غزل: بانگِ درا
(علامہ محمد اقبالؔ)
کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو،تو نوا ہے محرمِ گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوتِ پردہُ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے کہا کہ وہ اثرِ کہن
یہ تری حکایتِ سوز میں، نہ مری حدیثِ گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی،جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں
نہ عشق میں رہیں گرمیاں،نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی،نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سربسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
حقیقتِ منتظر سے مراد وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جائے یعنی ذاتِ خداوندی, اللہ تعالیٰ....اس غزل کے مطلع میں اقبال اللہ رب العزت سے مخاطب ہیں کہ اے مالکِ حقیقی! کبھی مادی لباس میں بھی جلوہ دکھا کیونکہ میری عجز سے بھری پیشانی میں یزاروں سجدے ایسے ہیں جو تیسرے حضور ہونے کو بےقرار ہیں. گو کہ تیرے جلوے ہزاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں مگر اب میں چاہتا ہوں کہ تو ان حجابوں اور پردوں سے نکل کر سامنے آ اور میں تیرے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤں.
طرب آشنائے خروش کا مطلب شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا۔۔۔۔۔تو شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا بن جا.تو آواز ہے سو کان سے دوستی کر. یعنی تیرا وجود ایک ایسی صدا ایسی آواز ہو جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو. بھلا اس نغمے اور راگ کی کیا حیثیت ہے جو ساز کے پردے کی خاموشی میں چھپا ہوا ہو. یعنی تو اپنے جوہر دل میں ہی چھپا کے نہ رکھ بلکہ زمانے پہ ظاہر کر کے لوگوں کو زندگی کا پیغام دے.
تو اپنا آئینہ ٹھیس اور چوٹ سے نہ بچا کیونکہ یہ ایسا آئینہ ہے کہ اگر ٹوٹ جائے تو آئینہ بنانے بنانے والے کی نظروں میں زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو جاتا ہے. یہاں آئینہ سے مراد دل ہے اور آئینہ ساز سے مراد اللہ تعالیٰ ہے. اور حوالہ ہے کہ اللہ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہے کہ طرف... کہ اگر تجھے کوئی غم پہنچتا ہے تو اسے اپنے حق میں مبارک تصور کر اور خدا کا فضل سمجھ کہ اب تو باری تعالیٰ کی نگاہوں میں زیادہ عزیز ہو جائے گا.
دم طوف کا مطلب چکر لگانا کے ہیں.۔۔ پروانے نے شمع کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس سے کہا کہ اے شمع! ماضی جیسی تاثیر,تڑپ اور جلن نہ تو تیرے جلنے میں ہے اور نہ میرے جل کر مرنے کے عمل میں باقی ہے.مراد یہ کہ ساری قوم عشقِ الٰہی کے جذبے سے خالی ہو چکی ہے. نہ قدیم زمانے جیسے جانثار مرید ہیں اور نہ باعمل پیشوا.
اے مولائے کائنات! میرے تباہ و برباد کر دینے والے جرم و گناہ کو دنیا میں کہیں پناہ نہیں ملی. اس نے مجھے تباہ کر دیا مگر جب پناہ ملی تو صرف تیری رحمت کے دامن میں کہ تو نے میرے لاتعداد گناہوں کو معاف کر دیا.
اب نہ عشق میں وہ پہلا سا سوز, تڑپ اور جوش رہا نہ ہی حسن میں وہ شوخی اود ناز رہا ہے. اس وجہ سے نہ تو غزنوی میں تڑپ رہی ہے نہ ایاز کی زلفوں کے خم و پیچ باقی ہیں جو کشش رکھتے تھے. مراد یہ کہ اب مسلمانوں کے رہنماؤں میں پرخلوص ہنگامہ آرائی ہے اور نہ ہی عوام میں ایثار و قربانی کا جذبہ. یوں یہ عاشق و محبوب دونوں اپنی صفات سے محروم اور بیگانہ ہو چکے ہیں.
آخری شعر میں اقبال کہہ رہے ہیں کہ اگر میں نے کبھی اپنی بےعملی کے باوجود سجدہ کیا تو زمین سے یہ آواز آتی سنائی دیتی ہے کہ تیرا دل بتوں کا پرستار ہے, تو نے اپنے دل میں غیر اللہ کو آباد کر رکھا ہے سو تجھے نماز میں کیا حاصل ہو گا. مراد یہ کہ خلوص کے بغیر عمل بےفائدہ ہے. جب تک انسان اپنے دل کو غیر اللہ سے پاک نہ کر لے اس وقت تک تیری نمازیں اور سجدے بےمعنی ہیں.
