فرقوں
میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) حصّہ 31)
----------------
اُس
رات وہ اُنہی کے ڈیرے پے رُکا اور صبح تک لوگوں کا آنا جانا لگا رہا۔ ایک شخص مُلاقات
کے لیے آیا تو سرکار نے اُس شخص سے اُس کی خیریت دریافت کرتے ہوئے پوچھا "سب خیر
ہے۔؟" تو اُس نے کہا "مالک کا بہت رحم و کرم ہے مُرشد, اچھی گزر رہی ہے"۔
آنے والا مُرید بہت غور سے اُسے دیکھ رہا تھا کہ یہ شخص سرکار کے اتنے قریب کیوں بیٹھا
ہے۔ سرکار نے اُس شخص کی نظروں کو دیکھتے ہوئے پنجابی زبان میں کہا "اے سمجھ والا
بندہ اے, ایدے کولوں سِکھو آدابِ مُرشد, جد سِکھ جاؤ گے تے بے جانا میرے کول"
پھر اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا " پڑھے لکھے لوگوں سے سیکھنے کا جی کرتا ہے میرا,
اچھا تُو مجھے یہ سمجھا کہ رحم اور کرم میں کیا فرق ہے۔؟" تو اُس نے کہا
"سرکار میں تو خود آپ سے سیکھنے آیا ہوں, آپ خود ہی بیان کیجیئے" تو انہوں
نے پھر سے اُس شخص سے کہا "اے ہوندا اے درویش دا ادب, جواب معلوم اے پر درویش
دے سامنے اپنا علم جھاڑنے دا کوئی شوق نئی" پھر اُس سے کہا "چل اب جواب دے,
رحم تے کرم دا فرق دس۔" تو اُس نے موئدب لہجے میں الفاظ سنبھالتے ہوئے کہا
"سرکار, میرے خیال میں جو طلب پے مل جائے وہ رحم اور جو بے طلب مل جائے وہ کرم
ہے۔" سرکار نے اُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں ایسا ہی ہے چل اب یہ بتا
کہ اللّٰہ سے کیا طلب کرنا چاہیے اور کیا نہیں ۔؟" وہ سرکار کا نظریہ سمجھ گیا
تھا کہ سرکار اُس کی باتوں سے مُریدن کو بات کے ساتھ ساتھ بیان کرنے والے کی گہرائی
بھی سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں, اِس لیے اُس نے بات شروع کرتے ہوئے کہا "سرکار
میں نے سیکھا کہ اللّٰہ سے اللّٰہ کے سوا کچھ طلب نہیں کرنا چاہیے, ہر عمل ہر سوچ کے
اجر و عذاب کو اللّٰہ کے قُرب سے جوڑ لینا چاہیے, جیسے لوگ ہر اچھے بُرے کام کے ساتھ
گناہ ثواب کی باتیں کرتے ہیں, پانی پِلا دو دس نیکیاں ملیں گی, اذان ہو رہی ہے, ٹی
وی مت دیکھو, گناہ ملے گا, ایسی بہت سی باتیں لوگ ایک دوسرے سے کہتے رہتے ہیں۔ میرے
مُرشد پاک نے مجھے سکھایا کہ اپنے گُناہ ثواب کو اللّٰہ کے قُرب اور دوری سے جوڑ دو۔
اللّٰہ کے قُرب کے علاوہ کوئی اجر مت مانگو اور اللّٰہ سے دوری کے سوا کسی شئے کو عذاب
مت سمجھنا۔ تو میں نے اپنے مُرشد کے ارشاد کے مطابق ثواب و عذاب اُسی کی ذات کو مان
لیا۔ جب یہ سمجھ آیا کہ انسان کو اپنا نصیب مل کر رہتا ہے تو بےمقصد دُعاؤں سے بھی
جان چھُوٹ گئی۔ جب دوبارہ اللّٰہ کی تلاش شروع کی تو ایک رات شدید سردی کے باعث میں
دو دو کمبل اوڑھے ہوئے بھی سردی سے ٹھٹھر رہا تھا کہ رات تین بجے کے آس پاس میری آنکھ
کھُل گئی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی کمبل چہرے سے ہٹایا تو سامنے دیوار پر لگے فریم
پر نظر پڑی جس پے کچھ آیات درج تھیں۔ میری عادت تھی کہ رات جس بھی پہر آنکھ کھُلتی
تو شروع کے الفاظ آنکھوں آنکھوں سے پڑھ لیتا تھا یا پہلے لفظ کو دیکھتا رہتا تھا۔
"اللّٰہُ نُور السمٰوات والارض" کے الفاظ سے شروع ہونے والی آیات اُس رات
بھی بستر میں لیٹے ہوئے میری نظروں کے سامنے تھی۔ میں کافی شدید نیند کے عالم میں تھا
اِس لیے ایک نظر دیکھ کے فوراً آنکھ بند کر لی, لیکن آنکھ بند کرتے ہوئے آنکھوں میں
ایک عجیب سی چُبھن محسوس کی۔ جیسے کوئی کانچ کا منظر میری آنکھ کے بند ہونے سے ٹوٹ
رہا ہو۔ میں نے پھر سے نیند نیند میں آنکھیں کھولیں اور شروع سے آخر تک وہ آیات پڑھیں
اور پھر سے آنکھ بند کی لیکن چُبھن ابھی بھی برقرار تھی اور دل نے ملامت کی کہ اللّٰہ
