بدھ، 19 اگست، 2015

غزل: بانگِ درا (علامہ محمد اقبالؔ)

غزل: بانگِ درا
(علامہ محمد اقبالؔ)
کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہُ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے کہا کہ وہ اثرِ کہن
یہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی،جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
حقیقتِ منتظر سے مراد وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جائے یعنی ذاتِ خداوندی, اللہ تعالیٰ....اس غزل کے مطلع میں اقبال اللہ رب العزت سے مخاطب ہیں کہ اے مالکِ حقیقی! کبھی مادی لباس میں بھی جلوہ دکھا کیونکہ میری عجز سے بھری پیشانی میں یزاروں سجدے ایسے ہیں جو تیسرے حضور ہونے کو بےقرار ہیں. گو کہ تیرے جلوے ہزاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں مگر اب میں چاہتا ہوں کہ تو ان حجابوں اور پردوں سے نکل کر سامنے آ اور میں تیرے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں.
طرب آشنائے خروش کا مطلب شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا۔۔۔۔۔تو شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا بن جا.تو آواز ہے سو کان سے دوستی کر. یعنی تیرا وجود ایک ایسی صدا ایسی آواز ہو جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو. بھلا اس نغمے اور راگ کی کیا حیثیت ہے جو ساز کے پردے کی خاموشی میں چھپا ہوا ہو. یعنی تو اپنے جوہر دل میں ہی چھپا کے نہ رکھ بلکہ زمانے پہ ظاہر کر کے لوگوں کو زندگی کا پیغام دے.
تو اپنا آئینہ ٹھیس اور چوٹ سے نہ بچا کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر ٹوٹ جائے تو آئینہ بنانے بنانے والے کی نظروں میں زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو جاتا ہے. یہاں آئینہ سے مراد دل ہے اور آئینہ ساز سے مراد اللہ تعالیٰ ہے. اور حوالہ ہے کہ اللہ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے کہ طرف... کہ اگر تجھے کوئی غم پہنچتا ہے تو اسے اپنے حق میں مبارک تصور کر اور خدا کا فضل سمجھ کہ اب تو باری تعالیٰ کی نگاہوں میں زیادہ عزیز ہو جائے گا.
دم طوف کا مطلب چکر لگانا کے ہیں.۔۔ پروانے نے شمع کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس سے کہا کہ اے شمع! ماضی جیسی تاثیر,تڑپ اور جلن نہ تو تیرے جلنے میں ہے اور نہ میرے جل کر مرنے کے عمل میں باقی ہے.مراد یہ کہ ساری قوم عشقِ الٰہی کے جذبے سے خالی ہو چکی ہے. نہ قدیم زمانے جیسے جانثار مرید ہیں اور نہ باعمل پیشوا.
اے مولائے کائنات! میرے تباہ و برباد کر دینے والے جرم و گناہ کو دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملی. اس نے مجھے تباہ کر دیا مگر جب پناہ ملی تو صرف تیری رحمت کے دامن میں کہ تو نے میرے لاتعداد گناہوں کو معاف کر دیا.
اب نہ عشق میں وہ پہلا سا سوز, تڑپ اور جوش رہا نہ ہی حسن میں وہ شوخی اود ناز رہا ہے. اس وجہ سے نہ تو غزنوی میں تڑپ رہی ہے نہ ایاز کی زلفوں کے خم و پیچ باقی ہیں جو کشش رکھتے تھے. مراد یہ کہ اب مسلمانوں کے رہنماؤں میں پرخلوص ہنگامہ آرائی ہے اور نہ ہی عوام میں ایثار و قربانی کا جذبہ. یوں یہ عاشق و محبوب دونوں اپنی صفات سے محروم اور بیگانہ ہو چکے ہیں.
آخری شعر میں اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگر میں نے کبھی اپنی بےعملی کے باوجود سجدہ کیا تو زمین سے یہ آواز آتی سنائی دیتی ہے کہ تیرا دل بتوں کا پرستار ہے, تو نے اپنے دل میں غیر اللہ کو آباد کر رکھا ہے سو تجھے نماز میں کیا حاصل ہو گا. مراد یہ کہ خلوص کے بغیر عمل بےفائدہ ہے. جب تک انسان اپنے دل کو غیر اللہ سے پاک نہ کر لے اس وقت تک تیری نمازیں اور سجدے بےمعنی ہیں.
٭اقرا

مکمل تحریر >>

پیر، 3 اگست، 2015

علم و عشق ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال

علم و عشق (1)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہُ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
اقبالؔ ہمیشہ عشق کی خوبی کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں بالخصوص جب اس کا مقابلہ عقل سے کریں تو اقبالؔ کی نظرِ انتخاب ہمیشہ عشق کو چنتی ہے جو خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
اقبالؔ شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ علم نے مجھ سے کہا کہ عشق اختیار نہ کرنا کہ وہ تو نری دیوانگی ہے۔جب عشق نے اس بات کو سنا تو اس نے مجھ سے کہا کہ علم سراسر وہم و گمان پر مبنی ہے۔ تخمین و ظن سے مراد قیاس اور گمان کے ہیں۔ اے وہم و گمان کے بندے! تو صرف کتابی کیڑا نہ بن اور اپنی ساری زندگی صرف کتابی علم پڑھنے پہ نہ گزار دو کیونکہ اس سے علم کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ علم مکمل حجاب ہے اس لئے اس پر اشیاء کی حقیقت آشکار نہیں ہوتی اور آنکھ پر پردے پڑے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس عشق اختیار کر کہ وہ ہی حضورِ ذات تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں علم سے مراد فلسفہ اور ایسے علوم ہیں جو انسان کو محض سوچ و بچار میں الجھائے رکھتے ہیں مگر حقیقتیں پھر بھی نہیں کھلتیں اور گتھیاں پھر بھی نہیں سلجھتیں۔ ایسے میں عشق ہی وہ راستہ ہوتا ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے لہٰذا اسی کو اختیار کر لے تا کہ کامیاب ہو جا۔

علم و عشق (2)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کی گرمی سے ہے معرکہُ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
معرکہُ کائنات سے مراد دنیا کی زندگی کی تگ و دو ہے،تماشائے ذات کے معنی اللہ بزرگ و برتر کی ذات کا مشاہدہ اور دیدار جبکہ پنہاں چھپی ہوئے کو کہتے ہیں۔
عشق بات کو آگے بٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ کائنات کے وجود میں جو ہلچل، گرمی اور رونق نظر آتی ہے وہ سب عشق کی بدولت ہے۔ علم ذاتِ حقیقی کی صفات کا علم تو رکھ سکتا ہے مگر اس کی ذات کا دیدار نہیں کر سکتا یہ کام عشق ہی کر سکتا ہے۔ زندگی میں عشق ہی کی وجہ سے سکون اور ثبات ہے اور عشق ہی کی وجہ سے جینا اور مرنا ہے یعنی کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے راز بھی عشق ہی کھولتا ہے۔ علم صرف ایک سوال ہے جس کے پاس کسی چیز کا مکمل جواب نہیں ہے بلکہ ایک سوال کے جواب کے بعد مزید کئی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ عشق ہر شے کی حقیقت کو پا لیتا ہے اور معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے سو علم پہ بھروسہ نہ کر کے بیٹھے رہو بلکہ راہِ عشق اختیار کرو۔

علم و عشق (3)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!
صاحبِ تاج و نگیں سے مراد بادشاہ ہے، فتحِ باب سے مراد کامیابی کا دروازہ کھلنا۔
بادشاہی، درویشی اور دین سب عشق کے معجزے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو تاج و تخت اور مہرِ شاہی کے مالک ہیں یعنی صاحبِ اقتدار ہیں وہ بھی عشق کے ادنیٰ غلام ہیں، اصل بادشاہت تو عشق کے پاس ہے۔ مکان ہو یا مکین ہو، زمان ہو یا زمین ہو جس کو بھی صحیح انداز پہ دیکھو گے تو وہ عشق ہی کی بدولت دیکھو گے۔ عشق مکمل یقین کی علامت ہے اور مکمل یقین رکھتا ہے اور یقین وہ دولت ہے جو مشکلات کے تمام تر دروازوں کو کھولنے کی کنجی ہے۔