٭اقرا
اپنا مقام پیدا کر
بدھ، 19 اگست، 2015
غزل: بانگِ درا (علامہ محمد اقبالؔ)
پیر، 3 اگست، 2015
علم و عشق ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
علم و عشق (1)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہُ تخمین و ظن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
اقبالؔ ہمیشہ عشق کی خوبی کو اجاگر کرتے نظر آتے ہیں بالخصوص جب اس کا مقابلہ عقل سے کریں تو اقبالؔ کی نظرِ انتخاب ہمیشہ عشق کو چنتی ہے جو خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
اقبالؔ شاعرانہ انداز میں کہتے ہیں کہ علم نے مجھ سے کہا کہ عشق اختیار نہ کرنا کہ وہ تو نری دیوانگی ہے۔جب عشق نے اس بات کو سنا تو اس نے مجھ سے کہا کہ علم سراسر وہم و گمان پر مبنی ہے۔ تخمین و ظن سے مراد قیاس اور گمان کے ہیں۔ اے وہم و گمان کے بندے! تو صرف کتابی کیڑا نہ بن اور اپنی ساری زندگی صرف کتابی علم پڑھنے پہ نہ گزار دو کیونکہ اس سے علم کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ علم مکمل حجاب ہے اس لئے اس پر اشیاء کی حقیقت آشکار نہیں ہوتی اور آنکھ پر پردے پڑے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس عشق اختیار کر کہ وہ ہی حضورِ ذات تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں علم سے مراد فلسفہ اور ایسے علوم ہیں جو انسان کو محض سوچ و بچار میں الجھائے رکھتے ہیں مگر حقیقتیں پھر بھی نہیں کھلتیں اور گتھیاں پھر بھی نہیں سلجھتیں۔ ایسے میں عشق ہی وہ راستہ ہوتا ہے جو منزلِ مقصود تک پہنچا سکتا ہے لہٰذا اسی کو اختیار کر لے تا کہ کامیاب ہو جا۔
علم و عشق (2)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کی گرمی سے ہے معرکہُ کائنات
علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات
عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب
معرکہُ کائنات سے مراد دنیا کی زندگی کی تگ و دو ہے،تماشائے ذات کے معنی اللہ بزرگ و برتر کی ذات کا مشاہدہ اور دیدار جبکہ پنہاں چھپی ہوئے کو کہتے ہیں۔
عشق بات کو آگے بٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ کائنات کے وجود میں جو ہلچل، گرمی اور رونق نظر آتی ہے وہ سب عشق کی بدولت ہے۔ علم ذاتِ حقیقی کی صفات کا علم تو رکھ سکتا ہے مگر اس کی ذات کا دیدار نہیں کر سکتا یہ کام عشق ہی کر سکتا ہے۔ زندگی میں عشق ہی کی وجہ سے سکون اور ثبات ہے اور عشق ہی کی وجہ سے جینا اور مرنا ہے یعنی کامیاب زندگی اور کامیاب موت کے راز بھی عشق ہی کھولتا ہے۔ علم صرف ایک سوال ہے جس کے پاس کسی چیز کا مکمل جواب نہیں ہے بلکہ ایک سوال کے جواب کے بعد مزید کئی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ عشق ہر شے کی حقیقت کو پا لیتا ہے اور معاملے کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے سو علم پہ بھروسہ نہ کر کے بیٹھے رہو بلکہ راہِ عشق اختیار کرو۔
علم و عشق (3)
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں
عشق کے ادنیٰ غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں
عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتحِ باب!
