی۔ اکثر وہ اپنی بیوی کے سو جانے کے بعد اُس کے پیر دباتا جو اکثر پیدل چل چل کر سوج جاتے تھے۔ اور سوچتا کہ اے اللّٰہ یہ کتنے خوش نصیب پیر ہیں جو تیری راہ میں چلتے ہیں کاش ایسے پیر میرے پاس بھی ہوتے۔ کبھی اُس کی بیوی جاگ جاتی اور اُسے پیر دبانے سے روکتی تو وہ کہتا کہ "اگر میں تمھاری طرح مُرشد پاک کا پیغام عام کر رہا ہوتا, تو میں روز تم سے پیر دبانے کو کہتا, لیکن مجھے یہ سعادت نصیب نہیں ہو سکی اِس لیے میں تمھارے لیے آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی طرف سے اُس پیغام کی کوشش میں اپنا حصّہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں تمھارے پیر اِس لیے دبا رہا ہوں کیوں کہ جو کام مجھے کرنا تھا وہ کام تم کر رہی ہو, اِس لیے مجھے مت روکا کرو۔"


0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