ہفتہ، 4 جولائی، 2015

(تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 19 تا 20

فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 19)
----------------

اُس کے کزن نے کہا "ہاں یہ تو ہے, اچھا ایک بات اور, یہ جو کہتے ہیں کہ انسان کے درجات بُلند ہوتے ہیں, یہ کیا ہوتا ہے, کیا اِس کی کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ کوئی خیالی بات ہے۔؟" اُس نے ہنس کے کہا "لگتا ہے آج پھر تُو میرا امتحان لینے کے چکر میں ہے, مجھے نہیں لگتا کہ یہ سب جو تُو مجھ سے پوچھ رہا ہے, وہ خود تجھے معلوم نہیں ہے., اور جب تجھے پتا ہے تو مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔؟" اُس کے کزن نے کہا "ہاں مجھے پتا ہے لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کے ایک تربیت یافتہ مُرید جو سب کچھ پڑھ کے سیکھ کے آیا ہے اور ایک ایسا مُرید جو گھر بیٹھا ذکر فکر میں مصروف ہے دونوں میں کیا فرق ہے" اُس نے ہنس کے کہا "اگر یہ بات تھی تو تُو سیدھے سیدھے یہی سوال پوچھ لیتا, خیر جہاں تک بات ہے فرق کی تو فرق صرف طلب کا ہوتا ہے, مُرشد کی طرف سے کبھی کمی نہیں ہوتی, وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے, سب پے ایک سا مہربان ہوتا ہے, پھر جس کی جتنی طلب ہوتی ہے وہ اُتنا ہی حاصل کر پاتا ہے, جس جگہ ایک عام مُرید تربیت حاصل کرتا ہے اُسی جگہ سُلطان صاحب کے اپنے بیٹے بھی اُسی ماحول میں تربیت حاصل کر رہے ہیں۔  آپ (رح) چاہتے تو اُن کے لیے الگ انتظام فرما سکتے تھے یا یوں کہتے کہ تم تو میرے بیٹے ہو تو تم پے ایسے ہی میری نظر کرم ہے تمہیں تربیت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن آپ (رح) نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ یہ شریعت کا تقاضا تھا, جسے آپ (رح) نے پوری طرح نبھایا۔ اب آتے ہیں طریقت کی جانب, جہاں مُرشد کی نظر سے سب کام چلتا ہے وہ چاہے تو ایک پل میں دل کھول دے اور چاہے تو مُرید کو آزمائے, میں نے سُنا کہ ایک شخص سُلطان محمد اصغر علی (رح) کی خدمت میں تربیت حاصل کرنے کے لیے پیش ہوا تو آپ (رح) نے اُسے تربیت گاہ میں جانے کو کہا جب وہ شخص ایک طویل سفر کرنے کے بعد تربیت گاہ میں داخل ہو رہا تھا تو تربیت گاہ میں موجود فون کی گھنٹی بجی وہاں موجود اُستادِ محترم نے جب فون اُٹھایا تو سُلطان محمد اصغر علی (رح) بات کر رہے تھے, آپ نے فرمایا "یہ جو شخص دروازے سے داخل ہو رہا ہے اِس سے کہو کہ اِس کی تربیت ہو گئی ہے, فلاں جگہ جا کے بیان کیا کرے"
