جمعرات، 28 مئی، 2015

کلام اقبال بال جبریل تشریح غزل 22


کلام اقبال بال جبریل
غزلیات نمبر 22

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی

تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!

نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!

مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی!

یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی!

تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی!

تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
-------------------------------------------------------------------
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!

راہ نشین=خدا سے ملنے کا آرزو مند
راہی= راہ معرفت کا سالک

تشریح
فلسفی کسی کو شخص کو خدا سے ملنے کا طریقہ نہیں بتا سکتا کیونکہ نہ وہ رہ نشین نہ راہی ہے بلکہ محض ضنیات اور قیاسات میں گرفتار ہے جو خود گمراہ ہو وہ دوسروں کو کیسے راہ دکها سکتا ہے . اس کے لیے کسی مرد قلندر کامل مرشد کی ظرورت ہے ضرورت اس امر کی ہے کے مرشد کامل کیسا ہو
یوں تو اس دنیا میں علم کی کوئی کمی نہیں ہے جابجا تعلیمی مراکز ﴿چاہے کسی بھی شعبہ کی تعلیم﴾ کھل چکے ہیں لیکن جو چیز انسان کی روح کو تقویت پہنچاتی ہے اس دنیا میں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ تعلیم ہم کو کہاں سے مل رہی ہے اور آج امت ِ مسلمہ کے زوال کا سبب کیا چیز بن رہی ہے اور کس چیز کی کمی ہے اس کو پورا کیسے کیا جائے ۔

ج۔ جے رب ناتیاں دھوتیاں ملدا تاں ملدا ڈڈواں مچھیاں ھو
جے رب لمبیاں والاں ملدا تاں ملدا بھیڈاں سسیاں ھو
جے رب راتیں جاگیاں ملدا تاں ملدا کال کڑچھیاں ھو
جے رب جتیاں ستیاں ملدا تاں ملدا دانداں خسیاں ھو
رب تنہاں نوں ملدا یا حضرت باھو(رح) نیتاں جہناں دیاں ہچھیاں ھو
اگر آج وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھا جائے تو امت ِ مسلمہ کو ایک قیادت کی ضرورت ہے جو ہرلحاظ سے ’’الشیخ فی قومہ کنبی فی امۃ‘‘ ﴿مرشد اپنی قوم میں ایسے ہوتا ہے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے ﴾کی مصداق ہو اور وہ ہستی ’’ا.ل.م‘‘ کے مقام پر فائز ہستی ہو جس کی ایک ایک ادا ایسے ہو جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم کی ایک ایک ادا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایک زندہ تاریخ بنا کر بتایا ۔ اس کی بھی ایک ایک ادا دنیا میں تو ایک زندہ اور مستند تاریخ کی حیثیت رکھتی ہو لیکن اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیات کا مرکز بھی اس ہستی اکمل کا چہرہ ہو ۔ جس کے بارے میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا’’ من نظر الیہ فکا نما ینظر الی اللّٰہ‘‘ ﴿جس نے ان کو دیکھا اس نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ﴾ کیونکہ وہ مرشد اکمل ہستی اللہ تعالیٰ کا شیشہ ہوتا ہے اور اس کے چہرے پر یعنی اللہ تعالیٰ کے اس شیشے میں تجلی بھی اللہ تعالیٰ کی ظاہر ہو چکی ہوتی ہے جس کو دیکھنا اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ہے ۔ ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم بسوز صدیق(رض) ، چشم ِ عمر (رض) ، علم حیدر ، فقر فاطمہ (رض) ﴿خاتون جنت(رض) ﴾ ، صبر حسین (رض) ، سیف خالد (رض)، عشق بلال (رض) ،المختصر لسان پیر دستگیر ، باہو (رض) جیسے اوصاف و کمالات کی حامل ہو وہ ہستی اگر اس دور میں اس قوم کی کشتی کو چلائے تو کسی کنارے کی امید رکھی جا سکتی ہے ورنہ عام حالات جو کہ پہلے چلتے رہے ہیں یا چل رہے ہیں ان حالات میں کشتی کو بھنور سے نکالنا تو عام کسی پیر کا کام ہے نہ کسی عالم کا نہ کسی دوسرے راہنما کا کشتی کو بھنور سے نکال لانے کے لئے وہی ہستی تلاش کرناپڑے گی کیونکہ ہمیں اپنے آقا کی ’’وما ینطق عن الھویٰ‘‘ کی زبان پر اعتماد کامل ، ایمان مکمل اور یقین ِ اکمل ہے کہ دنیا میں کوئی دیوار بھی ایسی نہیں بچے گے جس پر اللہ تعالیٰ کے دین کا پرچم نہ لہرارہا ہو۔
  کیا کہیں ایسا کوئی چہرہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انورو تجلیات ’’ اظھر من الشمس ‘‘ ہوں جس کے اوپر’’فواہ الذی یعقل بہ‘‘ کا دعویٰ کیا جا سکے جس کے ہاتھوں کو ’’یدہ التی یبطش بھا‘‘ کا مصداق ٹھہرایا جا سکے ۔ جس کے کانوں کو ’’سمعہ یسمع بہ‘‘ کا حامل قرار دیا جا سکے ، جس کی زبان کو ’’لسانہ التی یتکلمبھا‘‘ کی زبان کہنا گوارہ کیا جا سکے جس کے پاؤں کو ’’رجلہ التی یمشی بھا ‘‘ کے پاؤں تسلیم کیا جا سکے۔ جس کی آنکھ کو ’’بصرہ الذی یبصر بہ‘‘ کی آنکھ مانا جا سکے ۔
آج ہم اگر ایک نگاہ اٹھا کر بھی مشائخ کی طرف دیکھیں تو ہماری نگاہ علامہ اقبال(رح) کی اس بات کے مطابق اتنی نیچی ہو جاتی ہے کہ پھر راستے کو دیکھ کر چلنا بھی محال ہو جاتا ہے ۔ دورِ حاضر کے مشائخ کے بارے میں علامہ اقبال صاحب (رح) فرماتے ہیں
ہو تم آباد قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
’’یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ‘‘
عصرِ حاضر کے جو مشائخ ہیں انہوں نے ایک پاک اور لطیف شعبہ جو کہ اسلام کی بنیاد ہے جسے ہر دور میں مضبوط رکھنا ضروری تھا ، اور ہے ، اور ہو گا ، وہ تھا تصوف اور روحانیت کا شعبہ ۔ اس کو انہوں نے اتنا ضعیف کر دیا ہے کہ اب اس کا تصور ہی تبدیل ہو گیا ہے اور اس کی پاکی کو اتنی غلاظتوں میں ڈال دیا ہے کہ اب منشیات کے بڑے اڈے بھی درگاہوں اور خانقاہوں کو سمجھا جاتا ہے اور اس لطیف شعبے کو اتنی بے چینی اور بے سکونی میں ڈال دیا ہے ۔ لوگ اس میں آکر بھی افیم، چرس بالخصوص سبز پانی یعنی بھنگ تلاش کرتے پھر رہے ہیں ۔اب مشائخ اپنے آپ کو معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر کامل ، مکمل اور اکمل ظاہر کر رہے ہیں ۔ معالج شعبدے باز اور شیطانی عملیات پر عبور سے کیا مراد ہے ۔ جب کہ مندرجہ بالا سے کوئی بھی چیز پیر یا مرشد میں نہیں ہونی چاہئے اگر ہوتو جان بس وہ مرشد ناقص و نا مکمل اور راہزن ہے ۔
معالج:
اب جو مرشدوں نے اپنا کام بنایا ہوا ہے یعنی جومعالج جو بنے ہوئے ہیں اتنے تھرڈ کلاس اور گھٹیا معالج بنے ہیں کہ سن کر بھی شرم کے طوطے مر جائیں یعنی ایک مرید آتا ہے پیر کے پاس کہ پیر صاحب میری گائے دودھ نہیں دیتی ۔ آپ دعا کریں یا تو جہ کریں تاکہ میری گائے دودھ دینے لگ جائے تو پیر صاحب نے اپنی پیری کا ڈھنڈورا پھیلانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تاکہ یہ گائے دودھ دینے لگ جائے ایک اور مرید آتا ہے کہتا کہ پیر صاحب میری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا ہے آپ مہربانی کریں تاکہ میری بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ تو پیر صاحب اپنی پیری کا لوہا منوانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ اس کی بھینس کو حمل ٹھہر جائے ۔ ایک اور مرید آتا ہے پیر صاحب میری بکری کے بچے مر جاتے ہیں آپ کوئی چیز دیں تاکہ میری بکری کے بچے نہ مریں تو پیر صاحب اپنی پیری کی دھاک بٹھانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر کے دیتے ہیں تا کہ اس بکری کے بچے نہ مریں ۔ ایک اور مرید آتا ہے کہ پیر صاحب مرغی انڈے نہیں دیتی کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میری مرغی انڈے دینے لگ جائے تو پیر صاحب اپنی پیری کو مزید اوج ثریا پر لیجانے کے لئے کوئی نہ کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تاکہ یہ مرغی انڈے دینے لگ جائے ایک اور چیلا آجاتا ہے کہ پیر صاحب میرا بٹیر صحیح نہیں لڑتا کوئی چیز دم کر دیں تاکہ میرا بٹیر صحیح لڑے تو پیر صاحب اپنی پیری کو چار چاند لگانے لئے اسے کوئی چیز دم کر دیتے ہیں تا کہ اس کا بٹیر صحیح لڑنے لگ جائے تو اب یہ تمام عمل ہوگئے تو مرید بڑے اکڑ کر چلیں گے اور اپنے پیر کی پیری کو چمکانے کے لئے وہ پورے علاقے میں ایسی باتیں بتائیں گے کہ میری گائے دودھ نہیں دیتی تھی یامیری بھینس کو حمل نہیں ٹھہرتا تھا یا میری بکری کے بچے مر جاتے تھے میری مرغی انڈے نہیں دیتے تھی یا میرا بٹیر نہیں لڑتا تھا میں نے اپنے پیر صاحب سے دم کروایا تھا تو اب ہر چیزٹھیک ہے سینہ تان کر تڑیاں لگا لگا کر بتاتے ہیں جیسے ان کے پیر صاحب نے چاند توڑ کر ان کو تحفے میں دے دیا ہو ۔
کیا پیر کا کام گائے کا دودھ نکلوانا یا بھینس کو حمل ٹھہرانا یا مرغیوں سے انڈے لینا رہ گیا ہے کہ کیا پیروں کا کام اتنا گٹھیا ہے حالانکہ ہماری جان اورا یمان کے مالک محبوب خداوند تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ’’ میری امت میں جو مرشد ہوں گے وہ ایسے ہوں گے جیسے نبی اپنی امت میں ہوتا ہے ‘‘ تو یہی اب کام رہ گیا ہے مرشد کامل کا کہ وہ دو نمبر معالج بن کر پھرتا ہے ، نہیں ! نہیں ! یہ کام مرشد کا نہیں ہے۔
شعبدے باز :
یہ دوسرا کام ہے جو لوگ اپنا کر اپنی روزی کما رہے ہیں اور اسلام کی روح پر پاش پاش کر دینے والے حملے کر رہے ہیں ۔ اسلامی طور طریقوں سے بھی امت ِ مسلمہ کو محروم کھلی گمراہی میں ڈال کر ان 72 گروہوں میں شامل کرنے کے خواہاں بن چکے ہیں کہ جن کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٰ وسلم نے فرمایا کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے 71 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 70 گمراہ ہو گئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت کے 72 فرقے تھے جن میں ایک نجات والا تھا اور باقی 71گمراہ ہو گئے فرما یاکہ میری امت کے 73فرقے ہوں گے جن میں ایک نجات والا ہوگا اور باقی 72 فرقے گمراہ ہوں گے ۔ ‘‘
یہ لوگ پیری کا روپ دھار کر لوگوں کو صراطِ مستقیم سے روک رہے تھے ۔ حالانکہ حقیقی معنوں میں مرشد کاکام بھی صراطِ مستقیم پر چلنا اور چلانا ہے کیونکہ مرشد خلیفۃ اللہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نیابت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کا ہر قول اور ہر فعل اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ میرا قول اور فعل ہوتا ہے اگر دیکھا جائے تو پہلے جو اللہ کے خلیفے﴿ نائب﴾ تھے وہ انبیائ کرام علیہ السلام تھے اور جب آخری نبی ہمارے نبی ایسے نبی جو اپنی پیدائش سے لاکھوں سال پہلے بھی نبی تھے جو اللہ تعالیٰ کی نیابت کے حامل رہے ہیں اور اب بھی مرشد کی جو تعریف قرآن سے ملتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’مرشد تمام تر پلیدیوں سے اور ناپاکیوں سے نکال کر بحر معرفت میں ڈال دے ۔ جہاں پر مرید اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات کا بلا حجاب مشاہدہ کرتا ہے ۔‘‘ لیکن شعبدے باز پیر اس کام سے روکتے پھر رہے ہوتے ہیں اور پیسوں کے بھاؤ اپنی پیری کو دن دگنی اور رات چگنی ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی طرف گامزن کر دیتے ہیں کہ پیسے دو اور خلافت لو ۔ جن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مرشد کیا ہے ؟ اور مرید کیا ہے ؟ اپنے آپ کو مرشد اعظم کہلواتے پھر رہے ہیں اور اپنے کرتب کا مظاہرہ کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر تیزاب پھینک کر مسلسل مسخ کر رہے ہیں مثلاً کئی پیر یہ کہتے ہیں کہ آنکھیں بند کرو تمہیں مدینہ نظرآئے گا ، تمہیں خدا نظر آئے گا ، تم اس مقام پر پہنچ جاؤ گے ، تم فلاںمقام تک پہنچ جاؤ گے حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہوتا وہ صرف یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم اتنے بڑے پیر ہیں اگر کوئی مرید یہ کہہ دے کہ پیر صاحب مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا تو فقط یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ تمہارا وضو ٹھیک نہیں تھا یا تمہارا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے اور کئی لوگ اور طریقے بھی اپناتے ہیں یعنی کوئی مرید بے چارہ جو تبخیر کا مریض ہو کہہ دیتے ہیں کہ اس پر جنات کا سایہ ہے اور اس غریب کی پٹائی شروع ہو جاتی ہے ایک اور طریقہ یہ بھی اپنی پیری بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ مرید کو حکم ہوتا ہے کہ تم فلاں وظیفہ کرو تمہارے پاس اتنے پیسے آئیں گے ۔ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا ۔  بندہ تو پہلے ہی دنیا میں اتنا غرق ہے کہ ان مرشدوں کے پاس آتا ہے کہ اسے اللہ کی ذات سے وصل نصیب ہو جائے ۔ مرشد الٹا اس کو ایسی راہ پر ڈال دیتا ہے کہ وہ دور ہی دور ہو جاتا ہے ۔ آخر ایک دن وہ آ جاتا ہے جب وہ پیروں کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے ۔ شعبدے بازی کی پیری کے متعلق حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب فرماتے ہیں ’’ اگر ایک آدمی ہو ا میں اڑ رہا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں ہے ۔ وہ مکھی ہے جو ہوا میں اڑ رہی ہے اور وہ راہزن ہے اگر ایک آدمی سمندر کی سطح پر مصلیٰ بچھا کر نماز پڑھ رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں تو جان لو کہ وہ پیر نہیں وہ تنکا ہے جو پانی کی سطح پر قائم ہے ۔ اگر ایک آدمی آگ کھا رہا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں پیر ہوں وہ مٹی کا بنا ہوا تندور ہے جو اپنے پیٹ میں آگ کو لئے ہوئے ہے وہ راہزن ہے بلکہ پیر وہ ہے جو اپنے مرید کو بغیر کسی چلہ ، وظیفہ اور بغیر کسی عبادت و ریاضت کے پہلے ہی ساعت میں اس کا ہاتھ جب اپنے ہاتھ میں لے تو اسے ’’موتو قبل ان تموتو ‘‘ اور ’’اذا اتم الفقر فھو اللہ‘‘ کے مقام پر پہنچا دے ۔
پیر کی صحیح اصطلاح اور تشریح بھی یہی ہے جو حضور حضرت سخی سلطان باہو (رح) صاحب نے کر دی ہے آپ اپنے پنجابی کلام میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
نہیں فقیری جھلیاں مارن ستے لوگ جگاون ھو
نہیں فقیری واندھی ندی سکیاں پار لگاون ھو
نہیں فقیری وچ دریا دے مصلّہ پا ٹھہراون ھو
نام فقیر تنہاں دا یا حضرت باہو (رض) جہیڑے دل وچ یار ٹکاون ھو
حضور حضرت سخی سلطان باہو صاحب (رح) کی تعلیمات سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ہمیں وہ درس ایمانی و سبق سلطانی نصیب ہوتا ہے ۔ وہ بھی یہی ہے بلکہ آپ اپنی تصنیف میں ارشاد فرماتے ہیں ’’فقیر باہو‘‘ کہتا ہے کہ راہِ فقر میں استقامت کی ضرورت ہے نہ کہ ہوائے نفس و کرامات کی ضرورت ہے کیونکہ استقامت مرتبہ خاص ہے اور کرامت مرتبہ حیض و نفاس ہے ۔ سن اے یار طالب اللہ کا کیا کام حیض و نفاس سے ۔ ‘‘ ﴿عین الفقر﴾
اب ہم پر یہ حقیقت بنور آفتاب واضح ہو گئی کہ تمام شعبدے بازیوں سے ہٹ کر اور شعبدے باز مرشد کی بجائے ایسا مرشد تلاش کرنا چاہئے کہ جو اپنی نظر کے ساتھ اپنے مرید کو استقامت عطا فرمائے ۔
اپنا مقام پیدا کر