کے نام سے ذیادہ تجھے اپنی نیند پیاری ہے۔؟ میں نے پھر سے آنکھیں کھولیں اور ایک بار
پھر سے آیات پڑھیں لیکن مجھے سکون نہ مِلا میں بستر سے نکلا اور جا کے آیت والے فریم
کو بوسہ دیا اور کئی بار اسے پڑھ کر جب مجھے کچھ سکون محسوس ہوا تو واپس اپنے بستر
کی جانب گیا لیکن بستر پر لیٹنے کی جگہ بستر کے پاس گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا
اور اللّٰہ کو محسوس کرنے کی کوشش کی لیکن خود پر اس بات کا کچھ خاص احساس طاری نہ
کر سکا کہ اللّٰہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو میں نے اللّٰہ سے کہا "اللّٰہ میاں میں
جانتا ہوں کہ میں احساس سے خالی ہوں۔ مجھے محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ تُو مجھے دیکھ رہا
ہے۔ شاید اِس لیے کیونکہ میں اپنے دل میں تیرے سوا اور بھی خواہشات رکھتا ہوں۔ تو آج
میں ہر خواہش رد کرتا ہوں۔ جس طرح اپنا گرم بستر اور میٹھی نیند چھوڑے بغیر مجھے تیرے
نام کو پڑھ کر بھی سکون نہ مل سکا شاید اُسی طرح اپنی خواہشات کی طلب چھوڑے بنا تیرا
احساس بھی میسر نہ آئے۔ اِس لیے میں نے آج تک جو کچھ مانگا اور جو کچھ بھی میں اپنی
تمام زندگی میں مانگوں گا۔ آج میں اپنی مانگی دنیا و نفس کی سب دعائیں رد کرتا ہوں,
مجھے ایسا کچھ عطا نہ کرنا جو تیرے میرے بیچ دوری کا باعث بنتا ہو۔ تُو نے مجھے جو
کچھ دیا اور جو کچھ دینا ہے میں ہر شئے تیرے قُرب پے قُربان کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے
کہ میرے الفاظ جذبات سے خالی ہیں تو اے رب میں تجھ سے اُن جذبات کا سوال کرتا ہوں جن
کی موجودگی مجھے تیرے قُرب کا احساس دے سکیں۔" اور اِس طرح دُعا کر کے اُس رات
میں سو گیا۔ لیکن اُس کے بعد سے احساس کی دولت میسر آنا شروع ہو گئی۔
مجھے
یہی سمجھ آیا کہ اللّٰہ اُسی کو ملتا ہے جو اللّٰہ کے سوا ہر دوسری خواہش ترک کرنے
کی کوشش کرتا ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس کے بعد میں نے اللّٰہ سے کچھ مانگا
نہیں لیکن اِس کے بعد سے مجھے پرواہ نہیں ہوتی اپنی دُعاؤں کی۔ پوری ہو جائے تو بھی
الحمدللّٰہ اور پوری نہ ہو تو ذیادہ شُکر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جیسے ہم کسی شخص
سے اُدھار مانگتے ہیں تو دینے والے کی حیثیت کے مطابق اُس سے سوال کرتے ہیں۔ کوئی عام
شخص ہو تو اُس سے چند سو روپے مانگتے ہوئے بھی ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں اِس کے پاس
ہوں گے بھی یا نہیں۔ لیکن کوئی بادشاہ سامنے ہو تو ہم بڑی سے بڑی چیز طلب کرنے کی کوشش
کریں گے۔ تو اللّٰہ تو سب سے بڑا ہے, اُس کے پاس تمام بادشاہی ہے, تو اُس سے مانگتے
ہوئے ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ اُس سے دنیا و نفس کی لذّت طلب کرنے کی جگہ اُس
کا قُرب و وصال مانگا جائے۔ اِس سوچ سے میں نے کبھی اپنے مُرشد پاک سے اپنی کسی بیماری
کا ذکر نہیں کیا کیوں کہ مجھے شرم آتی ہے اللّٰہ والے سے غیر اللّٰہ کا سوال کرتے ہوئے۔"
سرکار نے اُس سے پوچھا "تیری ٹانگوں میں کیا مسئلہ ہے۔؟" تو اُس نے کہا
"سرکار یہ مسئلہ بہت پُرانا ہے۔ شاید اسکول کے زمانے سے, جب میں نے مارشل آرٹس
شروع کیں تو ٹانگیں فِٹ ہو گئیں تھیں, لیکن جب ایکسرسائزز چھوڑ دیں تو آہستہ آہستہ
مسئلہ بڑھنا شروع ہو گیا, کئی سال تک یہ مسئلہ نُمایاں نہیں تھا لیکن میرے مُرشد پاک
کے وصال کے بعد سے یہ زیادہ ہو گیا ہے۔ میں کسی طرح کا وزن نہیں اُٹھا سکتا اسی لیے
اپنے بچّوں کو بھی گود میں نہیں اُٹھا سکا, اکثر اِس معزوری سے بہت ٹوٹ سا جاتا تھا
تو سوچتا کہ اللّٰہ سے گُزارش کروں کہ اِس بیماری سے نجات مِل سکے, پھر سوچتا کہ اگر
یہ بیماری لگی ہے تو یقیناً اللّٰہ کی رضا ہی سے لگی ہو گی اور اگر میں اِس سے تنگ
