علم و عشق (1)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہُ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
اقبالؔ ہمیشہ عشق کی خوبی کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں بالخصوص جب اس کا مقابلہ عقل سے کریں تو اقبالؔ کی نظرِ انتخاب ہمیشہ عشق کو چنتی ہے جو خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
اقبالؔ شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ علم نے مجھ سے کہا کہ عشق اختیار نہ کرنا کہ وہ تو نری دیوانگی ہے۔جب عشق نے اس بات کو سنا تو اس نے مجھ سے کہا کہ علم سراسر وہم و گمان پر مبنی ہے۔ تخمین و ظن سے مراد قیاس اور گمان کے ہیں۔ اے وہم و گمان کے بندے! تو صرف کتابی کیڑا نہ بن اور اپنی ساری زندگی صرف کتابی علم پڑھنے پہ نہ گزار دو کیونکہ اس سے علم کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ علم مکمل حجاب ہے اس لئے اس پر اشیاء کی حقیقت آشکار نہیں ہوتی اور آنکھ پر پردے پڑے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس عشق اختیار کر کہ وہ ہی حضورِ ذات تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں علم سے مراد فلسفہ اور ایسے علوم ہیں جو انسان کو محض سوچ و بچار میں الجھائے رکھتے ہیں مگر حقیقتیں پھر بھی نہیں کھلتیں اور گتھیاں پھر بھی نہیں سلجھتیں۔ ایسے میں عشق ہی وہ راستہ ہوتا ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے لہٰذا اسی کو اختیار کر لے تا کہ کامیاب ہو جا۔
علم و عشق (2)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کی گرمی سے ہے معرکہُ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
معرکہُ کائنات سے مراد دنیا کی زندگی کی تگ و دو ہے،تماشائے ذات کے معنی اللہ بزرگ و برتر کی ذات کا مشاہدہ اور دیدار جبکہ پنہاں چھپی ہوئے کو کہتے ہیں۔
عشق بات کو آگے بٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ کائنات کے وجود میں جو ہلچل، گرمی اور رونق نظر آتی ہے وہ سب عشق کی بدولت ہے۔ علم ذاتِ حقیقی کی صفات کا علم تو رکھ سکتا ہے مگر اس کی ذات کا دیدار نہیں کر سکتا یہ کام عشق ہی کر سکتا ہے۔ زندگی میں عشق ہی کی وجہ سے سکون اور ثبات ہے اور عشق ہی کی وجہ سے جینا اور مرنا ہے یعنی کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے راز بھی عشق ہی کھولتا ہے۔ علم صرف ایک سوال ہے جس کے پاس کسی چیز کا مکمل جواب نہیں ہے بلکہ ایک سوال کے جواب کے بعد مزید کئی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ عشق ہر شے کی حقیقت کو پا لیتا ہے اور معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے سو علم پہ بھروسہ نہ کر کے بیٹھے رہو بلکہ راہِ عشق اختیار کرو۔
علم و عشق (3)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!
صاحبِ تاج و نگیں سے مراد بادشاہ ہے، فتحِ باب سے مراد کامیابی کا دروازہ کھلنا۔
بادشاہی، درویشی اور دین سب عشق کے معجزے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو تاج و تخت اور مہرِ شاہی کے مالک ہیں یعنی صاحبِ اقتدار ہیں وہ بھی عشق کے ادنیٰ غلام ہیں، اصل بادشاہت تو عشق کے پاس ہے۔ مکان ہو یا مکین ہو، زمان ہو یا زمین ہو جس کو بھی صحیح انداز پہ دیکھو گے تو وہ عشق ہی کی بدولت دیکھو گے۔ عشق مکمل یقین کی علامت ہے اور مکمل یقین رکھتا ہے اور یقین وہ دولت ہے جو مشکلات کے تمام تر دروازوں کو کھولنے کی کنجی ہے۔
علم و عشق (4) آخری حصہ
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
عشق کے اپنے اصول ہیں۔ اقبالؔ کے نزدیک عشق کی اپنی شرع ہے جس کے مطابق راہِ حیات میں کہیں بیٹھ کے لطف لینا حرام ہے۔ شرعِ عشق میں طوفانوں سے کھیلنا اور حرکت میں رہنا حلال ہےاور ساحل پہ بیٹھ کے مزے لینا حرام ہے۔ عشق ہر لمحہ بجلی گرانے کا آرزومند ہے جبکہ پیداوار حاصل کرنا اس کےلیے حرام ہے۔ یعنی عشق کے اصولوں میں یہ تو ہے کہ خرمن کو اکٹھا کر کے آگ لگا دی جائے تا کہ جمع کرنے کا خیال ذہن میں باقی نہ رہے اور ذخیرے سے تگ و دو کا عنصر ختم نہ ہو جائے سو عشق میں نتیجے کو محفوظ کر کے رکھنا حرام ہے کیونکہ اس سے ترکِ جدوجہد کے امکان پیدا ہو جاتے ہیں اور عشق ایسی کسی صورت کو پسند نہیں کرتا جو زندگی سے حرکت و عمل کو نکال دے۔ علم کو شاعر نے ابن الکتاب کہا ہےیعنی کتاب کا بیٹا کہا ہے، اس سے مراد دوسری کتب پہ انحصار کرنے والا ہے جبکہ عشق کو ام الکتاب یعنی کتابوں کی ماں کہا ہے۔ سورہ زخرف آیت 4 میں اس سے مراد "لوحِ محفوظ" لی گئی ہے۔ شاعر ان اصطلاحات کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علم دوسری کتابوں کا محتاج رہتا ہے اور وہ کتابوں کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا جبکہ عشق خود ام الکتاب ہے جو تمام تر علوم کا سرچشمہ ہے اور جہاں سے علومِ الٰہی کے تمام تر ذخائر سامنے آتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں جو عشق کو علم پر فضیلت و برتری حاصل ہے سو راہِ عشق اختیار کر اور الجھنوں سے بچ جا۔
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