مکمل تحریر >>

بدھ، 27 مئی، 2015

کلام اقبال بال جبریل تشریح غزل 22

کلام اقبال بال جبریل
غزلیات نمبر 22
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی!
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی!
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی!
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
تشریح
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
انسان کو حقیقی زندگی اور عزت و آبرو، معرفت خودی ہی سے  حاصل ہو سکتی ہے. اور جو شخص معرفت ذات خریش سے محروم ہے وہ دنیا میں کسی قسم کی عزت و آبرو سے محروم ہے .
حضور علیہ الصلوٰۃُ والسلام کا فرمان ہے -:’’ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہَ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہ،‘‘ ترجمہ-:’’ جس نے اپنی ذات کو پہچانا بے شک اُس نے اپنے رب کو پہچانا-‘‘
حدیث ِپاک کی شرح کرتے ہوئے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں-:’’اے اِنسان ! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اِس لئے اگر تُو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیوں کر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا کہ ’’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے-‘‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے، اتنی شناخت تو اپنے لئے دیگر جانور بھی رکھتے ہیںیا فقط یہ جان لینا کہ بھوک پیاس لگے توکھا پی لیا جائے، غصہ آئے تولڑ جھگڑ لیا جائے،شہوت غلبہ کرے تو جماع کر لیا جائے - یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تُواُن سے اشرف و افضل کیوں کر ہوا؟ تیری ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تُو جانے کہ تُو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تُو آیا ہی ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا ؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کردی گئی ہیں جن میں سے بعض حیوانی ہیں، بعض وحوش اور درندوں کی ہیں، بعض شیطانی، بعض جناتی اور بعض ملکوتی ہیں، تو ذرا غور تو کر کہ تُواِن میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تُو اِن میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت اِن میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب و اجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تُو اِن حقائق کو نہیں پہچانے گا، اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گا اور اپنی نیک بختی و سعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ اِن میں سے ہر ایک کی غذا علیٰحدہ علیٰحدہ ہے اور سعادت بھی الگ الگ ہے- چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں، اگر تُو بھی یہی کچھ ہے تو دن رات اِسی کوشش میں لگا رہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے- درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ و غضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکرو حیلہ سازی میں ہے اگر تُو اُن میں سے ہے تو اُن ہی جیسے مشاغل اختیارکرلے تاکہ تُواپنی مطلوبہ راحت و نیک بختی حاصل کرلے- فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر و تسبیح و طواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا و سعادت قربِ الٰہی میں اللہ تعالیٰ کے انوار ِجمال کا مشاہدہ ہے- اگر تُو اِنسان ہے تو کوشش کر کہ تُو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے اور اُس کے انوارِ جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ اور شہوت کے ہاتھ سے رہائی دلا سکے اور تُو طلب کرے تو اُس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہو جائے کہ تیرے اندر اِن حیوانی و بہیمی صفات کا پیدا کرنے والاکون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہو جائے کہ پیدا کرنے والے نے اِن صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اِس لئے کہ یہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟ یا اِس لئے کہ تُواِن کو اپنا اسیر و مسخربنالے اور خود اِن پر غالب آ جائے اور اِن اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنا لے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنا لے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اِس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیںاِن میںاپنے اِن غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو اِن کو اپنے پائوں تلے روندتا ہوا اپنی اُس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہو سکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ‘‘ کہا جاتا ہے- یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں- جس نے اِن کو نہ جانا وہ راہِ دین سے دور رہا اور لا محالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا-‘‘ ﴿ترجمہ و تلخیص کیمیائے سعادت)
فلسفہ خودی کے بارے میں سورہ مائدہ کی یہ آیت ہے
استحکام خودی پر دال ہے
ترجمعہ "۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو تو یہ فرض ہے خودی کی محافظت اگر تم ہدایت پر ہو تو وہ شخص جو گمراہ ہے تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا تم سب کو اللہ کے پاس جانا ہے اور وہ تمہیں تمہارے اعمال پر مطلع کر دے گا تاکہ تم کو ان کے مطابق سز امل سکے ۔‘‘ (13)
مکمل تحریر >>