علم و عشق (4) آخری حصہ
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
عشق کے اپنے اصول ہیں۔ اقبالؔ کے نزدیک عشق کی اپنی شرع ہے جس کے مطابق راہِ حیات میں کہیں بیٹھ کے لطف لینا حرام ہے۔ شرعِ عشق میں طوفانوں سے کھیلنا اور حرکت میں رہنا حلال ہےاور ساحل پہ بیٹھ کے مزے لینا حرام ہے۔ عشق ہر لمحہ بجلی گرانے کا آرزومند ہے جبکہ پیداوار حاصل کرنا اس کےلیے حرام ہے۔ یعنی عشق کے اصولوں میں یہ تو ہے کہ خرمن کو اکٹھا کر کے آگ لگا دی جائے تا کہ جمع کرنے کا خیال ذہن میں باقی نہ رہے اور ذخیرے سے تگ و دو کا عنصر ختم نہ ہو جائے سو عشق میں نتیجے کو محفوظ کر کے رکھنا حرام ہے کیونکہ اس سے ترکِ جدوجہد کے امکان پیدا ہو جاتے ہیں اور عشق ایسی کسی صورت کو پسند نہیں کرتا جو زندگی سے حرکت و عمل کو نکال دے۔ علم کو شاعر نے ابن الکتاب کہا ہےیعنی کتاب کا بیٹا کہا ہے، اس سے مراد دوسری کتب پہ انحصار کرنے والا ہے جبکہ عشق کو ام الکتاب یعنی کتابوں کی ماں کہا ہے۔ سورہ زخرف آیت 4 میں اس سے مراد "لوحِ محفوظ" لی گئی ہے۔ شاعر ان اصطلاحات کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علم دوسری کتابوں کا محتاج رہتا ہے اور وہ کتابوں کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا جبکہ عشق خود ام الکتاب ہے جو تمام تر علوم کا سرچشمہ ہے اور جہاں سے علومِ الٰہی کے تمام تر ذخائر سامنے آتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں جو عشق کو علم پر فضیلت و برتری حاصل ہے سو راہِ عشق اختیار کر اور الجھنوں سے بچ جا۔

مکمل تحریر >>

ہفتہ، 1 اگست، 2015

بال جبریل غزل 15

اک دانش نورانی ، اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی ، حيرت کی فراوانی
(دانش نورانی سے  دل کو اطمینان ملتا ہے، قلب کا  نور
دانش برہانی عقل جو دماغ  کو روشن  کرتی ہے
دانش برہانی اس کے برعکس انسان کے دماغ کو شکوک و شبہات مین ڈالتی  ہے)

اس پيکر خاکی ميں اک شے ہے ، سو وہ تيری
ميرے ليے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
میں خاکی ہوں تونے میرا ماحول ایسا  بنایا ہے کہ میرے لیے اپنے حریم دل کو تیرے لیے  مخصوص و محفوظ رکھنا مشکل ہے کیونکہ  زر، زن، زمین جو اس دل کے لیے باعث کشش ہین اس لیے مجھے  تیری تائید  شامل حال ہو تو ہی بچ سکتا ہوں 
اب کيا جو فغاں ميری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو يہ غزل خوانی
( اب اگر میری فغاں حدود کائنات  سے  نکل کر لا مکاں تک پہنچ گیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور نہ تو مجھے اپنے عشق میں گرفتار کرتا  نہ میں غزل خوانی آہ فغاں پر مجبور ہوتا)
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کيا حاصل
کيا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی يہ ارزانی؟

اے خدا  اگر  پہلا  آدم  باطل یعنی مٹ جانے والا ہے جیسا کہ پانی کا بلبلہ ادھر اُدھر  فناہ  ہو گیا تو پھر اس مہمل بے مقصد اور باطل آدم کی طرح لاکھوں  کروڑوں  آدم  بلکہ ان گنت  آدم تخلیق کرنے  سے کیا فائدہ  اگر آدم بھی حشرات الارض کی طرح ہے یعنی ویسی ہی زندگی گزارتا ہے  تو کیا تجھے اس نوع کی  آرزانی پسند آتی ہے.  اس استفہام  کا مقصد اس آیت سے ماخوذ ہے " اے لوگو!  کیا تم نے یہ  سمجھ  رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی بے فائدہ  پیدا  کیا ہے  اور یہ  کہ  تم  ہماری طرف لوٹ کر نہیں  آو  گے"         ( ١١٦.٢٣)
وہ کائنات میں  کسی  کو بھی  بنا مقصد پیدا نہی  کرتا اس لیے مجھے یقین ہے کے آدم باطل نہی.

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زنديقی
اس دور کے ملا ہيں کيوں ننگ مسلمانی
زندیق آتش پرست کو کہتے ہیں  مسلمانوں  کا انگریزی  داں  طبقہ  تو مغربی تعلیم کی  بدولت  دین  سے  دور ہوگیا کیونکہ یہ الحاد پر مبنی ہے  لیکن اس دور کے علماء نے تو کسی کا لج میں  تعلیم حاصل  نہیں  کی پھر  وہ دین اسلام کیلئے  موجب ننگ و عار ہیں.
دین اسلام صرف عقائد کا نام نہی  بلکہ عقائد  صحیحہ  اور اعمال صالحہ  دو چیزوں  کے  مجموعے کا نام ہے  توحید خالص و عمل پیہم. یہاں بے عمل علماء کی جانب اشارہ ہے جنہوں نے عقائد  صحیحہ پر توجہ دی جبکہ اعمال صالحہ کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے.  اپنے خود ساختہ  نظریات  کے باعث. ایسے خود ساختہ  علماء کو ننگ مسلمانی سے تعبیر کیا جو ایک جز کی منکر ہے اور ایک کو مانتے ہین

تقدير شکن قوت باقی ہے ابھی اس ميں
ناداں جسے کہتے ہيں تقدير کا زندانی
تيرے بھی صنم خانے ، ميرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی ، دونوں کے صنم فانی

مکمل تحریر >>

جمعہ، 31 جولائی، 2015


اقبال ! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعرِ حیات
ہے تیرا قلب محرم اسرارِ کائنات
سرگرمیِ دوام ہے تیرے لئے حیات
میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات
مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرقِ سئیآت
یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لئے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ ، بے ثبات
اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تُو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات
تیرا کلام جس کو کہ بانگِ درا کہیں
ہی اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات
بھولے ہوؤں کو تُو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضرِ رہِ حیات
سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات
عریاں تری نگاہ میں اسرار کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیرِ کائنات

دنیا کا ایک شاعرِ اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے

مکمل تحریر >>

بدھ، 29 جولائی، 2015

غزل 26 بال جبریل کلام اقبال

 نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
جہاں ہے تيرے ليے ، تو نہيں جہاں کے ليے
(یہ  کائنات اللہ  نے انسان کے فائدے کے لیے  پیدا  کی  ہے. ناکہ اس  لیے  کہ اس کی  لذت  میں  منہمک ہو جاے)

يہ عقل و دل ہيں شرر شعلہ محبت کے
وہ خار و خس کے ليے ہے ، يہ نيستاں کے ليے
(عقل و دل دونوں کی  بنیاد عشق ہے. شرر  عشق الہی میں  عقل سے خاروخس یعنی مادی دنیا کو فتح  کرے.  اور دل کے ذریعے  عالم روحانی اپنے باطن کو فتح کرے )

مقام پرورش آہ و نالہ ہے يہ چمن
نہ سير گل کے ليے ہے نہ آشياں کے ليے
(اس دنیا میں انسان کو  اس لیے بھیجا گیا کے اپنی خودی  کی  تربیت  کر سکے، خدمت انسانیت . مقصد حیات محبت الہی   ہے ناکہ یہ کوی سامان تفریح گاہ ہے اور نہ مستقل
آشیانہ)

رہے گا راوی و نيل و فرات ميں کب تک
ترا سفينہ کہ ہے بحر بے کراں کے ليے!
( اے مسلمان تجھ  کو  اللہ  نے  ساری  کائنات  کو  مسخر  کرنے کے لیے پیدا کیا. تیری جدوجہد  کسی مخصوص علاقہ تک   محدود نہی ساری اقوام عالم تک منصب الہی کے پیغام  کو عام  کرنا ہے )

نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہيں کسی مرد راہ داں کے ليے
(مسلمان کسی زمانہ میں دوسروں کی رہنمائ کرتے تھے  لیکن آج ان کی حالت یہ ہے کہ خود رہنماؤں کے محتاج ہیں بلکہ ایک عرصہ سے کسی رہنما کے منتظر  ہیں. )

نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
يہی ہے رخت سفر مير کارواں کے ليے
(مسلمانو کا رہنما وہ شخص  ہو سکتا ہے جس کی نگاہ بلند ہو جس کا سخن دلنواز ہو.  جان پرسوز ہو یعنی وہ عشق رسول مین فنا ہو چکا ہو .  یعنی وہ قرآن اور حدیث کے علوم کے ماہر  ہوں اور یہ سب عشق رسول سے ہی حاصل ہو سکتا ہے)

ذرا سی بات تھی ، انديشہ عجم نے اسے
بڑھا ديا ہے فقط زيب داستاں کے ليے
( زرا سے بات تھی یعنی کہ کو ئی معبود نہیں سوائے اللہ پاک کے اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم اسکے سچے بندے ہیں۔۔۔مفسروں نے گما گما کر تاویلوں میں اسے گم کر دیا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ دیں کا سر چشمہ کیا ہے)

