بدھ، 19 اگست، 2015

غزل: بانگِ درا (علامہ محمد اقبالؔ)

غزل: بانگِ درا
(علامہ محمد اقبالؔ)
کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہُ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے کہا کہ وہ اثرِ کہن
یہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی،جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
حقیقتِ منتظر سے مراد وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جائے یعنی ذاتِ خداوندی, اللہ تعالیٰ....اس غزل کے مطلع میں اقبال اللہ رب العزت سے مخاطب ہیں کہ اے مالکِ حقیقی! کبھی مادی لباس میں بھی جلوہ دکھا کیونکہ میری عجز سے بھری پیشانی میں یزاروں سجدے ایسے ہیں جو تیسرے حضور ہونے کو بےقرار ہیں. گو کہ تیرے جلوے ہزاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں مگر اب میں چاہتا ہوں کہ تو ان حجابوں اور پردوں سے نکل کر سامنے آ اور میں تیرے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں.
طرب آشنائے خروش کا مطلب شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا۔۔۔۔۔تو شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا بن جا.تو آواز ہے سو کان سے دوستی کر. یعنی تیرا وجود ایک ایسی صدا ایسی آواز ہو جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو. بھلا اس نغمے اور راگ کی کیا حیثیت ہے جو ساز کے پردے کی خاموشی میں چھپا ہوا ہو. یعنی تو اپنے جوہر دل میں ہی چھپا کے نہ رکھ بلکہ زمانے پہ ظاہر کر کے لوگوں کو زندگی کا پیغام دے.
تو اپنا آئینہ ٹھیس اور چوٹ سے نہ بچا کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر ٹوٹ جائے تو آئینہ بنانے بنانے والے کی نظروں میں زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو جاتا ہے. یہاں آئینہ سے مراد دل ہے اور آئینہ ساز سے مراد اللہ تعالیٰ ہے. اور حوالہ ہے کہ اللہ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے کہ طرف... کہ اگر تجھے کوئی غم پہنچتا ہے تو اسے اپنے حق میں مبارک تصور کر اور خدا کا فضل سمجھ کہ اب تو باری تعالیٰ کی نگاہوں میں زیادہ عزیز ہو جائے گا.
دم طوف کا مطلب چکر لگانا کے ہیں.۔۔ پروانے نے شمع کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس سے کہا کہ اے شمع! ماضی جیسی تاثیر,تڑپ اور جلن نہ تو تیرے جلنے میں ہے اور نہ میرے جل کر مرنے کے عمل میں باقی ہے.مراد یہ کہ ساری قوم عشقِ الٰہی کے جذبے سے خالی ہو چکی ہے. نہ قدیم زمانے جیسے جانثار مرید ہیں اور نہ باعمل پیشوا.
اے مولائے کائنات! میرے تباہ و برباد کر دینے والے جرم و گناہ کو دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملی. اس نے مجھے تباہ کر دیا مگر جب پناہ ملی تو صرف تیری رحمت کے دامن میں کہ تو نے میرے لاتعداد گناہوں کو معاف کر دیا.
اب نہ عشق میں وہ پہلا سا سوز, تڑپ اور جوش رہا نہ ہی حسن میں وہ شوخی اود ناز رہا ہے. اس وجہ سے نہ تو غزنوی میں تڑپ رہی ہے نہ ایاز کی زلفوں کے خم و پیچ باقی ہیں جو کشش رکھتے تھے. مراد یہ کہ اب مسلمانوں کے رہنماؤں میں پرخلوص ہنگامہ آرائی ہے اور نہ ہی عوام میں ایثار و قربانی کا جذبہ. یوں یہ عاشق و محبوب دونوں اپنی صفات سے محروم اور بیگانہ ہو چکے ہیں.
آخری شعر میں اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگر میں نے کبھی اپنی بےعملی کے باوجود سجدہ کیا تو زمین سے یہ آواز آتی سنائی دیتی ہے کہ تیرا دل بتوں کا پرستار ہے, تو نے اپنے دل میں غیر اللہ کو آباد کر رکھا ہے سو تجھے نماز میں کیا حاصل ہو گا. مراد یہ کہ خلوص کے بغیر عمل بےفائدہ ہے. جب تک انسان اپنے دل کو غیر اللہ سے پاک نہ کر لے اس وقت تک تیری نمازیں اور سجدے بےمعنی ہیں.
٭اقرا

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