منگل، 26 مئی، 2015

کلام اقبال بال جبریل تشریح غزل 22

کلام اقبال بال جبریل
غزلیات نمبر 22
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی!
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی!
نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے
مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے، تو نہ رہ نشیں نہ راہی!
مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسم کجکلاہی!
یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی!
تو ہما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی!
تو عرب ہو یا عجم ہو، ترا ’لَا اِلٰہ اِلاَّ‘ !
لغت غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی!
تشریح
پیام: پیغام
صبح گاہی. صبح کا وقت فجر
خودی :خودشناسی
الست بربکم وہ وقت ہے جب انسان کو امانت فقر عطا کی گئی اور اس کی حفاظت کا وعدہ لیا گیا۔ خودی خود شناسی ہی ہے کہ انسان درحقیقت کون ہے اور اُس کا اصل مقام کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ وقتِ الست اللّٰہ نے اسی خودی کی امانت انسان کو سونپی اور اس کی حفاظت کا وعدہ لیا تھا۔
پادشاہی:حقیقی بادشاہی بے نیازی
جو شخص  اپنی خودی سے آگاہ ہو جاتا ہے  اسے خواہ تخت و تاج میسر ہو یا نہ ہوں  لیکن وہ بادشاہوں کی طرح انسانوں پر حکومت کرتا ہے.
وہ دنیا والاں کے سامنے دست سوال نہیں کرتا .یہ شان بے نیازی حقیقی بادشاہی ہے  اور دنیاوی بادشاہی سے بر تر ہے
جاری ہے.......
محمد اسماعیل
اپنا مقام پیدا کر
مکمل تحریر >>

پیر، 25 مئی، 2015

اپنا مقام پیدا کر مکمل نظم

جاوید  کے نام –نظم  بر  ١٤٧
(لندن  میں اس کے ہاتھ  کا  لکھا ہوا  پہلا خط  آنے پر )


کلام :   بال جبریل

          
یہ انتہائی  بلیغ  نظم اقبال نے اپنے فرزند  جاوید اقبال کے ہاتھ کا پہلا لکھا ہوا خط پڑھنے کے بعد  لکھی  تھی .چناچہ  اس میں اول سے آخر تک  شفقت کا رنگ نظر آتا  ہے . ور اس سے یہ بھی  معلوم ہوتا ہے  اقبال اپنے فرزند میں کیا کیا خوبیاں دیکھنا چاھتے تھے ..بظاھر اس  نظم میں  انہوں نے  اپنے فرزند کو  مخاطب کیا  ہے لیکن   باطن میں  اس  کا اطلاق تمام فرزان ملت پر ہوسکتا ہے .کیوں  کے  میری نظر میں  حضرت  علامہ اقبال ملت کے باپ تھے /انہوں نے  پوری زندگی  مسلمانوں کی خدمات میں بسر کی . وہ ساری عمر ملت کے  غم میں  تڑپتے رہے . اور اسی تڑپ کا نتیجہ  تھا کے جس شخص  کو ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع  ملا اس کے اندر بھی ووہی رنگ  پیدا ہوگیا کسی میں  کم کسی میں زیادہ .


دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا  زمانہ  نے  صبح   و شام  پیدا کر
اقبال  فرماتے ہیں   کے اے  جاوید  اگر الله  تجھے توفیق عطا کرے  تو الله کے محبّت میں خود کو فنا کر کے حیات جاوید حاصل کر لے.اگر تو نے یہ راستہ

 اختیار کر لیا تو یقیناً تجھ میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے گی کے تو دنیا میں انقلاب پیدا کر دے گا .
اقبال کے نظام افکار میں ،تخلیق  عالم نو میں کو بہت اہمیت حاصل ہے .ان کے فلسفہ اور پیغام کی خاصیت ہی یہی ہے  کے مسلمانوں  میں یہ قوت پیدا ہو جائے کے وہ  نیا زمانہ اور  نئی دنیا
پیدا  کر سکیں  .یہ نئی دنیا کیا ہے .یا اس سے ان کی کیا مراد ہے .اقبال کا مطلب  یہ ہے کے  جس طرح نبی اکرم ﷺ نیں  نئی دنیا پیدا کر دی.دنیا میں سب سے بڑا  انقلاب  برپا کر دیا  ،اسی طرح  حضور ﷺ    کے غلام بھی حضور کے نقشے قدم پر چل کر  دنیا میں انقلاب پیدا کر سکتے ہیں .انقلاب اس کے سوا کیا ہوگا کے  مسلمان دنیا کو  جو اس وقت تاریکی میں غرق ہے  قرآن  حکیم کی تعلیمات سے روشناس کریں ...
                خدا اگر دل فطرت شناس دے ت                                                                                       سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر  
اگر  الله  تجھ کو مطالعہ فطرت  کا ذوق  عطا  کرے  تو  تجھے  لالہ و گل سے   اس ہستی کا  ثبوت مل سکتا ہے  . .سکوت لالہ و گل  سے کلام   سے مراد اگرچہ  یہ  ہے کے  وہ زبان نہیں رکھتے ،لیکن اگر کوئی فطرت شناس  ان کی بناوٹ پر غور کرے تو   وہ زبان حال سے  خالق   کاینات کے وجود پر گواہی دیں گے ..
اٹھا نہ   شیشہ گران فرنگ کے احسان                                                                                                                                سفال  ہند  سے میناو جام پیدا  کر                      
شیشہ گران  فرنگ سے  مراد   یورپ کی وو  قوتیں مراد  ہیں جو عیاری ور مکّاری میں مشھور ہیں .شیشہ گر  کے لغوی معنی  ہیں کانچ کے برتن  بنانے  والے .ان الفاظ کو اقوام مغرب  کے لئے استعال کیا گیا ہے . اور اس کی وجہ  یہ ہے کے  ان   قوموں کے اصول  زندگی  پایدار نہیں .نیز ان کے مھائدے کانچ کے برتن کی  طرح   کمزور  ور ناقابل اعتبار ہیں ..ان کے علوم و فنون  اور خیالات  میں بھی پختگی نہیں ہے  اور افادیت نہیں پای جاتی ..یہ  اصطلاح ان کی پوری زندگی پر صادق  آ سکتی ہے .
احسان نہ اٹھانے  سے مراد  یہ ہے کے  ان کی تہذیب اور ان کی معاشرت  مت اختیار کرو .ان کے افکار ور خیالات کو مت قبول کرو .جو علوم و فنون انہوں نے ایجاد کیے ہیں  ان کو  بیشک استعمال کرو  لیکن ان اقوام کی تقلید مت کرو
اگر شراب پینا چاھتے ہو تو  ان پیالوں میں  پیو  اپنی مٹی سے بنی ہیں  مطلب یہ کے اپنے وطن سے اور اپنی تہذیب سے   محبّت کرو ..
میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
شاخ تاک. انگور کی بیل.   
کلام اقبال خوشہ انگور ہے اس خوشہ سے مئے لالہ فام پیدا کرو مطلب یہ ہے کے میرے کلام کے مطالعہ سے اپنے اندر مذہبی و ملی و سیاسی شعور پیدا کرو........

میرا   طریق  امیری  نہیں   فقیری   ہے               
خودی نہ   بیچ    غریبی  میں  نام  پید ا کر                                                                                                                         
یہ شعر اس نظم کی جان نہیں بلکہ تمام کلام کی جان ہے.ان کے سارے فلسفہ کی روح ہے. "اپنی خودی کو کسی بهی قیمت پر مت بیجو . خودی خود آگہی کا دوسرا نام ہے . اگر انسان ،حرص دینوی سے قطع و نظر کرکے غوروفکر سے کام لے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح اس پر واضح ہوسکتی کہ غریبی میں بهی نام پیدا کیا جاسکتا ہے.. انسان عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کیلیے اپنی خودی کو بیچتا ہے. اور اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے..
اگر انسان ہمت و استقلال سے کام لے تو غریبی میں ہی نام پیدا کرسکتا ہے لہزا نام پیدا کرنے کیلیے ضمیر فروشی کی ظرورت نہیں ..اقبال کے زمانہ میں بعض مسلمانو نے انگریز کے بازار سیاست میں اپنی خودی کو بیچ کر سہ حرفی اور چہار حرفی خطابات مثلا (کے بی ای سی) حاصل کیے اور نام بهی پیدا کیا. 
لیکن نہ ان کو حسین رض جیسا فضل نسیب ہوگا اور نہ سکندر کی حیات
ان لوگو کے مقابلے میں اقبال نے اپنی زندگی کے دن موٹر .ٹیلیفون اور اردلی کے بغیر محض اللہ کی بندہ پروری کی بدولت گزارے مگر آج کوئ شخص ان خطابات یافتہ حضرات کا تزکرہ بهی نہیں کرتا . لیکن غریب اور گوشہ نشین اقبال نہ صرف دنیا بلکہ سارے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے. سب کو ان کا کلام تسکین قلب کا سامان مہیا کرتا ہے اور ان کا مزار بلا مبالغہ زیارت گاہ خاص و عام ہے.
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

سچ تو یہ ہے ان دو لفظوں میں قوموں کے عروج کا فلسفہ بیان کردیا ہے. وہ قوم دنیا میں کبهی سر بلند نہیں ہو سکتی . جس کے افراد خودفروشی کے مرض میں مبتلا ہو خودفروشی تو غلامی کی تمہید ہے


مکمل تحریر >>

بال جبریل اپنا مقام پیدا کر

-----------جاوید کے نام نظم -------------
بال جبریل.....اپنا مقام پیدا کر ..... کے سلسلے کی نظم کا حصہ

                میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
                مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
شاخ تاک. انگور کی بیل...
کلام اقبال  خوشہ انگور ہے  اس خوشہ سے مئے لالہ فام  پیدا کرو  مطلب یہ ہے کے میرے کلام کے مطالعہ سے  اپنے اندر  مذہبی و ملی و سیاسی شعور پیدا کرو........

