اتوار، 24 مئی، 2015

بال جبریل اپنا مقام پیدا کر

کلام اقبال
بال جبریل
                 جاوید نامہ(بیٹے کے نام خط)

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
              خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

یہ شعر اس نظم کی جان نہیں بلکہ تمام کلام کی جان ہے.ان کے سارے فلسفہ کی روح ہے. "اپنی خودی کو کسی بهی قیمت پر مت بیجو  . خودی خود آگہی کا دوسرا نام ہے . اگر انسان ،حرص دینوی سے قطع و نظر کرکے غوروفکر سے کام لے تو یہ حقیقت  روز روشن کی طرح اس پر  واضح ہوسکتی کہ غریبی میں بهی نام پیدا کیا جاسکتا ہے.. انسان عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کیلیے  اپنی خودی کو بیچتا ہے. اور اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے..
اگر انسان ہمت و استقلال سے کام  لے تو غریبی میں ہی نام پیدا کرسکتا ہے لہزا نام پیدا کرنے کیلیے ضمیر فروشی کی ظرورت نہیں ..اقبال کے زمانہ میں بعض مسلمانو نے انگریز کے بازار سیاست میں اپنی خودی کو بیچ کر سہ حرفی اور چہار حرفی خطابات مثلا (کے بی ای سی) حاصل کیے اور نام بهی پیدا کیا.
لیکن نہ ان کو حسین رض جیسا فضل نسیب ہوگا اور نہ سکندر کی حیات
ان لوگو کے مقابلے میں اقبال نے اپنی زندگی کے دن موٹر .ٹیلیفون اور اردلی کے بغیر محض اللہ کی بندہ پروری کی بدولت گزارے  مگر آج کوئ شخص ان خطابات یافتہ حضرات کا تزکرہ بهی نہیں کرتا . لیکن غریب اور گوشہ نشین  اقبال نہ صرف دنیا بلکہ سارے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے. سب کو ان کا کلام تسکین  قلب کا سامان مہیا کرتا ہے  اور ان کا مزار بلا مبالغہ زیارت گاہ خاص و عام ہے.
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

سچ تو یہ ہے ان دو لفظوں میں قوموں کے عروج کا فلسفہ بیان کردیا ہے. وہ قوم دنیا میں کبهی سر بلند نہیں ہو سکتی . جس کے افراد خودفروشی کے مرض  میں مبتلا ہو خودفروشی تو غلامی کی تمہید ہے

ایڈمن محمد اسماعیل

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