ہوتا ہوں تو اِس کا مطلب کہ میں اللّٰہ کی رضا میں راضی نہیں ہوں۔ کئی بار سوچا مُرشد
پاک سے عرض کروں لیکن غیر اللّٰہ کا سوال دل کی زبان سے بھی نہیں کر سکا۔ میں چلتا
ہوں تو ہر دوسرے قدم پر ٹھوکر لگ جاتی ہے اکثر گِر جاتا ہوں ایک دفعہ مُرشد پاک سے
ملنے گیا تو بہت سوچ کے ارادہ کر کے گیا تھا کہ آج مُرشد پاک سے اپنے علاج کے لیے کسی
سبب کی درخواست کروں گا لیکن جب سامنے پہنچا تو اللّٰہ والے سے اللّٰہ کے سِوا سوال
نہیں کر سکا اور دل زبانی صرف اتنا کہہ سکا کہ مجھے راضی بہ رضا رہنے کی توفیق دی جائے
اور یہ کہ ہر تکلیف پر الحمدللّٰہ کہنے کی عادت عطا کی جائے۔ میری یہ دُعا قبول ہوئی
اور ایسی عادت بن گئی کے تکلیف کی حالت میں آہ کے ساتھ الحمدللّٰہ کا لفظ نکلنا شروع
ہو گیا بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آہ بعد میں نکلتی ہے اور الحمدللّٰہ کا لفظ پہلے
ادا ہوتا ہے۔" سرکار نے پوچھا "تُو نے کسی ڈاکٹر سے علاج کروانے کی کوشش
نہیں کی۔؟" تو اُس نے کہا "ہمارے ہاں سرکاری ہسپتالوں کا حال تو آپ کو پتا
ہی ہے انسان اتنا بیمار بیماری سے نہیں ہوتا جتنا علاج کی خاطر ہسپتالوں کے چکّر لگا
لگا کر ہو جاتا ہے, پرائیویٹ علاج کروانے کی جیب اجازت نہیں دیتی لیکن میں نے کوشش
کی تھی علاج کروانے کی مگر کچھ نہ بن سکا۔ لیکن میں پریشان نہیں ہوں۔ اللّٰہ کا کرم
ہے کہ اُس نے اپنی یاد سے غافل نہیں رکھا, تو پھر وہ جیسا رکھے مجھے قبول ہے۔"
لوگوں
میں سے کسی نے کہا "اگر مُرشد ملنے کے باوجود تیری بیماری ختم نہیں ہوئی تو مُرشد
پکڑنے کا فائدہ۔؟" اُس نے مسکرا کر معنی خیز انداز میں سرکار علی محمد کی جانب
دیکھا اُن کے چہرے پر بھی مسکراہٹ تھی انہوں نے اشارے سے اُسے بولنے کو کہا تو اُس
نے اُس شخص کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "مُرشد کا کام اللّٰہ مِلانا ہے دنیا مِلانا
نہیں, اگرچہ کہ وہ باطن میں اللّٰہ کے اِس قدر قریب ہوتا ہے کہ مُرید کے لیے دنیا کی
خواہشات کی سفارش کر سکتا ہے لیکن یہ چیزیں عطا کرنا مُرشد کا کام نہیں ہے کیونکہ وہ
دنیا سے دور لے جانے والا ہوتا ہے۔ اُس کا کام مُرید کے دل کو دنیا کی محبت سے پاک
کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دنیا سیدھی کروانے کے لیے نہیں بلکہ اللّٰہ کی تلاش میں
مُرشد ہاتھ تھاما تھا۔ کہتے ہیں کہ مُرید وہ ہے جس کا خود کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ جو
شخص بیعت کرتا ہے وہ اپنا ارادہ اپنے مُرشد کو سونپتا ہے۔ مُرشد, مُرید سے اُس کا ارادہ
چھینتا نہیں ہے بلکہ مُرید کو اختیار دیتا ہے کہ وہ مُرشد کی تربیت سے سیکھ کر اپنا
ارادہ خود اپنے مُرشد کو پیش کرے۔ تو جو اپنا ارادہ مُرشد کو سونپ دیتا ہے اُس کے لیے
مُرشد سے سوال کرنا ہی حرام ہے۔ مجھے میرے مُرشد پاک نے سکھایا کہ لوگ اللّٰہ سے, اللّٰہ
والوں سے بہت سی چیزیں مانگتے ہیں کوئی اللّٰہ مانگتا ہے تو کوئی دنیا, کوئی اپنے لیے
خوشی مانگتا ہے تو کوئی اپنوں کی خوشی کی فریاد کرتا ہے, لیکن جو اپنا آپ اللّٰہ کو
سونپ دیتا ہے وہ خاموش ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنے مُرشد سے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا
اب اُس کے ساتھ تھوڑی بہت آزمائش بھی ہو تو مجھے فرق نہیں پڑتا, اِس معزوری میں کتنی
حکمت ہے یہ اللّٰہ مجھ سے بہتر جانتا ہے میں کون ہوتا ہوں اُسے مشورے دینے والا کہ
میرے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط, میری ٹانگوں کا مسئلہ دیکھ کے بہت سے لوگ بہت سی
باتیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہوا تھا اِس لیے اِس کے ساتھ ایسا ہوا۔