مرے گلو ميں ہے اک نغمہ جبرئيل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے ليے
( میرے سینہ مین ایک ایسا نغمہ پوشیدہ ہے کے جبریل بھی اس کو سن کر بیچین ہو جاے میرے دل مین عشق الہی ہے یعنی عشق کی بات ہر عام مین نہی کی جاتی روز آخر جب مین لامکاں مین سفر کرو گا اس کو اس وقت سناو گا. )

مکمل تحریر >>

مسلمان کا زوال (ضربِ کلیم : علامہ محمد اقبالؔ)

مسلمان کا زوال
(ضربِ کلیم : علامہ محمد اقبالؔ)
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں!
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں!
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہُ مومن کا بےزری سے نہیں!
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا، تونگری سے نہیں!
زر(دولت)، قاضی الحاجات (ضرورتیں پوری کرنے والا)، فقر(درویشی)، تونگری (دولتمندی)۔۔۔۔ اس نظم میں اقبالؔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب دولت سے محرومی نہیں ہے بلکہ فقر سے محرومی ہے۔ پہلے شعر میں اقبالؔ یہی کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا کی بہت سی ضروریات دولت پوری کرتی ہےلیکن اس کے باوجود جو کام فقیری اور درویشی کر سکتی ہے وہ اس دولت سے ممکن ہی نہیں ہو سکتے۔ فقر سے مراد وہ درویشی ہے جس میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کبھ ہوتا ہے۔
جسور و غیور(جرات اور غیرت والے)، سکندری( سکندر بادشاہ کے مال و دولت کی طرف اشارہ)، قلندر(جو دنیا، اپنی ذات اور حالات سے بےنیاز ہو کر خود کو صرف اللہ سے منسلک کر لیتا ہے)۔۔۔۔۔اگر میری قوم کے نوجوانوں میں کم ہمتی کے بجائے ہمت پیدا ہو جائے تو ہماری درویشی سکندر کی شان سے کم نہیں ہو گی کیونکہ غیرت اور حمیت ہی اصل دولت ہوتی ہے۔
بےزری( بغیر دولت کے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے مسلمان! مومن کا اصل زوال دولت کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اصل سبب کچھ اور ہے جسے یقیننا" تو خود بھی بخوبی سمجھتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تو نے فقیری کو چھوڑ کر شکم سیری کی عادت کو اپنا لیا ہے۔
اے مسلم! مجھے ہی غور سے دیکھ لے۔ اگر دنیا میں میری صلاحیت ظاہر ہوئی ہے اور مجھے اس قدر عزت و احترام ملا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میرے پاس دولت زیادہ تھی بلکہ یہ سب مجھے درویشی اور قلندری سے ملا ہے۔ اقبالؔ اپنی مثال دے کر یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگر ایمان کی پختگی حاصل ہو گی اور فقر کی دولت ہاتھ ہو گی تو سب کام ممکن ہیں ورنہ دولت کے انبار بھی کسی فرد کے زوال کو نہیں روک سکتے۔

مکمل تحریر >>

منگل، 21 جولائی، 2015

بدھ، 15 جولائی، 2015

(حصّہ53،54 52) فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (

: فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 52)
----------------

حج کا تمام سفر اُسے بہت کچھ دیکھنے اور جاننے کا موقعہ مِلا۔ بلکہ اپنی تمام زندگی اُس نے لوگوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ اُن کا درد, اُن کا کرب محسوس کرنے کی کوشش کی اور اِس کوشش میں اکثر اُسے اپنا درد بھول جاتا۔ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو اِس بے چینی سے نکالنے کی کسی ترکیب کی خاطر اُس نے اپنی سوچ کو وقف کر دیا تھا۔ اُس کا ذہن ہر وقت کسی حل کی تلاش میں رہتا تھا۔ وہ جب بھی لوگوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھتا تو اُس کا دل بیقرار ہو جاتا۔ وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے۔؟ منیٰ پہنچ کر پہلی ہی نماز پر لوگوں میں بحث دیکھنے کو ملی۔ نمازِ عصر کا وقت تھا اور باجماعت دو رکعت پڑھنے کے بعد جب امامت کروانے والے صاحب نے تیسری رکعت کے لیے تکبیر پڑھی تو کچھ لوگ تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو گئے اور کچھ لوگ بیٹھے دوسری رکعت مکمل کر کے نماز ختم کر رہے تھے۔ کہ ایک صاحب نے نماز توڑتے ہوئے بُلند آواز میں کہا "اگر آپ لوگ فلاں امام کو مانتے ہیں تو آپ کو دو رکعت نماز پڑھانی چاہیے اور جو جو فلاں فقہ کے ماننے والے ہیں اُنہیں چاہیے کہ چار رکعت نماز پڑھنے کے بعد اپنا مسلک بھی تبدیل کر لیں"۔ اُن صاحب کی یہ حرکت تقریباً سبھی کو کافی ناگوار گُزری کہ اگر انہیں کچھ کہنا ہی تھا تو جماعت ختم ہونے کے بعد بھی کہہ سکتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ حج کے مناسک پورے ہونے تک منیٰ میں ہی قیام کیا جاتا ہے تو حج کرنے والا منیٰ میں قیام کے دوران نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا۔ لوگوں کے پاس اپنا اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے بس غصہ اور بدتمیزی ہی رہ گئی ہی شاید, لوگوں نے دین کسی ایسی شئے کا نام رکھ لیا ہے جس میں اپنی بات منوانا ہی سب سے اہم نقطہ ہے۔

دورانِ حج کسی شخص نے کہا "لوگ کتنی مشقت اُٹھا رہے ہیں اللّٰہ اِن سب لوگوں کا حج قبول فرمائے" تو اُس نے کہا "اللّٰہ ہمیں دین کی سمجھ عطا فرمائے بس یہی قبولیت ہے۔ ہر سال اتنے سارے لوگ حج کرتے ہیں اگر محض مناسک کی احسن طور پر ادائیگی ہی حج ہوتا تو آج ہم ایک قوم کی حیثیت سے بہتری کی جانب رواں ہوتے۔ دُعا کیجیئے کہ اللّٰہ ہمیں اپنی راہ کی سمجھ عطا فرمائے"۔