اِس واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ طلب اور عطا کا میزان مُرشد کی نگاہ مقرر کرتی ہے۔ ایک مُرید جس قدر اپنا آپ اپنے مُرشد کو  پیش کرتا ہے, مُرشد کی ذات اُتنا ہی اُسے عطا کرتی ہے اور اپنا آپ پیش کرنا یہ نہیں ہے کہ ہم جا کے اُن کی خدمت میں پیش ہو گئے کہ ہم تربیت کے لیے آئے ہیں بلکہ مُرشد کو اپنا آپ پیش کرنا یہ ہے کہ ہم اُن کی سکھائی راہ چلتے ہوئے اپنی خواہش کو اللّٰہ کی رضا کے تابع کرنے کی کوشش کریں, زندگی کے ہر موڑ پر مُرشد کی طرف سے ملنے والے سبق پر دھیان دیں کہ مُرشد ہمیں کیا سمجھانا چاہ رہا ہے۔ تو جس نے اپنا آپ مُرشد کو سونپ دیا وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتا ہے اور جس نے اپنے مُرشد کو اپنا آپ نہ سونپا وہ مُرشد کے پاس رہ کر بھی نہیں سیکھ سکتا۔ ایک بات اور کہہ دوں کہ تربیت کر کے سیکھنے والے اور گھر بیٹھے سیکھنے والے میں موازنہ صرف تقویٰ کی بنیاد پے کیا جا سکتا ہے۔ جو حکمت و دانائی مُرشد کی صحبت میں رہ کر سمجھ آتی ہے اُس کا کوئی بدل نہیں ہے لیکن اللّٰہ کی عطا پے زمان و مکاں کی قید نہیں ہے۔ اس لیے مُریدین کے بیچ مُرشد کی عطا کے حوالے سے موازنہ کرنا بے سود ہے۔" اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوا تو اُس کے کزن نے کہا "ٹھیک ہے میں سمجھ گیا, ویسے یہ سوال میں نے تجھے دیکھنے کے لیے پوچھا تھا کہ تُو کیا سوچ رکھتا ہے, کہیں تیرے اندار تکبر کی غلاظت تو اکھٹی نہیں ہو رہی, اب سکون ہے مجھے لیکن ہر ایک کو تم یہ سب نہیں سمجھا سکتے, خیر مجھ سے کئی لوگوں نے تیرے بارے میں بہت سے سوال کیے اِس لیے میں یہ سب پوچھ رہا ہوں, چلو اب درجات والے سوال کا بھی جواب دو"
اُس کا کزن واپس اپنے سوال پر آیا تو اُس نے مسکراتے ہوئے کہا "اِس کا مطلب تُو سارے جواب جانتے ہوئے بھی مجھ سے جواب لیے بغیر میری جان نہیں چھوڑے گا۔؟" تو اُس کے کزن نے شوخی سے کہا "زندگی کے پرچے میں سب سوال لازم ہیں.., چلو شروع ہو جاؤ۔" اُس نے بےچاری سی شکل بنا کر کہا "چل اِب ساری رات تُو نے میری ہی سُننی ہے تو یہ بھی سُن لے۔ جسم مٹی ہے اور روح اللّٰہ کا نور ہے, ہر انسان کا جسم آج بھی زمین پے اپنی ماں کے پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور روح آسمان سے بھیجی جاتی ہے۔ اس کا مطلب کہ انسان کا جسم زمین سے اُٹھتا ہے اور روح آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ تمام نور ایک ہے, مطلب اُس میں دوئی نہیں ہے اور نور ایک لباس سے دوسرے لباس میں داخل ہو جانے سے ٹوٹتا نہیں ہے۔ اللّٰہ کا نُور,  ایک سمندر کی مانند ہے۔ سوچو کہ جو ذات ہر جگہ موجود ہے اُس نے یقیناً سمندر کی مانند ہمیں گھیر رکھا ہو گا۔ اب سوچو کہ اُس نور کے سمندر کے الگ الگ درجوں کے پانی کو الگ الگ نام دے دیے گئے, کسی درجے کو عرش و کُرسی کا نام دیا گیا تو کسی درجے کو جنت اور کسی درجے کے نور کو ملائکہ یا فرشتوں کا نام دیا۔ اُس نے اوّل درجے کے نور کو انسان کہا اور آخری درجے کو جنات کہہ کر پکارا۔ نور کے سمندر کے بُلند ترین قطروں کو یعنی انسان کو آزمائش کی خاطر پست ترین مقام یعنی زمین پر اُتارا جاتا ہے۔ جب یہ ایک قطر یا روح سفر کرتی ہوئی بُلند ترین مقام سے پست ترین مقام یعنی زمین تک پہنچتی ہے تو اپنے پیچھے ایک راستہ چھوڑ آتی ہے۔ انسان اپنے اچھے بُرے اعمال اور نیتوں سے اُس راستے کے قریب یا دور ہوتا ہے۔ جس کے اندر جتنا حُب ہو گا وہ اُتنا ہی اُس راستے پے آگے جا سکتا ہے۔ یہ راستہ اصل میں اللّٰہ کی جانب واپسی کا راستہ ہے کہ جس بُلندی سے اُتار کر تمہیں زمین پے بھیجا گیا ہے, اگر تم اللّٰہ کے ساتھ خالص ہو جاؤ تو تم واپس اُسی بُلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ اِس جسم میں رہتے ہوئے انسان کا دل اللّٰہ کے جتنا قریب یا دور ہوتا جاتا ہے, اُس کے حساب سے اُس کے درجات اُتنے ہی بُلند یا پست ہوتے جاتے ہیں۔ اِن درجات کی بُلندی کے سفر میں ایک حد تک کے درجات عمل سے حاصل کیے جا سکتے ہیں" وہ ایک پل رُکا تو اُس کے کزن نے تجسس سے پوچھا "کس حد تک۔؟" اُس نے مسکرا کر کہا "وہی بتا رہا ہوں, ابلیس کی حد تک کے درجات محض عمل سے حاصل کیے جا سکتے ہیں, مطلب یہ کہ ایک شخص جس کے دل میں اللّٰہ کی محبت نہیں ہے وہ محض عبادت کر کے وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک ابلیس پہنچا تھا, اُس کے دل میں اللّٰہ کے لیے سب کچھ تھا بس محبت نہیں تھی, وہ عابد, زاہد, عالم, فاضل, سب کچھ تھا مگر حُب سے خالی تھا کیونکہ اہلِ حُب تکبر نہیں کرتے, وہ جس مقام تک پہنچا اُس مقام تک کوئی بھی انسان حُب سے خالی عبادت کر کے بھی پہنچ سکتا ہے اِس سے آگے کے درجات عشق سے طے کیے جاتے ہیں, ابلیس سے آگے کے درجات کے بھی الگ الگ مقام اور الگ الگ رنگ ہیں, اِن تمام مقامات یا درجات کو اکھٹا کر کے مقام انسان کہا جاتا ہے, مقامِ انسان کی ابتدا یہاں سے ہوتی ہے کہ انسان دوسرے لوگوں کے لیے بے ضرر ہو جائے۔ پھر مقام آتا ہے اپنی اصلاح کا۔ اپنی اصلاح کرنا ایک طویل سفر ہے بلکہ جب تک انسان اپنے جسم کی قید میں ہے اپنی اصلاح کا سفر جاری رہتا ہے, انسان میں ایک خاصیت یہ ہے کہ جیسے دنیا میں ایک ہی شخص الگ الگ درجات رکھتا ہے مثلاً وہ کسی کا بیٹا ہے, کسی کا بھائی ہے, اُسی طرح باطن میں جب کوئی اپنی اصلاح کا سفر شروع کرتا ہے تو اُس کے درجات اکھٹے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اسی اصلاح کے سفر میں انسان کی عشق سے مُلاقات ہوتی ہے اور جب عشق آتا ہے تو انسان درجات و مقامات کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔"
اُس کے کزن نے کہا "تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ لوحِ محفوظ وغیرہ پڑھ لینا, مطلب ظاہری زندگی میں کسی کے آج اور کل کا اندازہ کر لینا کسی بھی علم سے حاصل کیا جا سکتا ہے ,یعنی جو لوگ کسی کے دل کا حال بتا دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے؟"