صاحبِ تاج و نگیں سے مراد بادشاہ ہے، فتحِ باب سے مراد کامیابی کا دروازہ کھلنا۔
بادشاہی، درویشی اور دین سب عشق کے معجزے ہیں۔ وہ تمام لوگ جو تاج و تخت اور مہرِ شاہی کے مالک ہیں یعنی صاحبِ اقتدار ہیں وہ بھی عشق کے ادنیٰ غلام ہیں، اصل بادشاہت تو عشق کے پاس ہے۔ مکان ہو یا مکین ہو، زمان ہو یا زمین ہو جس کو بھی صحیح انداز پہ دیکھو گے تو وہ عشق ہی کی بدولت دیکھو گے۔ عشق مکمل یقین کی علامت ہے اور مکمل یقین رکھتا ہے اور یقین وہ دولت ہے جو مشکلات کے تمام تر دروازوں کو کھولنے کی کنجی ہے۔
علم و عشق (4) آخری حصہ
ضربِ کلیم: علامہ محمد اقبال
شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام
عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام
علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے ام الکتاب
عشق کے اپنے اصول ہیں۔ اقبالؔ کے نزدیک عشق کی اپنی شرع ہے جس کے مطابق راہِ حیات میں کہیں بیٹھ کے لطف لینا حرام ہے۔ شرعِ عشق میں طوفانوں سے کھیلنا اور حرکت میں رہنا حلال ہےاور ساحل پہ بیٹھ کے مزے لینا حرام ہے۔ عشق ہر لمحہ بجلی گرانے کا آرزومند ہے جبکہ پیداوار حاصل کرنا اس کےلیے حرام ہے۔ یعنی عشق کے اصولوں میں یہ تو ہے کہ خرمن کو اکٹھا کر کے آگ لگا دی جائے تا کہ جمع کرنے کا خیال ذہن میں باقی نہ رہے اور ذخیرے سے تگ و دو کا عنصر ختم نہ ہو جائے سو عشق میں نتیجے کو محفوظ کر کے رکھنا حرام ہے کیونکہ اس سے ترکِ جدوجہد کے امکان پیدا ہو جاتے ہیں اور عشق ایسی کسی صورت کو پسند نہیں کرتا جو زندگی سے حرکت و عمل کو نکال دے۔ علم کو شاعر نے ابن الکتاب کہا ہےیعنی کتاب کا بیٹا کہا ہے، اس سے مراد دوسری کتب پہ انحصار کرنے والا ہے جبکہ عشق کو ام الکتاب یعنی کتابوں کی ماں کہا ہے۔ سورہ زخرف آیت 4 میں اس سے مراد "لوحِ محفوظ" لی گئی ہے۔ شاعر ان اصطلاحات کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ علم دوسری کتابوں کا محتاج رہتا ہے اور وہ کتابوں کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا جبکہ عشق خود ام الکتاب ہے جو تمام تر علوم کا سرچشمہ ہے اور جہاں سے علومِ الٰہی کے تمام تر ذخائر سامنے آتے ہیں۔یہی وجوہات ہیں جو عشق کو علم پر فضیلت و برتری حاصل ہے سو راہِ عشق اختیار کر اور الجھنوں سے بچ جا۔
ہفتہ، 1 اگست، 2015
بال جبریل غزل 15
اک دانش نورانی ، اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی ، حيرت کی فراوانی
(دانش نورانی سے دل کو اطمینان ملتا ہے، قلب کا نور
دانش برہانی عقل جو دماغ کو روشن کرتی ہے
دانش برہانی اس کے برعکس انسان کے دماغ کو شکوک و شبہات مین ڈالتی ہے)
اس پيکر خاکی ميں اک شے ہے ، سو وہ تيری
ميرے ليے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی
میں خاکی ہوں تونے میرا ماحول ایسا بنایا ہے کہ میرے لیے اپنے حریم دل کو تیرے لیے مخصوص و محفوظ رکھنا مشکل ہے کیونکہ زر، زن، زمین جو اس دل کے لیے باعث کشش ہین اس لیے مجھے تیری تائید شامل حال ہو تو ہی بچ سکتا ہوں
اب کيا جو فغاں ميری پہنچی ہے ستاروں تک
تو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو يہ غزل خوانی
( اب اگر میری فغاں حدود کائنات سے نکل کر لا مکاں تک پہنچ گیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور نہ تو مجھے اپنے عشق میں گرفتار کرتا نہ میں غزل خوانی آہ فغاں پر مجبور ہوتا)
ہو نقش اگر باطل ، تکرار سے کيا حاصل
کيا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی يہ ارزانی؟
اے خدا اگر پہلا آدم باطل یعنی مٹ جانے والا ہے جیسا کہ پانی کا بلبلہ ادھر اُدھر فناہ ہو گیا تو پھر اس مہمل بے مقصد اور باطل آدم کی طرح لاکھوں کروڑوں آدم بلکہ ان گنت آدم تخلیق کرنے سے کیا فائدہ اگر آدم بھی حشرات الارض کی طرح ہے یعنی ویسی ہی زندگی گزارتا ہے تو کیا تجھے اس نوع کی آرزانی پسند آتی ہے. اس استفہام کا مقصد اس آیت سے ماخوذ ہے " اے لوگو! کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آو گے" ( ١١٦.٢٣)
وہ کائنات میں کسی کو بھی بنا مقصد پیدا نہی کرتا اس لیے مجھے یقین ہے کے آدم باطل نہی.