اللّٰہ کے بارے میں اُس کی سوچ کچھ الگ ہی تھی۔ جب پہلی بار اُس نے اپنی والدہ سے پوچھا تھا "امّی اللّٰہ میاں کون ہیں۔؟" تو اُس کی والدہ نے کہا "اللّٰہ میاں ہمارے دوست ہیں, وہ ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں, ہمارا خیال رکھتے ہیں, ہم سے پیار کرتے ہیں, سب لوگ ہمیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن اللّٰہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا" اُس نے پوچھا "امّی اللّٰہ میاں صرف ہمارے ہیں نا۔؟" تو اُس کی والدہ نے کہا "نہیں بیٹا۔ اللّٰہ میاں سب کے ہیں۔ اور وہ ہر ایک کے لیے کافی ہیں" اپنی والدہ کے بیان کردہ گمان کو اُس کے معصوم دل نے حرف بہ حرف جذب کر لیا تھا۔ اُس نے اللّٰہ کو ہمیشہ اپنا دوست مانا اور ہر حال میں اُسے اپنے ساتھ محسوس کیا۔ لیکن اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ایک دوسرے کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر کافر اور بدبخت گردانتے ہوئے دیکھ کر وہ مذہب اور خُدا کے بیچ کہیں اُلجھ کر رہ گیا۔ عبادت کا کون سا طریقہ درست ہے اور کون سا نہیں, کس کس کو سچّا ماننا چاہیے اور کس کس کو جھوٹا کہنا ضروری ہے, کس مسلک کی بنیاد کون لوگ ہیں اور کون سے مذہب کے لوگ زیادہ کمتر ہیں, کس صحابی کا درجہ بُلند ہے اور کون سے بُزرگ زیادہ شان والے ہیں, لوگوں کے پاس انہی سوالوں اور جوابوں کے مجموعے کا نام دین تھا۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے دین کی روشنی میں عبادت و طہارت سے لے کر ہمبستری تک کے اصول جاننے پے تو بہت زور دیتے تھے لیکن اُس دین کی روشنی میں ڈھل کے روشن ہونے کا سوال اُن کے گمانوں سے مِٹ چُکا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے نماز روزے کے طریقوں کو غلط صحیح ثابت کرنے کو فصاحت و بلاغت کا درجہ دیتے۔ کسی آیت کا مفہوم اپنے مطلب کی بات تک لے آنے کو یا اپنے مطلب کی بات قرآن و حدیث سے ثابت کر دینے کو علم سمجھا جاتا۔ لوگ اپنی تصحیح کرنے کو تیار نہیں تھے اور ایک دوسرے کی تصحیح کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ حضرت علی کے نام کے ساتھ رضی اللّٰہ عنہ کہنا چاہیے یا علیہ السلام کہنا چاہیے۔ لوگ اسی بات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے اور اُن کے فرمان میں موجود نصیحت سے سبق لینا بھول جاتے۔ مسجدوں میں ثواب و عذاب کے قصّے, امام بارگاہوں میں تفضیلِ علی, درگاہوں پے شانِ اولیاء, اور دینی مجلسوں میں صحابہ کی عظمت اور سُنتِ رسول کا بیان جگہ جگہ جاری تھا مگر اُس کے دور میں لوگ اِن بیانات سے اپنا آپ نہیں سُدھارتے تھے بلکہ اُس میں سے نقطے یاد کرنے کی کوشش کرتے اور اُس علم کو دوسرے مسلک و مذہب پر اپنی برتری کا ثبوت بنا کر محفلوں میں بیان کرتے۔ یہ سب دیکھ کر وہ سوچتا کہ اگر یہ سب بیان لوگوں کے دل میں انسان و انسانیت کی محبت پیدا نہیں کرتے تو یہ سب بیان بےسُود ہیں۔ مسئلہ علم میں نہیں بلکہ تعلیم میں ہے۔
[7/15, 5:08 PM] ismail: دین کی بات ہمیں بتائی ہی ایسے جاتی ہے جیسے ہم تمام دوسرے مذاہب سے حالتِ جنگ میں ہیں اور اگر وہ سب ہمارے مذہب و مسلک کے پیروکار نہ بن سکیں تو اُن کی تباہی یقینی ہے۔ اسلام تو سلامتی والا دین ہے۔ لیکن اُسے اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دین میں سلامتی کی کوئی علامت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اُسے اپنے آپ میں ایک یقین تھا کہ اللّٰہ کی راہ محدود نہیں ہو گی۔ جو ذات ہر جگہ موجود ہے اُس تک پہنچنے کے لیے کسی راستے کی حاجت نہیں ہے بلکہ اُس ذات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے اُس نے بہت سے راستے بنا دیے تاکہ لوگ ہر راہ سے اُس کی جانب بڑھیں اور اُسے محسوس کر سکیں۔ ہر مذہب انسان اور انسانیت کی بھلائی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن پھر بھی مذہبی سطح پر دوسرے مذاہب سے عداوت کا بھی ایک پہلو سامنے رکھتا ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد محبت پر ہے, ہر مذہب خُدا کی خاطر مخلوقِ خُدا سے بھلائی کرنے کو اپنے مذہب کی اصل گردانتا ہے۔

اسلام پسندیدہ ترین دین ہے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی مذاہب دین نہیں ہیں, بلکہ اِس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ جتنے دین ہیں وہ بھی اللّٰہ کے پسندیدہ دین ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں پسندیدہ, اسلام کی رُو سے دیکھا جائے تو اپنے اپنے وقت میں ہر نبی کی شریعت پسندیدہ ترین شریعت تھی۔ ایک کے بعد ایک نبی کے آنے سے پچھلے نبی کی شریعت کی تجدید ہوتی ہے لیکن اِس سے پچھلے نبی کی نبوت ختم نہیں ہو جاتی۔ اللّٰہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے صرف چند کے نام زندہ رکھے اور اُن چند ناموں میں سے صرف چند ہی ناموں کے نام لیوا زمین میں رہنے دیے باقی سب ناپید ہو گئے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللّٰہ کو اُن چند ناموں سے کچھ خاص محبت تھی اسی لیے اُس نے وقت میں اُن کا وجود رہنے دیا۔  اہلِ کتاب سے نکاح کی اجازت دینے والا مذہب یقیناً اہلِ کتاب سے محبت کرنے کا درس دیتا ہو گا۔ بلکہ اسلام تو تمام مخلوق سے بِلا امتیاز محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ مگر اُس کے ارد گرد کا ماحول اسلام کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت سے بھرا پڑا تھا۔ لوگ کسی سے صرف اِس لیے نفرت کرتے تھے کہ وہ اُن کے مذہب یا مسلک سے ہٹ کر کسی اور عقیدے کی پیروی کرتا تھا۔ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے لوگ خود کو مسلمان کہتے اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کو حقارت سے یا غرور سے دیکھتے۔ کوئی غیر مذہب کا شخص کچھ اچھا کرے تو لوگ اُس کی تعریف بھی کرتے لیکن نفرت کا ایک عنصر ضرور ساتھ رکھتے۔ لوگ بہت سے فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ اور اُن کے فرقے صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ رنگ, نسل, مُلک, قوم, قبیلہ اور علاقے سے لے کر پیشے, مال و دولت, اور امیری غریبی تک کی بنیادوں پر بھی فرقے موجود تھے۔ اور لوگ حق و باطل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے اپنے فرقے کے مفاد کی بنیاد پر فیصلے کرتے تھے۔ اُن کا صحیح غلط کا معیار اپنے مسلک و مذہب پر آ کر ختم ہو جاتا تھا۔ لوگ لوگوں کے ناموں میں اُن کا مذہب و مسلک ڈھونڈنے کے بعد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے تھے۔ لوگوں نے سبق حاصل کرنا چھوڑ دیا تھا, انہوں نے اللّٰہ والوں کے ناموں کا بٹوارہ کر رکھا تھا اور اپنے اپنے نظریے کو صحیح اور دوسرے کے نظریے کو غلط ثابت کرنا اُن کا علم تھا۔ جس قوم کے نبی نے اُن سے کہا تھا کہ "تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔" وہ قوم سوچتی کہ ہم لوگ تقویٰ کے بغیر ہی محض مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے کی وجہ سے بخش دیے جائیں گے اور باقی سب مذہب کے لوگ صرف اِس لیے جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کسی اور مذہب میں پیدا کیے گئے تھے۔ اُس نے دیکھا کہ وہ جس قوم میں پیدا ہوا ہے وہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہر شخص اپنی ایک الگ فکر لے کر چل رہا ہے۔ کسی کو اپنی معاشرتی پہچان کی فکر ہے تو کسی کو روٹی, کپڑا, مکان کا غم, کسی کو طاقت کا نشہ ہے تو کسی کو دولت پر ناز, اہلِ ممبر و محراب اپنی اپنی گدّی مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ کسی کو بھی انسانوں کی فکر نہیں تھی, کوئی عاشقِ رسول ہونے کا دعویدار تھا تو کوئی حُبِ اہلِ بیت میں سرشاری کا چرچا کرنے میں محو تھا۔ کسی پر عظمتِ صحابہ کے دلائل دینے کی دُھن سوار تھی اور کوئی لوگوں پر شرک و بدعت کے فتوے گڑہنے میں مصروف تھا۔ کسی کو بھی انسانیت کی فکر نہیں تھی۔ وہ لوگ جن معتبر ہستیوں کا نام لیا کرتے تھے اُن کی زندگیاں اُنہی ہستیوں کے فرمانوں کی تردید نظر آتی تھی۔ اُس نے جانا کہ اُس کے وقت میں اکثریتِ انسان کا مذہب کوئی تاریخ کی کتاب تھی جس کا اطلاق صرف عبادت گاہوں تک محدود تھا۔ عبادت گاہ سے باہر وہ لوگ نہ ہندؤ تھے نہ مسلم تھے وہ سب کے سب انسان تھے شیطان کی غلامی میں قید, ڈرے سہمے لوگ, شیطان اُنہیں کٹھ پُتلی کی طرح نچاتا تھا, دین, مذہب, خُدا کے نام پر انسان کو انسان کے ہی ہاتھوں قتل کیا کرتا تھا اور لوگ سب سمجھتے ہوئے بھی خود کو شیطان کی پیروی کرنے پر مجبور پاتے تھے۔ اُن کے گرد حرصِ دنیا کا ایک جال تھا جسے وہ اپنی دنیا کا نظام گردانتے تھے اور خود کو اِس نظام کا یرغمال مانتے ہوئے اپنی عمر گزارہ کرتے تھے۔ لوگوں کو مذہب کچھ خاص مواقع اور خاص محفلوں میں ہی یاد آتا تھا۔ جس قوم کے نبی نے اُنہیں کافر کو بھی کافر کہنے سے منع کیا تھا, جس قوم کے نبی نے اُنہیں جھوٹے خُداؤں کو بُرا کہنے سے منع کیا تھا, وہ قوم زور و شور سے اسی کام کو دینی فریضہ سمجھ کر سرانجام دے رہی تھی۔ اُس قوم کا دعویٰ تھا کہ اُس کے پاس مکمل دین ہے مگر وہ قوم اُس دین کی کاملیت سے ناآشنا تھی۔ اُن کے پاس وہ دین تھا جس کی سرپرستی میں ہر مذہب و بے مذہب شخص کے لیے امان تھی لیکن کسی کو اِس بات کی سمجھ نہیں تھی۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں سے نفرت نہیں کی بلکہ محبت سے اُنہیں اللّٰہ کے دین کی طرف مائل کیا۔ لوگوں کے دینِ اسلام میں داخل ہونے کی وجہ رسولِ خُدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کا کردار تھا جو کلامِ الہی پر لوگوں کے یقین کی بنیاد بنا۔