مکمل تحریر >>

اتوار، 24 مئی، 2015

بال جبریل اپنا مقام پیدا کر

کلام اقبال
بال جبریل
                 جاوید نامہ(بیٹے کے نام خط)

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
              خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

یہ شعر اس نظم کی جان نہیں بلکہ تمام کلام کی جان ہے.ان کے سارے فلسفہ کی روح ہے. "اپنی خودی کو کسی بهی قیمت پر مت بیجو  . خودی خود آگہی کا دوسرا نام ہے . اگر انسان ،حرص دینوی سے قطع و نظر کرکے غوروفکر سے کام لے تو یہ حقیقت  روز روشن کی طرح اس پر  واضح ہوسکتی کہ غریبی میں بهی نام پیدا کیا جاسکتا ہے.. انسان عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کیلیے  اپنی خودی کو بیچتا ہے. اور اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے..
اگر انسان ہمت و استقلال سے کام  لے تو غریبی میں ہی نام پیدا کرسکتا ہے لہزا نام پیدا کرنے کیلیے ضمیر فروشی کی ظرورت نہیں ..اقبال کے زمانہ میں بعض مسلمانو نے انگریز کے بازار سیاست میں اپنی خودی کو بیچ کر سہ حرفی اور چہار حرفی خطابات مثلا (کے بی ای سی) حاصل کیے اور نام بهی پیدا کیا.
لیکن نہ ان کو حسین رض جیسا فضل نسیب ہوگا اور نہ سکندر کی حیات
ان لوگو کے مقابلے میں اقبال نے اپنی زندگی کے دن موٹر .ٹیلیفون اور اردلی کے بغیر محض اللہ کی بندہ پروری کی بدولت گزارے  مگر آج کوئ شخص ان خطابات یافتہ حضرات کا تزکرہ بهی نہیں کرتا . لیکن غریب اور گوشہ نشین  اقبال نہ صرف دنیا بلکہ سارے پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے. سب کو ان کا کلام تسکین  قلب کا سامان مہیا کرتا ہے  اور ان کا مزار بلا مبالغہ زیارت گاہ خاص و عام ہے.
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

سچ تو یہ ہے ان دو لفظوں میں قوموں کے عروج کا فلسفہ بیان کردیا ہے. وہ قوم دنیا میں کبهی سر بلند نہیں ہو سکتی . جس کے افراد خودفروشی کے مرض  میں مبتلا ہو خودفروشی تو غلامی کی تمہید ہے

ایڈمن محمد اسماعیل

مکمل تحریر >>

جمعہ، 22 مئی، 2015

کلام اقبال مع تشریح

کلام اقبال
بال جبریل

--------------- چیونٹی اور عقاب------------------

                    چیونٹی

میں پائمال و خوار و پریشان و درد مند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بهی بلند؟

                      عقاب

تو رزق اپنا ڈهونڈتی ہے خاک راہ میں !
میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں !

چیونٹی نے عقاب سے پوچها کہ میں تو اس قدر ذلیل و خوار اور پریشان ہوں  رات سن لوگ مجهے پامال کرتے ہیں . اور تو اس قدر مرتبہ بلند ہے کہ انسان تیری گرد خو بهی نہیں پہنچ سکتا اس کی کیا وجہ ہے؟
عقاب  نے جواب دیا کہ تو ہو یا کوی اور جو بهی اپنا رزق خاک راہ میں تلاش کرے گا . وہ پامال و ذلیل و خوار ہوگا.
مطلب یہ ہے کہ اگر زاویہ نگاہ. پست ہوگا تو زندگی میں ترقی  اور عروج ہر گز پیدا نہیں ہو سکتا....

مکمل تحریر >>

جمعرات، 21 مئی، 2015

اپنا مقام پیدا کر

---------------جاوید کے نام نظم -----------------
بال جبریل.....اپنا مقام پیدا کر ..... کے سلسلے کی نظم کا حصہ

                میں شاخ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
                مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
شاخ تاک. انگور کی بیل...
کلام اقبال  خوشہ انگور ہے  اس خوشہ سے مئے لالہ فام  پیدا کرو  مطلب یہ ہے کے میرے کلام کے مطالعہ سے  اپنے اندر  مذہبی و ملی و سیاسی شعور پیدا کرو........

مکمل تحریر >>

منگل، 19 مئی، 2015

رب کا دیکهنا

رب کا دیکهنا...
 
اس دنیا اور کائنات میں یر شے  اپنا آپ ظاہر کرتی ہے . ہر ایک اپنے اظہار کا طالب ہے . مجهے دیکها جاے ... مجهے چاہا جاے...
ایک محبوب ہر پل یہہی چاہتی ہے کہ اس کا محبوب اس کو دیکه لے جس کے لیے وہ گهنٹوں بناو سنگهار کرتی ہے . شاگرد ہمیشہ بڑی محنت سے اپنی سفید کاپی کے صفحوں کو پهیل بوٹوں سے سجاتا ہے کے استاد اس کو دیکه لے اس کو پسند آجاے. ماتحت ہمیشہ اپنے افسر کی خوش نظری  کا طالب رہتا ہے. ہماری خوش لباسی ہمیشہ کسی کی داد نظری کی طالب رہتی ہے ....
رب کا دیکهنا کیسا ہے کہ ...
جو اس ذات کی نظر میں ایک بار  آجاتا ہے وہ پهر  کبهی اس کی نظر سے نہیں ہٹتا 
اے بندے تو میری اس طرح عبادت کر جیسے کے تو مجهے دیکه رہا ہے . اتنا نہیں تو کم از کم یہی تصور کر لے کو تو مجهے دیکهے یا نہ دیکهے  کہ میں تجهے دیکه رہا ہوں یہی احسان کی کیفیت ہے اسی کو احسان کہا گیا ہے
احسان سے مراد کسی بهی  کام کا احسن طریقے سے کرنا ہے
محمد اسماعیل

مکمل تحریر >>

جمعرات، 7 مئی، 2015

(کلام: محمد کامران احمد)

مجھ کو بھی میرے درد کا درمان چاہیے۔
میں بُت کدہ ہوں اور مجھے بھگوان چاہیے۔

خالی ہے کچھ سَمے سے میری روح کا قالب۔
فردوس و لامکاں نہیں, پہچان چاہیے۔

دل کی الگ تلاش ہے, دل کا الگ اصول۔
گر چاہیے, تو خالقِ جہان چاہیے۔

تھکے نہیں ابھی ہم, تقسیم کے سفر سے۔
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے۔

(کلام: محمد کامران احمد) ہمارے مشہور سلسلے فرقوں میں ایک فرقہ انسان چاہیے میں ....... نظم

مکمل تحریر >>

بدھ، 6 مئی، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی حصّہ ٣٧ تا ٤٠)




فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 37)
----------------

ایک بار اُس کے دادا نے اُس سے کہا کہ "اپنی بیوی پر نظر رکھا کرو, عورت ذات کو اتنی آزادی دینا ٹھیک نہیں ہے۔ تم اُس سے پوچھا کرو کہ کہاں جا رہی ہے اور کب واپس آئے گی۔" تو اُس نے اپنے دادا سے کہا کہ "مجھے اعتماد ہے, اور یقین ہے کہ میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچے گی" اُس کے دادا نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "کسی پے اندھا اعتماد کرنا درست نہیں ہے, تمھیں یقیناً اپنی بیوی پر اعتماد ہو گا لیکن پھر بھی دھیان رکھنا چاہیے" تو اُس نے کہا " دادا جان, میں نے کہا مجھے اعتماد ہے, یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنی بیوی پے اعتماد ہے, اگرچہ کہ مجھے اُس پر بھی اعتماد ہے, لیکن میرے اِس رویے کی بنیاد اللّٰہ پر اعتماد ہے, اپنے مُرشد پر اور اُن کے پیغام پر اعتماد ہے اور خود اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ اللّٰہ پر اعتماد کہ میں نے اُس کے نام کی خاطر اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی اِس لیے وہ میری بیوی کو گُمراہ نہیں ہونے دے گا اور اُس کی حفاظت کرے گا, مُرشد پے اور اُن کے پیغام پر اعتماد یہ کہ اُن کی تربیت اور اُن کی کوشش کی برکت میری بیوی کو راہِ راست پر رکھے گی۔ اور اپنے اوپر اعتماد یہ کہ میں جب گھر سے دور ہوتا ہوں تو اپنا آپ سنبھال کے رکھتا ہوں, جہاں کام کرتا ہوں وہاں لوگ مجھ میں لاکھ بُرائی نکالیں گے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں بدنظر ہوں۔ جب میں کسی کی بہن, بیٹی, بیوی کو بُری نظر سے نہیں دیکھتا, جو جذبات میری بیوی کی امانت ہیں اُن میں خیانت نہیں کرتا تو مجھے یقین رہتا ہے کہ میری بہن, بیٹی, بیوی بھی محفوظ رہے گی, جو شخص خود خراب ہوتا ہے وہ سب پر شک کرتا ہے, جس طرح کسی اور کی بہن, بیوی, بیٹی سے مِلتا تھا اُسی طرح سوچتا ہے کہ میری بہن, بیوی, بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے, اِس لیے اُن پر بےجا پابندی لگا کر, شک کر کے, اور اکثر مار پیٹ کر کے بھی اپنے کرتوت کا پھل دیکھنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے, لیکن دنیا مکافاتِ عمل ہے۔ جس نے کچھ غلط کرنا ہے وہ روک ٹوک کے باوجود کر جائے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ آزاد رہ کر بھی اپنی حدود کی پاسداری کرے گا۔ تو میرے خیال میں عورت پر بےجا پابندی لگا کر خود پریشان رہنے اور اُسے پریشان کرنے کی جگہ مرد کو اپنے اوپر پابندی لگانی چاہیے اور اپنا آپ درست رکھتے ہوئے اپنی خواتین کی دیکھ بھال کرنی چاہیے جو شخص خود درست ہو گا وہ کبھی بھی عورت پر بےجا پابندی نہیں لگائے گا۔ اور میری بیوی تو اللّٰہ کے نام کی خاطر گھر سے نکلی ہے اُس کے والد یا بھائی وغیرہ ہمیشہ اُس کے ساتھ آتے جاتے ہیں اور میری امّی یا اُس کی امّی بھی ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتی ہیں اس لیے فکر کی بات نہیں ہے اطمینان رکھیے, اللّٰہ خیر کرے گا۔" اُس کے دادا نے کہا "کبھی کبھی تم اتنی سمجھداری کی بات کرتے ہو کہ میں حیران رہ جاتا ہوں, ٹھیک ہے تم جو کہہ رہے ہو مجھے سمجھ آ گیا اللّٰہ تمھیں اور تمھارے مُرشد کو سلامت رکھے جنھوں نے تم لوگوں کو اتنی اچھی سمجھ اور شعور دیا۔ خوش رہو ہمیشہ, اللّٰہ تم لوگوں کو اِس نیک مقصد میں کامیاب کرے۔" اُس کے دادا نے کھُلے دل سے اُس کی تعریف کی اور دُعا دی۔
ایک دفعہ اُس کی بیوی نے بھی اُس سے شوخ سی ناراضگی سے کہا "آپ مجھ سے کبھی نہیں پوچھتے کہ کہاں گئی تھی یا کہاں جا رہی ہو کب آؤ گی, آپ نے تو کبھی منع بھی نہیں کیا مجھے کہیں آنے جانے سے, آپ کو نہیں لگتا کہ بندے کو تھوڑا شوہر پن بھی دکھانا چاہیے۔"  تو اُس نے اپنی بیوی سے کہا "میرے خیال میں شوہر پن بیوی پے روک ٹوک کرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی تم خود ہمیشہ مجھے بتا کر جاتی ہو۔ اور اللّٰہ مجھے ایسی ذبان نہ دے, ایسا اختیار نہ دے جو اِس راہ سے کسی کو روکنے کا سبب بنے۔ ایسا شوہر پن نہیں کرنا میں نے, جو میرے مُرشد پاک کے پیغام کی ترسیل میں رُکاوٹ بن سکتا ہو۔ میں تمھیں اپنے تمام حقوق معاف کرتا ہوں۔ اپنے شوہر کے لیے تمھاری جو ذمہ داریاں ہیں اُن میں اگر کوئی کمی واقع ہو جائے تو میں اللّٰہ کو حاضر ناظر جان کر وہ سب ذمہ داریاں تمھیں معاف کرتا ہوں, اور میں تمھیں اللّٰہ کے نام کے لیے وقف کرتا ہوں۔" اُس کی بیوی نے کہا "اللّٰہ کے نام کے لیے تو میں بھی خود کو وقف کرنا چاہتی ہوں لیکن انشاء اللّٰہ میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر نہیں بلکہ تمام ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اس پیغام کو عام کروں گی, یہ میرے اکیلے کی محنت نہیں ہے آپ سب اِس میں میرے ساتھ ہیں۔ انشاء اللّٰہ یہ پیغام گھر گھر پہنچے گا۔"
وہ جسمانی طور پر دن بہ دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے تقریباً الگ تھلگ ہو چُکا تھا۔ جو شخص اپنے مُرشد سے کبھی ہر ماہ ملنے جایا کرتا تھا اب وہ مہینوں اُن سے ملاقات نہ کر پاتا۔ ایک الگ دنیا تھی اُس کی جس میں کسی کو آنے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُس نے اپنے آپ کو بہلا لیا تھا کہ اللّٰہ کی راہ میں لوگوں کے لیے وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا, اکثر اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے وہ خود سے کہتا "تم کیا سمجھتے ہو خود کو, اپنی گزشتہ زندگی دیکھو اور اپنی اوقات یاد کرو, شکر کرو کہ کسی اللّٰہ والے کا سایہ نصیب ہو گیا, تم کیوں اولیاء کے سلسلوں کو بدنام کرنا چاہتے ہو, تم اِس لائق نہیں ہو کہ صوفیا کی بات کر سکو, یہ تمھارا کام نہیں ہے اور شاید تمھاری معزوری بھی اسی وجہ سے ہے تاکہ تم ایسے حلقوں سے دور رہ سکو جہاں اللّٰہ کا ذکر ہو رہا ہو۔ اور دھیرے دھیرے اُس نے اپنے دل کو اِس سوچ پر راضی کر لیا کہ میرا کام یہیں تک تھا۔ میں لوگوں کے لیے ایک صُبحِ روشن کا طالب تھا تو میرے مُرشد پاک اور اُن کی جماعت دن رات اُسی کوشش میں مصروف ہیں۔ مجھے لوگوں کی بہت فکر رہتی تھی نا, شاید اسی لیے اللّٰہ نے مجھے اُن لوگوں سے مِلوا دیا جو لوگوں کی بہتری کے لیے کچھ کر رہے ہیں اور مجھے یہ بھی بتا دیا کہ لوگوں کے لیے کچھ کر جانے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ افسوس کے میں اُن جیسا بھی نہ بن سکا, اور ضروری تو نہیں کہ ہر وہ شخص جو اللّٰہ کی طلب رکھتا ہو اُسے اِس طلب کو عام کرنے کا بھی شرف حاصل ہو۔ تجھے اللّٰہ کی تلاش تھی تو اللّٰہ مل گیا تجھے بس تیرا کام یہیں تک تھا, لوگوں تک پیغام پہنچانا تیرے بس کا کام نہیں ہے۔ اِن خیالات نے اُسے ہر چیز سے دور کر دیا گھنٹوں اکیلے بیٹھے رہنا اُس کا معمول بن گیا تھا اور طبیعت میں ایک عجیب سا چِڑچڑا پن پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر گھُلتا جا رہا تھا۔ زندگی سے بیزار ہو کر اُس نے اپنا آپ نشے میں ڈبو دیا اور اِس قدر بگاڑ کا شکار ہوا کہ تنگ آ کر اُس کی بیوی نے اُس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن اپنے شوہر کو بتائے بغیر جب وہ اپنے والد کے ساتھ اُن کے گھر سے جانے کو تیار ہوئی تو گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے اپنے والد سے کہا "ابو میں کسے چھوڑ کر جا رہی ہوں, اِس شخص سے میرا ایک رشتہ میرے مُرشد کے توسط سے بھی ہے, میں اُنہیں اِس حال میں نہیں چھوڑ سکتی, وہ اتنے کمزور نہیں ہیں کہ اتنی چھوٹی سی چیز سے ہار جائیں, میں پھر سے کوشش کروں گی انہیں واپس لانے کی, لیکن اِس بار میں اپنا شوہر جان کر نہیں بلکہ اپنے مُرشد پاک کا مُرید سمجھ کر انہیں واپس لانے کی کوشش کروں گی۔ اُس کی بیوی نے اپنا ارادہ تبدیل کیا اور اُسے پتہ بھی نہ چلا کہ اُس کے ساتھ کیا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 38)
----------------