کوئی کہتا ہے کہ اِس نے شیعہ ہو کر پھر کسی کی مُریدی اختیار کر لی اِس لیے ایسا ہوا,
ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق کچھ نہ کچھ وجہ نکال ہی لیتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ
میرے اللّٰہ کا انعام ہے۔" سرکار علی محمد نے مسکراتے ہوئے اُس کے کندھے پے ہاتھ
رکھا اور کہا "تُو سچا مرید ہے, ہم سے ملتے رہنا, بول..! ہم سے ملنا چھوڑے گا
تو نہیں۔؟" اُس نے سرکار کا ہاتھ تھام کے کہا سرکار میرا خود پے کوئی بس نہیں
چلتا, اللّٰہ جہاں لے جائے میں پہنچ جاتا ہوں, میری کوشش ہو گی کہ ہمیشہ آپ سے ملاقات
رہے لیکن اگر نہ مل سکا تو مجھے یاد ضرور رکھیے گا۔" سرکار نے اُس کا ہاتھ تھامے
ہوئے کہا "چل پھر ہم تجھے بیعت بھی کر لیتے ہیں تاکہ ہمارا رشتہ تیرے ساتھ پَکّا
ہو جائے, تُو اپنے مُرشد کا ہی ہے, اُنہی کا رہے گا ہمیشہ, لیکن آج سے تُو ہمارا بھی
ہے اور اب سے ہم تیرے" اِن الفاظ کے ساتھ سرکار علی محمد نے اُسے بیعت کرتے ہوئے
اپنے سینے سے لگا لیا اور کمرہ ایک بار پھر اُن کے سانس کے ذکر سے سُنائی دیتی ھُو
ھُو کی آواز سے گونج اُٹھا"
(جاری ہے)
فرقوں
میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 32)
----------------
سرکار
علی محمد کے ہاتھ بیعت, صُحبت کی بیعت تھی۔ اور اُس کا خیال تھا کہ اِس سے اُس کی پہلی
بیعت پے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اِس لیے اُس نے بیعت والے واقعے کو سرسری لیا۔ لیکن گھر
جا کر جب اُس نے اِس بات کا ذکر اپنی بیوی, اپنے بھائی اور اپنے کزن سے کیا تو اُسے
کچھ ایسا ردعمل دکھائی دیا جیسے اُس نے کوئی شدید بھاری غلطی کر دی ہو۔ اُس کے کزن
نے کہا "تجھ سے ایسی حماقت کی امید نہیں تھی, اتنا سمجھدار ہو کر تُو نے ایسی
غلطی کی, تجھے نہیں پتا۔؟ کتنے سخت الفاظ میں سُلطان باہو رح نے ایسے شخص کا ذکر کیا
گیا ہے جو اُن کا مُرید ہونے کے بعد کسی اور جگہ بیعت ہو, بیعت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔؟"
تو اُس نے کہا "پہلی بات تو یہ کہ میں جن کا مُرید تھا, آج بھی اُنہی کا مُرید
ہوں, اور اِس بات کی دلیل مجھے تم لوگوں سے نہیں چاہیے, میرے دل کا سکون مجھے یہ بات
سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ میں ابھی بھی اپنے مُرشد پاک کے سائے میں ہوں۔ تم لوگ کہتے
ہو کہ میں سلسلے سے ہی خارج ہو گیا ہوں لیکن میری روح کا سکون مجھے یقین دلاتا ہے کہ
اِس بیعت سے میں اپنے مُرشد سے دور نہیں ہوا۔ ایک ایسے بُزرگ جو کسی کو بیعت ہی نہیں
کرتے, وہ مجھے اپنے مُریدین کے بیچ بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ چل آ تجھے بیعت بھی کر لیتا
ہوں تو میں وہاں کیا کروں, اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ سے چھُڑا لوں کہ نہیں جی میں تو سُلطان
صاحب کا مُرید ہوں, میں تو بیعت نہیں کر سکتا آپ کے ہاتھ پر کیونکہ اگر میں نے بیعت
کر لی تو میں سلسلے سے باہر ہو جاؤں گا۔ سُلطان صاحب کا فرمان سلسلہ چھوڑ کر کسی اور
کا مُرید بننے والے کے لیے ہے لیکن میں نے سلسلہ تو نہیں چھوڑا, سوچ اگر میں انکار
کرتا تو اُن کے مُریدین کو کیسا لگتا۔؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ جسے اُن کے مُرشد اتنی
عزت دے رہے ہیں اُس کے دل میں اُن کے مُرشد کا یہ مقام ہے۔؟ یہ سب باتیں اُس وقت میں
نے نہیں سوچیں تھیں اور ابھی بھی اِن باتوں پر تم لوگوں کے سوالوں نے مجبور کیا ہے۔
اب تم لوگوں کی مرضی ہے چاہو تو اِس مسئلے کو پیر بھائیوں کے سامنے رکھو اور چاہو تو
مُرشد پاک کے سامنے لے چلو۔ اگر مُرشد پاک نے کہہ دیا کہ میں نے غلط کیا تو وہ جو سزا