قرآن بعد میں نازل ہوا, نبوت کا اظہار بھی چالیس برس کی عمر میں ہوا مگر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ دین تمام عمر کی۔ اپنے اخلاق سے, خلوص و محبت سے لوگوں کے دل میں گھر کیا۔ لوگوں سے بھلائی کا سلوک کیا, اُن کا بوجھ اُٹھایا, گالیاں سُن کر, پتھر کھا کر, لوگوں کو دُعائیں دیں, اللّٰہ کی طرف سے لوگوں کی بربادی پر اختیار رکھتے ہوئے بھی سب کو معاف کیا, کسی سے بدلہ نہ لیا۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے کردار سے اور اپنے اخلاق سے لوگوں کے دل جیتے تبھی لوگ اُن کے بتائے دین میں داخل ہوئے۔ مگر لوگ کردار اپنانے اور کردار سے سیکھنے کی جگہ کردار کو تولنا شروع کر دیتے تھے۔ اور جب انہوں نے کردار اپنانا چھوڑ دیا تو اُن کے کلام سے اثر اُٹھا لیا گیا۔ اب وہ لاکھ عبادت و ریاضت کریں یا تبلیغ کریں اُن کا سب عمل بے روح ہے۔ دین عبادتوں کے طریقوں کا نہیں بلکہ حُسنِ خُلق کا نام ہے۔ ہم اپنے مذہب و مسلک کے طریقوں میں سچّے ہیں یا جھوٹے یہ فیصلہ کرنا اللّٰہ کا حق ہے۔ کیونکہ ہر ماننے والا اپنے مذہب و مسلک کو اللّٰہ کے لیے اپناتا ہے پس اُس کا اجر و عذاب بھی اللّٰہ ہی کے حوالے ہے۔ دوسروں کے قلب میں جھانکنے کی کوشش کرتے رہنا ہی اصل فساد ہے۔ کیونکہ جو دوسروں کے عیب تلاش کرتا ہے وہ اپنے عیب نہیں دیکھ پاتا۔

(جاری ہے)

(تحریر: محمد کامران احمد)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 53)
----------------