اُس کی بیوی نے پہلے کی طرح اُس سے حُبِ الہٰی سے متعلق سوال کرنا شروع کیے تاکہ اُسے یاد دلایا جا سکے کہ وہ کون ہے۔ دونوں میاں بیوی کے بیچ سوال و جواب کا یہ سلسلہ جو کئی سالوں سے منقطع تھا ایک بار پھر شروع ہوا تو اُس پر اِس سب کا کافی اچھا اثر پڑنا شروع ہوا۔ اِس دوران ایک روز اُس کی بیوی نے اُس سے کہا "آج آپ مجھے شیطان کے بارے میں سمجھائیں, کیا ہے شیطان, اور کیسے لوگوں کے ذہن پر قابض ہوتا ہے۔" تو اُس نے مسکرا کر کہا "لوگ تم سے اللّٰہ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور تم مجھ سے شیطان کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔؟ تم خود بہتر جانتی ہو, مجھ سے کیا پوچھ رہی ہو۔؟" اُس کی بیوی نے کہا "مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا جانتی ہوں اور کیا نہیں لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کیا جانتے ہیں۔"
اُس نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بات شروع کرتے ہوئے کہا "ابلیس وہ جن ہے جسے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ درجات کی بُلندی کے باعث وہ فرشتوں کا سردار بن بیٹھا, کسی بھی مخلوق کے درجات تب بُلند ہوتے ہیں جب اللّٰہ اُس پے نظر کرتا ہے۔ جب اللّٰہ نے ابلیس کو مردود کیا تو اللّٰہ نے اُس سے نظر پھیر لی۔ اور اللّٰہ جس سے نظر پھیر لے وہ شئے فنا ہو جاتی ہے لیکن ابلیس کو اللّٰہ نے قیامت تک کی زندگی دی۔ اب ابلیس کی بقا انسان کی نظر سے جُڑ گئی۔ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ انسان کی نظروں کے سامنے رہ سکے, دنیا کی ہر شئے شیطان کے کام کی چیز ہے کیونکہ اِن تمام چیزوں کے ذریعے وہ لوگوں کی نظر میں آ سکتا ہے۔" اُس کی بیوی نے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن زمین پر موجود ہر چیز کیسے اُس کے کام کی ہو سکتی ہے۔؟" تو اُس نے مسکرا کر کہا "اب یہ سوال پوچھ ہی لیا ہے تو خاموشی سے سُنو جواب طویل ہے۔ شیطان جب مردود ہوا تو کہتے ہیں کہ ہزاروں سال تک وہ اللّٰہ سے مانگتا رہا تھا اور اُس نے جو جو مانگا اللّٰہ نے اُسے سب دیا۔ یہ بات سُن کر میں نے سوچا کہ کاش مجھے ایسا مجھے موقع ملتا تو میں اللّٰہ سے اللّٰہ کو ہی مانگ لیتا, یا کم از کم معافی ہی طلب کر لیتا, لیکن شاید ابلیس انسان کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف تھا اور اپنی انا کی آگ میں جل رہا تھا اِس لیے وہ معافی کا خواستگار نہیں ہو سکا۔ میں نے سوچا کہ اگر میں ابلیس کی جگہ ہوتا تو انسان کی دشمنی میں اللّٰہ سے کیا کیا مانگتا۔ کسی کے سامنے آئے بنا اُس کے سامنے آنا, اُس کی سوچ میں اپنی آواز بھرنا, اور انسان سے اُس کا نُور چھین کر خود کو طاقتور بنانے کا فن, شاید میں ایسی ہی چیزیں مانگتا, اور جب جن ہونے سے لے کر فرشتوں کا سردار ہونے تک کا سفر کیا ہوتا تو راہ میں جو کچھ بھی میں نے دیکھا ہوتا ہر شئے کو انسان کے خلاف استمعال میں لانے پر دسترس مانگتا۔ تاکہ میں انسان کو تقسیم کر سکوں۔ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر سکوں اور ایک دوسرے کے خلاف سوچنے میں اِس قدر محو کر سکوں کہ وہ اپنا آپ سوچنا بھول جائیں۔ انسانوں کو تقسیم کرنے کا کام ابلیس نے انہی طاقتوں کے بل بوتے پے کیا ہے۔ یاد کرو کہ زمین پے ہونے والے پہلے قتل کی وجہ انسان کی اپنی خواہش تھی۔ سوچو کہ اُس وقت میں جب انسان گناہ کے وجود سے ہی ناآشنا تھا اُس وقت اُس نے کس طرح گناہ کا ارادہ اور ترغیب حاصل کی۔؟ یقیناً یہ اُس کا نفس تھا جو شیطان کا پیروکار تھا اسی لیے اُس نے قابیل کو اللّٰہ کی نافرمانی کی راہ پر ڈال کر اُسے ابلیس کے مشابہ کر دیا۔ ابلیس کا کام انسان کو اُس کے مقام سے گِر جانے کے خیال میں مُبتلا کرنا ہے, اب تُو نے فلاں کام کر لیا تو تُو اپنے رب سے دور گیا, اب نیکی کرنے کا کیا فائدہ۔؟ اِس طرح کے بہت سے خیالات انسان کی سوچ میں گھر کیے رہتے ہیں۔ انسان چار عناصر کا مرکب ہے آگ, ہوا, مٹی اور پانی۔ اصل میں مٹی ایسی چیز ہے جس میں یہ تینوں چیزیں اکھٹی ہوتی ہیں۔ شیطان آگ ہے اور انسان نور ہے۔ نور کی ظاہری صورت پانی ہے۔ اسی لیے سائنس پانی کو زندگی کی بنیاد تسلیم کرتی ہے۔ انسان کے ظاہر ہونے سے پہلے تمام مخلوق اپنے اپنے درجے پر موجود تھی آگ آگ تھی اور پانی پانی تھا مگر جب انسان کا جسم تخلیق ہو رہا تھا تو فرشتوں نے کہا کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا۔ شاید انہوں نے آگ اور پانی ایک جسم میں یکجا ہوتے دیکھ کر یہ سوچا ہو گا کہ یہ فساد برپا کرے گا۔ گندم کا دانہ بھی انہی چار عناصر کا مرکب تھا اسی لیے اُس پیڑ سے دور رہنے کا حکم ہوا۔
شیطان لوگوں کے خیالات سے کھیلتا ہے۔ ہر چیز کچھ نہ کچھ کہتی ہے۔ دنیا کا مال اسباب دیکھ کر ہر شخص کے دل میں اُسے حاصل کرنے کی چاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس تمام اسباب سے آتی ہوئی آواز ہے جسے ہم اپنے نفس کے کانوں سے سُنتے ہیں, آئس کریم دیکھ کر آئس کریم کھانے کا جی کرتا ہے, گاڑی, مکان, دکان, عورت وغیرہ, ہر اچھی چیز دیکھ کر انسان کے اندر اُسے حاصل کرنے کی خواہش ہوتی ہے اور ہر غم, بیماری, دُکھ, تکلیف سے انسان دور بھاگتا ہے۔ کیوں کہ دنیا اور نفس سے جُڑی لذتیں انسان کو اپنی خواہش کرنے کی دعوت دیتی ہیں اور رنج و الم لوگوں کو خود سے دور رہنے کی صدا دیتے ہیں, اونچے اونچے محل ہوں یا چھوٹے چھوٹے مکان, سب کچھ  نہ کچھ کہتے ہیں, انسان ایک غیر محسوس انداز میں اِس زبان کو سُنتا ہے اور اُس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ شیطان کو اِن تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے اِس لیے وہ امیروں کو غریبی سے ڈرا کر گمراہ کرتا ہے اور غریبوں کو امیری کی چاہت میں مبتلا کر کے راہِ راست سے دور کرتا ہے۔ خوبصورت کو اُس کے خود کے حُسن پے مغرور ہونے کا سبق اور کم صورت کو اپنی صورت کی فکر کرنے کا درس, نفس کی زبانی شیطان ہی سُناتا ہے۔ اُس نے انسانوں سے اُن کا نور چھین چھین کر بہت کچھ بنا لیا ہے۔ آگ میں جتنا حُسن نظر آتا ہے یہ سب اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم اُسے نور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ تم مشینز کو دیکھو, لوگوں کی رہائشگاہوں کو دیکھو جو وقت کے ساتھ ساتھ اور ذیادہ دلکش ہوتے جا رہے ہیں۔ کیمرہ, تصویر, ٹیلی وژن کو دیکھو۔ کسی زمانے میں ٹی وی ایک نایاب شئے تھا۔ لکڑی کے ڈبے میں, بڑے بڑے چینل یا بٹن وغیرہ اور پھر لوگ جیسے جیسے اِس کے گرویدہ ہوتے گئے ویسے ویسے یہ ڈبہ خوب سے خوب تر ہوتا گیا۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت ہم اپنی نظر سے اُسے چھو رہے ہوتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ جب دو چیزیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو دونوں اجسام کے مولیکیولز کا کچھ نہ کچھ حصّہ ادھر سے اُدھر ضرور منتقل ہوتا ہے۔ جیسے ہر اُس چیز کو جسے ہم چھُوتے ہیں اُس پے ہمارا فنگر پرنٹ رہ جاتا ہے۔ اب سوچو کہ شیطان کو اِس کا کیا فائدہ ہے۔؟ تو اُسے یہ فائدہ ہے کہ وہ ہمارے لمس, ہماری سوچ اور ہماری نظر کے ذریعے اپنی ترقی کا سامان کرتا ہے۔ اور ہمارے لیے بہتر سے بہتر پھندا تیار کرتا ہے۔ اللّٰہ اپنی مخلوق کو رحم و کرم کی نظر سے دیکھتا ہے اور جب وہ غضب و جلال کی نظر سے دیکھ لے تو اکثر پورے کا پورا شہر نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ نیست و نابود ہو جانا بھی نیست و نابود ہو جانے والوں پے اللّٰہ کا رحم ہی ہے کہ اُس نے اُنہیں مزید گمراہی سے بچا لیا۔ اچھا, بُرا, مومن, کافر سب اللّٰہ کی نظر میں رہتے ہیں اِسی لیے اُن سب کا وجود زندہ رہتا ہے, لیکن جسے اُس نے مردود کر دیا اور اُس پر نگاہ کرنا چھوڑ دیا وہ انسان کی نظر کا محتاج ہو گیا۔ اسی لیے وہ انسان کی نظروں میں آنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کسی سنگ تراش کو پتھر میں حُسن پیدا کرنے کا مشورہ دیتا ہے تو کسی کو کسی کرتب کی ترکیب بتاتا ہے, امیر میں اپنی امیری ظاہر کرنے کا شوق پیدا کرتا ہے اور غریب کو اپنی مفلسی کی وجہ سے خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے کا خبط لاحق کرتا ہے۔ یہ سب شیطان کا کھیل ہے, اُس کا کام ہے لوگوں کو اللّٰہ کے خیال سے دور رکھنا, اور وہ لوگوں کو انہی کے خیالات کے مطابق شر انگیز گمانوں میں مبتلا کرتا ہے۔ اور یہ سب کمال انسان کی اپنی ہی نظر کا ہے۔ انسان جب کچھ دیکھتا, سُنتا, یا چکھتا ہے تب ہی وہ اُس کی خواہش کرتا ہے اگر وہ کسی چیز کو جانتا نہ ہو تو وہ اُس کی خواہش بھی نہ کرے۔ اسی لیے اللّٰہ نے ہر چیز کی حد مقرر کر دی۔ جب تک کوئی شئے اللّٰہ کی مقرر کردہ حد میں ہے تب تک وہ شیطان سے محفوظ ہے اور جہاں حد سے تجاوز کیا وہاں وہ چیز شیطان کے زیرِ اثر آ جائے گی۔ شیطان کو ہَوا کی مانند پوری زمین میں ہر جگہ موجود ہونے کا اختیار حاصل ہے۔ اسی فضا میں تمام انسانوں کا نور بھی موجود رہتا ہے جسے اپنی چالوں کے ذریعے تقسیم کر کے, شیطان لوگوں کی سوچ تقسیم کرتا ہے۔