دیں مجھے قبول ہو گی۔" اُس کے کزن نے اُس کی فکر میں تقریباً روتے ہوئے کہا
"مُرشد پاک تک تو بات ضرور جائے گی بس دُعا کرو کہ معافی مِل جائے" اُس نے
اپنے کزن کے جذبات محسوس کرتے ہوئے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا "یار اتنا پریشان
تو میں نہیں ہوں جتنا پریشان تُو ہو رہا ہے۔ اللّٰہ خیر کرے گا یار پریشان ہونے سے
مسئلے اور خراب ہوتے ہیں۔" اُس کے کزن نے اُس کے مطمئن لہجے پر جھِنجھلا کر کہا
"تجھے کوئی فکر نہیں ہے اِس بات کی کہ تُو سلسلے سے باہر کر دیا گیا تو تیرا کیا
ہو گا۔؟" تو اُس نے بدستور مطمئن لہجے میں کہا "یار تم لوگوں کے کہنے پر
میں نے فکر کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن کوشش کے باوجود مجھے فکر نہیں ہو رہی, تو کیا
کروں میں۔؟ جو کچھ تم لوگ کہہ رہے ہو وہ مجھے محسوس نہیں ہو رہا۔" اُس کی بات
سُن کر اُس کا بھائی اور بیوی جو خاموشی سے دونوں کی بات سُن رہے تھے وہاں سے اُٹھ
کر چلے گئے۔ جاتے جاتے اُس کے بھائی نے اُس کے کزن سے کہا "بھائی کو فی الحال
اِن کے حال پے چھوڑ دیں۔ ہو سکتا ہے سُلطان محمد علی صاحب اس ہفتے اسلام آباد تشریف
لائیں۔ اُن کے سامنے مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا جواب مِلتا ہے۔ ورنہ دربار
پے چلے جائیں گے۔" اُس کے بھائی نے سوالیہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے
کہا "ہاں ٹھیک ہے میں تیار ہوں"۔
اُس
کے بھائی کے جانے کے بعد اُس کے کزن نے کہا "تُو نے آخر کس لیے بیعت کی اُن کے
ہاتھ پے۔؟ کس چیز کی کمی تھی جس کی خاطر تُو نے بیعت کی۔؟ کیا اِس لیے کہ اپنی معزوری
سے تنگ آ کر اب کسی کرامت کا طلبگار ہے تُو۔؟ کیا انہوں نے تجھ سے ایسا کچھ کہا کہ
تُو بیعت کر لے گا تو تیری ٹانگیں ٹھیک ہو جائیں گی, یا اپنی معزوری کے باعث تیرا اپنے
مُرشد سے یقین اُٹھ گیا ہے۔؟" اُس کے کزن نے ایک ساتھ اپنے تمام خدشات اُس کے
سامنے رکھ دیے۔ اِس بار اُس نے سنجیدہ انداز
میں اپنے کزن سے کہا "مجھے اِن چیزوں کی طلب ہوتی تو میں بہت پہلے اپنا راستہ
بدل چُکا ہوتا, تجھے معلوم ہے کہ میرا دل کوئی فیصلہ کر لے تو میں نہ تو کسی کی سُنتا
ہوں اور نہ ہی کسی سے ڈرتا ہوں, تُو جو کچھ سوچ رہا ہے اگر میں نے ایسا کچھ سوچا ہوتا
تو میں اقرار کرنے میں دیر نہ لگاتا, لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں سوچا۔ میرے دل میں
کوئی شک نہیں ہے۔ اور نہ ہی مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس ہے۔ جو سچ تھا میں نے تم
لوگوں کو بتا دیا اب تم جو سوچنا چاہو سوچ سکتے ہو, مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
: اور جہاں تک اِس بیماری کی بات ہے تو میں اِس سے تنگ ہوں مگر شفا
دینے والے سے مایوس نہیں ہوں, مجھے معلوم ہے کہ اِس کے پیچھے کچھ حکمت ضرور ہے۔ میرا
رب جب بھی چاہے گا مجھے پھر سے چلتا پھرتا کر دے گا۔ میں وہی ہوں جس نے اسلام آباد
کے ارد گرد کے کئی پہاڑ انہی ٹانگوں سے چل کے سَر کیے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے بِنا رُکے,
شدید گرمی میں بھی سخت سے سخت دوڑ بھاگ اور ایکسرسائزز کی ہیں۔ آج اگر میری ٹانگیں
میرے دماغ کے اشارے پے حرکت نہیں کر رہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنے رب
سے مایوس ہو گیا ہوں, اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ وقت بھی نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے کسی
دن میں گھسٹ گھسٹ کے چلنے کے لائق بھی نہ رہوں لیکن اِس جسم کا ٹوٹ جانا میرے اور میرے
مُرشد کے تعلق کو نہیں توڑ سکتا۔ اللّٰہ سے جو رابطہ مجھے میرے مُرشد کے وسیلے سے عطا