وہ اکثر سوچتا کہ جب جب اللّٰہ نے کوئی نبی مبعوث کیا تو کچھ لوگوں کو تو اُس نبی پر اور اُس کے کلام پر بِنا کسی دلیل کے دل سے یقین ہو گیا اور کچھ کے دل کو معجزات سے تقویت ملی اور وہ ایمان لے آئے۔ کچھ ایمان لا کر بھی شکوک میں رہے اور کچھ کے شکوک نے انہیں ایمان ہی نہ لانے دیا۔ اللّٰہ اور اللّٰہ کے کلام پر یقین کی بنیاد ہمیشہ اللّٰہ کے بندے بنے۔ کسی انسان کو دیکھ کر ہی انسانوں نے اللّٰہ کو پہچانا۔ اگر یوں کہا جائے تو یقیناً درست ہو گا کہ اللّٰہ کے بندے پر ایمان, اللّٰہ پر ایمان لانے کی وجہ بنا۔ مگر حقیقت میں ایمان کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا۔ لوگ ایک دوسرے سے نبی کا ذکر سُنتے تھے کہ اُن کا اخلاقِ ایسا ہے اور وہ ایسے رحیم و شفیق ہیں اور وہ سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے بھلائی کا سلوک کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر جب لوگ ملتے اور نبی کو جیسا سُنا تھا ویسا ہی پاتے تو اُن کے دل کا یقین اور پُختہ ہو جاتا تھا۔ سبھی انبیاء نے ایک دوسرے کی بھلائی چاہنے کا درس دیا۔ مگر اُن کے جانے کے بعد ہر قوم نے دین کو اپنے لیے خاص کر لیا اور اُس سے باہر موجود لوگوں کو خود سے کمتر جانا۔ ہمارا نبی ہی اللّٰہ کے بعد کائنات کی افضل ترین ذات ہے۔ اسی بات پر خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہوئے یہود نے حضرت عیسیٌٰ کو ماننے سے انکار کیا تھا اور پھر دونوں مذاہب نے اسلام کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اِس حقیقت کو تسلیم کرنا مسلمانوں کے لیے آسان ہے کہ تمام نبی ایک ہی نبی کا عکس ہیں۔ دوسرے مذاہب کے لیے جو سختی کا رویہ اُس وقت کے کُفار میں پایا جاتا تھا وہی رویہ آج کے مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سے مسلم حکمرانوں کا نام بہت سے غیر مسلم ممالک میں بہت ادب و احترام سے لیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسرے مذاہب کا احترام کیا اور اُن کے اسی اخلاق کو دیکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں نے دینِ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ آج وہ کردار, وہ اخلاق, امتِ مسلمہ سے ناپید ہو چُکا ہے۔ جب کوئی غیر مذہب کا شخص اسلام کے بارے میں پڑھتا ہے اور پھر مسلمانوں کا حال دیکھتا ہے تو اُسے مسلمانوں میں اسلام کی کوئی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ ہم ایسی قوم بن چُکے ہیں جسے خود غرضی, لالچ, ہوِس اور حرص نے بُری طرح جکڑ رکھا ہے۔ لوگ اپنا مذہب و مسلک تاریخ کی روشنی میں ثابت کرنے کو دین گردانتے ہیں۔ اسی لیے ایک دوسرے کو اپنے مسلک کی برتری ثابث کر کے اُسے اپنا ہم مسلک بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک دین محض عبادت کا انداز ہے۔ کس کس دن اور کس کس وقت بھوکا رہنا ہے اور کس کس وقت مسجد, مندر میں جانا ہے اور کس کس انداز میں سجدہ کرنا ہے بس یہی انداز اپنانا لوگوں کا مذہب ہے۔ جبکہ دین عبادت کا انداز نہیں بلکہ عبد بننے کا انداز ہے۔ جب لوگوں نے دین اور بھلائی کو اپنی عبادتوں کے طریقے اور اپنے عقائد کے ساتھ مخصوص کر لیا تو اُنہوں نے اپنا دین برباد کر لیا۔ رب العالمین اور رحمتِ العالمین کا نام لینے والی قوم جب نماز, روزے کے طریقوں پر یا تاریخی مسائل پر اپنا اپنا نظریہ بیان کرتے ہوئے خود کو باقی مسلمانوں سے الگ اور خود کو جنتی اور دوسروں کو جہنمی قرار دیتی تو وہ سوچتا کہ یہ لوگ ایک طرف تو اُسے عالمین کا رب مانتے ہیں اور دوسری جانب اُسی کی رحمت کو خود تک محدود سمجھتے ہیں۔ یقیناً ایسا کر کے وہ اللّٰہ کی رحمت کو تو محدود نہیں کر پاتے مگر اپنی سوچ ضرور محدود کر لیتے ہیں۔ مذہب و مسلک کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے لیے ایک خاص قسم کی حقارت, نفرت, غصہ یا بُرائی اپنی سوچ کے کسی کونے میں ہر شخص چھُپائے بیٹھا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو سوچ کو تقسیم کرتی ہے اور انسان کے اندر تفرقے کو جنم دیتی ہے۔ اللّٰہ انسانوں کو جوڑتا ہے اور شیطان انسانوں کو توڑتا ہے یہ تقسیم صرف سوچ سے ہی ہوتی ہے اور سوچ میں ہی رہ کر انسانوں کو تقسیم کرتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے ہیں مگر اپنی سوچ کے جہان میں خود کو دوسروں سے الگ کر کے رکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اکثر اُس کی سوچ اُسے فرقہ واریت سے اَٹے معاشرے کی سیر کرواتی جہاں ہر فرقہ اپنے اپنے مفاد کے مطابق کام کر رہا تھا۔ خُدائے واحد کی اشرف ترین مخلوق کو اِن بے شمار ٹُکڑوں میں منقسم دیکھ کر وہ ہمیشہ بے تاب ہو جاتا تھا کہ کسی طرح اِن ٹُکڑوں کو سمیٹ سکے۔ اِسی سوچ اور جستجو نے اُسے تلاش میں رکھا۔ وہ لوگوں کو اِس تقسیم سے باہر نکالنے کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ بھی نہ کر پایا۔ حج سے واپس آ کر وہ اپنی پُرانی زندگی میں پھر سے محو ہو گیا۔ وقت گُزرتا گیا اور وہ اپنے اندر ہی اندر ڈوبتا گیا۔ وہ اپنے آپ میں ایک گناہگار شخص تھا مگر اُس کے پاس بہت سے سوالوں کے جواب تھے۔ اور وہی جواب لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اُس کے دل کو سکون نہیں لینے دیتی تھی۔ اِس لیے وہ لوگوں تک کسی نہ کسی رنگ میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ مگر یہ سب اُسے ناکافی محسوس ہوتا تھا۔ اپنی سوچ کے مطابق وہ کوئی بھی قابلِ ذکر کام نہیں کر پایا۔ ایک وسیع سوچ کے علاوہ اُس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ اُس کی کہانی یہاں اختتام پزیر ہوتی ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ کچھ نہیں کر سکتے وہ باتیں کرتے ہیں, مگر میرے خیال میں زمین میں سب کاموں کی بنیاد باتوں پر ہی ہے۔ انسان کا بیان ہی اُس کے اندر کا اظہار ہوتا ہے۔ اِس اظہار کو دوسرے لوگ پہچان سکیں یا نہیں لیکن یہ انسان خود اپنا گواہ ہے اور اللّٰہ سب کے دل کا حال جانتا ہے۔ اضطراری اور غیر اضطراری طور پر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب کسی جگہ پہلے الفاظ کی صورت جنم لیتا ہے پھر ظاہر میں اُس کی کوئی صورت تیار ہوتی ہے۔ بات باتوں میں نہیں بلکہ کہنے والے کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر کہنے والے کے دل میں سچّائی ہو تو اُس کی بات سُنے والے کے دل پر ضرور اثر کرے گی۔
یہ کہانی لکھنے کے دوران میں نے اکثر سوچا کہ میں اکیلا کیا کر سکتا ہوں۔؟ کتنے لوگ ہوں گے جن تک میری بات پہنچے گی۔؟ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے ایسی باتوں کے لیے۔ کوئی نہیں چاہتا سُدھرنا۔ لوگ بس باتیں سُننے کے شوقین ہوتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو انقلاب چاہیے ہی نہیں۔ اِن کا مسئلہ بجلی, پانی, گیس ہے۔ غریبی اور بے روزگاری ہے۔ جس شخص کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے اُسے میرے انسان اور انسانیت کے فلسفے میں کیا دلچسپی ہو سکی ہے۔ جس کی بیوی پیسوں کے لیے ہر وقت اُس سے لڑتی رہتی ہو, بچّے بھوک سے بِلکتے رہتے ہوں, وہ شخص ہندؤ یا مسلم کچھ بھی ہو اِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ فرقوں میں ایک فرقۂ انسان بنا لینے سے ایک عام آدمی کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔؟ لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر چھوڑے گی تو وہ اللّٰہ کے بارے میں سوچیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگوں پر ایسا ایسا وقت گُزرتا ہے کہ وہ اللّٰہ کی ذات کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ جس مُلک کی بنیاد اقبال کے خواب پر ہے اُس کی تعبیر یہ نہیں ہو سکتی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اسلام کا وہ چہرہ دنیا کے سامنے لا سکتے ہیں جس کی خاطر پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللّٰہ بتایا گیا تھا۔ مجھے پتہ ہے کے میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن میرا ایک خواب ہے کہ میرے مُلک کے لوگ اللّٰہ کی خاطر, دینِ اسلام کی خاطر, اپنی خاطر اور تمام انسانیت کی خاطر اپنے دِل و دماغ میں پَلتی نفرت کو نکال کر ایک دوسرے کا احترام کرنے کی رِیت ڈالیں۔ جب ہمارے بچّے آ کر ہم سے کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے بارے میں پوچھیں تو ہم اُن کی بُرائی بیان کرنے کی جگہ بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ مذہب و مسلک کا فیصلہ اللّٰہ کے ہاتھ ہے, ہمارا کام فقط لوگوں سے بھلائی ہے۔ جب لوگ اپنے دل سے ایک دوسرے کے لیے نفرت و حقارت جیسے جذبوں کو الگ کریں گے تو وہ ایک دوسرے کے خلاف شیطان کے مددگار بننا چھوڑ دیں گے۔ بس ہمیں اِس وقت صرف اِسی چیز کی ضرورت ہے۔ لوگ عبادات کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو عبادات کا پابند بنانے میں ناکام پاتے ہیں۔ اِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ اللّٰہ کا بندہ بننے کی کوشش کیے بغیر ہی عبادت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللّٰہ کا بندہ وہ ہے جو اللّٰہ کے لیے لوگوں سے محبت کرتا ہو۔ لوگوں سے محبت کرنا اللّٰہ اور اُس کے بندوں کی سُنّت ہے۔ جو اِس سُنّت کو اپنا لیتا ہے وہ اللّٰہ کا بندہ بن جاتا ہے۔ کوئی شخص دعویٰ کرتا ہو کہ وہ آپ کا ملازم ہے اور وہ آپ کی جگہ کسی اور شخص کے پاس کام کرتا ہو تو کیا آپ اُسے اپنا ملازم مان لیں گے۔؟ یقیناً نہیں۔ یہی حال اِس وقت اولادِ آدم کی اکثریت کا ہے۔ یہ عبادت ثواب کمانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ انہیں جنت حاصل ہو سکے یا اِس لیے کرتے ہیں کہ وہ دوزخ میں نہ ڈالے جائیں۔ بات ایک ہی ہے کہ اُن کی طلب اللّٰہ نہیں بلکہ اللّٰہ کی نعمتیں ہیں۔ لوگ صرف اپنے لیے آسائش چاہتے ہیں جب وہ اپنی آسائش چاہتے ہیں تو وہ اللّٰہ کے لیے دنیا کی تکالیف اُٹھانے سے پرہیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کی آزمائش کے آگے سر ٹیک دیتے ہیں۔ جب وہ دل میں ہار مان لیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی طاقت گنوا دیتے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ اپنی اپنی آسائش کا سامان اکھٹا کرنے کی صورت تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج جو لوگ خود کو ہندؤ, مسلم, مسیحی یا کوئی اور نام دیتے ہیں اُن کی کثیر اکثریت اپنے مذہب کی تعلیمات کے خلاف چل رہی ہے۔ اِن لوگوں میں مذہب کا صرف نام رہ گیا ہے اور وہ اِس نام کو اپنی دنیاوی ضرورت کے تحت استمعال کرتے ہیں۔ یہ لوگ عبادتگاہیں بناتے ہیں اللّٰہ والوں کی یاد میں بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں مگر اِس کا مقصد لوگوں میں محبت بانٹنا نہیں بلکہ اپنی تقسیم واضح کرنا ہوتا ہے۔ جب اِن محفلوں میں دوسرے مذہب و مسلک کے لوگوں کے لیے تمسخر و تکبر کی کیفیت لیے عیب دار لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور واپس جا کر دوبارہ اُنہی گناہوں میں کھو جاتے ہیں تو وہ لوگ درحقیقت اُنہی ناموں کو بدنام کرتے ہیں جِن کا ذکر وہ اپنی عبادتگاہوں میں کیا کرتے ہیں۔ کیا آج کے یہودی, مسیحی, یا مسلمان اپنے اپنے مذہب کے نام پر دھبہ نہیں ہیں۔؟ مقدس ہستیوں کے نام لینے والے ہی اپنے اپنے اخلاق سے, اپنی سوچ سے, اور اپنے الفاظ سے اُن کی شان میں گُستاخی کرنے میں محو ہیں۔ پھر کون سے مذہب و مسلک کی بات کرتے ہیں لوگ۔ کس بات پر خود کو دوسروں سے الگ مانتے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو سبھی مذاہب گمراہی کی راہ چل رہے ہیں۔ شیطان سبھی مذاہب کے انسانوں کا یکساں دشمن ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کے انسانوں کا دوست نہیں ہے۔ انسانیت کی تقسیم ہی شیطان کا ہتھیار ہے۔ جب تک کوئی ایک مذہب سبھی مذاہب کے لوگوں کو انسانیت کے نام پر ایک کرنے کا بیڑا نہیں اُٹھائے گا تب تک ہم سب بے جا تقسیموں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑتے ہی رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف شیطان کی مدد کرتے رہیں گے۔ جو لوگ شیطان کے مددگار بن کے زندگی گزار رہے ہوں اُن کا سب عمل فتنہ فساد ہی ہے کیونکہ وہ شیطان کے بندے ہیں۔

(جاری ہے)

(تحریر: محمد کامران احمد)

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 54) (آخری حصّہ)
----------------