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زنديقی
اس دور کے ملا ہيں کيوں ننگ مسلمانی
زندیق آتش پرست کو کہتے ہیں مسلمانوں کا انگریزی داں طبقہ تو مغربی تعلیم کی بدولت دین سے دور ہوگیا کیونکہ یہ الحاد پر مبنی ہے لیکن اس دور کے علماء نے تو کسی کا لج میں تعلیم حاصل نہیں کی پھر وہ دین اسلام کیلئے موجب ننگ و عار ہیں.
دین اسلام صرف عقائد کا نام نہی بلکہ عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے توحید خالص و عمل پیہم. یہاں بے عمل علماء کی جانب اشارہ ہے جنہوں نے عقائد صحیحہ پر توجہ دی جبکہ اعمال صالحہ کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے. اپنے خود ساختہ نظریات کے باعث. ایسے خود ساختہ علماء کو ننگ مسلمانی سے تعبیر کیا جو ایک جز کی منکر ہے اور ایک کو مانتے ہین
تقدير شکن قوت باقی ہے ابھی اس ميں
ناداں جسے کہتے ہيں تقدير کا زندانی
تيرے بھی صنم خانے ، ميرے بھی صنم خانے
دونوں کے صنم خاکی ، دونوں کے صنم فانی
جمعہ، 31 جولائی، 2015
اقبال ! کیوں نہ تجھ کو کہیں شاعرِ حیات
ہے تیرا قلب محرم اسرارِ کائنات
سرگرمیِ دوام ہے تیرے لئے حیات
میدانِ کارزار ہے تجھ کو یہ کائنات
مشرق تری نظر میں ہے امید کا افق
مغرب تری نگاہ میں ہے غرقِ سئیآت
یورپ کی ساری شوکتیں تیرے لئے سراب
ہنگامۂ تمدنِ افرنگ ، بے ثبات
اسلامیوں کے فلسفے میں دیکھتا ہے تُو
مظلوم کائنات کی واحد رہِ نجات
تیرا کلام جس کو کہ بانگِ درا کہیں
ہی اس کے نقطے نقطے میں قرآن کے نکات
بھولے ہوؤں کو تُو نے دیا درسِ زندگی
زیبا ہے گر کہیں تجھے خضرِ رہِ حیات
سینے میں تیرے عشق کی بیتاب شورشیں
محفل میں تیری قدس کی رقصاں تجلیات
عریاں تری نگاہ میں اسرار کن فکاں
مضمر ترے ضمیر میں تقدیرِ کائنات
دنیا کا ایک شاعرِ اعظم کہیں تجھے
اسلام کی کچھار کا ضیغم کہیں تجھے
بدھ، 29 جولائی، 2015
غزل 26 بال جبریل کلام اقبال
نہ تو زميں کے ليے ہے نہ آسماں کے ليے
جہاں ہے تيرے ليے ، تو نہيں جہاں کے ليے
(یہ کائنات اللہ نے انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے. ناکہ اس لیے کہ اس کی لذت میں منہمک ہو جاے)
يہ عقل و دل ہيں شرر شعلہ محبت کے
وہ خار و خس کے ليے ہے ، يہ نيستاں کے ليے
(عقل و دل دونوں کی بنیاد عشق ہے. شرر عشق الہی میں عقل سے خاروخس یعنی مادی دنیا کو فتح کرے. اور دل کے ذریعے عالم روحانی اپنے باطن کو فتح کرے )
مقام پرورش آہ و نالہ ہے يہ چمن
نہ سير گل کے ليے ہے نہ آشياں کے ليے
(اس دنیا میں انسان کو اس لیے بھیجا گیا کے اپنی خودی کی تربیت کر سکے، خدمت انسانیت . مقصد حیات محبت الہی ہے ناکہ یہ کوی سامان تفریح گاہ ہے اور نہ مستقل
آشیانہ)
رہے گا راوی و نيل و فرات ميں کب تک
ترا سفينہ کہ ہے بحر بے کراں کے ليے!