ہوا اُسے کوئی بیماری نہیں توڑ سکتی۔ خیر, اب سُلطان محمد علی صاحب سے بات ہونے تک
اِس مسئلے پر کوئی بات نہیں ہو گی۔" اتنا کہہ کر اُس نے بات ختم کر دی اور اُس
کا کزن بِنا کچھ کہے اُس کے پاس سے اُٹھ کر چلا گیا۔
سرکار
علی محمد سے مِل کے اُسے بہت اچھا لگا تھا اور وہ بھی اُس سے مِل کے خوش ہوئے تھے,
اِس لیے وہ تقریباً ہر روز اُن سے ملنے جاتا اور گھنٹوں اُن کے پاس بیٹھتا۔ سرکار کو
پتا چلا کہ وہ شعر کہنے کا شوق بھی رکھتا ہے تو انہوں نے اُس کا کلام سُننا چاہا۔ اُس
نے کہا مجھے اپنا لکھا یاد نہیں رہتا اِس لیے میں کسی دن اپنی ڈائری لے کے آؤں گا تو
سُناؤں گا" سرکار نے کہا "شاعروں کو تو اپنا کلام لوگوں کو سُنا سُنا کر
ہی یاد ہو جاتا ہے, تُو کیسا شاعر ہے, جسے کلام یاد نہیں۔؟" اُس نے کہا
"اصل میں, فی الحال صرف لکھنے کا شوق ہے, سُنانے کے لیے زیادہ لوگ نہیں ہیں میرے
پاس, اور ہر ایک کی سمجھ کی چیز بھی نہیں ہے, اِس لیے بھی زیادہ سُنانے کا موقع نہیں
ملتا۔ بس لکھتا رہتا ہوں اور خود ہی پڑھ کے یا گھر میں کسی کو سُنا کے خوش ہوتا رہتا
ہوں۔" سرکار نے کہا "لوگوں کو سُنایا کر اپنا کلام۔" تو اُس نے کہا
"ایک دو دفعہ کوشش کی ہے لیکن شاعری کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزاء تاثرات نہیں
مِلا۔ ویسے کچھ مضامین لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہوں, مضامین پر کافی حوصلہ افزائی
ہوئی لیکن شاعری پر مجھے کہا گیا کہ آپ سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو۔؟ کیا ہیں آپ, جو
اتنی بڑی بڑی باتیں لکھتے ہیں۔؟ انہیں شاعری سے زیادہ شاعر پے اعتراز تھا کہ آپ جیسا
شخص اتنے بڑے الفاظ کیوں کہہ رہا ہے۔ اُس وقت تو میرے دل کو دُکھ محسوس ہوا لیکن بعد
میں مجھے احساس ہوا کہ جو ہُوا اچھا ہُوا کیونکہ شاید اُس وقت میرے الفاظ میں اور ذات
میں پُختگی کی کمی تھی, بلکہ ابھی بھی ہے۔ ابھی بھی میں کافی بےباک قسم کی شعر کہہ
جاتا ہوں, جو میری ظاہری شخصیت سے میل نہیں کھاتے اِس لیے بس لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتا
ہوں۔ مجھے اردو اتنی اچھی نہیں آتی, اور ستائس, اٹھائس سال کی عمر اسلام آباد میں گُزارنے
کے باوجود میں پنجابی زبان بھی ڈھنگ سے بولنے سے قاصر ہوں۔ لیکن جب قلم اُٹھاتا ہوں
تو خود بہ خود الفاظ ادا ہونا شروع ہو جاتے ہیں مجھے خود سمجھ نہیں آتا کہ الفاظ کہاں
سے آ رہے ہیں۔" سرکار نے اُس سے پوچھا ایسا کیا لِکھ دیا تھا تُو نے جو لوگوں
کو اتنا بےباک محسوس ہوا" تو اُس نے کہا "میں نے ایک نظم لکھی تھی, اس پے
بہت اعتراض ہوئے تھے, تھوڑی سی یاد ہے, کہ
جو
کُج وی اے سب میرا اے
میرے
دل وچ اللّٰہ ڈیرا اے
میرے
دل وچ قبلہ کعبہ اے
میرے
دل وِچ نقشِ وعدہ اے
مینوں
دل وچ عرش افلاک دِکھے
ایتھے
ہر تھاں ھُو دا گھیرا اے
جو
کُج وی اے سب میرا اے
میرے
دل وچ اللّٰہ ڈیرا اے
سرکار
نے اشعار سُن کے کہا "تو اِس میں اعتراض والی کیا بات ہے۔؟" اُس نے کہا
"لوگوں کو اِس بات پے اعتراض تھا کہ میں کس منہ سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھی
ہے سب میرا ہے" تو سرکار نے کہا "لیکن اگلے مصرعے تُو سب کچھ تیرا ہونے کی
وجہ بھی تو بیان کر رہا ہے یہ کہہ رہا ہے کہ میرے دل وچ اللّٰہ ڈیرا ہے۔ تیری شاعری
اپنی پہچان کا بیان ہے, اِسے جاری رکھنا, اور مجھے بھی سُنانا۔
(جاری ہے)
فرقوں
میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 33)
----------------
اگلے
روز جب وہ سرکار علی محمد کے پاس پہنچا تو اُس کے ہاتھ میں ڈائری دیکھ کر سرکار نے
کہا "آج تو ہم تیرا کلام سُنیں گے۔ ویسے تُو کہتا ہے کہ تُو سُلطان الفقر ذات
کا مُرید ہے۔ تو کیا کبھی فقر کے بارے میں لکھا ہے کُچھ۔؟ فقر کے بارے میں کُچھ پتا
