جاوید
کے نام –نظم بر ١٤٧
(لندن
میں اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا
پہلا خط آنے پر )
کلام : بال جبریل
یہ انتہائی
بلیغ نظم اقبال نے اپنے فرزند جاوید اقبال کے ہاتھ کا پہلا لکھا ہوا خط پڑھنے
کے بعد لکھی تھی .چناچہ
اس میں اول سے آخر تک شفقت کا رنگ
نظر آتا ہے . ور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے
اقبال اپنے فرزند میں کیا کیا خوبیاں دیکھنا چاھتے تھے ..بظاھر اس نظم میں
انہوں نے اپنے فرزند کو مخاطب کیا
ہے لیکن باطن میں اس کا
اطلاق تمام فرزان ملت پر ہوسکتا ہے .کیوں
کے میری نظر میں حضرت
علامہ اقبال ملت کے باپ تھے /انہوں نے
پوری زندگی مسلمانوں کی خدمات میں
بسر کی . وہ ساری عمر ملت کے غم میں تڑپتے رہے . اور اسی تڑپ کا نتیجہ تھا کے جس شخص
کو ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا
اس کے اندر بھی ووہی رنگ پیدا ہوگیا کسی
میں کم کسی میں زیادہ .
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا
زمانہ نے صبح و
شام پیدا کر
اقبال
فرماتے ہیں کے اے جاوید
اگر الله تجھے توفیق عطا کرے تو الله کے محبّت میں خود کو فنا کر کے حیات
جاوید حاصل کر لے.اگر تو نے یہ راستہ
اختیار کر لیا تو یقیناً تجھ میں یہ صلاحیت
پیدا ہو جائے گی کے تو دنیا میں انقلاب پیدا کر دے گا .
اقبال کے نظام افکار میں ،تخلیق عالم نو میں کو بہت اہمیت حاصل ہے .ان کے فلسفہ
اور پیغام کی خاصیت ہی یہی ہے کے
مسلمانوں میں یہ قوت پیدا ہو جائے کے وہ نیا زمانہ اور
نئی دنیا
پیدا کر سکیں
.یہ نئی دنیا کیا ہے .یا اس سے ان کی کیا مراد ہے .اقبال کا مطلب یہ ہے کے
جس طرح نبی اکرم ﷺ نیں نئی دنیا
پیدا کر دی.دنیا میں سب سے بڑا
انقلاب برپا کر دیا ،اسی طرح
حضور ﷺ کے غلام بھی حضور کے نقشے
قدم پر چل کر دنیا میں انقلاب پیدا کر
سکتے ہیں .انقلاب اس کے سوا کیا ہوگا کے
مسلمان دنیا کو جو اس وقت تاریکی
میں غرق ہے قرآن حکیم کی تعلیمات سے روشناس کریں ...
خدا اگر دل فطرت شناس دے ت سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر
اگر
الله تجھ کو مطالعہ فطرت کا ذوق
عطا کرے تو
تجھے لالہ و گل سے اس ہستی کا
ثبوت مل سکتا ہے . .سکوت لالہ و
گل سے کلام سے مراد اگرچہ یہ ہے
کے وہ زبان نہیں رکھتے ،لیکن اگر کوئی
فطرت شناس ان کی بناوٹ پر غور کرے تو وہ زبان حال سے خالق
کاینات کے وجود پر گواہی دیں گے ..
اٹھا نہ
شیشہ گران فرنگ کے احسان
سفال ہند سے میناو جام پیدا کر
شیشہ گران
فرنگ سے مراد یورپ کی وو
قوتیں مراد ہیں جو عیاری ور مکّاری
میں مشھور ہیں .شیشہ گر کے لغوی معنی ہیں کانچ کے برتن بنانے
والے .ان الفاظ کو اقوام مغرب کے
لئے استعال کیا گیا ہے . اور اس کی وجہ یہ
ہے کے ان
قوموں کے اصول زندگی
پایدار نہیں .نیز ان کے مھائدے کانچ کے برتن کی طرح
کمزور ور ناقابل اعتبار ہیں ..ان
کے علوم و فنون اور خیالات میں بھی پختگی نہیں ہے اور افادیت نہیں پای جاتی ..یہ اصطلاح ان کی پوری زندگی پر صادق آ سکتی ہے .
احسان نہ اٹھانے سے مراد
یہ ہے کے ان کی تہذیب اور ان کی
معاشرت مت اختیار کرو .ان کے افکار ور
خیالات کو مت قبول کرو .جو علوم و فنون انہوں نے ایجاد کیے ہیں ان کو
بیشک استعمال کرو لیکن ان اقوام کی
تقلید مت کرو
اگر شراب پینا چاھتے ہو تو ان پیالوں میں
پیو اپنی مٹی سے بنی ہیں مطلب یہ کے اپنے وطن سے اور اپنی تہذیب سے محبّت کرو ..
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر
سے مئے لالہ فام پیدا کر
شاخ تاک. انگور کی بیل.
کلام اقبال خوشہ انگور ہے
اس خوشہ سے مئے لالہ فام پیدا کرو مطلب یہ ہے کے میرے کلام کے مطالعہ سے اپنے اندر
مذہبی و ملی و سیاسی شعور پیدا کرو........
میرا
طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ
بیچ غریبی میں نام
پید ا کر
یہ شعر اس نظم کی جان نہیں بلکہ تمام کلام کی جان ہے.ان کے سارے
فلسفہ کی روح ہے. "اپنی خودی کو کسی بهی قیمت پر مت بیجو . خودی خود آگہی کا
دوسرا نام ہے . اگر انسان ،حرص دینوی سے قطع و نظر کرکے غوروفکر سے کام لے تو یہ
حقیقت روز روشن کی طرح اس پر واضح ہوسکتی کہ غریبی میں بهی نام پیدا کیا جاسکتا
ہے.. انسان عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کیلیے اپنی خودی کو بیچتا ہے. اور اس کے عوض
دولت حاصل کرتا ہے..
اگر انسان ہمت و استقلال سے کام لے تو غریبی میں ہی نام
پیدا کرسکتا ہے لہزا نام پیدا کرنے کیلیے ضمیر فروشی کی ظرورت نہیں ..اقبال کے
زمانہ میں بعض مسلمانو نے انگریز کے بازار سیاست میں اپنی خودی کو بیچ کر سہ حرفی
اور چہار حرفی خطابات مثلا (کے بی ای سی) حاصل کیے اور نام بهی پیدا کیا.
لیکن نہ ان کو حسین رض جیسا فضل نسیب ہوگا اور نہ سکندر
کی حیات
ان لوگو کے مقابلے میں اقبال نے اپنی زندگی کے دن موٹر
.ٹیلیفون اور اردلی کے بغیر محض اللہ کی بندہ پروری کی بدولت گزارے مگر آج کوئ شخص
ان خطابات یافتہ حضرات کا تزکرہ بهی نہیں کرتا . لیکن غریب اور گوشہ نشین اقبال نہ
صرف دنیا بلکہ سارے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے. سب کو ان کا کلام تسکین قلب
کا سامان مہیا کرتا ہے اور ان کا مزار بلا مبالغہ زیارت گاہ خاص و عام ہے.
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
سچ تو یہ ہے ان دو لفظوں میں قوموں کے عروج کا فلسفہ بیان کردیا
ہے. وہ قوم دنیا میں کبهی سر بلند نہیں ہو سکتی . جس کے افراد خودفروشی کے مرض میں
مبتلا ہو خودفروشی تو غلامی کی تمہید ہے
3 تبصرے:
شاندار تشریح
خودی اقبال
جامع تشریح
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