( اے مسلمان تجھ کو اللہ نے ساری کائنات کو مسخر کرنے کے لیے پیدا کیا. تیری جدوجہد کسی مخصوص علاقہ تک محدود نہی ساری اقوام عالم تک منصب الہی کے پیغام کو عام کرنا ہے )
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہيں کسی مرد راہ داں کے ليے
(مسلمان کسی زمانہ میں دوسروں کی رہنمائ کرتے تھے لیکن آج ان کی حالت یہ ہے کہ خود رہنماؤں کے محتاج ہیں بلکہ ایک عرصہ سے کسی رہنما کے منتظر ہیں. )
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
يہی ہے رخت سفر مير کارواں کے ليے
(مسلمانو کا رہنما وہ شخص ہو سکتا ہے جس کی نگاہ بلند ہو جس کا سخن دلنواز ہو. جان پرسوز ہو یعنی وہ عشق رسول مین فنا ہو چکا ہو . یعنی وہ قرآن اور حدیث کے علوم کے ماہر ہوں اور یہ سب عشق رسول سے ہی حاصل ہو سکتا ہے)
ذرا سی بات تھی ، انديشہ عجم نے اسے
بڑھا ديا ہے فقط زيب داستاں کے ليے
( زرا سے بات تھی یعنی کہ کو ئی معبود نہیں سوائے اللہ پاک کے اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم اسکے سچے بندے ہیں۔۔۔مفسروں نے گما گما کر تاویلوں میں اسے گم کر دیا ہے کہ پتہ نہیں چلتا کہ دیں کا سر چشمہ کیا ہے)
مرے گلو ميں ہے اک نغمہ جبرئيل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لامکاں کے ليے
( میرے سینہ مین ایک ایسا نغمہ پوشیدہ ہے کے جبریل بھی اس کو سن کر بیچین ہو جاے میرے دل مین عشق الہی ہے یعنی عشق کی بات ہر عام مین نہی کی جاتی روز آخر جب مین لامکاں مین سفر کرو گا اس کو اس وقت سناو گا. )
مسلمان کا زوال (ضربِ کلیم : علامہ محمد اقبالؔ)
مسلمان کا زوال
(ضربِ کلیم : علامہ محمد اقبالؔ)
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے میسر تونگری سے نہیں!
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں!
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہُ مومن کا بےزری سے نہیں!
اگر جہاں میں میرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا، تونگری سے نہیں!
زر(دولت)، قاضی الحاجات (ضرورتیں پوری کرنے والا)، فقر(درویشی)، تونگری (دولتمندی)۔۔۔۔ اس نظم میں اقبالؔ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب دولت سے محرومی نہیں ہے بلکہ فقر سے محرومی ہے۔ پہلے شعر میں اقبالؔ یہی کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا کی بہت سی ضروریات دولت پوری کرتی ہےلیکن اس کے باوجود جو کام فقیری اور درویشی کر سکتی ہے وہ اس دولت سے ممکن ہی نہیں ہو سکتے۔ فقر سے مراد وہ درویشی ہے جس میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کبھ ہوتا ہے۔
جسور و غیور(جرات اور غیرت والے)، سکندری( سکندر بادشاہ کے مال و دولت کی طرف اشارہ)، قلندر(جو دنیا، اپنی ذات اور حالات سے بےنیاز ہو کر خود کو صرف اللہ سے منسلک کر لیتا ہے)۔۔۔۔۔اگر میری قوم کے نوجوانوں میں کم ہمتی کے بجائے ہمت پیدا ہو جائے تو ہماری درویشی سکندر کی شان سے کم نہیں ہو گی کیونکہ غیرت اور حمیت ہی اصل دولت ہوتی ہے۔
بےزری( بغیر دولت کے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے مسلمان! مومن کا اصل زوال دولت کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ اصل سبب کچھ اور ہے جسے یقیننا" تو خود بھی بخوبی سمجھتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ تو نے فقیری کو چھوڑ کر شکم سیری کی عادت کو اپنا لیا ہے۔
اے مسلم! مجھے ہی غور سے دیکھ لے۔ اگر دنیا میں میری صلاحیت ظاہر ہوئی ہے اور مجھے اس قدر عزت و احترام ملا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ میرے پاس دولت زیادہ تھی بلکہ یہ سب مجھے درویشی اور قلندری سے ملا ہے۔ اقبالؔ اپنی مثال دے کر یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اگر ایمان کی پختگی حاصل ہو گی اور فقر کی دولت ہاتھ ہو گی تو سب کام ممکن ہیں ورنہ دولت کے انبار بھی کسی فرد کے زوال کو نہیں روک سکتے۔