بھی ہے یا بس ایسے ہی مُرید بنا بیٹھا ہے۔؟" سرکار کے سوالات کے الفاظ کا انداز
اکثر چوٹ پہنچانے والا ہوتا تھا لیکن درحقیقت اُن سوالات میں کچھ خاص حکمت ہوتی تھی۔
اِس لیے اُس نے ادب سے فقر کی شان میں لکھی اپنی نظم پڑھنی شروع کی۔
دو
دھاری تلوار فقر
صاحبِ
کُن سرکار فقر
دے
اللّٰہ, للّٰہ والا
او
بے پردہ دلدار فقر
طالب
نوں مطلوب ملاوے
چُن
چُن دل توں پردے چاوے
دل
نوں دل دیدار کراوے
محرمِ
سِر, اِسرار فقر
دو
دھاری تلوار فقر
صاحبِ
کُن سرکار فقر
سرکار
علی محمد نے اُس کا کلام سُن کر اُس کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ سرکار نے چُن چُن کر اُس
کا وہ کلام سُنا جس پر لوگوں کو اعتراضات تھے۔ اُس کی نظم ختم ہونے پر سرکار نے کہا
"مُرشد کی شان میں بھی کچھ لکھا ہو گا تُو نے وہ بھی سُنا۔" تو اُس نے اپنی
ایک اور نظم پڑھنی شروع کی۔
میرے
قلب کو اپنا مقام کیا ہے
مُرشد
میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
پنہاں
ہے سارا پِنہاں, بس اسم اللّٰہ میں
اک
لفظ میں سب قِصّہ تمام کیا ہے
مُرشد
میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
وصلِ
اصل کا عالم کوئی میرے دل سے پوچھے
اُس
کی نگاہِ ظالم کوئی میرے دل سے پوچھے
پوچھے
کوئی دل سے میرے لذّت آشنائی
کعبے
نے ہمیں جھُک کر سلام کیا ہے
مُرشد
میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
وہ
تقریباً روز ہی سرکار علی محمد کے ڈیرے پے جاتا تھا اور اکثر اپنی ڈائری بھی ساتھ لے
جایا کرتا جس میں وہ اکثر شاعری لکھنے کی کوشش کرتا تھا اُس وقت بھی وہ اُن کے ڈیرے
پے بیٹھا لوگوں کو اپنا کلام سُنا رہا تھا جب اُس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اپنے
بھائی کا نمبر دیکھتے ہوئے اُس نے رُک کر کال ریسیو کی تو اُس کے بھائی نے تقریباً
روتے ہوئے اُس سے کہا "بھائی آپ جہاں بھی ہیں فوراً یہاں آ کر مُرشد پاک سے ملیں,
معافی مانگیں, دُعا کریں کہ مُرشد پاک آپ کو معاف کر دیں, مُرشد پاک نے جو جو باتیں
کہیں ہیں کسی اور سلسلے میں بیعت کرنے کے حوالے سے آپ سُنیں تو شاید مَر ہی جائیں۔
بس دُعا کیجیئے کہ آپ کو معافی مِل جائے۔" اُس نے اپنے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے
کہا "فکر مت کر, اللّٰہ خیر کرے گا۔ تُو مجھے لینے آ سکتا ہے۔؟" تو اُس کے
بھائی نے کہا "مُرشد پاک بہت تھوڑی دیر کے لیے آئے ہیں ہو سکتا ہے تھوڑی دیر میں
واپس چلے جائیں, آپ جتنا جلدی آ سکو آ جاؤ۔" اُس وقت سرکار وہاں نہیں تھے اور
وہ ڈیرے پر سرکار کے مُریدن کے ساتھ بیٹھا اپنا کلام پڑھ کے سُنا رہا تھا, اُس نے اُن
لوگوں سے اجازت لی اور وہاں سے نکل کر اپنے مُرشد پاک سے ملنے پہنچا۔ تمام راستہ وہ
بار بار اسی مسئلے پر سوچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ایک پل کو اُسے اِس بات کی فکر نہ
ہو سکی, وہ چاہ کر بھی ایسا کچھ محسوس نہیں کر پا رہا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دور
سے سُللطان محمد علی صاحب کا سراپا دیکھ کر اُسے سُلطان محمد اصغر علی رح یاد آ گئے
اُس کا جی چاہا کہ جا کے سُلطان محمد علی صاحب کے سینے سے لگ کر کہے مُرشد میں آپ کا
ہوں, میں کہیں بھی چلا جاؤں, کیسا بھی ہو جاؤں, میں آپ کا ہی رہوں گا۔ مجھے اللّٰہ
میاں نے آپ کا بنایا ہے, میری روح آپ کے نُور پے پل رہی ہے, میرا ماننا ہے کہ میں ازل
سے آپ کے نور سے ہوں, (کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تمام نبی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ
و آلہ وسلم کے نور سے ہیں, سب اُمتیں اپنے اپنے نبی کے نور سے ہوتی ہیں, اور اولیاء,
