جمعہ، 31 جولائی، 2015


اقبال ! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعرِ حیات
ہے تیرا قلب محرم اسرارِ کائنات
سرگرمیِ دوام ہے تیرے لئے حیات
میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات
مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرقِ سئیآت
یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لئے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ ، بے ثبات
اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تُو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات
تیرا کلام جس کو کہ بانگِ درا کہیں
ہی اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات
بھولے ہوؤں کو تُو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضرِ رہِ حیات
سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات
عریاں تری نگاہ میں اسرار کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیرِ کائنات

دنیا کا ایک شاعرِ اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