اُس نے کہا "ہاں یہی بات ہے لیکن ضروری نہیں کے دل کا حال بتا دینے والے سب لوگ غلط یا صحیح ہی ہوں, لیکن محض اِس بات پر کہ کوئی شخص آپ کی پوشیدہ باتوں کا علم رکھتا ہے, کسی کو راہبر نہیں مان لینا چاہیے, جب تک کہ آپ کا دل نہ بدلے۔ اگر کسی کی صحبت سے آپ کا دل بدلتا ہو تو اُس شخص کو ضرور راہبر تسلیم کیجیئے لیکن اگر کوئی شخص لوگوں کو محض کرتب دکھاتا رہتا ہے اور اُن کے دل نہیں بدلتا تو ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ انسان کے درجات اُس کے چہرے سے, قول و فعل سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں لوگ اُن کے اعمال کی وجہ سے جانوروں کے نام سے پُکارتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنی روح کے درجات میں اِس قدر پست ہو چُکے ہوتے ہیں کہ اُن کی زندگی کسی جانور کے مقام پر گزر رہی ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص اللّٰہ کی محبت میں عبادت کرتا ہے تو اُس کے درجات ذیادہ تیزی سے بُلند ہوتے ہیں اکثر لوگ درجات کے اِس سفر میں دنیا, نفس اور شیطان کا شکار ہو جاتے ہیں, کسی کو لوگوں کی عقیدت لے بیٹھتی ہے اور کسی کو دنیا کی نعمتیں راہ سے پھرنے پے مجبور کر دیتی ہیں۔ اِن دونوں سے بچ کر جو آگے نکلتے ہیں شیطان اُنہیں تکبر میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جو اِس سے بھی بچ جاتے ہیں, شیطان انہیں راہ سے بھٹک جانے کے خوف سے میں مُبتلا کرتا ہے اور جو اُس مقام پر یہ کہہ دے کہ راہ اور گمراہی اللّٰہ ہی کی طرف سے ہے اور میں اُس کی حکمت پے اُس سے راضی ہوا, تو شیطان دفع ہو جاتا ہے۔ جو شخص اللّٰہ سے ہر حال میں راضی ہونے کی کوشش شروع کر دیتا ہے اللّٰہ اُسے اپنا قُرب عطا کرنا شروع کر دیتا ہے اور جسے قُرب عطا ہونا شروع ہو جائے وہ باقی مقامات سے آزاد ہو جاتا ہے پھر وہ راہِ قُرب کا راہی بن جاتا ہے اور اُس راہ کے درجات طے کرتا ہے۔ جب تک انسان اِس جسم میں زندگی گزار رہا ہے تب تک اُس کے درجات کے پست ہونے کا خدشہ رہتا ہی ہے لیکن راہِ قُرب میں ایک ایسا مقام بھی ہے جس تک پہنچ جانے والا کبھی رد نہیں ہوتا مطلب جو مقام اُسے عطا کر دیا گیا وہ مقام اُس سے کبھی واپس نہیں لیا جاتا, خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو جائے۔
میرے خیال میں درجات کی اتنی وضاحت سے آپ کو بات اب ٹھیک سے سمجھ آ گئی ہو گی کہ مُرشد پاک نے میرا ظاہر واپس پُرانے والا کر دیا ہے لیکن شیو کر لینے سے, جینز پہن لینے سے میرے دل کا حال نہیں بدل دیا گیا۔ اب بول میں امتحان میں پاس ہوا یا فیل۔؟" اُس کے کزن نے شرارت سے کہا "جاؤ کیا یاد کرو گے 33 نمبر دے دیتا ہوں میں آپ کو"۔ "اپنے پاس رکھ اپنے 33 نمبر" اُس نے ناراض ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا "تیرے 33 نمبر کی ضروت نہیں ہے مجھے, بات کر کر کے میرا حلق خشک ہو گیا اور صرف 33 نمبر۔؟ سچ کہتے ہیں گھر کا مُرغا دال برابر" اُس کے کزن نے شریر لہجے میں کہا "مُرغا نہیں مُرغی"
اُس رات اُس کے کزن نے اُس سے بہت سے سوال پوچھے اور اُسے خوشی ہوئی جان کر کہ اُس کا کزن اُس کی اتنی فکر کرتا ہے۔ درحقیقت ایک دوسرے کی ایسی فکر سُلطان محمد اصغر علی (رح) کے تقریباً سارے مُریدین میں پائی جاتی تھی۔ اور یہی فکر ایک دوسرے کو آگے سے آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔
(جاری ہے)