صحابہ, صالحین, سب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہیں اور اُن کے
وقت کے باقی لوگ اُن کے نور سے ہیں۔ وقت میں
موجود سب لوگوں کا نور اپنے وقت کے صالحین سے جُڑا رہتا ہے۔ اس لیے جو اپنے وقت کے
کسی درویش کا ہاتھ تھام لیتا ہے وہ اُسی کے نور میں گُم ہو جاتا ہے, سو وہ خود کو اپنے
مُرشد کے نور میں گُم محسوس کرتا تھا اور اب تک اُسے ایک پل کو بھی اپنے اور اپنے مُرشد
کے بیچ کسی قسم کی دوری کا احساس نہیں تھا اسی لیے وہ پُرسکون تھا مگر جب وہ سُلطان
محمد علی صاحب کے سامنے پیش ہونے جا رہا تھا تو اُس کے دل میں خیال گُزرا کہ کہیں یہ
سکون میرا گُمان تو نہیں۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں واقعی الگ ہو گیا ہوں اور مجھے
احساس نہیں ہو پا رہا)
اِس
لیے اُس نے کہا "مُرشد پاک مجھے خود سے جُدا مت کیجیئے گا۔" حسبِ معمول مُرشد
پاک کے سامنے اُس کی زبان نہ کھُل سکی۔ سُلطان محمد علی صاحب نے بہت شفقت سے اُس کی
خیریت دریافت کی اُس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور وہ دل زبانی صرف اتنا کہہ سکا کہ
"مُرشد مجھے اپنا رکھنا" کچھ دیر وہاں رُکنے کے بعد وہ باقی مریدین کے ساتھ
کمرے سے باہر آ گیا۔ ایک اور مُرید نے اُس سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ
"میں سُلطان محمد اصغر علی رح کا مُرید ہوں, اُن کے وصال کے بعد جب میں سُلطان
محمد علی صاحب سے ملنے گیا تو دور دور سے سُلطان صاحب کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اب
وہ نظارہ کہاں, کہ جب سُلطان محمد اصغر علی رح یہاں ہمارے سامنے ہوتے تھے, جب میں نے
ایسا سوچا تو آپ رح میرے تصور میں آئے اور فرمایا "تُساں کے سمجھا جی۔؟, اَسی
مَر گئے آں۔؟ نہیں۔ اَسی اپنے ناں توں صرف 'اصغر' ہٹایا اے" (تم نے کیا یہ سمجھا
کہ ہم مَر گئے ہیں۔؟ نہیں, ہم نے اپنے نام سے صرف 'اصغر' ہٹایا ہے۔) اتنا سُننا تھا
کہ میرا دل پھر سے روشن ہو گیا اور مجھے وہی قُرب پھر سے محسوس ہونے لگا۔"
تھوڑی
دیر بعد وہ گھر کے لیے روانہ ہوا اور گھر پہنچ کر اپنے بھائی کا انتظار کرنے لگا۔ جب
اُس کا بھائی گھر واپس آیا تو اُس نے اُس سے پوچھا کہ بتاؤ مُرشد پاک سے کیا بات ہوئی۔؟
تو اُس کے بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا "کچھ نہیں کہا, آپ بس جلد از جلد سُلطان
محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لیجیئے۔" اُس نے اپنے بھائی کی آنکھوں میں دیکھتے
ہوئے کہا "فون پے مجھ سے بات کرتے ہوئے تو تُو ایسے رو رہا تھا جیسے مُرشد پاک
نے مجھے سلسلے سے ہی نِکال دیا ہو, اور اب تُو ایسے اطمینان کا اظہار کر رہا ہے جیسے
کچھ بھی نہیں ہوا ہو۔ جب میں مُرشد پاک سے ملاقات کے لیے پہنچا تھا تب بھی تُو مسکرا
رہا تھا, پُرسکون تھا, مجھ سے بات کرنے سے لے کر میرے وہاں پہنچنے تک ایسا کیا ہوا۔؟"
اُس کے بھائی نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا "ساری باتیں تو میں آپ کو نہیں بتاؤں
گا کیونکہ اگر بتا دیں تو آپ کچھ ذیادہ پھول جائیں گے, اِس لیے صرف اتنی بات بتاتا
ہوں کہ مُرشد پاک نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ہمارا ہے اور ہمیشہ ہمارا ہی رہے
گا, اِس کی فکر مت کیا کرو۔" اپنے بھائی کی بات سُن کر اُس نے کہا "میرے
لیے اتنی بات کافی ہے اِس سے زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے دل کو پہلے بھی کسی
قسم کا شک نہیں تھا اور اب بھی میں پُرسکون ہوں" اِس واقعے کہ کچھ وقت بعد اُس
نے وادی سُون سکیسر میں انگہ شریف کے مقام پر سُلطان محمد علی صاحب کے ہاتھ پے بیعت
کر لی۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