بدھ، 27 مئی، 2015

کلام اقبال بال جبریل تشریح غزل 22

کلام اقبال بال جبریل
غزلیات نمبر 22
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی!
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی!
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی!
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
تشریح
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
انسان کو حقیقی زندگی اور عزت و آبرو، معرفت خودی ہی سے  حاصل ہو سکتی ہے. اور جو شخص معرفت ذات خریش سے محروم ہے وہ دنیا میں کسی قسم کی عزت و آبرو سے محروم ہے .
حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے -:’’ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہَ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ،‘‘ ترجمہ-:’’ جس نے اپنی ذات کو پہچانا بے شک اُس نے اپنے رب کو پہچانا-‘‘
حدیث ِپاک کی شرح کرتے ہوئے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں-:’’اے اِنسان ! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اِس لئے اگر تُو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیوں کر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا کہ ’’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے-‘‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے، اتنی شناخت تو اپنے لئے دیگر جانور بھی رکھتے ہیںیا فقط یہ جان لینا کہ بھوک پیاس لگے توکھا پی لیا جائے، غصہ آئے تولڑ جھگڑ لیا جائے،شہوت غلبہ کرے تو جماع کر لیا جائے - یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تُواُن سے اشرف و افضل کیوں کر ہوا؟ تیری ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تُو جانے کہ تُو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تُو آیا ہی ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کردی گئی ہیں جن میں سے بعض حیوانی ہیں، بعض وحوش اور درندوں کی ہیں، بعض شیطانی، بعض جناتی اور بعض ملکوتی ہیں، تو ذرا غور تو کر کہ تُواِن میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تُو اِن میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت اِن میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب و اجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تُو اِن حقائق کو نہیں پہچانے گا، اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گا اور اپنی نیک بختی و سعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ اِن میں سے ہر ایک کی غذا علیٰحدہ علیٰحدہ ہے اور سعادت بھی الگ الگ ہے- چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں، اگر تُو بھی یہی کچھ ہے تو دن رات اِسی کوشش میں لگا رہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے- درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ و غضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکرو حیلہ سازی میں ہے اگر تُو اُن میں سے ہے تو اُن ہی جیسے مشاغل اختیارکرلے تاکہ تُواپنی مطلوبہ راحت و نیک بختی حاصل کرلے- فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر و تسبیح و طواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا و سعادت قربِ الٰہی میں اللہ تعالیٰ کے انوار ِجمال کا مشاہدہ ہے- اگر تُو اِنسان ہے تو کوشش کر کہ تُو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے اور اُس کے انوارِ جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ اور شہوت کے ہاتھ سے رہائی دلا سکے اور تُو طلب کرے تو اُس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ تیرے اندر اِن حیوانی و بہیمی صفات کا پیدا کرنے والاکون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہو جائے کہ پیدا کرنے والے نے اِن صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اِس لئے کہ یہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟ یا اِس لئے کہ تُواِن کو اپنا اسیر و مسخربنالے اور خود اِن پر غالب آ جائے اور اِن اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنا لے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنا لے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اِس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیںاِن میںاپنے اِن غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو اِن کو اپنے پائوں تلے روندتا ہوا اپنی اُس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہو سکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ‘‘ کہا جاتا ہے- یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں- جس نے اِن کو نہ جانا وہ راہِ دین سے دور رہا اور لا محالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا-‘‘ ﴿ترجمہ و تلخیص کیمیائے سعادت)
فلسفہ خودی کے بارے میں سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے
استحکام خودی پر دال ہے
ترجمعہ "۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تو یہ فرض ہے خودی کی محافظت اگر تم ہدایت پر ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا تم سب کو اللہ کے پاس جانا ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال پر مطلع کر دے گا تاکہ تم کو ان کے مطابق سز امل سکے ۔‘‘ (13)

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