لوگوں کو اپنے اندر سے یہ فساد ختم کرنا ہو گا۔ ہم مسلمان اللّٰہ کے آخری نبی کے ماننے والے ہیں۔ رحمت العالمین کی رحمت کو دنیا میں عام کرنے کی ذمہ داری اُسی قوم پر ہے جو اُن کی رحمت کے سائے میں ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ بہت فخر ہے مسلمانوں کو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے پر۔ مسلمان ہونے کے باعث ایک دن بخش دیے جانے کا بھی یقین رکھتے ہیں اور باقی سب مذاہب کے لوگوں کا مقدر جہنم بھی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم سچ میں اتنے اعلیٰ ہیں تو ہمیں اپنے اِس مقام کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر ہم بڑے ہیں تو ہمیں اپنے بڑے پن کا اظہار کرنا چاہیے۔ رسولِ خُدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی میں اُن کا کردار اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور عالمِ اسلام کو تمام مذاہب کے لیے سلامتی کا باعث بنا کر پیش کرنا چاہیے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو عبادات نہیں کرنی چاہیے مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ دِل کو نفرت سے پاک کیے بغیر عبادت کسی کام کی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر لوگ عبادات میں غفلت کر بھی جائیں تو بھی اُنہیں اپنی اخلاقیات میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی سوچ میں غفلت کر کے شیطان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ اِس وقت میں مُلّاازم کے زیرِ سایہ لوگوں کو اعمال کے پیچھے دوڑایا جاتا ہے اور نیتوں کی تربیت پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ اِس لیے عموماً لوگ بے روح اعمال سے تھک جاتے ہیں یا خود کو اعمال کا عادی بنا کر دین کے معاملے میں دوسروں پے سختی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس ایک ہی رٹ ہے سب کی کہ ہمارے طریقے سے چلو تو راہ پر ہو ورنہ گمراہ ہو جبکہ اللّٰہ کی راہ نماز روزے کے طریقے یا تاریخی عقائد نہیں بلکہ اللّٰہ کی راہ تو اخلاص, اخلاق اور بھلائی کی راہ ہے, نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام زندگی اسی بات کا اظہار ہے کہ اللّٰہ کی راہ ہر خاص و عام کے لیے رحمت کی انتہا بن کے دکھانے کا نام ہے۔ زمین پے موجود لوگ جن ہستیوں کو مقدس جانتے ہیں انہوں نے تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کیا۔ اُن سب کا سلوک, اُن کا اخلاق, اِس بات کا سبب بنا کہ لوگوں نے اُن کی پیروی کی اور سچّی پیروی کرنے والوں نے ہمیشہ اپنے کردار سے ثابت کیا کہ وہ کس کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے اُن کے نام باقی رہ گئے۔ میرا کہنا بس اتنا ہے کہ دین کو اگر دوسروں پر ثابت کرنا ہی مقصود ہے تو اپنے کردار سے کیجیئے اور اگر کردار سے نہیں کر سکتے تو کم از کم ایسی بات کیجیئے جو لوگوں میں نفرت پھیلانے کا باعث نہ بنے۔ اِس وقت میں ہمیں صرف انسانیت اپنانے کی ضرورت ہے اور بس۔ سب انسان کسی ایک مذہب یا مسلک پر متفق نہیں ہو سکتے مگر سب انسان انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ اِس وقت میں اِس کوشش کی سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو ہے۔ ہم دنیا بھر میں مسلمان ہونے کے باعث قتل کیے جا رہے ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کو غیر مسلک مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کرنا ثواب کا باعث سمجھتے ہیں۔ جس مذہب کی تعلیمات یہ کہتی ہوں کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے اُس مذہب میں جب ایسے لوگ منبر پر جا بیٹھیں جو ایک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو کے خون کا پیاسا بناتے ہوں تو اُس قوم کا قتلِ عام واجب ہو جاتا ہے۔ اگر لوگ ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑی بِھیڑ کا حصّہ بننا چھوڑ دیں تو اُن کی طاقت کم کی جا سکتی ہے۔ جب تک ہم اپنا اصل نہیں اپناتے تب تک ہم بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔ ہوّس, حرص, لالچ اور شہوت سے بھرے دل لیے لوگ ایک دوسرے کا حق مارتے ہیں اور خود کو کسی مقدس ہستی کا منتظر بھی بتاتے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں اپنے کرب کی داستان لیے فریاد بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھتے رہنے سے کوئی مسیحا نازل نہیں ہو گا جب تک کہ لوگ اپنے دل کی دنیا کو اُس مسیحا کی آمد کے لیے نہیں سجاتے۔ میری نظر میں ہر انسان کے لیے حق وہی ہے جس پے بِنا کسی دلیل کے اُس کے دل کو یقین آ جائے۔ ہم قرآن و حدیث کی ہزاروں دلیلیں دے کر کسی کو مسلمان نہیں کر سکتے کیونکہ جب اُس کا دِل ہی ایک شئے کا انکار کرتا ہے تو وہ کس طرح اُس کی بات مان سکتا ہے۔؟ لیکن اگر ہم ہمیشہ اُس کے ساتھ بھلائی کا سلوک روا رکھیں, اُس سے ادب و احترام سے پیش آئیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک دِن وہ ہمارے حُسنِ سلوک سے متاثر ہو کر ہمارے مذہب میں داخل ہو جائے۔ دینِ اسلام کی تبلیغ حُسنِ اخلاق اور صلہ رحمی سے ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پھیلانے والے مسلمان باکردار, بااخلاق اور لوگوں پر رحم کرنے والے تھے۔ ہم سب گناہگار لوگ ہیں لیکن گناہگار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اللّٰہ کی جانب پلٹنے کا حوصلہ ہی چھوڑ دیں۔ شیطان کی بہترین چالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو احساسِ گناہ میں ڈبو کر انسان سے اللّٰہ کی جانب پلٹنے کا حوصلہ بھی چھین لیتا ہے۔ جب لوگوں کی اکثریت عبادتگاہوں میں اور اپنی محفل و تنہائی میں حق کے نعرے لگانے کی جگہ اپنی عام زندگی میں حق کہنا اور سُننا پسند کرنا شروع کر دے گی تو انسانیت کی بھلائی کی راہیں کھُلنا شروع ہو جائیں گی۔ جب تک لوگ اپنی ذات میں انقلاب نہیں لائیں گے تب تک کسی قسم کا کوئی انقلاب نہیں آنے والا۔ ہم وہ لوگ ہیں جو حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید یہ شخص ہمارا ساتھ دے گا۔ شاید یہ ہماری بھلائی کا سبب بنے گا۔ شاید یہ ہمیں نجات دلائے گا۔ ہر شخص ایک الگ الگ ''شاید'' کی بنیاد پر اپنے آنے والے کل کا خواب دیکھتا ہے۔ اور اُس میں بہتری کی اُمید کرتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ہر طرح کے "شاید" سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اللّٰہ پے یقین کر کے زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا اور دنیا والوں سے ہٹ کر خود پر بھروسا کرنا پڑتا ہے, اسباب کو چھوڑ کر مسبب الاسباب کا دامن تھامنا پڑتا ہے۔ ہمارا انقلاب ہماری اپنی روح میں قید ہے۔ ہم لوگ بہتر سیاسی, سماجی نظام بنا کر کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے کیونکہ ہم اپنے دل نہیں بدلتے۔  اِس وقت میں ہمیں روح کے انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہم جب تک اپنی روح میں انقلاب نہیں لائیں گے تب تک ہم یوں ہی جلتے مَرتے رہیں گے۔ اِس وقت میں بہترین عمل یہ ہے کہ اللّٰہ کی محبت میں لوگوں سے بھلائی کی جائے۔