فرقوں میں ایک فرقہِ انسان چاہیے (تلاشِ حق کی ایک سچّی کہانی) (حصّہ 20)
----------------

اُس کے بڑے کسی اور سلسلے کے بُزرگ کے مُرید تھے لیکن اُس نے اور اُس کے بہن بھائی وغیرہ نے سُلطان محمد اصغر علی (رح) کا دستِ بیعت تھام لیا تھا اِس لیے اکثر اُس کے بڑے اُس سے اُس کے مُرشد کے بارے میں طرح طرح کے سوالات کرتے جن کا مقصد عموماً یہ ثابت کرنا ہوتا کہ ہمارے مُرشد تمہارے مُرشد سے ذیادہ پہنچ والے اور پاکباز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ اُسے جواب بھی نہ دیتا لیکن اپنے بڑوں کے احترام میں اُن کے سوالات کا جواب دینا اُس نے ضروری سمجھا۔ اُس سے پوچھا گیا کہ اللّٰہ والے تو گوشہ نشین ہوتے ہیں, عام لوگوں سے دور رہتے ہیں تو تمہارے مُرشد نے جماعت کیوں بنائی ہوئی ہے۔؟ ہر چھوٹے بڑے شہر میں اُن کے دفتر کیوں ہیں۔؟ اور مریدین کی تربیت کے لیے باقائدہ تربیت گاہ اور تربیتی کورس بھی ہے, مُرشد کو کیا ضرورت ہے مُریدین کو کتابیں پڑھانے کی۔؟ تو اُس نے کہا کہ "میرے مُرشد پاک سُلطان محمد اصغر علی (رح) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسی جماعت ہو جو اولیاء کی تعلیمات قرآن و سُنّت کی روشنی میں لوگوں تک پہنچائے, اس مقصد سے آپ (رح) نے اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی اور اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ اِس مشن کی تکمیل میں لگ گئے۔ آپ (رح) نے اِس مشن کی تکمیل کے لیے اپنی زندگی اپنا گھر بار اپنی اولاد سب کچھ وقف کر دیا۔ اِس جماعت کی تربیت کے لیے آپ (رح) نے ایسا تربیتی کورس تیار کروایا جس میں کچھ خاص مضوعات پے بات کی گئی مثلاً انسان کی تخلیق کے اغراض و مقاصد کیا ہیں انسان کیوں آیا اِس دنیا میں اور اِسے کہاں جانا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو ہر ایک کے دل میں رہتے ہیں, اصل میں یہی سوال دل کی گرہ ہوتے ہیں جس انسان کو پتا ہی نہیں ہے کہ اللّٰہ نے اُس کی تخلیق کیوں کی ہے وہ کسی بھی مذہب یا مسلک میں رہ کر اُلجھا رہے گا, جب اُسے اپنے بنیادی سوالات کا جواب مِل جاتا ہے تو اُس کے دل کی گرہ کُھل جاتی ہے, عام طور پے ہمارے ہاں ایسے سوال پوچھنے یا سوچنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ مجھ سے ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی کے دوست نے پوچھا "اللّٰہ کون ہے اور کہاں سے آیا, کیا اُس سے پہلے بھی کوئی تھا۔؟" پھر شرمندہ سے لہجے میں کہا "میں نے یہ سوال کئی لوگوں سے کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا بلکہ بہت سخت الفاظ میں ڈانٹ بھی کھائی کہ ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہیے, ایک دو نے جواب بھی دیا کہ نہ تو اُس سے پہلے کچھ ہے اور نہ اُس کے بعد کچھ ہو گا, وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا, لیکن اِس بات سے میرے دل کو تسلی نہیں ہوئی اور جب یہ بات کسی سے کہہ دو کہ دل کی تسلی نہیں ہوئی تو لوگ کہتے ہیں کہ تمہارے دل پے مہر لگ گئی ہے کہ قرآن و حدیث کی بات سُن کر بھی تمہارے دل کی تسلی نہیں ہوتی, نماز پڑھا کروں, شلوار قمیض پہنا کرو, یا کسی اور نصیحت پے بات شروع ہو جاتی ہے, لیکن دل کی تسلی نہیں ملتی۔" تو میں نے اُس سے کہا کہ "تم نے لفظ مُعجزہ سُنا ہو گا, معجزات اللّٰہ کا امر ہوتے ہیں, ہم سب مانتے ہیں کہ معجزات ظاہر کرنے والا اللّٰہ ہی ہے۔ حضرت موسیٌٰ نے عصا پھینکا مگر اُسے اژدھا اللّٰہ نے بنایا, اب سوچو کہ معجزہ صرف اللّٰہ کی ذات سے کیوں منسوب ہوتا ہے۔؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ اللّٰہ اپنے آپ میں, اپنی ذات کا سب سے بڑا معجزہ خود ہے, وہ ایسی ذات ہے جو خود ہی خود سے ہے, اور ایسی ذات اور کوئی نہیں ہے جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے تو وہ اپنے آپ کا خود ہی سب سے بڑا معجزہ ہے, اِس لیے تمام معجزات اُس کی ذات سے منسوب کیے جاتے ہیں۔" میرا جواب سُن کر وہ مطمئن ہو گیا, میں نے اُسے کوئی ایسی بات نہیں بتائی جو وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا لیکن کسی بھی بات کو حکمت سے بیان کیا جائے تو لوگوں کے دل تک پہنچا جا سکتا ہے, جب کسی کتاب کا پہلا سبق ہی غائب کر دیا جائے تو کتاب کیسے سمجھ آئے گی۔؟ اکثر جب ہمارے پہلے سوال کا جواب ہمیں نہیں ملتا تو دوسرا سوال پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ لوگ انہی الجھنوں میں  زندگی گُزار دیتے ہیں کہ شاید میری نماز صحیح نہیں ہے یا دل پے مُہر لگ چُکی ہے اب میں دین سمجھنے کے لائق ہی نہیں رہا, اِس لیے معاشرے میں ایسے لوگ ہونے چاہیے ہیں جو لوگوں کو اِن بنیادی الجھنوں سے نکال کر اللّٰہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ دے سکیں۔ یہی وہ چیز ہے جو سُلطان محمد اصغر علی (رح) نے اپنے مریدین کو سکھائی, جب ایک مُرید کے اپنے دل کی گرہ کھل جاتی ہے تو وہ دوسروں کے دل کی گرہ کھولنے کے لائق ہو جاتا ہے, اگر کسی بزرگ ہستی نے اِس ترتیب کو عام کرنے کی کوشش کی تو یقیناً انہوں نے ایک اچھا عمل سرانجام دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں اولیاء کے دیگر سلسلوں کو بھی اِس کوشش کا حصّہ بننا چاہیے اور اگر آپ لوگ اِس کوشش کا حصّہ نہیں بننا چاہتے تو کم از کم اِس کے خلاف تو مَت جائیں۔"
[ اُس سے کہا گیا کہ "تمہارے مُرشد پاک اتنی بڑی جماعت چلا رہے ہیں, ظاہر ہے مُریدین ہی ساری فنڈنگ کرتے ہوں گے, تو پھر تو یہ پیسے کا کھیل بھی تو ہو سکتا ہے" اُس نے اِس سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ "یہ سب پیسے اکھٹے کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے اِس کی سب سے بڑی دلیل ہمارے اپنے دل کا بدلاؤ ہے جو ہمیں ہمارے مُرشد کا گرویدہ بناتا ہے۔ اور بات یہ ہے کہ کسی مُرید سے جبراً پیسے نہیں لیے جاتے, جس کا دل مانتا ہے وہ فنڈنگ کرتا ہے, ہم سب لوگ اپنے اپنے انداز سے اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں, کوئی غریبوں کو اپنا مال دینا, اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنا سمجھتا ہے تو کوئی رشتے داروں یا دوستوں کی مدد کرنا افضل سمجھتا ہے, کوئی مسجد, مندر کے ڈبے میں پیسے ڈال کر اپنے رب کی راہ میں خرچ کرنے کا سُکھ حاصل کرتا ہے۔  ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے خون پسینے کی کمائی بہترین مصرف تک پہنچے, تو ہمیں اپنے مُرشد پاک کے پیغام کو عام کرنا اللّٰہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بہترین ذریعہ محسوس ہوتا ہے۔ اور اِس سے بہتر پیغام کیا ہو گا کہ "دوڑو.., اللّٰہ کی طرف" ہم جانتے ہیں کہ وہ حق کا پیغام دے رہے ہیں اِس لیے ہم تن, مَن, دھن سے اُن کے ساتھ ہیں اور ہم سے جو ہو سکا ہم ضرور کریں گے۔"

ایک اور سوال جو اُس سے کئی بار پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے تو آپ کے مُرشد پاک تصویر کیوں بنواتے ہیں۔؟" اور اُس کا جواب یہ تھا کہ "اسلام ہر گناہ کو جڑ سے ختم کرنے پے زور دیتا ہے, تصاویر کی ممانعت اِس لیے کی گئی کیونکہ پہلے زمانوں میں لوگ اللّٰہ کے برگزیدہ بندوں کی تصویر یا بُت بنا کر اُن کی پرستش شروع کر دیتے تھے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ لوگ ایسی ہی عقیدت رکھتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس اُن کی تصاویر ہوتیں تو ہم کچھ ایسا ہی کرتے اور شاید اُن کی تصاویر اِس لیے بھی نہیں ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت سے لوگ رُخِ انور کا نظارہ کرنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔ لیکن وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ اولیاء کی تصاویر بنائی گئیں اور اولیاء نے لوگوں کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت بھی دی۔ ہر تصویر ہمارے اندر ایک تصور بناتی ہے اور آج کے دور میں جب ہمارے اندر باہر طرح طرح کی تصاویر موجود ہیں جو ہمیں دنیا, نفس, اور شیطان کی جانب بُلاتی ہیں, ایسے دور میں ایسی تصاویر کی ضرورت ہے جو لوگوں کو اللّٰہ کی یاد دلائے, جب ہم مکہ, مدینہ کی تصاویر دیکھتے ہیں, یا اپنی آنکھوں سے کسی عبادت گاہ کو دیکھتے ہیں  تو ہمیں اللّٰہ کی یاد آتی ہے اور مُرشد کیونکہ اپنے مُرید کے لیے اللّٰہ کی راہ کا راہبر ہوتا ہے اِس لیے مُرید کو اپنے مُرشد کی تصویر دیکھ کر اللّٰہ کا خیال آتا ہے, تو ٹیکنالوجی کا استمعال کر کے اگر کوئی مُرید اللّٰہ کو یاد کر سکتا ہے تو کیوں نہ کرے, تصویر سے منع کرنے والے شناختی کارڈ, پاسپورٹ وغیرہ کے معاملے میں 'مجبوری ہے' کہہ کر تصویر کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں اللّٰہ کی یاد پیدا کرنے کے لیے وہی چیز کام کر رہی ہو تو نقطے اُٹھانا شروع کر دیتے ہیں, فلمیں, ڈرامے دیکھنے والے لوگ جب کسی اللّٰہ والے کی گفتگو کی ویڈیو پر اعتراز کرتے ہیں تو مجھے عجیب لگتا ہے کہ اگر ہم نے انگلی اُٹھانی ہے تو ہم بُرائی پر کیوں نہیں اُٹھاتے۔؟ کسی فلم اسٹار کی اچھی بُری تصویریں دیکھتے ہوئے ہمیں یاد کیوں نہیں آتا کہ تصویر بنانا منع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہم سب تصویریں ہی بناتے رہتے ہیں۔ رسول اللّٰہ کی نماز کی تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں, اُن کے اعمال اور اخلاق کی تصویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں, ہم ہر جگہ تصویر ہی تو بنا رہے ہوتے ہیں, بہت سے لوگ یہاں تک مانتے ہیں کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز ہی نہیں ہوتی, تو یہ سچ ہے کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز  قابلِ قبول نہیں ہوتی لیکن یہ کمرے کی دیواروں پے لگی تصویروں کی بات نہیں بلکہ دل کی دیواروں پے لگی تصویروں کی بات ہے کہ جب انسان اللّٰہ حضور حاضر ہو تو اُس کے دل میں اللّٰہ کے سوا کوئی تصویر نہ ہو, اسی مقصد سے اولیاء کرام اللّٰہ کے نام کا تصور کر کے نماز ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ نماز کے طریقے میں ہمیں قبلہ رُخ سے لے کر ہمارے چہرے اور پیروں کی اُنگلیوں تک کا رُخ بتایا جاتا ہے لیکن دل کا رُخ نہیں بتایا جاتا, نماز میں پڑھی جانے والی آیات کا تلفظ تو بتایا جاتا ہے مگر نماز کا تصور نہیں بتایا جاتا۔ اگر ہم اللّٰہ کے نام کا تصور کر کے نماز ادا کریں تو نماز میں خیال کو بھٹکنے سے روکا جا سکتا ہے۔ مُرشد, مُرید کو اسمِ اللّٰہ کا تصور دے کر اُس کا گُمان درست کرتا ہے اور جب مُرید کی توجہ اسمِ اللّٰہ پر مرکوز ہو جاتی ہے تو دورانِ نماز اُس کا خیال بھٹکتا نہیں ہے اور جب یہ تصور قائم ہو جاتا ہے تو اُس کی نماز بھی قائم ہو جاتی ہے۔"
اُس کے دوستوں, رشتے داروں وغیرہ نے اُس سے اُس کے مُرشد کے بارے میں بہت سے سوال کیے۔ اُس نے اپنی طرف سے بہترین جوابات دینے کی کوشش کی, کسی کو بات سمجھ آئی اور کسی کو نہیں آئی۔ لیکن اِس سب سے اُسے سمجھ آیا کہ اولیاء کرام کے سلسلوں میں بھی بہت سے لوگ توحید کے درس کو بھول چُکے ہیں, ہر دوسرا شخص اپنے مُرشد کو بہتر اور دوسرے کے مُرشد کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش میں ہے, الگ الگ سلسلوں کے مُرید جب مل بیٹھتے ہیں تو اکثر اُن کی گُفتگو کا مقصد صرف دوسرے شخص پر اپنے پیر کی بڑائی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ میرے پیر کا مُرید ہو جائے۔ جبکہ ہر شخص جانتا ہے کہ بیعت نصیب سے ہوتی ہے, جس ولی بزرگ کے پاس کسی کا فیض ہو گا وہ اُسی کا مُرید ہو گا۔ بہترین عمل اور بہترین خواہش تو یہ ہے کہ لوگوں میں اللّٰہ کی جانب پلٹنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے, ایک دوسرے کو حُبِ الٰہی کی ترغیب دی جائے اگر کسی کی بات میں اثر ہو گا تو لوگ خود بہ خود اُس کے مُرشد کے مُرید ہونا چاہیں گے۔ لیکن افسوس کہ لوگ بس ایک دوسرے پے اُنگلی اُٹھانا جانتے ہیں۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