ہندوستانی, پاکستانی, کالا, گورا, مسلم, غیر مسلم, میرا محلہ, میری گلی, میرا دوست, اور نہ جانے کس کس نام کی تقسیم کو انسانوں پر مسلط کیا جا چُکا ہے۔ ہم حُب الوطنی, حُبِ دین, حُبِ اہل و اعیال یا اپنی معاشی و معاشرتی مجبوریوں کے نام پر, یا اِسے اپنا علاقائی, قومی, یا مذہبی تشخص جان کر اِس تقسیم کو نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ اور اِس جانب توجہ ہی نہیں دیتے کہ حُب آدم کے بنا نہ تو حُب الوطنی کام کی چیز ہے اور نہ ہی حُبِ دین۔ جن قوموں کو اپنے انسانی تشخص کی خبر نہیں وہ اپنے علاقائی اور قومی تشخص کے نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 39)
----------------

"شیطان ایک سوچ کا نام ہے۔ جسے وقت میں ایک مقام دیا گیا۔ یوں سوچو کہ تمام زمین پر ایک آگ کی چادر سی بچھی ہوئی ہو, اُس آگ کی چادر کو تم شیطان سمجھو جو ہوا کی لہروں کی مانند ہر جگہ پھیلا ہُوا ہے لیکن وہ نقصان تب پہنچائے گا جب انسان اُسے نقصان پہنچانے کا موقع دے گا۔" اُس کی بیوی نے پھر سے اُسے ٹوکتے ہوئے کہا "اگر شیطان اتنا پست ہے تو وہ لوگوں کے دماغ تک کیسے پہنچ جاتا ہے۔؟" اُس نے مسکرا کر کہا "بتا رہا ہوں, تم سکون سے سنو تو سہی, کوئی بات سمجھ نا آئے تو بعد میں پوچھ لینا, ویسے میں کوشش کروں گا کہ مکمل بات کر سکوں۔ اللّٰہ نے اپنے محبوب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی صورت ایک خاص لباس اور انداز لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ داڑھی رکھنا, سطر ڈھانپنا, اُٹھنا بیٹھنا, کھانا پینا, ان سب چیزوں کے طریقہ کار واضح کیے گئے۔ جو رب یہ کہتا ہے کہ نہیں دیکھتا میں تمھارے چہرے کو بلکہ دیکھتا ہوں تمھارے دل۔ اُسی رب نے جسم اور چہرے کے انداز بیان کیے اور الگ الگ لباس و انداز کو پسند ناپسند فرمایا۔ضرور اس کی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ جب غور کیا تو سمجھ آیا کہ شیطان انسان کو اور انسان شیطان کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن شیطان انسان کو تب دیکھ سکتا ہے جب انسان شیطان کو موقع دیتا ہے۔ لباس دیکھو جیسے عرب پہنتے ہیں جس میں تمام سطر چھپ جاتی ہے۔ لیکن انسان ایک دوسرے کو اور خود کو چُست لباس میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان آنکھ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے اِس لیے آگ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ آگ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں کہ ہم ظاہر میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اُس پر آگ کا ایک غلاف موجود ہوتا ہے۔ جیسے اگر ہم سمندر کی تہہ میں جا کر اپنے ارد گرد دیکھیں تو نظر آنے والی ہر چیز اور نظر کے بیچ پانی موجود ہو گا اُسی طرح زمین میں ہر جانب منظر اور نظر کے بیچ آگ رہتی ہے۔
یہ ہے شیطان جسے آگ سے پیدا کیا گیا اور اُس آگ کو زمین میں ہوا کی مانند موجود رہنے کا اختیار دیا گیا, اور نظر سے اپنا خیال دوسرے شخص کے دماغ تک پہنچانے کا فن عطا کیا گیا۔ جیسے اُس نے حضرت حوّا کو گندم کا دانہ کھانے کی ترغیب دی, تو وہ اِسی نظر کی طاقت سے دی۔ ہم لوگ اُس وقت میں جی رہے ہیں جس میں دجال کا نظام قائم ہو چُکا ہے۔ اور ہر اچھا بُرا انسان اِس نظام کا غُلام ہے۔ جسے ہم 'سسٹم' کہتے ہیں۔ یہ نظام لوگوں کو اپنے حساب سے چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگ ہی اِس کا حصّہ بنتے اور لوگ ہی اسے چلاتے بھی ہیں لیکن اِس کی ڈور شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ سب لوگ ذہنی طور پر اِس سسٹم کے غلام ہیں جو انھیں سوچنے کی صلاحیت سے محروم کرتا ہے اور دن رات یہی سوچ ہمارے ذہنوں میں بھرنے کی کوشش میں محو رہتا ہے کہ تم اِس سسٹم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر تم نے اس کے خلاف جانے کی کوشش کی تو مار دیے جاؤ گے, اور اکثر ہوتا بھی یہی ہے۔ سسٹم کی بنیاد ڈر پر ہے۔ شیطان کی چال یہ تھی کہ لوگوں کو بے لباس جسم دکھائے جائیں اور جب بے لباس جسم دیکھنے والی نگاہیں کسی بالباس جسم کو دیکھتی ہیں تو اُس لباس میں بے لباسی تلاش کرتی ہیں۔ عورت کو فوراً احساس ہو جاتا ہے کہ اُسے کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بے لباس جسموں کو دیکھ دیکھ کر اپنی نظر میں شہوت بھرنے والے لوگوں کی ہوِس سے بھری نظریں صرف دوسری عورتوں پر نہیں بلکہ اُن لوگوں کی اپنی ماں, بہن, بیوی, بیٹی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں خواہ وہ انہیں پاک سوچ سے ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں۔ یہ شہوت اور ہوِس اللّٰہ کی تجلیات دیکھ کر کم بھی کی جا سکتی ہے۔ جس طرح یہ بے لباس اجسام شیطان کی تجلیات ہیں اُسی طرح اللّٰہ کا نام, اللّٰہ والوں کی صورت, اللّٰہ کی یاد دلانے والی ہر چیز اللّٰہ کی ہی تجلی ہے۔
مسجد, مندر, کلیسا اور اس طرح کی سب جگہیں جو خالقِ جہان کی یاد دلائیں سب اللّٰہ ہی کی تجلیات ہیں۔ جس طرح شیطان کی تجلیات سے نظر شر آلودہ ہوتی اُسی طرح اللّٰہ کی تجلیات سے نظر وسیع اور پُر نور بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم سوچ ہی نہیں پاتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب لوگ شیطان کے نظام کے مغلوب ہوئے تو اِس نظام کے تحت اُس نے کم لباسی اور بے لباسی کو عام کیا۔ ہم لوگ ایسا لباس پہننا پسند کرتے ہیں جس میں ہماری سطر نمایاں ہو۔ جب ہم ایسے کپڑے پہنتے ہیں جن میں ہمارا جسم نمایاں ہو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ, ہماری شرمگاہوں تک, شیطان کی نظر کی بھی رسائی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی نظر کے ذریعے ہمارے اندر شہوت, حرص, ہوِس, حسد, لالچ, بدگمانی اور نفرت وغیرہ بھرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان شیطان کے اشاروں پر چلنے پے مجبور ہو جاتا ہے۔

آگ اور نور کی ایک ترتیب ہے۔ زمین پر ہر چیز میں آگ اور نور ایک خاص تناسب سے موجود ہے۔ جیسے پھل, سبزی وغیرہ اُگاتے ہوئے دھوپ اور پانی کی ضرورت پڑتی ہے, ہوا اور مٹی کی حاجت ہوتی ہے اِن تمام چیزوں کو خاص تناسب سے اکھٹا کر کے کوئی بھی پھل سبزی وغیرہ تیار ہوتا ہے اور جب انسان اُسے کھاتا ہے تو اُس میں موجود نور انسان کے جسم میں گھُل جاتا ہے اور آگ اُس کے جسم کے مختلف راستوں سے باہر نکل جاتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو درست ہو گا کہ کھانے پینے کی اشیاء کا باطنی حصّہ انسان کے باطن میں مل جاتا ہے اور اُس کا ظاہری حصّہ اُس کے جسم سے باہر آ جاتا ہے۔ کھانا پکاتے ہوئے بھی ہم آگ اور پانی کا استمعال کرتے ہیں۔
ایک چیز پر غور کرنا کہ اکثر چیزوں میں لذّت پیدا کرنے کے لیے اُسے مختلف مصالحہ جات میں زیادہ سے زیادہ پکایا جاتا ہے۔ خاص کر ہمارے برصغیر میں کھانے کی لذّت کی خاطر اکثر اُس کی غذائیت ہی مار دی جاتی ہے۔ ہم کھانے پکاتے ہوئے درحقیقت اُس میں موجود نور کو جلا کر اُس میں آگ بھر رہے ہوتے ہیں اسی وجہ سے انبیاء, اولیاء, صالحین نے سادہ غذا پسند کی کیونکہ لذیذ کھانے انسان کے نفس کو لذتوں کا عادی بناتے اور شہوت پر اُبھارتے ہیں, اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات سے ہار جاتے ہیں اِس کی بھی بنیادی وجہ ہمارا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن اِس کھانے پینے میں وہ سب بھی شامل ہوتا ہے جو ہم دیکھتے اور سُنتے ہیں۔ طرح طرح کی خوارک ہم اپنے جسم و روح میں اُتارتے رہتے ہیں جو ہماری گمراہیوں اور کوتاہیوں کا باعث بنتی ہے۔ اکثر تم نے سُنا ہو گا کہ کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آئے تو لوگ کہتے ہیں کہ بات اُس کے اوپر سے گُزر گئی۔  یعنی بات اُسے سمجھ نہیں آئی لیکن اِس بات کی گہرائی یہ ہے کہ ہمارے سَر سے اوپر ایک نور کا سمندر موجود ہے جس میں ہم اپنے جسم سے نہیں بلکہ اپنی عقل, اپنی سوچ اور اپنے گُمان کے مطابق سفر کرتے ہیں۔ یوں سوچو کہ آسمان سے لے کر ہمارے دل تک نور کی ایک لہر موجود ہے اس لہر کا کچھ حصّہ ہمارے سَر سے لے کر سینے تک موجود ہے اور باقی ہمارے سَر سے اوپر آسمان تک موجود ہے۔ انسان کے درجات, اُس کی سوچ, اُس کا فہم, سب اسی لہر میں بلند ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص ہم سے کوئی ایسی بات کرتا ہے جو ہمارے فہم سے بُلند ہوتی ہے تو وہ بات اسی نور میں محفوظ ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان کا فہم اُس بات تک پہنچ جاتا ہے اور وہ بات اُسے سمجھ آ جاتی ہے۔ بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کے لیے اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اکثر وقتی طور پر تو یہ باتیں انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ باتیں اُس کے نور میں, جسے ہم لوگ لاشعور کا نام بھی دیتے ہیں, محفوظ ہو جاتیں ہیں اور انسان کی سوچ کو بُلند کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ نور ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن شیطان اِس نور کو دیکھ سکتا ہے اور اِس میں اپنے خیالات باآسانی شامل کر سکتا ہے۔ اِس مقصد کے لیے ضروری تھا کہ شیطان اتنا بُلند ہو سکے کہ انسان کے قد سے ذیادہ بڑے قد کا مالک بن سکے۔ جس طرح نوری اشیاء نور کی علامت ہیں اُسی طرح ناری اشیاء آگ کی آماجگاہ ہیں۔ بُلند و بالا عمارتیں بھی اِس کام میں شیطان کی مدد کرتی ہیں۔ زمین کے اوپر موجود چیزوں میں نورانیت ذیادہ ہوتی ہے اور زمین کے نیچے موجود چیزوں میں آگ ذیادہ ہوتی ہے۔ جب ہم کوئی عمارت تعمیر کرتے ہیں تو اگر کوئی کم بُلند عمارت ہے تو محض مٹی اور لکڑی کے استمعال سے تعمیر ممکن ہے لیکن ذیادہ بُلند عمارت بنانا مضبوط دھاتوں کو استمعال میں لائے بغیر ممکن نہیں۔ ہر چیز کا کچھ نہ کچھ مصرف ہے زمین پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی طرح انسان کے حق میں یا مخالف کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جب ہم آگ سے بنی چیزوں کو اپنے ارد گرد جگہ دیتے ہیں تو یہ سب چیزیں شیطان کو ہمارے قریب ہونے اور قد میں ہم سے بلند ہونے میں مدد کرتی ہیں۔ جس کے ذریعے وہ بلند سے بلند مقام سے ہمارے ذہن پے حملہ آور ہو سکتا ہے۔" اُس کی بیوی نے کہا "لیکن کیسے, آخر شیطان اتنا طاقتور کیسے ہو جاتا ہے۔؟" اُس نے کہا "تمھیں پتا ہے شیطان کا قد کتنا ہے۔؟" اُس کس بیوی نے نفی میں سر ہلایا تو اُس نے کہا "شیطان جس کا اصل قد ہمارے پاؤں کے انگوٹھے سے ذیادہ بُلند نہیں  ہے آج وہ ہم سے اتنا بُلند بنا بیٹھا ہے جتنی بُلندی پر آج یہ سیٹلائٹس گھوم رہی ہیں۔ اتنی بُلندی سے جب وہ کسی کے دماغ میں کوئی خیال ڈالتا ہے تو انسان کسی کٹھ پُتلی کی طرح اُس کا کہا مانتا ہے۔" اُس کی بیوی نے اُلجھے ہوئے لہجے میں کہا "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شیطان اِس طرح ہم سب کے دماغ پے اثر انداز ہوتا ہو, اور اللّٰہ نے کیوں دی اُسے اتنی طاقت, اور اگر ایسا ہے تو ہم اُس سے کیسے بچ سکتے ہیں۔؟"
اُس نے مسکرا کر کہا "تمھیں معلوم ہے نا کہ ہمارے ارد گرد ہر طرف الگ الگ طرح کی لہریں موجود ہیں۔؟ ریڈیو, ٹی وی, موبائل فون, اور نہ جانے کون کون سی لہروں کے جال نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے, ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے آس پاس ان لہروں کے ساتھ کتنے قسم کے الفاظ اور تصاویر گھوم پھر رہے ہیں اور وہ الفاظ اور تصاویر ہماری سوچ پر کیا اثر ڈال رہے ہیں۔ شیطان انہی لہروں کے ساتھ شب و روز ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ جب مجھے شیطان کی اِن سب طاقتوں کا علم ہوا تو میرے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا تجھے شیطان سے ڈر نہیں لگ رہا تو میں نے دل سے کہا کہ نہیں بلکہ یہ سب سُن کر میں خود کو اور ذیادہ طاقتور محسوس کر رہا ہوں کیونکہ وہ شیطان ہے مردود ہے اور انسان اشرف المخلوقات ہے۔ تو یقیناً انسان اُس سے کہیں ذیادہ طاقتور ہو گا۔ شیطان کی طاقت دیکھتے ہوئے انسان کو ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی طاقت کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کسی کی طاقت کا اندازہ کرنا ہو تو اُس کے دشمن کو دیکھ لو۔ جتنا کوئی شخص طاقتور ہو گا اُتنا ہی بڑا اُس کا دشمن بھی ہو گا۔ ویسے تو شیطان سبھی انسانوں کا دشمن ہے لیکن سب لوگ اُس کے معیارِ دشمنی تک نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ عام طور پر لوگ خود ہی اپنے دشمن بنے ہوتے ہیں۔ اِس لیے شیطان کے اصل دشمن وہ ہوتے ہیں جو اُس کے بنائے پھندوں سے نکل جاتے ہیں۔"

(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 40)
----------------

اُس کی بیوی نے پریشان سے لہجے میں سوال کیا "لیکن اس قدر طاقتور دشمن سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔؟ کیا مکمل پردہ کر کے, حجاب پہن کر شیطان سے بچا جا سکتا ہے۔؟ لیکن وہ تو اتنی بُلندی پے بیٹھا ہم سب کی سوچ سے کھیل رہا ہے, ہم کیسے اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔؟ کیا اِن اونچی اونچی عمارتوں کو گرا دیا جائے, کیا اِن سیٹلائٹس کو تباہ کر دیا جائے, کیا ریڈیو, ٹی وی, موبائل فون وغیرہ کو ختم کیے بغیر ہم شیطان سے چھُٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔؟" تو اُس نے کہا "کر سکتے ہیں۔ ہم, شیطان سے اور اُس کے نظام سے, کہیں ذیادہ طاقتور ہیں۔ شیطان نے خود ایک بات کہی تھی کہ اے اللّٰہ تیرے مخلص بندوں کا میں کچھ نہیں بگاڑ سکوں گا۔ مانا کہ وہ ہمیں بے حجاب کر چُکا ہے اور ہم مجبور ہیں اِس بے حجابی کو اپنانے پر۔ کیونکہ اِس سسٹم کی غلامی کیے بغیر ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا۔ مانا کہ ہم لوگ بہت دور آ چُکے ہیں, لیکن اِن سب چیزوں کو تباہ نہیں کرنا بلکہ شیطان کے ہتھیار, اُسی کے خلاف استمعال کرنے ہیں۔ ہمارے ارد گرد یہ جتنی لہریں ہیں یہ سب ہمارے ہی نور کے درجات ہیں جن میں جگہ جگہ اب شیطان کا بسیرہ ہے۔ اگر ہم اپنا آپ جان جائیں تو انہی لہروں کو اپنے حق میں بھی استمعال کر سکتے ہیں۔ لیکن اپنا آپ جاننے کے لیے اِس وقت میں سب سے پہلے تقسیم سے نجات حاصل کرنی ہو گی۔ زمین پر کھنچی لکیروں کی بنیاد پر ہم سب نے اپنے اپنے دِل میں جتنی لکیریں کھینچی ہیں سب کو مِٹا کر ایک انسان بن کر سوچنا ہو گا۔ شیطان ہمیں بہکانے میں شیعہ, سُنی, ہندو, مسلم نہیں دیکھتا۔ اُس کے لیے ہم سب انسان ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے یا اللّٰہ کے لیے نہیں تو دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہی ہم ایک بار اکھٹے ہو جائیں۔ اِس بار کسی ایک مُلک یا قوم کے نام پر نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی ضرورت ہے ہمیں۔
یہ سچ ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان اُسے اپنے گھیرے میں لینا شروع کر دیتا ہے۔ اور انسان اپنے دشمن کو پہچان ہی نہیں پاتا اور اُس کے بنائے گڑھوں میں ہی اپنی پوری زندگی گُزار کر گمراہی کی موت مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان سے بچنے کے لیے اللّٰہ کے ساتھ خالص ہونا ضروری ہے۔ جو اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو گیا وہ کچھ بھی کرتا پھرے, بے لباس ہو, بے حجاب ہو, بے شرعا ہو, یا چرسی, شرابی ہو, اگر اُس کے اعمال سے حقوق العباد متاثر نہیں ہوتے تو اِس کا مطلب ہے کہ اِن تمام تر بُرائیوں کے باوجود شیطان اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا اور ایک شخص نمازی ہو, اپنے لباس کا خیال رکھتا ہو, اپنی نظر کی حفاظت کرتا ہو, با اخلاق ہو, لوگوں کے حقوق بھی پورے کرنے کی کوشش کرتا ہو اور گناہوں سے بھی دور رہتا ہو لیکن اگر وہ اللّٰہ کے ساتھ خالص نہ ہو تو سب اعمالِ صالحا کرنے کے باوجود وہ گمراہ ہی ہے۔ اِس کا مطلب یہ کہ باقی رہ جانے والا, قائم رہ جانے والا اور سچا عمل, اللّٰہ کے ساتھ خالص ہونا ہی ہے اس کے علاوہ ہر عمل فانی ہے۔ جس کاغذ پر اللّٰہ کا نام لکھ دیا جائے اُس کی قدر و منزلت بدل جاتی ہے۔ اُسی طرح زندگی کا جو پل اللّٰہ کے لیے گُزرا وہی پل زندگی ہے۔ تو جو شخص اللّٰہ کے لیے جینا شروع کرتا ہے اُس کا ہر کام عبادت ہے, اللّٰہ کے قُرب کا سفر ہے۔ اور جو اللّٰہ کے سوا کسی اور مقصد کو اپنی ذندگی کا محور بناتا ہے اُس کی عبادت و ریاضت بھی گمراہی ہی ہے۔" اُس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا "کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو جانے کہ بعد گناہ بے اثر ہو جاتا ہے۔؟ وہ گناہ بھی کرے تو وہ اللّٰہ کے قُرب میں ہوتا ہے اور گناہ اُسے اللّٰہ سے دور نہیں کرتا۔؟" اُس نے مسکرا کر کہا "ہاں میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جو اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے اُس کا غلط بھی صحیح ہوتا ہے۔ کیونکہ اُس کا صحیح اور غلط دونوں اللّٰہ کے لیے ہوتا ہے اِس لیے وہ ہر طرح سے صحیح ہوتا ہے۔ اگرچے کہ لوگ اُسے غلط سمجھتے ہوں۔
جیسے ایک بار بابا فرید رح نے رمضان کے مہینے میں عصر کے وقت ایک مہمان ہندو کا دل رکھنے کی غرض سے اُس کا لایا ہوا شربت پی لیا تو مُریدین نے ایک ہندو کی فرمائش پر روزہ توڑ دینے پر سخت تنقید کی مگر دوسرے دن سب تنقید کرنے والے شرمندہ ہو گئے جب آپ رح کی اِس ادا پر اُس شخص کا تمام علاقہ مسلمان ہونے کے لیے آپ رح کے پاس آ گیا اور کہا کہ کتنا عظیم الشان مذہب ہے آپ کا, جس کے ماننے والے اپنا روزہ توڑنا تو گوارہ کر لیتے ہیں لیکن کسی کا دل نہیں توڑتے۔ یہ اِسی بات کی مثال ہے کہ جو اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے اُس کا غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے۔ ایسی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جو اِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ گناہ یا ثواب کا فیصلہ عمل کرنے والے کے دل کے حال پے ہوتا ہے۔ قتل کرنے کا حکم ایک جج بھی دیتا ہے اور ایک دہشتگردوں کا لیڈر بھی, لیکن دونوں کے حکم میں صحیح اور غلط کا فرق اُن کی جگہ سے ناپا جاتا ہے نہ کہ اُن کے فیصلے سے۔ جب ہم شیطان کا قد سوچ کر گھبراتے ہیں تو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر اُس کا قد سیٹلائٹس تک ہے تو ہمارا قد تو لاہوت تک ہے اگر ہم اپنی روح کے اصل قد سے آشنا ہو جائیں تو شیطان ہم سے گھبرانا شروع ہو جائے گا۔شیطان کا یہ کھیل تماشہ انسان کو اُس کے اصل کی جانب لوٹنے سے روکنے کی سازش ہے اور یہ سازش اُسی وقت تک کارگر ہے جب تک کہ انسان اپنی پہچان سے دور ہے۔ جس انسان کو اپنی پہچان حاصل ہو جائے شیطان اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی ہے کہ

ہر رنگ میں ابلیس سزادیتا ہے
انسان کو بہرطور دغا دیتا ہے
کرسکتے نہیں گناہ جو احمق ان کو
بے روح نمازوں میں لگا دیتا ہے


اُس کی بیوی نے غور سے اُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "کیا ان سب باتوں سے آپ مجھے یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ آپ اُس مقام کو پہنچ چُکے ہیں جہاں غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے۔؟" تو اُس نے ہنستے ہوئے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا "نہیں میں تمھارے سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اولیاء کا مقام سمجھا رہا تھا۔ میں تو بہت ناقص شخص ہوں, میں تو اخلاص والوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔" اُس کی بیوی نے اُداس سے لہجے میں کہا "آپ اپنے دشمن کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں پھر بھی آپ اُس کی چال میں پھنسے ہوئے ہیں, کیا فائدہ ایسے علم کا جس سے آپ اپنا آپ ہی درست نہیں کر پائے, یہ سب پینا پلانا کیوں ہے آپ کے ساتھ۔؟ اگر آپ شیطان کو اور اُس کے کھیل کو اتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں تو کیوں اُس کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔؟" تو اُس نے کہا "میں کھلونا نہیں ہوں, مجھ سے کھیلنے کے لیے شیطان کو دو چار دفعہ اور پیدا ہونا پڑے گا۔ میں جیسا بھی ہوں, جو بھی کرنے میں مگن ہوں لیکن اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں ہوں۔ میں ٹوٹ رہا ہوں, لیکن ابھی بکھرا نہیں ہوں۔ ڈوب رہا ہوں, لیکن ابھی ڈوبا نہیں ہوں, ضروری تو نہیں ہے کی ڈوب ہی جاؤں۔ اُبھر بھی تو سکتا ہوں۔ اپنی تمام تر بُرائی کے باوجود مجھے یقین ہے کہ میرا مُرشد میرے ساتھ ہے۔ اولیاء اللّٰہ ہر طرح کے اچھے بُرے لوگوں کو اِس خاطر بھی فیضیاب کر دیتے ہیں تاکہ ہر طرح کی اچھی بُری محفلوں تک اللّٰہ کا پیغام پہنچ سکے۔ گناہگار ہونا اللّٰہ سے دور ہونے کی یا نیکوکار ہونا اللّٰہ کے قریب ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ کسی شخص کا معیار صرف اُس کے معیارِ گُفتگو سے ہی پرکھا جا سکتا ہے۔ اگر تاریخ اُٹھا کر دیکھو تو بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو ویسے تو شرابی قسم کے لوگ تھے لیکن اُن کا لکھا کلام مسجدوں, درگاہوں, میلاد وغیرہ میں دلگیر عقیدتوں اور بے اختیار رقتوں کے ساتھ سُنا اور سُنایا جاتا ہے۔ اور بہت سے عابد, زاہد لوگوں کے پاس تنقید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ تم جو کہہ رہی ہو میرے ذہن میں بھی ایسے خیال آتے رہتے ہیں لیکن میں خود کو راضی نہیں کر پاتا۔ میں ہمیشہ اپنے رب کو محسوس کر کے چلا ہوں اُس کا احساس کم یا ذیادہ ہوتا محسوس ہو جاتا ہے مجھے, لیکن میں اپنی تمام غلطیوں کے باوجود اِس احساس کو کم ہوتا محسوس نہیں کرتا شاید اِسی لیے اِس سب کو بدلنے کی فکر بھی نہیں کر پایا۔ لیکن تمھاری بات میں دم ہے۔ میں انشاء اللّٰہ کوشش ضرور کروں گا۔
مکمل تحریر >>