روحوں کے انقلاب کی کوئی بات کیجیئے۔
دل کو عقل کی قید سے آزاد کیجیئے۔

جسموں کی تربیت سے نہ کچھ بات بنے ہے۔
جب تک کہ نہ اِس روح کو آباد کیجیئے۔

فطرت یہی ہے ازل سے خود آشناؤں کی۔
سَر دیجیئے پر راز کو نہ فاش کیجیئے۔

حِکمت یہی ہے دیجیئے درس عشق کا۔
انسانیت سے انساں کو آباد کیجیئے۔

مانگتا ہے خونِ دل انقلابِ انقلاب۔
خود میں خودی کا سِلسلہ آغاز کیجیئے۔

اللّٰہ نے سب کو ایک دوسرے سے مختلف مگر ایک سا بنایا ہے۔ ایک سا اِس لیے کہ ہم سب کو اُس نے انسان بنایا مگر ہر ایک کو ایک الگ سراپا ایک الگ سوچ عطا کی۔ لوگ الگ الگ طرح کا لباس پہن کر, طرح طرح کے بال بنا کر, خود کو دوسروں سے منفرد ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنے اندر چھُپی انفرادیت تلاش نہیں کرتے۔ یہ نہیں سوچتے کہ اللّٰہ نے پہلے ہی سے ہمیں ایک دوسرے سے منفرد تخلیق کیا ہے۔ ہم سب انسانوں میں پیدا ہوتے ہیں, انسانوں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں, مگر اپنے آپ میں ہم, ہر دوسرے انسان سے جُدا, اپنا ایک الگ وجود رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے الگ الگ فنگر پرنٹس بنانے والے نے پہلے ہی سے سب کو الگ الگ رنگ دے رکھا ہے۔ ضرورت صرف اپنا رنگ پہچاننے کی ہے۔ جس ذات نے اپنی کائنات میں اتنی ساری انفرادیت رکھی وہ یقیناً چاہتا ہو گا کہ لوگ الگ الگ رنگ میں اُسے چاہیں۔ غور کریں تو کسی مشہور شخص کو اپنے چاہنے والوں کے مذہب, مسلک, قوم, قبیلے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اُس کے لیے صرف یہ بات اہم ہوتی ہے کہ لوگ اُس کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ ہم لوگ اپنی روز مرّہ کی زندگی میں بھی لوگوں کے برتاؤ کے اعتبار سے ہی اُن پر بھروسا یا شک کرتے ہیں۔ دنیا کا نظام اسی اعتبار پر چل رہا ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی دوستی دشمنی سے غرض رکھتے ہیں۔ لوگوں کو اُن کے رویے اور اپنے مفادات کی بنیاد پر پرکھنے والے لوگ جب اپنے رب کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اُن کے دل سے نہیں بلکہ مذہب و مسلک کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے مجھے لوگوں کی سوچ دیکھ کر۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے بس شعور کی کمی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جس جس شخص تک میرا یہ پیغام پہنچے گا وہ ایک بار میری بات کو سوچے گا ضرور۔ میں اللّٰہ کی اِس کائنات بہت چھوٹا سا حصّہ ہوں۔ اگر اِس کتاب سے ایک بھی شخص کا دل نہیں بدلتا تو بھی مجھے افسوس نہیں ہو گا کیونکہ میرا کام صرف صاف صاف بات بیان کرنا تھا۔ کون سیکھتا ہے اور کون نہیں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ خیر وہ کہانی جو میں قریب چھ ماہ سے لکھ رہا ہوں اَب اُس کا اختتام کرتے ہوئے میں اپنے سبھی پڑھنے والوں کا شُکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اب تک کے تمام سفر میں میرا ساتھ دیا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔ کچھ لوگوں نے حوصلہ شکنی کی کوشش بھی کی اُن سب کا بھی بہت بہت شُکریہ۔ مجھے سب لوگوں کے رویے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ بہت سے باشعور لوگوں نے مجھے جوائن کیا جنہیں دیکھ کر مجھے اپنی بات بیان کرنے کا حوصلہ مِلا۔ اِس کہانی کے بیان کرنے کا مقصد لوگوں میں اللّٰہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا اور اِس کوشش میں مذہب و مسلک کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا شعور پیدا کرنا تھا۔ شیطان تمام انسانوں کا دشمن ہے۔ اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اب اِس دشمنی میں ہماری مرضی ہے کہ ہم انسانوں کے مختلف گروہوں سے دشمنی کر کے شیطان کو دوست بنائیں یا انسانوں سے دوستی کر کے اللّٰہ کے دشمن کو زیر کرنے کی کوشش کریں۔ فرقۂ انسان درسِ انسانیت ہے۔ جب اتنے سارے فرقے پہلے سے موجود ہیں تو چلیں ایک اور فرقہ بنا لیتے ہیں۔ ایک ایسا فرقہ جس میں ہر مذہب و مسلک کے لوگ موجود ہوں۔ ایک ایسا فرقہ جو ہر رنگ و نسل کے لوگوں کو محض انسان ہونے کی بنیاد پر عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ ایک ایسا مسلک جس میں لوگ اپنے اخلاق کی بُلندی سے اپنے اخلاص کا اظہار کرتے ہوں۔ ایسے لوگ جو اللّٰہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔ انسانوں کا ایک ایسا گروہ جو لوگوں کو اللّٰہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ دے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے جانے والے لوگوں کے قُرب و جُدائی میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ گویا اُن کا کوئی رب ہی نہ ہو۔ لوگ شیطان کی بچھائی بساط میں پھنس کر کیڑوں مکوڑوں کی سی زندگی گُزانا قبول کر لیتے ہیں اور اپنے اصل مقام سے ناآشنا رہتے ہیں۔ لوگ چیزوں کو اور رشتوں کو اِس قدر چاہتے ہیں کہ اُن کے نا ملنے پر اپنا جینا حرام کر لیتے ہیں۔ کسی بیوفا کی یادوں میں جلتے رہنے کی عادت, کسی نہ ملنے والی چیز کے غم کو سینے سے لگائے روتے رہنے کا جنوں, یہ سب شیطان کے بنائے پھندے ہیں جِن میں گھیر کر وہ لوگوں کو اللّٰہ کی یاد سے غافل رکھتا ہے۔ دنیا اور آخرت کی محبت میں انسان انسانیت بھول چُکے ہیں شاید اسی لیے دنیا یا جنت حاصل کرنے کے نام پر وہ انسانوں کا خون بہانے سے بھی باز نہیں آتے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو پانچ وقت کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہر وقت کی عبادت, وقتی عبادات سے زیادہ اہم ہے۔ زمین میں چلتے پھرتے لوگوں سے حُسنِ سلوک اور صِلہ رحمی کا رویہ اختیار کرنا اصل عبادت ہے۔ اگر ہم یہ عبادت نہیں کر سکتے تو ہمیں عبادتگاہوں میں جا کر دنیا کو یہ دکھانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہم اُن مقدس ہستیوں کے ماننے والے ہیں جن کی تمام زندگی لوگوں سے بھلائی کا سلوک کرنے کا درس ہے۔ سب لوگ کسی ایک مکتبِ فکر کو نہیں اپنا سکتے۔ سب لوگ کسی ایک بزرگ کے مُرید نہیں بن سکتے, نہ ہی سب لوگ کسی ایک مسلک یا مذہب کے پیروکار بن سکتے ہیں۔ سب لوگوں کو اگر کسی ایک بات پر متفق کیا جا سکتا ہے تو وہ انسانیت کی سلامتی ہے۔ کسی کو بُرا مت کہیئے, اپنے اندر کی بُرائی پر نظر رکھیے۔ جب ہم سب اپنی اپنی بُرائی کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے تو انشاء اللّٰہ ہم ضرور دنیا میں بھلائی کا نظام رائج کر سکیں گے۔ اِس وقت میں ہمیں اپنی نظر میں حیا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے دل میں نرمی اور باتوں میں خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ ایک قوم کی حیثیت سے بہت خوفزدہ لوگ ہیں۔ ہم کسی کے بھی خلاف انقلاب نہیں لا سکتے کیونکہ ہم اِس نظام سے ڈر کے جینا سیکھ چُکے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کے خلاف انقلاب لانا ابھی بھی ہمارے بس میں ہے۔ کہتے ہیں کہ جس قوم کے اعمال حد سے زیادہ بُرے ہو جاتے ہیں اُس پر بُرے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ کیا پتہ ہمارا انقلاب ہمارے خود کے اندر موجود ہو اور ہم اُسے باہر تلاش کرتے پھر رہے ہوں۔
ہم سب کو ایک دوسرے سے رحیمی کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کیجیئے۔ ہم اللّٰہ کی حدود سے بہت دور آ چکے ہیں۔ شیطان ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر چُکا ہے۔ اِس تاریکی سے نکلنے کا واحد راستہ بس یہی ہے کہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما جائے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جب ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے تو ہمیں احساس ہو گا کہ اللّٰہ کی راہ ایک دوسرے کی مدد کرنا ہی تھا۔ اس کہانی کو محض ایک کہانی سمجھتے ہوئے اِس کہانی کے مرکزی کردار کو اپنے اندر تلاش کیجیئے۔ لوگوں کا درد محسوس کرنے والا اُن کے لیے دُعائیں کرنے والا ایک شخص ہم سب کے اندر موجود ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے کی رِیت ڈالنے کی کوشش کیجیئے۔ انشاء اللّٰہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ اللّٰہ بہت مہربان ہے اُس کی رحمت لوگوں میں بانٹنے کی کوشش ہمارے لیے باعثِ رحمت بن سکتی ہے۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی راہ میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مجھ کو بھی میرے درد کا درمان چاہیے۔
میں بُت کدہ ہوں اور مجھے بھگوان چاہیے۔

خالی ہے کچھ سَمے سے میری روح کا قالب۔
فردوس و لامکاں نہیں, پہچان چاہیے۔

دل کی الگ تلاش ہے, دل کا الگ اصول۔
گر چاہیے, تو خالقِ جہان چاہیے۔

تھکے نہیں ابھی ہم, تقسیم کے سفر سے۔
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے۔

(ختم شد)

(تحریر: محمد کامران احمد)

مکمل تحریر >>